سوالوں میں خود بھی ہے ڈوبی اداسی
کہیں لے نہ ڈوبے مجھے بھی اداسی
شب و روز چلتی ہے پہلو سے لگ کر
گلے پڑ گئی ایک ضدی اداسی
فضاؤں کی رنگت نکھرنے لگی ہے
ہوئی شام پھر دل میں لوٹی اداسی
ذرا چاند کیا آیا میری طرف کو
ستاروں نے جل بھن کے اوڑھی اداسی
شبستاں میں غم کی نہ شمعیں جلاؤ
کہیں جاگ جائے نہ سوئی اداسی
ذرا دیر لوگوں میں کھل کر ہنسی پھر
سر بزم آنکھوں سے ٹپکی اداسی
اسے یاد تھی کل کی تاریخ شاید
سسکتی رہی لے کے ہچکی اداسی
جمی تھی مرے سرد سینے میں کب سے
تپش پا کے اشکوں کی پگھلی اداسی
کترتی ہے دل کے شجر کی یہ خوشیاں
تری یاد ہے یا گلہری اداسی
کبھی ہم تھے جن کی دعاؤں میں شامل
انہیں تک نہ پہنچی ہماری اداسی
تری یاد کے اب نشاں تک نہیں ہم
مگر دل میں رہتی ہے اب بھی اداسی
نگاہوں میں حد نظر تک ہے رقصاں
اداسی اداسی اداسی اداسی
(آلوک مشرا)
یہ کیسی رہی
ظفری بھائی