اداسی ۔ اشعار

عمر سیف

محفلین
اداس ہونٹوں پہ مسکراہٹ کے پھول مہکیں تو جان لینا
کہ دل کے اندر کی کچھ اُداسی بہت اُداسی میں ڈھل رہی ہے
 

غ۔ن۔غ

محفلین
تجھ کو کیا خبر جاناں ہم اداس لوگوں پر
شام کے سبھی منظر انگلیاں اٹھائیں گے
ہم تری محبت کے جگنوؤں کی آمد پر
تتلیوں کے رنگوں سے راستے سجائیں گے
 

غ۔ن۔غ

محفلین
اداسی بھی عدم احساسِ غم کی ایک دولت ہے
بِسا اوقات ویرانے حسیں معلوم ہوتے ہیں
 

عمر سیف

محفلین
بے نور ہوچکی ہے بہت شہر کی فضا
تاریک راستوں میں کہیں کھو نہ جائیں ہم
اس کے بغیر آج بہت جی اداس ہے
جالب چلو کہیں سے اسے ڈھونڈ لائیں ہم
 

زیرک

محفلین
مری تصویر بنانے کی جو دُھن ہے تم کو
کیا اداسی کے خد و خال بنا پاؤ گے؟

آج خوشبو اور نازک احساسات کی ترجمان پروین شاکر کا جنم دن ہے
 

جاسمن

لائبریرین
غزل ( رحمان فارس)

سکوت شام میں گونجی صدا اداسی کی
کہ ہے مزید اداسی دوا اداسی کی

بہت شریر تھا میں اور ہنستا پھرتا تھا
پھر اک فقیر نے دے دی دعا اداسی کی

امور دل میں کسی تیسرے کا دخل نہیں
یہاں فقط تری چلتی ہے یا اداسی کی

چراغ دل کو ذرا احتیاط سے رکھنا
کہ آج رات چلے گی ہوا اداسی کی

وہ امتزاج تھا ایسا کہ دنگ تھی ہر آنکھ
جمال یار نے پہنی قبا اداسی کی

اسی امید پہ آنکھیں برستی رہتی ہیں
کہ ایک دن تو سنے گا خدا اداسی کی

شجر نے پوچھا کہ تجھ میں یہ کس کی خوشبو ہے
ہوائے شام الم نے کہا اداسی کی

دل فسردہ کو میں نے تو مار ہی ڈالا
سو میں تو ٹھیک ہوں اب تو سنا اداسی کی

ذرا سا چھو لیں تو گھنٹوں دہکتی رہتی ہے
ہمیں تو مار گئی یہ ادا اداسی کی

بہت دنوں سے میں اس سے نہیں ملا فارسؔ
کہیں سے خیر خبر لے کے آ اداسی کی
 

لاريب اخلاص

لائبریرین
غزل ( رحمان فارس)

سکوت شام میں گونجی صدا اداسی کی
کہ ہے مزید اداسی دوا اداسی کی

بہت شریر تھا میں اور ہنستا پھرتا تھا
پھر اک فقیر نے دے دی دعا اداسی کی

امور دل میں کسی تیسرے کا دخل نہیں
یہاں فقط تری چلتی ہے یا اداسی کی

چراغ دل کو ذرا احتیاط سے رکھنا
کہ آج رات چلے گی ہوا اداسی کی

وہ امتزاج تھا ایسا کہ دنگ تھی ہر آنکھ
جمال یار نے پہنی قبا اداسی کی

اسی امید پہ آنکھیں برستی رہتی ہیں
کہ ایک دن تو سنے گا خدا اداسی کی

شجر نے پوچھا کہ تجھ میں یہ کس کی خوشبو ہے
ہوائے شام الم نے کہا اداسی کی

دل فسردہ کو میں نے تو مار ہی ڈالا
سو میں تو ٹھیک ہوں اب تو سنا اداسی کی

ذرا سا چھو لیں تو گھنٹوں دہکتی رہتی ہے
ہمیں تو مار گئی یہ ادا اداسی کی

بہت دنوں سے میں اس سے نہیں ملا فارسؔ
کہیں سے خیر خبر لے کے آ اداسی کی
بہت خوب❤
 

کاکا

محفلین
عجب ہے رنگ چمن جا بجا اداسی ہے
مہک اداسی ہے باد صبا اداسی ہے

نہیں نہیں یہ بھلا کس نے کہہ دیا تم سے
میں ٹھیک ٹھاک ہوں ہاں بس ذرا اداسی ہے

میں مبتلا کبھی ہوتا نہیں اداسی میں
میں وہ ہوں جس میں کہ خود مبتلا اداسی ہے

طبیب نے کوئی تفصیل تو بتائی نہیں
بہت جو پوچھا تو اتنا کہا اداسی ہے

گداز قلب خوشی سے بھلا کسی کو ملا
عظیم وصف ہی انسان کا اداسی ہے

شدید درد کی رو ہے رواں رگ جاں میں
بلا کا رنج ہے بے انتہا اداسی ہے

فراق میں بھی اداسی بڑے کمال کی تھی
پس وصال تو اس سے سوا اداسی ہے

تمہیں ملے جو خزانے تمہیں مبارک ہوں
مری کمائی تو یہ بے بہا اداسی ہے

چھپا رہی ہو مگر چھپ نہیں رہی مری جاں
جھلک رہی ہے جو زیر قبا اداسی ہے

مجھے مسائل کون و مکاں سے کیا مطلب
مرا تو سب سے بڑا مسئلہ اداسی ہے

فلک ہے سر پہ اداسی کی طرح پھیلا ہوا
زمیں نہیں ہے مرے زیر پا اداسی ہے

غزل کے بھیس میں آئی ہے آج محرم درد
سخن کی اوڑھے ہوئے ہے ردا اداسی ہے

عجیب طرح کی حالت ہے میری بے احوال
عجیب طرح کی بے ماجرا اداسی ہے

وہ کیف ہجر میں اب غالباً شریک نہیں
کئی دنوں سے بہت بے مزا اداسی ہے

وہ کہہ رہے تھے کہ شاعر غضب کا ہے عرفانؔ
ہر ایک شعر میں کیا غم ہے کیا اداسی ہے
 
میں ایک زیست عام سا
ایک قصہ نا تمام سا
نہ بات میں کمال ہے
نہ لہجہ بے مثال ہے
ہوں دیکھنے میں عام سا
اداسیوں کی شام سا
 
Top