دشمنوں نے مجھ کو سمجھا اپنی اپنی سوچ تک
دوستوں نے اپنے اپنے ظرف تک پایا مجھے
میں تر وتازہ ھوں شاخِ زندگی پر دیکھ لے
حادثوں کی دھوپ تو نے لاکھ سلگایا مجھے
آسمان کی سمت دیکھو جا رہا ہے پھر کوئی
اور ستاروں سا زمیں پر آرہا ہے پھر کوئی
پھر گلابوں نے کسی کا صحن خوشبو کر دیا
اور خاروں کے خزانے پارہا ہے پھر کوئی