اردو انسائیکلوپیڈیا

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۱8

میں لینن سے پہلی ملاقات کے بعد سے آخری دن تک اس کا اعتماد حاصل رہا۔ ۱۹۰۱ میں شہر بدر کیا گیا۔ ۱۹۰۲ میں اکادمی کا ممبر چنا گیا جسے زار نے منسوخ کر دیا۔

اسی زمانے میں ڈرامے کی طرف توجہ کی اور دو ڈرامے "می شانی" اور "پاتال میں" اسٹیج کیے گئے اور آج تک ہوتے ہیں۔ ۱۹۰۶ میں قانونی شکنجے سے بچنے کے لیے غیر قانونی سفر کیا اور امریکا چلا گیا۔ ۱۹۱۳ میں شاہی معافی اور روس واپسی کی اجازت ملی۔ یوروپ اور امریکا کے سفر کے تاثرات نے اس کی تصانیف کو وسعت اور جلا تو دی، لیکن رفتہ رفتہ تاثیر کم ہوتی گئی۔ انقلاب اور خانہ جنگی کے بعد ادبی تنظیمی مصروفیتوں اور فوری تقاضوں کی تحریروں نے کسی بڑی تصنیف کی گنجائش نہیں رکھی۔ ۱۹۲۱ میں اس پر دوبارہ تب دق کا حملہ ہوا جس کے سبب تین سال جرمنی اور چیکوسلاواکیہ میں بسر کرنے پڑے۔

فن میں "اشتراکی حقیقت پسندی" کا نعرہ اور اصول اسی نے عام کیا اور اپنی تصانیف سے اس کا نمونہ دیا۔

افسانے، ناول، مضامین، طنزیہ نثر پارے، نثری نظمیں، ڈرامے، سوانح عمری، ہدایات، تقاریر، تنقید، پمفلٹ سبھی کچھ لکھے ہیں۔ ناول "ماں" ((۱۹۰۶)) کو خاص مقبولیت ملی۔

گوکھلے، اروند وشنو (۱۹۱۹ – ۱۹۹۲)) : مراٹھی نوکتھا (( نئی کہانی)) کے ایک اہم ستون، اروند گوکھلے کا جنم ضلع سانگلی کے ایک گاؤں اسلام پور میں ہوا۔ بی۔ ایس۔ سی۔ تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد انھوں نے وسکانسن یونیورسٹی، امریکہ سے ایم۔ ایس۔ کی ڈگری حاصل کی اور ڈاکٹری کا پیشہ اپنایا۔

اروند گوکھلے کی پہلی کہانی "ہیر کٹنگ سیلون" پرشورام بھاوو کالج، سانگلی کے رسالے میں ۱۹۳۵ میں شائع ہوئی۔ اس کے بعد وہ مسلسل لکھتے رہے اور تین سو سے زائد کہانیاں لکھیں۔ انھوں نے جس کہانی کے ساتھ نئی کہانی
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۱۹

کے میدان میں قدم رکھا وہ مراٹھی کے موقر جریدے "ستیہ کتھا" میں ۱۹۴۵ میں شائع ہوئی۔ عنوان "ایک میمنے کی کہانی" تھا۔ اس کہانی میں انھوں نے فوج سے بھاگے ہوئے ایک رنگروٹ کے توسط سے جنگ کی ہولناکی، اس کے بع معنویت اور انسانی زندگی کے بے وقعتی کا نقشہ کھینچا ہے۔

گوکھلے کا پہلا افسانوی مجموعہ "نذرانہ" ۱۹۴۴ میں منظر عام پر آیا اور ۱۹۹۰ تک ان کے تیس افسانوی مجموعے شائع ہوئے جن میں متھلا ((۱۹۵۹))، شبھا ((۱۹۶۰)) اور انامکا ((۱۹۶۱)) کو حکومت مہاراشٹر کا ادبی انعام ملا۔ ان کی ایک کہانی "گندھ وارتا" کو رسالہ "این کاؤنٹر" کے "بین قومی افسانوی مقابلہ برائے ایشیا، افریقہ و عرب" میں پہلا انعام ملا تھا۔ گوکھلے کی متعدد کہانیوں کے ملکی و غیر ملکی زبانوں میں ترجمے ہو چکے ہیں۔ خصوصاً ان کی کہانی "مجنولا" کو عالمی سطح پر شناخت حاصل ہوئی ہے۔ اردو میں بھی اس کا ترجمہ ہو چکا ہے۔ ((مشمولہ "بے چہرہ شام" از یونس اگاسکر))۔

صنف افسانہ سے خصوصی دلچسپی کے تحت گوکھلے نے امیریکی اور ہندوستانی کہانیوں کو مراٹھی میں منتقل کیا۔ ۱۹۵۹ سے ۱۹۶۳ تک انھوں نے ہر سال کی منتخت کہانیوں کے مجموعے "کتھاوار شک" کے عنوان سے ترتیب دیے۔ اپنے بزرگ اور ہم عصر قلم کاروں نا۔ سی۔ پھڈکے، وامن چور گھڑے، وینکٹیش ماڈگول کر، کے افسانوں کے انتخابات مرتب کیے۔ مرکزی حکومت کی "ایمریٹس فیلوشپ برائے ثقافتی لین دین" کے تحت پاکستان اور بنگلہ دیش کی ادبی صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے ان دو ملکوں کا دورہ کیا ((۱۹۸۴-۸۵)) اور وہاں کے افسانہ نگاروں کے مصاحبے ((انٹرویو)) خاکے اور افسانوں کے ترجمے شائع کیے جو بعد میں "پاکستانی
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۲۰

کتھا کار" اور "بنگلہ دیشی کتھا کار" کے عنوان سے کتابی شکل میں منظر عام پر آئے۔ انھوں نے "آلے پاک" کے عنوان سے پاکستان کا سفر نامہ بھی لکھا ہے۔

اروند گوکھلے کے افسانوں کی ایک اہم خصوصیت ان کی موت سے دلچسپی ہے۔ انھوں نے موت کو ایک نجات دہندہ اور رفیق و رہنما کی حیثیت سے پیش کیا ہے۔ طوائفیں اور استحصال زدہ گھریلو عورتیں بھی ان کے افسانوں کا خاص موضوع رہی ہیں۔ ان کے ہاں نسوانی کرداروں کی کثرت کے باوجود ان میں تنوع پایا جاتا ہے۔ ان کا ایک کردار "منجولا" صنعتی و تجارتی سماج میں مرد و عورت کے رشتے کو میکانکی اور حیوانی بننے سے روکنے کی کوشش میں چھٹپٹاتی ہوئی عورت کی بھرپور نمائندگی کرتا ہے۔ نئی مراٹھی کہانی کے سفر میں گوکھلے کی کہانی "منجولا" ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔

