آزادی مارچ اپڈیٹس

زرقا مفتی

محفلین
نہیں، البتہ فوٹو کاپیاں موجود تھیں
فوٹو کاپی پر ووٹ نہیں دیا جاسکتا اسکا صاف مطلب ہے کہ اتخابی عملہ اپنے فرائض منصبی دیانت داری سے ادا نہیں کر رہا تھا اور اس دھاندلی کے مرتکب آپ کے اپنے عزیز بھی ہیں اور یہ نہایت افسوس کی بات ہے۔
 

زرقا مفتی

محفلین
Bw6J0dvIYAA9CDW.jpg:large
 

جاسمن

لائبریرین
American Journalist Kim Barker Exposes Nawaz Sharif’s Flirtations with Her

لیکن ان تمام باتوں سے زیادہ مایوس کن اور برا رویہ ہر دو اطراف کے سپورٹرز کا دیکھنے میں آیا ہے۔ لغو زبان استعمال کرنے میں جہاں پہلے پی ٹی آئی کے جیالے مشہور تھے۔ وہاں اب "ن "بھی کم نہیں رہے۔ بلکہ ان کے تو مقامی لیڈرز نے وہ اشارے سرِعام کر دیے جو شاید اس سے پہلے وہ محض اپنے گھر والوں تک ہی محدود رکھتے تھے۔
میری تو عوام سے یہی درخواست ہے۔ کہ چاہے جس کو مرضی سپورٹ کریں۔ لیکن یوں اندھے نہ ہوجائیں۔ اپنی آنکھیں کھلی رکھیں۔ سچ کو سچ اور غلط کو غلط کہنے کی عادت ڈال لیں۔ اگر اپنا لیڈر غلط کر رہا ہے تو غلط ہی ہے۔ اور اگر دوسرا صحیح کر رہا ہے تو وہ صحیح ہی رہے گا۔ کسی ایک کے غلط کام کے جواب میں دوسروں کے غلط کاموں کے ثبوت بطور دلیل پیش نہ کریں۔ آپ سیاست سے اٹھ کر پاکستان کے ساتھ محبت کا ثبوت دیں۔
اٹھاؤ سروں کو خباثت کے آستانوں سے
نکل کے آؤ سیاست کے قحبہ خانوں سے
متفق
 
فوٹو کاپی پر ووٹ نہیں دیا جاسکتا اسکا صاف مطلب ہے کہ اتخابی عملہ اپنے فرائض منصبی دیانت داری سے ادا نہیں کر رہا تھا اور اس دھاندلی کے مرتکب آپ کے اپنے عزیز بھی ہیں اور یہ نہایت افسوس کی بات ہے۔
ہم شہروں میں بس جانے والے دیہاتوں کے نظام کو نہیں سمجھ سکتے۔ یہ جتنے قانون قاعدے ہیں ان پر شہروں اور بڑے قصبوں میں تو تھوڑا بہت عمل ہوتا ہے دیہاتوں میں عموماً ایسا نہیں ہوتا۔
گاؤں میں آپ کے مخالف دھڑے کو پتہ ہوتا ہے کہ ان کہ گھرانے کے کتنے ووٹ ہیں۔ میری برادری کے لوگ ان کے ناموجود ووٹرز پر کوئی اعتراض نہیں کرتے اور وہ ہمارے ووٹرز پر ایسا کچھ نہیں کہیں گے۔
شمالی پنجاب کے دیہاتوں میں ووٹرز پارٹی کو ووٹ نہیں دے رہے ہوتے۔ گاؤں کی اندرونی سیاست کو مدنظر رکھ کر ہر برادری یہ فیصلہ کرتی ہے کہ کس امیدوار کو سپورٹ کیا جائے۔ اور ہر ایک دھڑے کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنے امیدوار کو پولنگ سٹیشن جتا کر دیں اور سرخرو ہوں۔ کیونکہ برادری نے اس امیدوار کے ساتھ اگلے پانچ سال گزارنے ہوتے ہیں۔ بھلے وہ ممبر بنے یا نا بنے۔
میرے گاؤں میں اندازاً 1500 ووٹ ہیں، الیکشن کے دن میرا وہاں رابطہ رہا۔
ہمارے گاؤں میں صرف 3 کیمپ تھے، ن، ق اور پیپلز پارٹی۔ قومی اسمبلی کا پولنگ سٹیشن ن لیگ کے امیدوار نے جیتا اور صوبائی کا ق لیگ والے نے۔ میری ہی برادری کے لوگوں نے قومی اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے امیدوار کو ووٹ دیا اور صوبائی اسمبلی میں ق لیگ کو۔
 

