پھر بھی اتنا کام ایک بندے کے بس کی بات نہیں ہے اِس میں پوری آرگنائزیشن کی ضرورت ہوتی ہے آپ تھوڑی بہت فیس رکھیں چاھیں خود نہ لیں اگر آپ کو ضرورت نہیں ہے تو ادارےمیں لگے گی تو آپ کے ادارے کے چھوٹے موٹے کام اِن پیسوں سے ہوجائے گے۔
جس لحاظ سے آپ کہہ رہے ہیں، وہ اپنی جگہ ٹھیک ہے۔
لیکن جس طرح ہم نے بالکل چھوٹے پیمانے پر یہ کام شروع کیا ہے تو شاید اسے ادارہ کا نام دینا درست نہیں ہے۔ ایسے ادارے یہاں موجود ہیں لیکن ہم نے دیکھا ہے کہ وہاں جانا جیسے ایک نوکری یا ڈیوٹی کے طور پر لیا جاتا ہے۔ اور اس سے ہماری خواتین کو کچھ فائدہ نہیں ہوتا کیونکہ ان کے نزدیک گھر کی ذمہ داری اولین حیثیت رکھتی ہے۔ گھر کی ذمہ داریاں پوری کرنے کے بعد پھر ان کے پاس جو ٹائم بچتا ہے اس میں وہ جیسے ڈھے سی جاتی ہیں۔ ہر ایک کے مختلف حالات ہیں۔ ہم دو اولڈ ہومز کے لئے بھی رضاکارانہ طور پر کام کرتے ہیں جو پچھلے سال سے کرونا کی وجہ سے رکا ہوا ہے۔ وہاں پر ہم نے دیکھا کہ مسلمان خواتین بہت کم آتی ہیں جب کہ انھیں بھی کم و بیش وہی حالات درپیش ہوتے ہیں جو دوسری خواتین کو ہیں۔ تو اس وجہ سے ہم نے اپنے طور پر یہ کوشش کی ہے۔ اور الحمد للہ بہت بہتر رہا ہے تجربہ۔
اگلا مرحلہ ان شاءاللہ یہ ہو گا کہ کچھ سلائی، نٹنگ ، کروشیا، پینٹنگ جو بھی کوئی سیکھنا یا کرنا چاہے تو کرے۔ اس کے لئے بنیادی سامان اکٹھا کر لیا ہے۔ باقی جو کسی کو ضرورت ہو گی خود بھی خرید لائے گا۔ جن اولڈ ہومز کی بات اوپر بتائی ہیں۔ ہم ان کے لئے مختلف قسم کی چیزیں جیسے بیگ، کمبل، کشن، جرابیں اور بچوں کے لئے جرسیاں ٹوپیاں وغیرہ بنا کر ان اداروں کو گفٹ کرتے ہیں۔ جنھیں وہ سیل کر کے پیسے ان بوڑھوں کی کسی ایکٹیویٹی کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ اب اس کام میں ہم ان سب کو بھی شامل کرنا چاہتے ہیں۔ فیس والی بات ذاتی طور پر ہی پسند نہیں۔ البتہ جو چیزیں بنیں گی انھیں کرسمس بازار یا ایسے ہی سمر سٹال لگتے ہیں۔ وہاں بآسانی بیچا جا سکتا ہے ۔ کوئی ایکٹیویٹی نہ ہونا ، انسان کی صحت کے لئے نقصان دہ ہے۔ بس اپنی صحت اور ہمت کے مطابق جیسے جیسے ہو گا کرتے جائیں گے۔ ابھی بھی اسی وجہ سے جلدی تھی کہ گھر کا کام مکمل ہو جائے تو کوئی دن مقرر کیا جائے پہلی وزٹ کا۔ لیکن بازو کی وجہ سے یہ پورا مہینہ کافی حد تک بیکار ہی گزرا۔
دعا کیجئیے گا کہ اللہ پاک ہمیں ہمارے ارادوں میں سرخرو فرمائیں۔ آمین