گوکھلے کے اہم افسانوی مجموعوں میں ابھوگی ((۱۹۶۰))، منتر مگدھا ((۱۹۶۱))، موسل دھار ((۱۹۶۸))، سوریہ مکھی ((۱۹۶۹))، پہلے قدم ((۱۹۸۱))، جاگرن ((۱۹۸۳)) شامل ہیں ۔ ان کا انتقال ممبئی میں ۲۸ اکتوبر ۱۹۹۲ کو ہوا۔

گوگول، نکولائی وسیلی وچ ((۱۸۵۲ – ۱۸۰۹))

Gogol Nikolai Vasilyevich

یوکرین کے تاریخی ضلع پلتاوا میں پیدا ہوا۔ ادبی ذوق رکھنے والے پدر نے تربیت کی۔ ۱۶ برس کی عمر میں، جب ہائی اسکول کا طالب علم تھا، ڈراموں میں حصہ لینے اور طنزیہ تحریریں لکھنے لگا۔ انیسویں سال اسکول سے بددل ہو کر پائے تخت پیترس بورگ چلا آیا اور شاعری میں نام بدل کر لکھنے کی کوشش میں ناکام ہو کر ملک سے باہر نکل گیا۔ واپسی پر دو سال سرکاری دفتر میں اہلکاری کی اور دفتر شاہی کرداروں کے مضحکہ خیز خاکے جمع کیے جو آئندہ اس کی تصانیف
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ 21

کی شناخت بن گئے۔ 1830 میں روس کے بڑے اہل قلم خصوصاً پوشکن سے روشناس اور فیضیاب ہوا۔ 1834 میں پیترس بورگ یونیورسٹی میں تاریخ کا پروفیسر مقرر ہوا اور ڈیڑھ سال کی مختصر مدت میں تاریخی ناول "تاراس بلبا" اور ڈرامہ "ایلفرڈ" لکھے۔ پھر تمام وقت ادبی خدمت کو وقف کرنے کی خاطر پروفیسری سے مستعفی ہو گیا۔ "انسپکٹر" ((1836)) اور دوسری تصانیف، جو آج بھی تازہ ہیں اسی زمانے کی تحریریں ہیں۔ اس نے بار بار یوروپ کا سفر کیا اور ہر بار زیادہ سے زیادہ لکھا۔

1836 میں غیر ملکی سفر پر روانہ ہوا، پیرس روم وغیرہ کے دوران سفر "مردہ روحیں" ناول لکھا جو 1941 سے آج تک کتابی اور ڈرامائی صورت میں مقبول خاص و عام ہے۔ "گرم کوٹ" اور "ٕمردہ روحیں" ((جس کی دوسری جلد کا مسودہ مذہبی خیالات کے جوش میں خود نذر آتش کر دیا تھا)) کے علاوہ "گھوڑا گاڑی"، "ملوا"، "شادی"، وہ سماجی طنزئے ہیں جن سے نہ صرف گوگول اپنا پائدار نقش چھوڑ گیا بلکہ "پلیو شکن" جیسے کردار بھی ہمیشہ کے لیے ادب کے نگار خانے میں سج گئے۔

عمر کے چالیسویں سال سے اس کے خیالات میں جو مذہبی اور صوفیانہ موڑ آیا، اس کے سبب ہم عصر ترقی پسند بدکمان بلکہ نکتہ چین ہو گئے تھے۔ اس کی پہلودار زبان، تصویر کشی، ایجاد اور طنز کی شدید دھار نے روسی نثر کو قومی شناخت عطا کی۔

گولدونی، کارلو ((1793 – 1707))

Goldoni, Carlo

اطالیہ کی طربیہ ڈرامہ نگاری میں گولدونی نے انقلاب پیدا کیا۔ وہ اپنے ملک کی واقعیت پسند کامیڈی کا بانی مانا جاتا ہے۔ وہ ایک طبیب کا بیٹا تھا۔ 1707 میں فلارنس میں پیدا ہوا۔ وہ اپنے باپ کے کتب خانے سےڈرامے چن کر پڑھتا رہتا۔ 1721 میں ری مینی

Rimini

کے
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ 22

مدرسے سے جہاں وہ پڑھتا تھا ایک ناٹک ٹولی کے ساتھ فرار ہو گیا۔ بعد میں اسکول کی تعلیم پوری کی۔ پہلے پلانٹس

Plantus

ٹیرنس

Terence

اور ایرسٹوفینز

Aristophanes

کے لاطینی اور یونانی ڈرامے پڑھے، پھر فرانس کے مشہور کامیڈی نگار مولیر

Molier

کا مطالعہ کیا۔

گولدونی نے وینس اور بعد میں پیرس میں اپنے مشہور ڈرامے لکھے۔ اس کے ابتدائی ڈرامے اس دور کی مقبول صنف

Commedian Dellarte

کی صنعت گری اور تصنع اور ایک نئی واقعیت پسندی کی آمیزش کو ظاہر کرتے ہیں۔ بعد میں گولدونی نے واقعیت پسندی کو اپنایا۔ اس کی پہلی ڈرامائی کامیابی "ایک معزز لڑکی" ((1749))

The Respectable Girl

قرار دی جا سکتی ہے۔ 1750 – 51 میں گولدونی نے اپنے بعض بہترین ڈرامے لکھے جو وینس کی مقامی بولی میں تصنیف کیے گئے ہیں۔ ان میں زیادہ مشہور "عورتوں کی خوش گپیاں"

Women’s Gossip

اور کذب گو

II Burgiardo

ہیں۔

1753 سے 1762 تک گولدونی نے تیاتروسان لوکا

TeatroSan Luca

کے لیے لکھا جو آج کل گودونی تھیٹر کہلاتا ہے۔ اس دور کے مشہور ناٹک "لا-لوکاندی ایرا" ((1753))

La Locandiera

میں جس کا انگریزی نام

Hine Hostes

ہے اور "ظالم"

The Tyrants

اور "کیرجا کے جھگڑے"

Quarrelsat Chioggia

ہیں۔ ٕموخر الذکر دو کھیل 1760 اور 1762 میں پیش کیے گئے۔

1762 میں گولدونی پیرس چلا گیا تاکہ وہاں اطالوی کامیڈی کی ہدایت کاری کا کام انجام دے۔ کئی ناٹک فرانسیسی میں لکھے اور 1783 میں اس نے اپنی مشہور میموریز

Memories

فرانسیسی میں لکھنی شروع کی۔
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۲۳