زرقا مفتی

محفلین
ہم شہروں میں بس جانے والے دیہاتوں کے نظام کو نہیں سمجھ سکتے۔ یہ جتنے قانون قاعدے ہیں ان پر شہروں اور بڑے قصبوں میں تو تھوڑا بہت عمل ہوتا ہے دیہاتوں میں عموماً ایسا نہیں ہوتا۔
گاؤں میں آپ کے مخالف دھڑے کو پتہ ہوتا ہے کہ ان کہ گھرانے کے کتنے ووٹ ہیں۔ میری برادری کے لوگ ان کے ناموجود ووٹرز پر کوئی اعتراض نہیں کرتے اور وہ ہمارے ووٹرز پر ایسا کچھ نہیں کہیں گے۔
شمالی پنجاب کے دیہاتوں میں ووٹرز پارٹی کو ووٹ نہیں دے رہے ہوتے۔ گاؤں کی اندرونی سیاست کو مدنظر رکھ کر ہر برادری یہ فیصلہ کرتی ہے کہ کس امیدوار کو سپورٹ کیا جائے۔ اور ہر ایک دھڑے کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنے امیدوار کو پولنگ سٹیشن جتا کر دیں اور سرخرو ہوں۔ کیونکہ برادری نے اس امیدوار کے ساتھ اگلے پانچ سال گزارنے ہوتے ہیں۔ بھلے وہ ممبر بنے یا نا بنے۔
میرے گاؤں میں اندازاً 1500 ووٹ ہیں، الیکشن کے دن میرا وہاں رابطہ رہا۔
ہمارے گاؤں میں صرف 3 کیمپ تھے، ن، ق اور پیپلز پارٹی۔ قومی اسمبلی کا پولنگ سٹیشن ن لیگ کے امیدوار نے جیتا اور صوبائی کا ق لیگ والے نے۔ میری ہی برادری کے لوگوں نے قومی اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے امیدوار کو ووٹ دیا اور صوبائی اسمبلی میں ق لیگ کو۔
یعنی کہ آپ نے تسلیم کر لیا کہ موجودہ نظام میں دھاندلی سے مفر ممکن نہیں
آپ جیسے تعلیم یافتہ لوگ اپنے دیہاتوں میں تبدیلی لا سکتے ہیں
 

زرقا مفتی

محفلین
زردای صاحب نے نون لیگ کے ساتھ باریاں مقرر ہونے کے بارے میں آدھا سچ بول دیا

In fact, the former president claimed that Nawaz approached him with an offer to take turns ruling the country after the 2008 elections, which PPP won “After 2008 elections, PML-N leadership asked me to take my turn and let them take the next turn,” he said.

“We took along every one. Mian sb said to me this is your turn. We will take the next turn. I said no. You take Punjab,” Zardari remarked.

http://tribune.com.pk/story/758272/zardari-ready-to-move-on-from-aitzaz-nisar-row/Former/
 

جاسمن

لائبریرین
ہم شہروں میں بس جانے والے دیہاتوں کے نظام کو نہیں سمجھ سکتے۔ یہ جتنے قانون قاعدے ہیں ان پر شہروں اور بڑے قصبوں میں تو تھوڑا بہت عمل ہوتا ہے دیہاتوں میں عموماً ایسا نہیں ہوتا۔
گاؤں میں آپ کے مخالف دھڑے کو پتہ ہوتا ہے کہ ان کہ گھرانے کے کتنے ووٹ ہیں۔ میری برادری کے لوگ ان کے ناموجود ووٹرز پر کوئی اعتراض نہیں کرتے اور وہ ہمارے ووٹرز پر ایسا کچھ نہیں کہیں گے۔
شمالی پنجاب کے دیہاتوں میں ووٹرز پارٹی کو ووٹ نہیں دے رہے ہوتے۔ گاؤں کی اندرونی سیاست کو مدنظر رکھ کر ہر برادری یہ فیصلہ کرتی ہے کہ کس امیدوار کو سپورٹ کیا جائے۔ اور ہر ایک دھڑے کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنے امیدوار کو پولنگ سٹیشن جتا کر دیں اور سرخرو ہوں۔ کیونکہ برادری نے اس امیدوار کے ساتھ اگلے پانچ سال گزارنے ہوتے ہیں۔ بھلے وہ ممبر بنے یا نا بنے۔
میرے گاؤں میں اندازاً 1500 ووٹ ہیں، الیکشن کے دن میرا وہاں رابطہ رہا۔
ہمارے گاؤں میں صرف 3 کیمپ تھے، ن، ق اور پیپلز پارٹی۔ قومی اسمبلی کا پولنگ سٹیشن ن لیگ کے امیدوار نے جیتا اور صوبائی کا ق لیگ والے نے۔ میری ہی برادری کے لوگوں نے قومی اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے امیدوار کو ووٹ دیا اور صوبائی اسمبلی میں ق لیگ کو۔
آپ نے گاؤں کے سیاسی سیٹ اپ کی جو بات کی ہے وہ بالکل درست ہے۔ ہمارے گاؤں میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔
 

