قیصرانی
لائبریرین
پیار کا پنچ نامہ کہ پانچ نامہ، بھی اسی طرح کی فلم ہے اور کھل کر لوز ٹاک کرتے ہیں۔ تاہم سٹوری کچھ فرق ہے۔
Don 2 دیکھی۔ سیدھی سادھی سی جرم کی ایک کہانی ہے جس پر زیادہ محنت کی گئی معلوم نہیں ہوتی۔ فلم کو شارخ خان کے دم پر چلانے کی کوشش کی گئی ہے۔
واقعی؟ میرا تو پہلی دفعہ ایٹریم میں جا کر کوئی فلم دیکھنے کا ارادہ ہے اور آج کل تھری ڈی میں یہی ’’ڈان ٹو‘‘ لگی ہوئی ہے۔ شہزاد بھائی واقعی دیکھنے کے قابل نہیں، یعنی کسی اچھی فلم کا انتظار کیا جائے؟
پیار کا پنچ نامہ کہ پانچ نامہ، بھی اسی طرح کی فلم ہے اور کھل کر لوز ٹاک کرتے ہیں۔ تاہم سٹوری کچھ فرق ہے۔
دیکھ کر بتائیے گا کہ کیسی لگی۔ اور اسپارٹکس؟میں نے ڈاؤنلوڈ کر لی ہے۔ باری آنے پر دیکھ لوں گا۔
ڈرائیو مجھے بالکل پسند نہیں آئی، یا یوں کہہ لیں کہ میرے پلے ہی نہیں پڑی۔ اب نیکسٹ واریئر دیکھنی ہے۔
دیکھ کر بتائیے گا کہ کیسی لگی۔ اور اسپارٹکس؟
کل رات ہی دیکھ لی تھی کیونکہ آپ نے اسے بہت دلچسپ کہا تھا ۔ اچھی فلم ہے میں نے اسے IMDB پہ 9 پر ریٹ کیا ہے۔ اور اسپارٹکس کی باری ابھی لیٹ آنی ہے۔ کیونکہ اس سے پہلے تین چار سیریز لائن میں لگی ہوئی ہیں۔
ریسلنگ تو خیر پسند نہیں لیکن ’’دا فائٹر‘‘ پسند آئی تھی تو شاید واریئر بھی اچھی لگے۔ ویسے اب ٹی وی سیریز ’’روم‘‘ ڈاؤن لوڈ کرنے کا پروگرام ہے۔ہاہاہا چلو ڈرائیو فلم کسی کو ناپسند بھی تو آئی۔ نتھنگ از پرفیکٹ۔ سیانے ایوے ای نئی کہہ گئے۔ ویسے وارئیر آپ کو پسند آئی گی اگر آپ کو ریسلنگ یا مار کٹائی والی سپورٹس سے دلچسپی ہے۔
پاکستانی رئیلٹی ٹی وی شو Living on the Edge کا دوسرا سیزن ختم کیا۔ اسے 2010 کے آخر اور 2011 کے شروع کے مہینوں میں اے آر وائی میوزک سے نشر کیا گیا تھا، اس وقت سارا دیکھ نہیں سکا تھا تو اب سارا ڈاؤنلوڈ کر کے دیکھ لیا، تھینکس ٹُو انٹرنیٹ۔ آج کل اس کا تیسرا سیزن نشر کیا جا رہا ہے، تقریبا اٹھارہ اقساط نشر ہو چکی ہیں اور انسویں قسط بارہ جنوری 2012 کو نشر ہو گی۔
آج سے پانچ چھ سال پہلے جب یہ شو شروع ہوا تھا تو اس کی شکل کچھ یوں تھی کہ راہ چلتے لوگوں کو روک کر انہیں کسی بھی قسم کی Dare دی جاتی تھی مثلا سامنے کھڑی لڑکی یا لڑکے کوتھپڑ مار کر دکھاؤ یا زندہ مچھلی کھا کر دکھاؤ یا یہ ڈھیر ساری مرچیں ایک منٹ میں کھا کر دکھاؤ اور پورا کرنے پر انہیں ایک ہزار روپیہ بطور انعام ملتا تھا۔ بعد میں اسے "پاکستان کا سب سے ہمت والا بندہ" کا تھیم دیا گیا اور پورے پاکستان سے لوگوں نے اپنے کرتب دکھائے، کسی نے سانپ ناک سے گزار کر منہ سے نکالا تو کسی نے کھا لیا، کسی نے کچھ کیا تو کسی نے کچھ۔
پھر جنوری 2010 میں اسے باقاعدہ ایک Dare شو کی شکل دی گئی جس میں پاکستان کے بڑے شہروں میں آڈیشنز کئے جاتے جہاں لوگ اپنا اپنا کرتب دکھا کر سلیکٹ ہوتے اور پھر آہستہ آہستہ ٹاپ 15 پھر ٹاپ 12 پھر ٹاپ 8 اور اسی طرح سب سے آخر میں بچنے والا انعام اور ٹائیٹل کا حقدار۔
اصل میں اسے Dare شو بھی نہیں کہا جا سکتا کیونکہ اس شو میں باقاعدہ کوئی خاص فارمیٹ یا رولز نہیں ہوتے بلکہ اس شو کا ہوسٹ وقار ذکا، جو اس شو کا پروڈیوسر بھی ہے، اسے جو رنگ دینا چاہتا ہے دے لیتا ہے جو اس کا جی چاہتا ہے ویسا وہ شو میں کرتا ہے اور اکثر اوقات انہتائی بدتمیزی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود یہ شو خاصا پاپولر ہے کیونکہ اس میں کافی مصالحہ بھرا ہوتا ہے، سمجھ لیں کہ مولوی جسے روشن خیالی کہتے ہیں وہی کچھ ہے اس شو میں۔ شو میں حصہ لینے کے لیئے جنس یا عمر کی کوئی قید نہیں اس لیئے لڑکیوں کی بھی ایک بڑی تعداد اپنے اپنے کرتب دکھانے پہنچ جاتی ہے۔ وقار ذکا نے اس کے علاوہ بھی کچھ شو جیسے Xposed اور King of Street Magic شروع کیے تھے وہ ابھی ایسے ہی فُل ڈرامہ قسم کے شوز تھے۔