اب وہ ورسائے

Versailles میں الگ تھلگ زندگی گزار رہا تھا اور محل کے شہزادوں اور شہزادیوں کو اطالوی پڑھاتا تھا۔ انقلاب فرانس کے بعد افلاس کی حالت میں اس کا انتقال ہوا۔

گولدونی نے تقریباً ۲۵۰ ناٹک لکھے۔ اس کے بہترین ناٹک اطالوی سماج کے نچلے اور درمیانی طبقے کی زندگی کی بھرپور عکاسی کرتے ہیں اور نہایت پُرمزاج اور تیز و شوخ مکالموں اور پلاٹ کی غیر متوقع قلابازیوں سے پُر ہیں۔

گولڈ اسمتھ، آلیور ((۱۷۷۴ – ۱۷۳۰))

Goldsmith, Oliver

انگریزی کا مشہور ادیب، آئر لینڈ میں پیدا ہوا۔ پادریوں کے گھرانے سے اس کا تعلق تھا۔ ٹرنٹی کالج ڈبلن میں تعلیم حاصل کی۔ بعد میں ایڈنبرا اور پھر لیڈن میں طب کی تعلم حاصل کی۔ شروع میں مطب کیا لیکن کامیابی نہیں ہوئی۔ چونکہ طبیعت میں ادب کی طرف رحجان زیادہ تھا اس لیے رسالوں کے لیے مضامین لکھنا شروع کیے۔ جب اس کی کتاب دنیا کے شہری

Citizens of the World

شائع ہوئی تو لوگ اس کی ادبی حیثیت ماننے لگے۔ چند اور کتابوں سے اس کی شہرت بڑھنے لگی۔

گولڈ اسمتھ کو انگریزی ادب میں اہم مقام حاصل ہے اور یہ اسے اس کے دو مشہور کامیڈی ڈراموں کی وجہ سے حاصل ہوا ہے۔ ایک "دی گُڈ نیچرڈ مین"

Good Natured Man

اور دوسرا "شی اسٹوپس ٹو کانکر"

She stoops to Conquer

ہے۔ ان کے ترجمے کئی زبانوں میں ہو چکے ہیں اور یہ آج تک اسٹیج پر کھیلے جاتے ہیں۔ اس نے ناول ایک ہی لکھا ہے اور وہ ہے "دی وکر آف ویک فیلڈ"

The Viear of Wakefield

گولڈ اسمتھ کے دور میں ادب پر جذباتیت بہت چھائی ہوئی تھی۔ اس نے اپنی تصنیفات کے ذریعہ حقیقت پسندی کو رواج دیا۔
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۲۴

گولڈ اسمتھ نے اپنی تصنیفات سے کافی کمایا لیکن ہمیشہ غربت کی زندگی ہی اسے نصیب ہوئی۔ باسول نے اس کے بارے میں لکھا تھا کہ وہ احمقانہ حد تک سخی اور نرم دل تھا۔ کسی دوسرے کی پریشانی اس سے دیکھی نہیں جاتی تھی۔ اپنے عہد کے فن کاروں اور ادیبوں اور خاص طور پر سیمول جانسن سے اس کی اچھی دوستی تھی۔

گون تے کن، رشاد نوری ((۱۹۵۶ – ۱۸۹۲)) : ۱۸۹۲ میں استبول میں پیدا ہوئے۔ والد کا نام نوری ہے۔ تعلیم اسمیر اور استبول میں ہوئی۔ مدارس کے انسپکٹر کی حیثیت سے مختلف مقامت دیکھنے کا موقع ملا۔ "اندو لونوت لر" میں مشاہدات سفر دلچسپ انداز میں لکھے ہیں۔ یونیسکو میں ترکی نمائندے کی حیثیت سے بھی کام کیا۔ ۱۹۳۹ میں پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہوئے۔ افسانہ نویسی کا شوق خالد ضیا کے افسانے پڑھ کر ہوا۔ مزاح نگار بھی تھے۔ ۱۹۲۳ میں بعض احباب کے ساتھ " کے لے بیک" نامی مزاحیہ اخبار نکالا تھا۔ ان کے ناولوں میں رقت انگیز عناصر زیادہ ہیں۔ دامغا ((۱۹۲۴))، دودقدن قلبے ((۱۹۲۵))، اقشام گونے شی ((۱۹۲۶)) جیسے جذباتی عاشقانہ رنگ کے ناولوں کے بعد انھوں نے ((۱۹۲۸)) میں "لے شیل گیجہ" جیسا ناول لکھ کر حقیقت پسندی کی راہ اختیار کی۔ ان کے ناول یاپراک دوکومو ((۱۹۳۰))، قیزل جق دال لری (۱۹۳۵))، دیعزمین ((۱۹۴۶))، مسکین لرتکے سی ((۱۹۴۷)) اس طرز کے کامیاب ناول مانے جاتے ہیں۔ ان ناولوں میں سے چالی قوشو کا ترجمہ

An Autobiography of a Turkish Girl

کے نام سے ۱۹۴۹ اور اقشام گونے شی کا ترجمہ

Afternoon Sun

کے عنوان سے ۱۹۵۱ میں شائع ہوا۔
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۲۵

رشاد کی زبان سادہ ہے۔ ان کے ڈرامے بھی اس لحاظ سے ممتاز ہیں۔ افسانوں کے مجموعے "صونمشی علدیزلر" ((۱۹۲۳))، "تائری مسافری" ((۱۹۲۷))، لیلی ایلہ مجنوں" ((۱۹۲۸)) "اولا غان ایش لر" ((۱۹۳۰)) وغیرہ پر مشتمل ہیں۔

رشاد کا انتقال لندن میں ۱۹۵۶ میں ہوا۔

گووردھن رام مادھورام تریپاٹھی ((۱۸۵۵ – ۱۹۰۷)) : گووردھن رام تریپاٹھی گجرات کے ضلع کھیرا میں بمقام نڈیاڈ پیدا ہوا۔ ممبئی سے وکالت کی ڈگری لی اور وہیں پریکٹس کرنے لگا۔ اس کا نظریہ حیات یہ تھا کہ انسان کے اعمال کا مقصد زیادہ لوگوں کے ساتھ بھلائی ہونا چاہیے۔ چنانچہ سولہ سترہ سال کی عمر ہی سے اپنی تحریروں کے ذریعہ عوامی خدمت کا آغاز کیا۔ رفتہ رفتہ اس کا شغف علم و ادب سے ایسا بڑھا کہ پیشہ وکالت ترک کر کے بقیہ زندگی اپنے ناول کی تکمیل اور ادب کے لیے وقف کر دی۔

