اک عمر نمو کی خواہش میں موسم کے جبر سہے تو کھلا
ہر خوشبو عام نہیں ہوتی،ہر پھول گلاب نہیں ہوتا
کبھی عشق کرو اور پھر دیکھو اس آگ میں جلتے رہنے سے
کبھی دل پہ آنچ نہیں آتی کبھی رنگ خراب نہیں ہوتا
يوں ہاتھ نہيں آتا وہ گوہر ِ يک دانہ يک رنگي و آزادي، اے ہمت ِ مردانہ يا سنجر و طغرل کا آئين ِ جہانگيري يا مرد ِ قلندر کے انداز ِ ملوکانہ يا حيرت ِ فارابي، يا تاب و تب ِ رومي يا فکر ِ حکيمانہ، يا جذب ِ کليمانہ يا عقل کي روباہي، يا عشق ِ يد اللٰہي يا حيلہ ِ افرنگي، يا حملہ ِ ترکانہ يا شرع ِ مسلماني، يا دير کي درباني يا نعرہ ِ مستانہ، کبوہ ہو کر بت خانہ اميري ميں، فقيري ميں، شاہي ميں، غلامي ميں کچھ کام نہيں بنتا بے جراٴت ِ رندانہ علامہ محمد اقبال
پروین شاکر کا ایک چوری شدہ شعر جو اصل میں میرا بائی کا ہے - اصل شعر ذرا ہندی سے مملو ہے جو مجھے یاد نہیں - لیکن پروین کا وہ چوری شدہ شعر پیشِ خدمت ہے -
اس شرط پہ کھیلوں گی پیا پیار کی بازی
جیتوں تو تجھے پاوں، ہاروں تو پیا تیری