محمد عبدالرؤوف
لائبریرین
میرے ایک دوست نے جنوں پر ایک کتاب پڑھی تھی اب مجھے یہ علم نہیں کہ صاحبِ تصنیف کے دلائل کتنے مستند تھے لیکن میرے دوست نے اس کتاب کو ہی سند مان لیا مصنف نے جنوں کا کچھ ایسا نقشہ کھینچا کہ اس کے دل سے جنوں کا مکمل طور پر خوف نکل گیا پھر کیا تھا جہاں کسی ویرانے میں رات کے وقت اس کا جانا ہوتا یا قبرستان کے قریب سے گزر ہوتا تو آوازیں لگایا کرتا تھا کہ یہاں کوئی جن ہے تو مجھ سے کلام کرے۔ لیکن اس کی مراد کبھی پوری نہ ہوئی کیونکہ جنوں کا کام انسانوں کا تراہ نکالنا ہوتا ہے جب اس پر خوف کا کوئی اثر ہی نہیں تھا تو جنوں نے اسی میں اپنی عافیت جانی کہ بھئی اسے رہنے دو یہ قابو آنے کا نہیں اور مفت میں اپنا رعب دبدبہ بھی کھو بیٹھیں گے