۱۸۸۷ میں گووردھن کا ناول "سر سوتی چندرا" منظر عام پر آیا۔ پھر یکے بعد دیگرے اس کے چار حصے شائع ہوئے۔ اس کا آخری حصہ ۱۹۰۱ میں شائع ہوا۔ ان میں زندگی کے مسائل اور آزمائشوں پر بڑی گہر نظر ڈالی گئی ہے۔ اس ناول کا شمار اپنی پائندگی اور تاثر کے اعتبار سے گجراتی ادب کے دور جدید کی اولین تصنیفات میں ہوتا ہے۔ "سر سوتی چندرا" کے بعد کی تصنیفات ستیہ مدرا، لیلاوتی، نول رام، سکشار جیون اور کوی دیارام ہیں۔ گووردھن انگریزی اور سنسکرت پر خاصا عبور رکھتا تھا۔ چنانچہ اس کی تحریریں گجراتی کے علاوہ سنسکرت اور انگریزی زبانوں میں بھی ملتی ہیں۔ سنسکرت کی اہم تصنیفات منودوتم

Manodutam

ودھی کنتھی تم

vidhi
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۲۶

Kanthitam

اور لکشیہ رہشیم

Lakshya Rahashyam

ہیں۔ انگریزی میں اس کا اہم کارنامہ "گجرات کے کلاسیکی شاعر" ہے۔

عمرانیات، تعلیم، معاشیات، سیاسیات، سائنس، تاریخ اور فلسفہ پر لکھے ہوئے مضامین و مقالے ان کے علاوہ ہیں۔ گووردھن کی عظٖمت کا پتا اس سے چلتا ہے کہ بہت سارے ہمعصروں نے اس کے اسلوب و زبان کی تقلید کی۔

گویا، فقیر محمد خاں ((۱۸۵۰)) : تہور جنگ حسام الدولہ نواب فقیر محمد خاں گویا کے والد محمد بلند خاں درہ خیبر کے سرداروں میں تھے۔ محمد بلند خاں اپنے دو لڑکوں کے ساتھ قائم گنج ضلع فرخ آباد سے ہوتے ہوئے لکھنؤ آئے اور غازی الدین حیدر کی فوج میں ملازم ہوئے۔ اولاً دونوں بھائیوں نے اندور کے راجہ کی ملازمت اختیار کی اور لڑائیوں میں حصہ لیا۔ غازی الدین حیدر نے فقیر محمد خاں کو بلوا کر پچیس ہزار سواروں کا رسالہ دار اور وزیر مال بنایا۔ ان کی شجاعت اور سخاوت ضرب المثل بن گئی۔ پشتو، عربی، فارسی اور ترکی سے بھی واقف تھے اور اردو میں دیوان مرتب کیا ہے۔ ناسخ کے شاگرد تھے۔ خواجہ وزیر سے بھی مشورہ سخن کیا۔ انھوں نے "انوار سہیلی" کا ترجمہ "بستان حکمت" کے نام سے کیا ہے۔ "دیوان گویا" چھپ چکا ہے۔

گھنانند (۱۷۴۶ – ۱۷۹۶)) گھنانند ریتی کال کے شاعر ہیں۔ سمبت ۱۷۴۶ میں کائستھ گھرانے میں پیدا ہوئے۔ مغل بادشاہ محمد شاہ کے میر منشی تھے اور نادر شاہی حملے میں مارے گئے۔ گانے میں مہارت رکھتے تھے۔ روایت ہے کہ وہ سبحان نامی ایک خوش گلو طوائف سے عشق کرتے تھے۔ محمد شاہ نے جب کسی بات پر ناراض ہو کر شہر بدر کر دیا تو گھنانند نے اپنی محبوبہ کو ساتھ چلنے کے لیے کہا لیکن اس نے ساتھ چلنے سے انکار کر دیا۔ دل
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۲۷

برداشتہ ہو کر برندابن چلے گئے اور درویشی اختیار کر لی۔ جب نادر شاہ کی فوج کے سپاہی متھرا پہنچے تو کسی دل جلے نے گھنانند کی طرف اشارہ کر دیا اور کہا بادشاہ کے میر منشی تھے لہذا بڑی مال و متاع کے مالک ہوں گے۔ جب سپاہیوں نے خزانہ طلب کیا تو انھوں نے برندابن کی دھول ان کی طرف اچھال دی۔ سپاہیوں نے غصہ میں آ کر ان کے ہاتھ پاؤں کاٹ ڈالے۔ برندابن ہی میں ان کا انتقال ہوا۔ ہندی ابد کے مؤرخین نے ان کی پانچ تصانیف کا ذکر کیا ہے۔ ((۱)) سبحان ساگر، ((۲)) برہ لیلا، ((۳)) کوک سار، ((۴)) رسکے لولی، ((۵)) کریا کانڈ۔ ان سب میں سبحان کا ذکر موجود ہے۔ درویشی اختیار کرنےکے باوجود ان کے کلام کا رنگ عاشقانہ ہے۔ چونکہ ان کو ہجر و فراق کا ذاتی تجربہ تھا اس لیے اس قسم کے اشعار میں ان کا جوہر کھلتا ہے۔ ہجر و فراق سے متعلق ان کے کئی اشعار بے حد مقبول ہوئے۔ ان کی زبان ٹکسالی برج بھاشا ہے۔ محاورہ اور روزمرہ کے استعمال پر ان کا شمار ریتی کال کے ان شاعروں میں ہوتا ہے جو زبان کی خوبصورتی بڑھانے پر بے حد توجہ دیتے تھے۔

گیانیشور ((۱۲۷۵ – ۱۲۹۶)) مراٹھواڑہ کے مقام اپے گاؤں کے رہنے والے وٹھل پنت اور رکمنی بائی کے دوسرے لڑکے تھے۔ انھیں سماجی لعن طعن کا شکار ہونا پڑا کیونکہ وہ ایک گرہست آشرم اپنانے والے "سنیاسی" کے بیٹے تھے۔ ان کے والد کو سخت جسمانی اذیتیں دی گئیں۔ وجہ یہ بھی کہ سنیاس لینے کے بعد ان کے ہاں اولاد ہوئی تھی۔ ان کے والد نے اپنے گرو کو غلط باور کرا کے سنیاس لیا تھا مگر جب گرو کو پتا چلا تو گرو نے ان کو گرہستی کی ذمہ داریاں پوری کرنے کی ہدایت کی۔ گیانیشور اور ان کے بھائی بہن اس کے بعد پیدا ہوئے۔ مگر
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۲۸

انھیں تحقیر سے سنیاسی کی اولاد کہا جانے لگا۔ غرض اس سماجی عتاب سے تنگ آ کر گیانیشور، ان کے بھائی اور بہن مکتا بائی نے نوجوانی ہی میں اپنے آپ کو زندہ درگور کر لیا اور سمادھی لے لی۔

