شمشاد
لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ 108
((20)) جھلکیاں ((دو جلدیں)) ((ساقی میں مطبوعہ ادبی کالم کا انتخاب))، مکتبہ بکس، لاہور، 1995
محمد سعید دہلوی، مرزا ((1962 – 1886)) : مقام پیدائش دلی ہے۔ ان کی والدہ سر سید احمد خاں کی رشتہ دار تھیں۔ والد جدید تعلیم یافتہ تھے۔ انھوں نے مرزا کو بھی جدید تعلیم دلوائی۔ مرزا نے گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم۔ اے۔ کی ڈگری حاصل کی اس کے بعد ایم۔ اے۔ او۔ کالج علی گڑھ میں لکچرر ہو گئے۔
مرزا محمد سعید نے دو ناول لکھے۔ "خواب ہستی" اور "یاسمین"، "خواب ہستی" ایک اخلاقی ناول ہے جو 1905 میں لکھا گیا۔ اس کے تیس سال بعد "یاسمین" منظر عام پر آیا۔ یہ دونوں ناول سماجی حالات کے آئینہ دار ہیں۔ ان کے ناولوں میں جگہ جگہ طویل اصلاحی تقریروں، موقع بے موقع نصیحتوں کی بھرمار ہے، لیکن فن اور پیش کش کے لحاظ سے ان ناولوں کا شمار اردو کی تاریخی اور یادگار کتابوں میں ہوتا ہے۔ مصلحانہ جوش نے ناولوں میں دل چسپی کا عنصر دھندلا کر دیا ہے۔
محمد شاہ ثانی بہمنی ((م۔ 1397)) : محمد شاہ کا بیٹا اور علاء الدین حسن گنگوہ بہمنی ((متوفی 135) کا پوتا تھا جو داؤد شاہ بہمنی کے قتل کے بعد تخت نشیں ہوا۔ وہ سنجیدہ طبیعت رکھتا تھا اور اس نے اعلیٰ تعلیم پائی تھی۔ مؤرخین نے ایک صاحب علم اور علم دوست بادشاہ کے طور پر اس کی بہت تعریف کی ہے۔ سوائے باغیوں کی سرکوبی کے کسی جنگ میں حصہ نہیں لیا۔ شاید اسی لیے وہ "ارسطوئے زماں" کے نام سے مشہور تھا۔ اس نے علم کی اشاعت میں بڑا حصہ لیا۔ اس نے خواجہ شمس الدین حافظ شیراز کو بھی تحائف اور زادِ راہ بھیج کر گلبرگہ آنے کی دعوت دی۔ ابتدائے سفر میں ہی انھوں نے کل رقم ایک ضرورت مند دوست کو عطا کر دی اور ارادہ سفر ترک کر دیا مگر محمد شاہ ثانی کےعطیات کے شکریے میں انھوں نے اپنی ایک غزل بھیج دی۔ محمد شاہ نے
صفحہ 108
((20)) جھلکیاں ((دو جلدیں)) ((ساقی میں مطبوعہ ادبی کالم کا انتخاب))، مکتبہ بکس، لاہور، 1995
محمد سعید دہلوی، مرزا ((1962 – 1886)) : مقام پیدائش دلی ہے۔ ان کی والدہ سر سید احمد خاں کی رشتہ دار تھیں۔ والد جدید تعلیم یافتہ تھے۔ انھوں نے مرزا کو بھی جدید تعلیم دلوائی۔ مرزا نے گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم۔ اے۔ کی ڈگری حاصل کی اس کے بعد ایم۔ اے۔ او۔ کالج علی گڑھ میں لکچرر ہو گئے۔
مرزا محمد سعید نے دو ناول لکھے۔ "خواب ہستی" اور "یاسمین"، "خواب ہستی" ایک اخلاقی ناول ہے جو 1905 میں لکھا گیا۔ اس کے تیس سال بعد "یاسمین" منظر عام پر آیا۔ یہ دونوں ناول سماجی حالات کے آئینہ دار ہیں۔ ان کے ناولوں میں جگہ جگہ طویل اصلاحی تقریروں، موقع بے موقع نصیحتوں کی بھرمار ہے، لیکن فن اور پیش کش کے لحاظ سے ان ناولوں کا شمار اردو کی تاریخی اور یادگار کتابوں میں ہوتا ہے۔ مصلحانہ جوش نے ناولوں میں دل چسپی کا عنصر دھندلا کر دیا ہے۔
محمد شاہ ثانی بہمنی ((م۔ 1397)) : محمد شاہ کا بیٹا اور علاء الدین حسن گنگوہ بہمنی ((متوفی 135) کا پوتا تھا جو داؤد شاہ بہمنی کے قتل کے بعد تخت نشیں ہوا۔ وہ سنجیدہ طبیعت رکھتا تھا اور اس نے اعلیٰ تعلیم پائی تھی۔ مؤرخین نے ایک صاحب علم اور علم دوست بادشاہ کے طور پر اس کی بہت تعریف کی ہے۔ سوائے باغیوں کی سرکوبی کے کسی جنگ میں حصہ نہیں لیا۔ شاید اسی لیے وہ "ارسطوئے زماں" کے نام سے مشہور تھا۔ اس نے علم کی اشاعت میں بڑا حصہ لیا۔ اس نے خواجہ شمس الدین حافظ شیراز کو بھی تحائف اور زادِ راہ بھیج کر گلبرگہ آنے کی دعوت دی۔ ابتدائے سفر میں ہی انھوں نے کل رقم ایک ضرورت مند دوست کو عطا کر دی اور ارادہ سفر ترک کر دیا مگر محمد شاہ ثانی کےعطیات کے شکریے میں انھوں نے اپنی ایک غزل بھیج دی۔ محمد شاہ نے