mfdarvesh

محفلین
غیر متعلق سوال ہے مگر
لال مسجد پہ بم کیوں برسائے تھے آرمی نے
جبکہ
ان ڈشکروں کے لیے طاقت کا استعمال معاملات خراب کر دے گا۔ حالات اور واقعات کا موازنہ کر لیجیے۔ آرمی کا دوغلہ معیار
 

زرقا مفتی

محفلین
غیر متعلق سوال ہے مگر
لال مسجد پہ بم کیوں برسائے تھے آرمی نے
جبکہ
ان ڈشکروں کے لیے طاقت کا استعمال معاملات خراب کر دے گا۔ حالات اور واقعات کا موازنہ کر لیجیے۔ آرمی کا دوغلہ معیار
اس کے لئے الگ دھاگہ بنا لیجئے یا پھر لال مسجد والے دھاگے کو دوبارہ فعال کر لیجئے۔ الفاظ کے بہتر چناؤ کی کوشش کیجئے
 

زرقا مفتی

محفلین
-----
کراچی: امیر جماعت اسلامی سراج الحق کا کہنا ہے کہ سیاسی قیادت بحران سے نکلنے کی ہر ممکن کوشش کررہی ہے لیکن حالات مایوسی کی طرف جارہے ہیں۔

سابق صدر آصف زرداری سے ملاقات کے بعد بلاول ہاؤس کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے سراج الحق نے کہا کہ عوامی تحریک اور تحریک انصاف کی جانب سے سیاسی جرگے کو اپنے مطالبات پیش کردیئے گئے ہیں جو ہم نے حکومت تک پہنچا دیئے اور حکومت کی جانب سے بھی اس پر جواب دیا گیا ہے، دونوں جماعتوں کا آخری نکتہ وزیراعلیٰ پنجاب اور وزیراعظم نوازشریف کا استعفیٰ ہے جس کے لیے متبادل تجویز پیش کی ہے اور ایسا راستہ نکال رہے ہیں جس میں تمام فریقین کو راضی کرلیا جائے۔

سراج الحق نے کہا کہ ہم نہیں چاہتے کہ آزادی وانقلاب مارچ کے نتیجے میں جمہوریت اور آئین کا خاتمہ ہو اور یہ بھی نہیں چاہتے کہ فریقین کے درمیان پھر سے ڈیڈلاک پیدا ہو اورمسئلہ جوں کا توں رہ جائے کیونکہ اس بحران کےباعث قوم ہیجان کا شکار ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک بحرانوں کا شکار اور اسمبلی میں سیاسی تناؤ کی کیفیت ہے جبکہ سیاسی قیادت بحران سے نکلنے کی ہرممکن کوشش کررہی ہے لیکن حالات مایوسی کی طرف جارہے ہیں۔