گیانیشور کی زندگی کے حالات بہت کم معلوم ہیں سوائے اس کے کہ انھوں نے گیتا کی عظیم الشان تفسیر "گیانیشوری" لکھی تھی۔ اوویوں پر مشتمل یہ نظم نہ صرف فلسفیانہ مضامین کے حامل ہے بلکہ شاعرانہ طرز بیان کا بھی ایک اعلٰی نمونہ ہے۔ اس میں علم و دانش کے ساتھ ساتھ جمالیاتی احساس اور چنندہ الفاظ کا ذخیرہ یکجا ملتا ہے۔ مراٹھی نظم میں گیتا پر پہلی اہم تصنیف ہے جو ایک غیر معمولی ذہین نوجوان شاعر کا کارنامہ ہے۔

گیانیشوری ((کتاب)) : سنت گیانیشور کی یہ کتاب تیرہویں صدی کی مراٹھی کا ایک مثالی نمونہ ہے۔ اس کے متعدد نسخے موجود ہیں جن میں بے شمار تصرفات ہوئے ہیں۔ ایکناتھ نے ۱۵۸۴ میں اس کا ایک مستند اور متداول نسخہ مرتب کیا۔ اس تصنیف سے اس زمانے کے سماجی حالات پر بھی روشنی پڑتی ہے۔ اس میں ٹکسال اور سکوں ((۷۔۲۲۔ اور ۲۶)) چمڑے کی کرنسی ((۹، ۴۷۹، ۵۰)) اور پندرہ کیرٹ سونے ((۶۔ ۷۶)) کے حوالے ملتے ہیں اور اس طرح کے بیانات بھی کہ جب کبھی کوئی سرکاری عہدہ دار گاؤں جاتا ہے تو ایک ہل چل مچ جاتی ہے۔ ((۱۸۔ ۷۹۲)) تاجر عام آدمی کو لوٹتے ہیں اور غریبوں کے مکانات کو تباہ کر کے مندر اور دھرم شالے بناتے ہیں ((۱۳۔۲۳۰)) گیانیشور نے اور بھی نظمیں اور بھکتی گیت لکھے ہیں۔ وہ یہ بتاتے ہیں کہ وٹھل ((جو پنڈھر پور میں وشنو کا اوتار ہے اور مراٹھی سنت جس کی پوجا کرتے ہیں)) دراصل کٹرھ لوگوں کا دیوتا ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۲۹

گیت : ہلکے پھلکے اشعار یا مصرعوں پر مبنی نظمیں گیت کہلاتی ہیں۔ گیت اور موسیقی کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ گیت انھیں نظموں کو کہا جانا چاہیے جو گائی جانے کے لیے لکھی جائیں۔ جدید زمانے میں ایسے گیت بھی لکھے گئے جن میں معاصر حالات پر طنزیہ تبصرہ ہوتا ہے ورنہ عام طور پر مذہبی یا سماجی رسوم، تہواروں اور تقریبوں یا پھر ذاتی جذبات کو گیت کا موضوع بنایا جاتاہے۔ گیت بنیادی طور پر حکائی

Oral

صنف سخن ہے۔ دیوندر ستیارتھی اور اظہر علی فاروقی نے انیسویں صدی کے ایسے گیت بھی جمع کیے جنھیں سیاسی موضوعات کے لیے بڑی کامیابی کے ساتھ استعمال کیا گیا۔ اردو میں قومی اور مذہبی موضوعات پر، شادی بیاہ کے موقعوں کے لیے، سیاسی مسائل، واقعات اور عشقیہ مضامین پر مبنی، ہر طرح کے گیت لکھے گئے ہیں۔ عظمت اللہ خاں، میرا جی، مقبول احمد لاری، وامق جون پوری، اسد محمد خاں، ندا فاضلی نے اردو گیت کے لیے نئی بحریں بھی استعمال کیں۔

گیٹے، یوہان وولفگانگ فان ((۱۸۳۲ – ۱۷۴۹))

Goethe, Johann Wolfgang Von

جرمن شاعر، ڈرامہ نگار، ناول نگار، نقاد، صحافی، مصور، تھیٹر آرٹ کا ماہر، ماہر تعلیم، سائنس داں، سیاست داں، نیچرل فلسفی اور دنیائے ادب کی ایک عظیم شخصیت۔ یہ غالباً یوروپ کی وہ آخری شخصیت تھی جس میں عہد نشاۃ ثانیہ کی انتہائی باکمال شخصیتوں کی طرح بے شمار ہنر جمع ہو گئے تھے۔ گیٹے کو اپنے غیر معمولی ذہانت اور تخلیقی صلاحیت کی وجہ سے یوروپ کے دوسرے فن کاروں اور ادیبوں کے مقابلہ میں کہیں بلند مقام حاصل ہے۔ مشہور جرمن شاعر شلر کا بھی اس پر کافی اثر تھا۔ اس ے ساتھ خط و کتابت سے گیٹے کی تنقیدی صلاحیتوں کر اجاگر ہونے میں مدد ملی اور جمالیات کے بار میں اس کے نظریوں کا اس پر کافی اثر پڑا۔ وہ رومانیت کی تحریک
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۳۰

کا ویسے حامی نہیں تھا۔ لیکن اسے ان کی یہ بات بہت پسند تھی کہ رومانی شعرا دوسری زبانوں کے ادب کی قدر کرنے اور ان سے استفادہ کے قابل تھے۔ گیٹے کو ساری عمر فلسفیانہ اور سائنٹفک علوم اور ان کے مطالعہ سے بڑی دلچسپی رہی۔ اس نے رنگوں کے نظریہ کو وسعت دی اور نباتیات اور حیوانیات پر بھی لکھا۔ آخر عمر تک اس کی تخلیقی صلاحیتیں عروج پر رہیں۔ اس نے اپنے مشہور عالم ڈرامے فاؤسٹ کا جس کا پہلا حصہ ۱۸۰۸ میں لکھا تھا، دوسرا حصہ ۱۸۳۲ میں مکمل کیا۔

بے شمار غنائی نظمیں

Lyrics

کئی اسالیب میں اور مختلف مسائل پر لکھیں۔ ناولوں میں بچوں کے لیے قصہ کہانیوں سے لے کر شاعرانہ اور رمزیاتی ناول تک لکھے۔ ڈرامے تاریخی، سیاسی، نفسیانی غرض کہ ہر قسم کے موضوع پر ہیں۔ نثر نگاری میں بلینک ورس سے لے کر، دنیا کا عظیم ڈرامہ فاؤسٹ اس کی تخلیقی صلاحیتوں کا مظہر ہے۔ اس کی کل تصنیفات ۱۴۰ جلدوں میں شائع ہوئی ہیں۔

