اداسی ۔ اشعار

عجب ہے رنگ چمن جا بجا اداسی ہے
مہک اداسی ہے باد صبا اداسی ہے

نہیں نہیں یہ بھلا کس نے کہہ دیا تم سے
میں ٹھیک ٹھاک ہوں ہاں بس ذرا اداسی ہے

میں مبتلا کبھی ہوتا نہیں اداسی میں
میں وہ ہوں جس میں کہ خود مبتلا اداسی ہے

طبیب نے کوئی تفصیل تو بتائی نہیں
بہت جو پوچھا تو اتنا کہا اداسی ہے

گداز قلب خوشی سے بھلا کسی کو ملا
عظیم وصف ہی انسان کا اداسی ہے

شدید درد کی رو ہے رواں رگ جاں میں
بلا کا رنج ہے بے انتہا اداسی ہے

فراق میں بھی اداسی بڑے کمال کی تھی
پس وصال تو اس سے سوا اداسی ہے

تمہیں ملے جو خزانے تمہیں مبارک ہوں
مری کمائی تو یہ بے بہا اداسی ہے

چھپا رہی ہو مگر چھپ نہیں رہی مری جاں
جھلک رہی ہے جو زیر قبا اداسی ہے

مجھے مسائل کون و مکاں سے کیا مطلب
مرا تو سب سے بڑا مسئلہ اداسی ہے

فلک ہے سر پہ اداسی کی طرح پھیلا ہوا
زمیں نہیں ہے مرے زیر پا اداسی ہے

غزل کے بھیس میں آئی ہے آج محرم درد
سخن کی اوڑھے ہوئے ہے ردا اداسی ہے

عجیب طرح کی حالت ہے میری بے احوال
عجیب طرح کی بے ماجرا اداسی ہے

وہ کیف ہجر میں اب غالباً شریک نہیں
کئی دنوں سے بہت بے مزا اداسی ہے

وہ کہہ رہے تھے کہ شاعر غضب کا ہے عرفانؔ
ہر ایک شعر میں کیا غم ہے کیا اداسی ہے
بہت خوب
 

شمشاد

لائبریرین
امامہ ارشاد اردو محفل میں خوش آمدید۔

ادھر تعارف کے زمرے میں آئیں اور اپنا تعارف تو دیں۔
 
بہت بہت شکریہ
کافی عرصے سے اس ویب سائٹ پر شاعری وغیرہ پڑھ رہی تھی ۔ آج سوچا کہ اس کا حصہ بن جاتے ہیں ۔ آپ نے تعارف کا کہا تو عرض کرتی چلوں کہ میرا تعلق ایبٹ آباد سے ہے ۔ میں ماڈرن ایج سے اپنی تعلیم حاصل کر رہی ہوں۔ سال اول کی طالبہ ہوں ۔ اردو زبان سے کافی لگاؤ رکھتی ہوں ۔ اس سلسلے میں مختلف کتابوں کا مطالعہ بھی کرتی رہتی ہوں ۔ پسندیدہ شاعر ساغر صدیقی ہیں ۔اور پسندیدہ مصنف نسیم حجازی ہیں ۔ امید کرتی ہوں کہ اس سائٹ سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملے گا۔
 

شمشاد

لائبریرین
بہت بہت شکریہ
کافی عرصے سے اس ویب سائٹ پر شاعری وغیرہ پڑھ رہی تھی ۔ آج سوچا کہ اس کا حصہ بن جاتے ہیں ۔ آپ نے تعارف کا کہا تو عرض کرتی چلوں کہ میرا تعلق ایبٹ آباد سے ہے ۔ میں ماڈرن ایج سے اپنی تعلیم حاصل کر رہی ہوں۔ سال اول کی طالبہ ہوں ۔ اردو زبان سے کافی لگاؤ رکھتی ہوں ۔ اس سلسلے میں مختلف کتابوں کا مطالعہ بھی کرتی رہتی ہوں ۔ پسندیدہ شاعر ساغر صدیقی ہیں ۔اور پسندیدہ مصنف نسیم حجازی ہیں ۔ امید کرتی ہوں کہ اس سائٹ سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملے گا۔
بہت شکریہ۔

میرا مطلب تھا اُدھر "تعارف" والے زمرے میں آ کر اپنا تعارف دیں، تاکہ دوسرے اراکینِ محفل آپ کے متعلق جان سکیں۔

یہ رہا تعارف کا زمرہ
 

ظفری

لائبریرین
آپ لفظ " اداس" پر شعر کی بات کر رہے ہیں ۔ میں پوری غزل ہی اس پر ارسال کردیتا ہوں ۔ ہر شعر میں اداسی ہے ۔