http://www.express.pk/story/286081/
 
آخری تدوین:
یعنی کہ آپ نے تسلیم کر لیا کہ موجودہ نظام میں دھاندلی سے مفر ممکن نہیں
آپ جیسے تعلیم یافتہ لوگ اپنے دیہاتوں میں تبدیلی لا سکتے ہیں
اس صدیوں سے چلتے نظام کو توڑنا بہت مشکل ہے۔ خاندانوں اور برادریوں میں سالہا سال سے چلنے والے جھگڑے، لڑائیاں، کورٹ کچہری کیس اور حتی کہ تُوتکار کی نوبت تک ہوئے چھوٹے چھوٹے اختلافات بھی اگلی نسلوں کو منتقل ہوتے ہیں۔ ایسے میں سمجھدار یا پڑھا لکھا طبقہ ان سے جان چھڑانے کا ایک ہی حل سمجھتا ہے کہ شہر میں جا کر آباد ہوا جائے اور گاؤں سے تعلق بس خوشی اور غمی تک ہی محدود رکھا جائے۔
اب کیونکہ رشتے خاندان برادریوں کے اندر ہی کرنے کا رواج ابھی بھی بہت حد تک قائم ہے ایسے میں تعلیم یافتہ طبقہ جو ان لڑائی جھگڑے یا انا کا شکار ہوئے مسائل سے جان چھڑا کر شہروں میں آباد تو ہو جاتا ہے لیکن وہ اپنے آپ کو مختلف رشتوں میں بندھا ہوا بھی محسوس کرتا ہے، اس کے علاوہ بھی کچھ وجوہات ہوتی ہیں اور وہ ایسا کوئی بھی قدم نہیں اٹھا پاتا جو گاؤں کے رہنے والے اس کے عزیزوں یا رشتےداروں کی خواہشات کے منافی یا ان کی گاؤں کی اندرونی سیاست سے ٹکراتا ہو۔
ایک چھوٹی سی اپنی ہی مثال دیتا ہوں۔
ہمیں شہر میں آباد ہوئے کم و بیش 45 سال ہو چکے۔ میرے والد مرحوم 1969 میں اپنے گاؤں کھاریاں سے واہ کینٹ میں آباد ہوئے۔ میری پیدائش بھی یہیں کی ہے۔ اب گاؤں میں میری 8-10 ایکڑ زمین ہے جس کے بارے میں مجھے مکمل طور پر یہ بھی نہیں پتا کہ گاؤں کے کس کس طرف ہے۔ اس زمین میں ہر سال ہل بھی چلتا ہے، بیجائی بھی ہوتی ہے، پانی بھی لگتا ہے، اور پکنے کے بعد کٹائی بھی ہوتی ہے۔ اور کٹائی کے بعد شہر میں ہمارے گھر ہماری ضرورت کے مطابق گندم بوریوں میں بند ہو کر پہنچ بھی جاتی ہے۔ ہرسال 6 مہینے مسلسل جاری رہنے والے اس سارے عمل میں آج تک میں صرف 3-4 بار ہی فصل بیجائی کے موقع پر 2یا3 دن کے لیے جا پایا ہوں۔ گاؤں میں میرے یہ سارے کام کون کرتا ہے ؟ میرے وہی عزیز رشتےدار جنھوں نے 5 سال بعد میرا ووٹ کاسٹ کیا۔ میں چاہوں بھی تو ان کی رائے سے باہر نہیں جا پاتا اور ان کی ہر بات پر آمین کہتا ہوں کیونکہ میں 5 سال ان کی خدمات بہت معمولی قیمت پر تقریباً مفت ہی لیتا ہوں اور میرا اچھا خاصہ سرمایہ اور وقت بچ جاتا ہے۔
اب اگر میں اختلاف کرتا ہوں تو کیا ہوتا ہے ؟ اس مراسلے کی پہلی ڈیڈھ لائنیں پھر سے پڑھ لی جیے۔ میں نے گاؤں بھی جانا ہے اور اپنی خوشی غمی میں بھی انھی رشتے داروں اور عزیزوں کے ساتھ شریک ہوناہے۔
گو ایسا ہر ایک کے ساتھ نہیں ہوتا لیکن پنجاب کے دیہاتوں سے شہروں میں آباد ہوئے ، شناختی کارڈ پر 2، 2 پتے لکھوائے لاکھوں لوگ ہیں ، وہ بھی کسی نا کسی طرح ان سے ملتے جلتے مسائل کا شکار ہیں۔
 

عزیزامین

محفلین
بلڈ کینسر کےجان لیوا مرض میں مبتلا چوہدری نثار علی صاحب پاکستان کے گذشتہ 30 سالہ سیاسی منظر نامے کے واحد سیاستدان ہیں جو گذشتہ 8 الیکشنز میں لگاتار جیتتے آ رہے ہیں اور ان کا حلقہ پاکستان کے سب سے زیادہ تعلیم یافتہ اور برادری ازم سے بہت حد تک پاک آزاد رائے رکھنے والے لوگوں پر مشتمل ہے۔
کرپشن سے بھرے سیاسی لوگوں کے درمیان شاید واحد صاف ستھرا سیاستدان ۔
آپ کے پاس ثبوت ہے انکو کینسر ہے؟
 
آپ کے پاس ثبوت ہے انکو کینسر ہے؟
اب میں آپ کی تسلی کے لیے ان کی میڈیکل رپورٹس تو لانے سے رہا۔
ویسے بتا دیتا ہوں سال میں کم از کم 2 مرتبہ کیمیو تھراپی کرواتے ہیں اورکینسر کی میڈیسنز لگاتار استعمال کرتے ہیں۔ اس کیمیو تھراپی کی وجہ سے ان کے سر پر ایک بھی بال نہیں ہے۔
 
Top