اس نے اسی سال کی عمر پائی۔ آخر عمر تک اس کا دماغ محتمندانہ کام کرتا رہا۔ وہ ہمیشہ غم و محبت کے منجدھار کو پار کرنے کے لیے تیار رہتا۔ جذبات اتنے گہرے کہ آدمی کو جڑ و بنیاد سے ہلا دیں۔ علم اس قدر وسیع اور ہمہ گیر کہ مافوق الفطرت معلوم ہوتا ہے۔ اس نے اپنے اطراف نظم و ضبط کی زندگی کا دائرہ کھینچ لیا تھا تا کہ نراجیت کا شکار نہ ہونے پائے لیکن اسی کے اندر اس نے ایسی دلکش نطمیں لکھیں جن میں پیار، محبت، زندگی اور رموزِ حیات اس طرح ڈھل کر نکلتے ہیں کہ انسان انھیں دیکھتا رہ جائے۔

گیٹے کی سوانح عمری سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے بچپن کی زندگی کافی خوش حال اور پُرمسرت تھی۔ ۱۷۶۵ میں گیٹے قانون کی تعلیم کے لیے لیپزگ گیا۔ وہاں بہت زیادہ بیمار ہو گیا اور بہت دنوں تک آرام کرنا پڑا۔ لیکن
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۳۱

قانون کے ساتھ اس نے آرٹ اور موسیقی کی بھی تعلیم حاصل کی۔ یہیں غنائی نظمیں یا گیت لکھنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس کے سب سے پہلے گیت، جن کی موسیقی بھی مرتب ہوئی تھی ۱۷۶۹ میں شائع ہوئے۔ ۱۷۷۰-۷۱ میں اس نے اسٹراسبورگ میں اپنی قانون کی تعلیم مکمل کی۔ یہیں اسے شیکسپیئر، جرمنی کی عہد وسطیٰ کی تاریخ اور فوک شاعری سے بے حد دلچسپی ہو گئی۔ مشہور فرانسیسی مفکر روسو اور فلسفی اسپینوزا

Spinoza

سے متاثر ہوا اور یہ اثر تاحیات باقی رہا۔ اس نے تصوف

Mysticism

اور نیچر اور اس کے بدلتے ہوئے روپ سے دلچسپی لینی شروع کی۔ اس زمانے میں اس نے پودوں اور جانوروں کا مطالعہ شروع کیا اور علم اشکال اعضا

Morphology

میں تحقیقات شروع کی۔

ابتدائی دور میں وہ

Sturnand Drany

تحریک سے متاثر ہوا اور ایک ڈرامہ

Gotzvon Berlichingen

اور ایک ناول "نوجوان ورتھر کے غموں کی داستان" لکھا۔ یہ ناول اس وقت لکھا گیا جب وہ شالوٹ کی محبت میں مبتلا تھا اور اس کی بے اعتنائی سے خودکشی کے قریب پہنچ گیا تھا۔ ان دونوں کتابوں سے وہ بہت مشہور ہو گیا اور ان کے ترجمے کئی زبانوں میں ہوئے۔

۱۷۷۵ میں ویمر کے ڈیوک نے اسے اپنے یہاں بلایا اور دس سال تک وہ اس کے یہاں وزیر رہا۔ اس کے بعد وہ ویمر کے تھیٹر اور سائنٹفک اداروں کا ڈائرکٹر رہا۔ ۱۷۸۶ میں گیٹے اٹلی گیا۔ وہاں کلاسیکی فنون نے اسے بے حد متاثر کیا۔ ان ہی کے زیر اثر اس نے کئی تاریخی ڈرامے لکھے۔ ان میں سے ایک پر بیتھون نے موسیقی بھی ترتیب دی ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۳۲

گیٹے اپنی جوانی سے بڑھاپے تک دو عظیم تصنیفوں میں مصروف رہا۔ ان میں سے ایک ناول "ولیم میسٹر کی کار آموزی" ہے جو ۱۷۹۶ میں لکھا گیا۔ اس کا آخری حصہ ۱۸۲۹ میں شائع ہوا۔ یہ گویا جرمنی میں ناول نگاری کا سنگ میل ہے۔ بعد میں اسی کے نمونہ پر دوسرے ناول لکھے گئے۔ دوسرا عظیم کارنامہ منظوم ڈرامہ "فاؤسٹ" ہے۔ اس کا پہلا حصہ ۱۸۰۸ میں اور آخری حصہ اس کی موت کے بعد شائع ہوا۔ یہ دنیائے ادب میں فلسفہ اور شاعری کا عظیم ترین کارنامہ تسلیم کیا جاتا ہے۔

گیٹے نہ صرف جرمن، فرانسیسی، اطالوی، لاطینی اور یونانی زبانوں سے واقف تھا اور اس نے دیدرو

Didero

والٹیر، چیلینی

Cellini

اور بائرن کے ترجمے کیے تھے بلکہ اسے مشرقی زبانوں اور مشرقی فلسفے سے خاص طور پر لگاؤ ہونے کی وجہ سے وہ ہندو فلسفہ اور فارسی شاعری کی طرف راغب ہوا۔ اس کی تصنیف "دیوان" میں حافظ شیرازی کے کلام کی ایک جھلک نمایاں ہے۔

۱۸۳۲ میں گیٹے کا انتقال ہوا اور وہ ویمر میں شلر کے نزد دفن ہوا۔

لارکن، فلپ ((آرتھر)) ((۱۹۸۵ – ۱۹۲۲))

Larkin, Philip

برطانوی شاعر، ناول نگار اور انشا پرداز۔ یہ کاونٹری میں پیدا ہوئے اور تعلیم پہلے مقامی گرامر اسکول میں پائی اور سینٹ جان کالج آکسفورڈ سے گریجویٹ ہوئے۔ اس کے بعد پہلے ویلنگٹن اور پھر لیسٹر، بلفاسٹ اور آخر میں بل کی یونیورسٹیوں میں لائبریرین کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔

ان کے دو ناول "جل" اور "اے گرل ان سنٹر" ۱۹۴۶ اور ۱۹۴۷ میں شائع ہوئے اور شروع کی نظموں کا مجموعہ ۱۹۴۵ میں "دی نارتھ شپ" کے نام سے شائع ہوا۔ جس میں ایٹس کی شروع کی شاعری سے وہ متاثر نظر آتے
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۳۳