مری زندگی پہ نہ مسکرا، میں اداس ہوں!
مرے گمشدہ مرے پاس آ، میں اداس ہوں!
کسی وصل میں بھی بقائے سوزشِ ہجر ہے
غمِ عاشقی ذرا دور جا، میں اداس ہوں!
میں منڈیرِ درد پہ جل رہا ہوں چراغ سا
مری لو بڑھا مجھے مت بجھا، میں اداس ہوں!
مرے حافظے کا یہ حال وجہ ملال ہے
مرے چارہ گر مجھے یاد آ، میں اداس ہوں!
سبھی لوگ شہر میں آئینے کے کفیل ہیں
مجھے آ کے چہرہ مرا دِکھا ،میں اداس ہوں!
ترا مسکرانا زوال ہے مرے درد کا
یونہی بات بات پہ مسکرا ،میں اداس ہوں!
مرے لب تھے زین کسی دعا سے سجے ہوئے
مجھے لگ گئی کوئی بد دعا، میں اداس ہوں!
۔زین شکیل۔
 

شمشاد

لائبریرین
سوالوں میں خود بھی ہے ڈوبی اداسی
کہیں لے نہ ڈوبے مجھے بھی اداسی

شب و روز چلتی ہے پہلو سے لگ کر
گلے پڑ گئی ایک ضدی اداسی

فضاؤں کی رنگت نکھرنے لگی ہے
ہوئی شام پھر دل میں لوٹی اداسی

ذرا چاند کیا آیا میری طرف کو
ستاروں نے جل بھن کے اوڑھی اداسی

شبستاں میں غم کی نہ شمعیں جلاؤ
کہیں جاگ جائے نہ سوئی اداسی

ذرا دیر لوگوں میں کھل کر ہنسی پھر
سر بزم آنکھوں سے ٹپکی اداسی

اسے یاد تھی کل کی تاریخ شاید
سسکتی رہی لے کے ہچکی اداسی

جمی تھی مرے سرد سینے میں کب سے
تپش پا کے اشکوں کی پگھلی اداسی

کترتی ہے دل کے شجر کی یہ خوشیاں
تری یاد ہے یا گلہری اداسی

کبھی ہم تھے جن کی دعاؤں میں شامل
انہیں تک نہ پہنچی ہماری اداسی

تری یاد کے اب نشاں تک نہیں ہم
مگر دل میں رہتی ہے اب بھی اداسی

نگاہوں میں حد نظر تک ہے رقصاں
اداسی اداسی اداسی اداسی
(آلوک مشرا)

یہ کیسی رہی ظفری بھائی
 
بکھر رہا ہے خیال کوئی
سوال کوئی، ملال کوئی
کہاں ہے؟ کس کی؟ مجال کوئی!
کہ آنکھ جھپکے
ترے تصور سے دور جائے
مگر یہ ضد کہ ضرور جائے
تمہارے غم میں سسک سسک کر
اکھڑ چکی ہے طناب غم کی
مگر کسی کی مجال کیا ہے
کہ روک پائے!
یہ سلسلہ ہائے روزو شب
اور اداس رستہ!
اداسیوں کے شجر بھی دیکھو
کہ گاہے گاہے اُگے ہوئے ہیں
تو آؤ اپنی نگاہِ پرنم
سے آب دے کر
نمو بڑھائیں اداسیوں کی!
کسی کو روکیں،کسی سے روٹھیں
کسے منائیں؟
کسے منا کر گلے لگائیں؟
کبھی ملونا کہ مسکرائیں!
جو آگئے ہو تو کیا ٹھہرنا
چلو اداسی کے پار جائیں!
زین شکیل
 

مومن فرحین

لائبریرین
نہ ملا کر اداس لوگوں سے
حسن تیرا بکھر نہ جائے کہیں

آرزو ہے کہ تو یہاں آئے
اور پھر عمر بھر نہ جائے کہیں

ناصر کاظمی
 

نور وجدان

لائبریرین
بکھر رہا ہے خیال کوئی
سوال کوئی، ملال کوئی
کہاں ہے؟ کس کی؟ مجال کوئی!
کہ آنکھ جھپکے
ترے تصور سے دور جائے
مگر یہ ضد کہ ضرور جائے
تمہارے غم میں سسک سسک کر
اکھڑ چکی ہے طناب غم کی
مگر کسی کی مجال کیا ہے
کہ روک پائے!
یہ سلسلہ ہائے روزو شب
اور اداس رستہ!
اداسیوں کے شجر بھی دیکھو
کہ گاہے گاہے اُگے ہوئے ہیں
تو آؤ اپنی نگاہِ پرنم
سے آب دے کر
نمو بڑھائیں اداسیوں کی!
کسی کو روکیں،کسی سے روٹھیں
کسے منائیں؟
کسے منا کر گلے لگائیں؟
کبھی ملونا کہ مسکرائیں!
جو آگئے ہو تو کیا ٹھہرنا
چلو اداسی کے پار جائیں!
زین شکیل
اچھا کلام ہے ♥
 
Top