کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

شمشاد

لائبریرین
ہم نشیں کیا کہوں اُس رشکِ مہ تاباں بن
صبح عید اپنی ہے بدتر شبِ ماتم سے بھی
(میر)
 

شمشاد

لائبریرین
پندار تمنا ٹوٹ گیا اب دل کا عالم کیا ہو گا
پھر جان پہ شاید بن جائے ناکامی کا غم کیا ہو گا
(سرور)
 

شمشاد

لائبریرین
تیرا گزر ادھر جو برنگ صبا ہوا
آئی بہار یاد کا پتہ ہر ا ہوا
ہر سانس آرزوؤں کا اک سلسلہ ہوا
اس طرح قسمتوں کا مری فیصلہ ہوا
 

زونی

محفلین
تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے تیرا آئینہ ھے وہ آئینہ
کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ھے نگاہِ آئینہ ساز میں
 

شمشاد

لائبریرین
زخم جب بھی کوئی ذہن و دل پر لگا ، زندگی کی طرف ایک دریچہ کھلا
ہم بھی گویا کسی ساز کے تار ہیں ، چوٹ کھاتے رہے ، گنگناتے رہے
 

شمشاد

لائبریرین
دشت میں کیوں دلِ بے تاب لیے پھرتا ہے
کس لیے دیدہ بے خواب لیے پھرتا ہے

آپ ہی اپنا وجود اس میں ڈبو کر جیسے
اپنی ہستی ہی میں گرداب لیے پھرتا ہے
 

شمشاد

لائبریرین
عذاب آنکھ میں اترے تو راستہ نہ ملا
گلاب خاک میں بکھرے تو راستہ نہ ملا

جنوں کا پہلے سے انکار کر لیا ہوتا
اب اس مقام پر مکرے تو راستہ نہ ملا
 

شعیب خالق

محفلین
دشمنوں نے مجھ کو سمجھا اپنی اپنی سوچ تک
دوستوں نے اپنے اپنے ظرف تک پایا مجھے
میں تر وتازہ ھوں شاخِ زندگی پر دیکھ لے
حادثوں کی دھوپ تو نے لاکھ سلگایا مجھے
 

شمشاد

لائبریرین
آسمان کی سمت دیکھو جا رہا ہے پھر کوئی
اور ستاروں سا زمیں پر آرہا ہے پھر کوئی
پھر گلابوں نے کسی کا صحن خوشبو کر دیا
اور خاروں کے خزانے پارہا ہے پھر کوئی
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top