مگر اس میں پرجوش فصاحت نظر آتی ہے۔ ان کی شاعرانہ خوبیوں کا مزید اظہار "پوتمس" کی اشاعت سے ۱۹۵۱ میں ہوا اور اس کے بعد ۱۹۵۵ میں "دی لیس ڈلیسویڈ" نامی نظم نے لارکن کے فن کو عوام کے سامنے پیش کیا۔ پیٹر لیوی نے ان کی ۸۵ نظموں کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ "وھٹ سن ویڈنگ" اور "ہائی ونڈوز" نامی مجموعوں کی ۱۹۶۴ میں اشاعت کے بعد لارکن کا شمار معتبر شاعروں میں کیا جانے لگا ہے۔ ان کی نظموں میں زبان و بیان کی خوبیوں کے ساتھ اس زمانہ کے انگلینڈ کی جذباتی زندگی کی الجھنوں کا ذکر خوش اسلوبی سے ملتا ہے۔ ان کی شاندار نظم "وھٹ سن ویڈنگ" میں ہل سے لندن تک کے ویل کے سفر کا حال بڑے اچھے ڈھنگ سے بیان کیا گیا ہے۔ "ہائی ونڈوز" مین ان کی دو قابلِ ذکر نظمیں "اولڈ فولس" اور "دی بلڈنگ" میں ضعیفی، بیماری اور موت کا تذکرہ بڑے واضح اور سنبھلے ہوئے انداز میں کیا گیا ہے۔ لیکن اینتھونی تھویٹ نے ۱۹۸۸ میں ان کے مجموعہ شاعری "دی کلکٹڈ پوئمس" کو جس طرح مرتب کر کے پیش کیا اس کو قارئین نے پسند نہیں کیا۔

۱۹۶۱ اور ۱۹۷۱ کے درمیان انھوں نے "ڈیلی ٹیلی گراف" میں جاز کے ریکارڈوں پر جو تبصرے لکھے ان کا مجموعہ "آل وھاٹ جاز" کے نام سے شائع ہوا جس کے دیباچہ میں موجودہ رحجانات پر ویسی ہی نکتہ چینی کی گئی جیسی انھوں نے اپنی مرتبہ "دی آکسفورڈ بک آف ٹونئیتھ سنچری انگلش ورس" شائع شدہ ۱۹۷۳ میں کی تھی۔ ۱۹۸۳ میں ان کے منتخب مضامین اور تبصروں کا مجمودہ "ریکوائرڈ رائٹنگ" کے نام سے شائع ہوا جس میں طنز و مزاح پایا جاتا ہے۔ ۱۹۹۲ میں اینتھونی تھویٹ نے "کلکٹڈ لیٹرس" شائع کیے جس میں ان کی شخصیت کے بارے میں کچھ زیادہ قابلِ تعریف باتیں نہیں کہی گئی ہیں۔ یہ خطوط ۱۹۴۰ اے ۱۹۸۵ کے درمیانی عرصہ میں لکھ گئے تھے۔
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۳۴

لارنس، ڈیوڈ ہربرٹ ((۱۹۳۰ – ۱۸۸۵))

Lawrence, David Herbert

لارنس انگریزی کا مشہور ادیب اور ناول نگار ہے۔ وہ اپنی تصنیفات کی وجہ سے بہت بدنام رہا ہے۔ مگرنوجوانوں میں کافی مقبول بھی تھا۔ اس نے پہلے مرتبہ جنسی تعلقات کو اس بے باکی سے پیش کیا تھا کہ انگلستان کا سماج جو عہد وکٹوریہ کی سخت پابند وضع، تہذیب اور مہذب دور سے گزر رہا تھا، اِن تحریروں کو قبول نہ کر سکا۔

لارنس ناٹنگھم کے ایک کان کن کا لڑکا تھا۔ بچپن سے بہت کمزور تھا۔ لیکن ماں نے اس کی تعلیم پر خاص توجہ کی۔ شروع میں اس نے کلرکی اور پھر مدرسی کی۔ ۱۹۱۲ میں وہ ایک کاتون فریڈ فان رشٹوفن کے ساتھ اٹلی گیا۔ دو سال بعد جب فریڈ، کی اپنے پہلے شوہر سے طلاق ہو گئی تو پھر دونوں نے شادی کر لی۔ پہلی جنگ عظیم کے وقت وہ انگلستان واپس آ گیا لیکن خرابی صحت کی وجہ سے ۱۹۱۹ میں پھر یوروپ واپس چلا گیا۔

لارنس نے شروع میں شاعری کی لیکن شہرت اسے اپنے ناولوں سے ملی۔ ۱۹۱۱ سے ۱۹۲۱ تک اس نے چار ناول لکھے جو بے حد مقبول اور مشہور ہوئے۔ یہ "وہائٹ پی کاک"

White Peacock

"سنس اینڈ لورز"

Sons and Lovers

"رین بو"

Rainbow

اور "ویمن ان لو"

Women in Love

ہیں۔ ان تمام ناولوں میں مردوں اور عورتوں اور ان کے جنسی اور سماجی تعلقات سے بحث کی گئی ہے۔ لیکن جس ناول نے ساری دنیا میں تہلکہ مچا دیا وہ اس کا ناول "لیڈی چیٹرلیزلور

Lady Chaterleys’ Lover

ہے۔ کافی عرصہ تک اس ناول پر برطانیہ اور امریکا میں پابندی رہی۔ اس ناول میں ایک اعلٰی خاندان کی بیاہی عورت کے اس کے اپنے ملازم کے ساتھ عشق کی داستان بیان کی گئی ہے جس میں جنسی تعلق کا
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۳۵

بھی تفصیل سے ذکر ہے۔ برطانوی سماج کے لیے نہ صرف جنسی تفصیلات ناقابل قبول تھیں بلکہ ایک اعلٰی سوسائٹی کی عورت کا جس کا شوہر جنسی طور پر مفلوج تھا ایک ادنٰی ملازم سے تعلق ناقابل برداشت تھا۔

لارنس میکسیکو اور جنوب مغربی علاقے میں بھی گیا تھا اور اس کے بارے میں بھی ناول اور سفر کے تجربات لکھے ہیں۔ اس کے ناول "پلومڈ سرپینٹ"

Plumed Serpent

اور "مارننگ ان میکسکو" اسی کے تعلق سے ہیں۔ لارنس دق کا مریض تھا اور ساری عمر اس کا مقابلہ کرتا رہا۔ آخر کار اسی مرض میں فرانس میں انتقال کر گیا۔ پہلے دور میں ان کی تصنیفات کے کئی اڈیشن نکل چکے ہیں اور ان کی مقبولیت برابر بڑھتی رہی ہے۔ اس کی تمام تصنیفات ۲۲ جلدوں میں چھپی ہیں جن میں ناولوں، نظموں وغیرہ کے علاوہ اس کے خطوط اور اس کی بیوی کی یادیں بھی شامل ہیں۔ ایڈورڈنہلس

