شمشاد
لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۱۴۸
اسی نام کی ایک اور تاریخ محمد یوسف کی تصنیف ہے جس میں شاہجہاں کے دور کے ۱۶۰۸ تک کے واقعات قلمبند کیے گئے ہیں۔
منٹو، سعادت حسن ((۱۹۵۵ – ۱۹۱۲)) : پیدائش لدھیانہ میں ہوئی۔ بچپن امرتسر میں گزرا۔ تعلیم امرتسر اور علی گڑھ میں حاصل کی۔ دہلی، ممبئی اور لاہور میں زندگی بسر کی۔ ۱۹۳۹ میں صفیہ بیگم سے شادی ہوئی۔ تین بیٹیاں پیدا ہوئیں۔ انتقال لاہور میں ہوا۔ منٹو نے ادبی زندگی کا آغاز انگریزی، روسی اور فرانسیسی کہانیوں کے تراجم سے کیا۔ ڈرامے بھی لکھے۔ ریڈیو، فلم اور ادبی صحافت سے بھی تعلق رہا۔ ان کی بعض طبع زاد کہانیوں پر فلمیں بھی بنائی گئیں۔ کہانی منٹو کا خاص میدان ہے۔ کچھ مضامین بھی لکھے۔ ذاتی زندگی پریشانیوں میں گزری۔ تقسیم کے بعد کے چند برس، جب منٹو کا قیام لاہور میں تھا، بہت سخت تھے۔ یہاں تک کہ کچھ دنوں کے لیے دماغی ہسپتال میں داخل کروا دیے گئے۔ مالی پریشانیاں زندگی بھر ساتھ لگی رہیں۔ منٹو کی کچھ کہانیوں پر فحاشی کے الزام میں مقدمے بھے چلے۔ لکھنے کا سلسلہ ہر حال میں جاری رہا۔ ان کی تصانیف کے خاص مجموعے یہ ہیں : آتش پارے ((۱۹۳۶))، لذت سنگ ((۱۹۴۷))، سیاہ حاشیے ((۱۹۴۸))، چغد ((۱۹۴۸))، خالی بوتلیں خالی ثبے ((۱۹۵۰))، بادشاہت کا خاتمہ ((۱۹۵۱))، یزید ((۱۹۵۱))، اوپر، نیچے، درمیان ((۱۹۵۴))، شیطان ((۱۹۵۴))، بغیر عنوان کے ((۱۹۴۰))، ڈرامے : تین عورتیں ((۱۹۴۲))، منٹو کے مضامین ((۱۹۴۲)) اور خاکے : گنجے فرشتے ((۱۹۵۳))۔
صفحہ ۱۴۸
اسی نام کی ایک اور تاریخ محمد یوسف کی تصنیف ہے جس میں شاہجہاں کے دور کے ۱۶۰۸ تک کے واقعات قلمبند کیے گئے ہیں۔
منٹو، سعادت حسن ((۱۹۵۵ – ۱۹۱۲)) : پیدائش لدھیانہ میں ہوئی۔ بچپن امرتسر میں گزرا۔ تعلیم امرتسر اور علی گڑھ میں حاصل کی۔ دہلی، ممبئی اور لاہور میں زندگی بسر کی۔ ۱۹۳۹ میں صفیہ بیگم سے شادی ہوئی۔ تین بیٹیاں پیدا ہوئیں۔ انتقال لاہور میں ہوا۔ منٹو نے ادبی زندگی کا آغاز انگریزی، روسی اور فرانسیسی کہانیوں کے تراجم سے کیا۔ ڈرامے بھی لکھے۔ ریڈیو، فلم اور ادبی صحافت سے بھی تعلق رہا۔ ان کی بعض طبع زاد کہانیوں پر فلمیں بھی بنائی گئیں۔ کہانی منٹو کا خاص میدان ہے۔ کچھ مضامین بھی لکھے۔ ذاتی زندگی پریشانیوں میں گزری۔ تقسیم کے بعد کے چند برس، جب منٹو کا قیام لاہور میں تھا، بہت سخت تھے۔ یہاں تک کہ کچھ دنوں کے لیے دماغی ہسپتال میں داخل کروا دیے گئے۔ مالی پریشانیاں زندگی بھر ساتھ لگی رہیں۔ منٹو کی کچھ کہانیوں پر فحاشی کے الزام میں مقدمے بھے چلے۔ لکھنے کا سلسلہ ہر حال میں جاری رہا۔ ان کی تصانیف کے خاص مجموعے یہ ہیں : آتش پارے ((۱۹۳۶))، لذت سنگ ((۱۹۴۷))، سیاہ حاشیے ((۱۹۴۸))، چغد ((۱۹۴۸))، خالی بوتلیں خالی ثبے ((۱۹۵۰))، بادشاہت کا خاتمہ ((۱۹۵۱))، یزید ((۱۹۵۱))، اوپر، نیچے، درمیان ((۱۹۵۴))، شیطان ((۱۹۵۴))، بغیر عنوان کے ((۱۹۴۰))، ڈرامے : تین عورتیں ((۱۹۴۲))، منٹو کے مضامین ((۱۹۴۲)) اور خاکے : گنجے فرشتے ((۱۹۵۳))۔