خوبصورت ملاقات کا خوبصورت احوال۔
سب شرکت کرنے والے باری باری اپنے الفاظ میں احوال بیان کریں۔
میڈم جی حال احوال کیا پوچھنا وہ تو ہم پوچھیں گے فہیم بھائی سے...
لاکھ پوچھتے رہے کون آرہا ہے کون کھلا رہا ہے مگر مجال ہے جو پروں پر پانی پڑنے دیا ہو(فہیم بھائی نے) ...
وہ تو جم خانہ کی رنگینیوں نے سوچنے سمجھنے کا موقع نہیں دیا ورنہ اسی وقت سمجھ لیتے (فہیم بھائی کو)...
...o...x...o...x...o...x...
کیا دن تھے جب رات کو منظم منصوبہ بندی کے ساتھ جم خانہ جاتے. یہ کبھی شہر کی اشرافیہ کا میٹنگ پوائنٹ ہوتا تھا. سیاست دانوں کی تو ہمیں تب سمجھ نہیں تھی پر میجرانکل، کرنل انکل، بریگیڈیر شمس کو خوب جانتے تھے...
موٹے موٹے سگار انگلیوں میں دبائے گاہے ہونٹوں سے لگائے اسنوکر کھیلتے یا کرسیوں پر براجمان ٹانگ پہ ٹانگ رکھے خشک گفتگو کرتے...
ہم ان کے برابر بیٹھ جاتے اور سگار کی خوشبو سونگھتے رہتے...
سامنے بچھی ٹیبل ٹینس پر فلسفی، آصف، چیتا اور ہم اوٹ پٹانگ پنگ پانگ کھیلتے. کھیلتے کم دھما چوکڑی زیاد ہ مچاتے. اماں، نعمت خالہ اور ممانی عجیب بے ہنگم بیگمات کے ساتھ وقت ضائع کرتیں...
ان یادوں باتوں پر برسوں کی گرد پڑ چکی تھی. ہم سب بھول گئے تھے. یادداشت کے خانہ میں جم خانہ کا خانہ لاک کرچکے تھے...
تب اس روز اچانک برسوں بعد کسی نے ہمیں چونکا دیا. ہم جم خانہ میں کیا داخل ہوئے حال کی سیما پار کرکے ماضی میں اتر گئے...
ہال میں سامنے بچھی ٹیبل ٹینس پر فلسفی، چیتا اور خود کو شور مچاتے دیکھا...
پائیں باغ کی جانب کھلی محرابوں کے ساتھ بچھے صوفوں پر ٹانگ پہ ٹانگ رکھے کرنل انکل انگلیوں میں سگار دبائے نظر آئے. ہم گہری سانسیں بھرتے سگار کی خوشبو سینے میں اتارتے دِکھے...
ستون کی آڑ میں بے ہنگم خواتین کو اسی طرح فضول سی باتیں کرکے وقت ضائع کرتے دیکھا اور انہیں اس طرح دیکھ کر منہ بناتی گڑیا کو بھی دیکھا. تبھی اس نے ہماری طرف دیکھ کر ہاتھ ہلایا اور ہم چونک کر ماضی کی سیما پار کرکے حال میں آگئے...
کبھی وقت کی سیما اس طرح بھی پار کی جاتی ہے اس روز دیکھا!!!
...o...x...o...x...o...x...
مین گیٹ پر فہیم بھائی نے ہمارا استقبال کیا. ہم ان کی معیت میں ڈائننگ ہال میں تشریف لائے. دیکھا کہ ہم سے جلد پہنچ جانے کی پاداش میں کرسی صدارت پر ظفری بھائی کو بٹھا دیا گیا تھا. ان کے ساتھ سیما صاحبہ تے نال رملہ صاحبہ تھیں...
فہیم بھائی نے ہمارے ساتھ بیٹھنے کو اپنی خوش بختی گردانا. ہماری دوسری طرف ایک صاحب بیٹھے تھے. کسی نے تعارف کرایا یہ ظفری بھائی کے چھوٹے بھائی ہیں. ہمارے مافق صاف گو رملہ ترنت بولیں یہ تو بڑے بھائی لگ رہے ہیں. ہم نے ان کی صاف گوئی کو دل ہی دل میں سراہا...
ابھی سراہنے کا سلسلہ جاری تھا کہ شعیب صفدر بھائی آگئے. یوں ہم سراہنے کے سلسلہ کو مزید طول نہ دے سکے...
ادھر رملہ صاحبہ کو ایک اور اطلاع موصول ہوئی کہ چھوٹے بھائی المعروف بہ بڑے بھائی بحریہ ٹاؤن میں رہتے ہیں. بس پھر کیا تھا انہوں نے چھوٹی بڑی لمبی چوڑی ہر بحر پر معلومات لینے کی طبع آزمائی کی مہم جوئی کا آغاز کرکے غدر کا رن مچادیا...
بحریہ ٹاؤن میں مینٹینینس کتنی ہے؟ رینٹ کیا ہے؟ پانی کیسا ہے؟ زمین کتنے کی ہے؟
اب صورتحال کچھ یوں تھی کہ ظفری بھائی، سیما صاحبہ اور رملہ صاحبہ کی رلی ملی آوازیں اس طرح ہمارے کانوں میں آرہی تھیں...
سیما صاحبہ: ہم نے خلیل بھائی کو فون کیا (بحریہ ٹاؤن میں) معلوم ہوا کہ (ملک ریاض) نہیں آسکتے.
پھر ہم نے فاخر رضا بھائی سے رابطہ کیا(مینینینس کی) ملاقات کے لیے. معلوم ہوا وہ عراق گئے ہیں (بحریہ ٹاؤن کی کم قیمت ہوتی پراپرٹی اٹھانے کے لیے.)
اکمل زیدی بھائی بھی اب ملاقات پر نہیں آتے(بحریہ ٹاؤن میں پانی کے بے تحاشہ مہنگے بلوں کی وجہ سے.)
شمشاد بھائی سے ہماری بات ہوتی رہتی ہے (بحریہ ٹاؤن میں کاروباری سرگرمیاں نہ ہونے کے بارے میں.)
ظفری بھائی: ہماری اور فہیم بھائی کی یہ تیسری ملاقات ہے (بحریہ ٹاؤن کی صاف ستھری سڑکوں پر.)
اس سے قبل ہم آخری بار آٹھ نو برس قبل ملے تھے (بحریہ ٹاؤن کے انڈر کنسٹرکشن گھروں میں.)
ہم بہرے بنے سنی ان سنی کرکے ان کی باتوں پر سر ہلاتے رہے مسکراتے رہے...
ظفری بھائی اور سیما صاحبہ اگر ہم نے کسی غلط بات پر سر ہلادیا ہو یا کسی کی تعزیت پر مسکرا دیے ہوں تو ہماری معذرت قبول و منظور فرمائیں...
آخر میں جب اصلی بہرے نے تاک کر سیما صاحبہ کا رخ کیا تب ہمیں پتا پڑا کہ سارا کیا دھرا ان کا ہے...
بہرحال بہترین ملاقات، لذیز کھانوں، دلکش انسانوں اور خوبصورت باتوں سے سجی یہ محفل سجانے کا سہرا ہم سیما صاحبہ کے سر سجاتے ہیں اس امید کے ساتھ کہ.....
اب تو آپ ہمارے ساتھ رہ رہ کے کافی سمجھدار ہوگئے ہیں!!!