E. Nehls

نے اس کی مفصل سوانح عمری تین جلدوں ((۱۹۵۷ – ۵۹)) میں مرتب کی ہے۔ اس کے علاوہ اس پر اور اس کے کام پر بے شمار کتابیں نکلی ہیں۔

لالہ، سری رام : دیکھیے سری رام، لالہ۔

لالہ سری رام دہلوی ((۱۹۳۶ – ۱۸۷۵)) : پیارے لال آشوب کے بیٹے، اکبر کے وزیر راجہ ٹوڈرمل کے خاندان سے تھے۔ ان کے اجداد سلاطین مغلیہ کے عہد میں معزز عہدوں پر فائز رہ چکے تھے۔ سری رام کی پیدائش دہلی میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم بھی وہیں پائی پھر اپنے والد کے ہمرا لاہور چلے گئے۔ وہاں ایم۔ اے۔ کیا پھر منصفی کا امتحان پاس کر کے منصف ہو گئے۔ لاہور اور امرتسر میں چند سال تک اس عہدہ پر مامور رہے۔ بیماری کے سبب قبل از وقت ملازمت سے استعفیٰ دے دیا۔ باقی عمر علمی مشاغل میں صرف کی۔
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۳۶

لالہ سری رام نہایت ذہین، قابل اور خوش گفتار شخص تھے۔ ایک بڑی لائبریری گھر میں قائم کر رکھی تھی جس میں نادر علمی کتابوں، مرقعوں اور بالخصوص دیوانوں کا بڑا ذخیرہ تھا۔ سری رام کی ادبی شہرت ان کی تالیف تذکرہ ہزار داستان یعنی "خمخانہ جاوید" کی بدولت ہے۔ اس کی چار ضغیم جلدیں ان کے سامنے ہی چھپ گئی تھیں۔ چار جلدیں باقی رہ گئیں۔

لانگ فیلو، ہنری ویڈس ورتھ ((1882 – 1807))

Longfellow, Henry Wadsworth

امریکی شاعر ہے۔ اپنی سادہ جذباتی اور اخلاقی شاعری کے لیے مشہور ہے۔ اپنے زمانے میں اس کی بڑی قدر ہوئی لیکن موجودہ دور کے نقاد اس کے کام میں کوئی خاص خوبی نہیں پاتے۔ یہ پہلا امریکی شاعر تھا جس جس مجسمہ ویسٹ منسٹر ایبے میں دیگر عظیم انگریزی شاعروں کے مجسموں کے ساتھ نصب کیا گیا تھا۔

لانگ فیلو ۱۸۰۷ میں امریکا کے ایک شہر پورٹ لینڈ میں پیدا ہوا۔باوڈائن یونیورسٹی سے ڈگری لی اور کئی تک وہاں پڑھتا رہا۔ ۱۸۳۶ – ۱۸۵۶ تک وہ امریکا کی مشہور ہاورڈ یونیورسٹی میں جدید زبانوں کا پروفیسر رہا۔ پہلی بیوی کے انتقال کے بعد وہ یوروپ گیا۔ وہاں اس کی ملاقات فرانسس ایپلٹن سے ہوئی اور ۱۸۴۳ میں دونوں نے شادی کر لی۔ ان کے رومانی ناول ہائی پیرین

Hyperion

کی ہیروئن اسی پر مبنی ہے۔ لانگ فیلو کی کئی رومانی اور بیانیہ نظمیں کافی مشہور ہوئیں۔ ان کے علاوہ اس نے ایک کتاب "یوروپ کے شاعر اور شاعری" شائع کی اور مشہور اطالوی شاعر ڈان ٹے کی ڈوائن کامیڈی

Divine Comedy

کا بھی انگریزی میں ترجمہ کیا۔ لانگ فیلو کی کئی سوانح عمریاں بھی شائع ہوئی ہیں جن میں ایک اس کے بھائی سیمویل لانگ فیلو کی لکھی ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ اس کا جرنل، خطوط اور نظموں کے مجموعے بھی شائع ہوئے ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۳۷

لاول، رسل جیمس ((۱۸۹۱ – ۱۸۱۹))

Lowell, Russel James

رسل کیمبرج کے امیر گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ہارورڈ یونیورسٹی کے گریجویٹ تھے اور قانون کی ڈگری حاصل کی تھی۔ لانگ فیلو کی سبکدوشی پر وہ ہارورڈ میں جدید زبانوں کے پروفیسر مقرر ہوئے۔ وہ اٹلانٹک منتھلی کے مدیر بھی رہے جو بوسٹن سے نکلتا تھا۔ وہ تقریباً بیس کتابوں کے مصنف تھے۔

لاونی : مراٹھی کلاسیکی شعری سرمائے کا ایک بڑا حصہ شاہیری کاویہ کہلاتا ہے۔ اس میں زیادہ تر مدح پر مشتمل "پوواڈی" اور عشقیہ موضوعات کی حامل "لاونیاں" شامل ہیں۔ ان اصناف کے تخلیق کاروں کو مراٹھی میں شاہیر کہا جاتا ہے۔ ((پوواڈوں کی تفصیل کے لیے ملاحظٖہ کیجیے "پوواڈا"))۔ شاہیر اور شاہیری دونوں شاعر اور شاعری کے بدلے ہوئے روپ ہیں اور مراٹھی زبان و تہذیب پر فارسی کے اثر کی نشانی دہی کرتے ہیں۔ موجودہ دور میں شاہیر کی حیثیت عوامی فنکار کی ہو گئی ہے۔

"لاونی" شرنگاررس سے مملو عموامی صنف شاعری ہے اور مہاراشٹر کے لوک گیتوں میں سب سے مقبول اور مشہور ہے۔ اکثر لوک گیتوں کی طرح لاونی میں بھی بار بار دہرایا جانے والا مصرع یا ٹکڑا ہوتا ہے اور اس کی تال بھی عوامی ہوتی ہے۔ ابتدا میں یہ صنف عوامی فنکاروں یعنی گوندھلیوں اور بھاٹوں کے توسط سے عوامی تفریح کا ذریعہ بنی رہی جو ڈھولک، تنبورے اور تنتنے کی موسیقی سے سجا کر سوانگ اور رقص کے ساتھ انھیں پیش کیا کرتے تھے۔ ان کی لاونی میں عموماً ہجر کی ماری بیوی یا عشق میں گھائل عورت کے جذبات بیان ہوتے تھے اور مجاز کے پردے میں حقیقت کی عکاسی بھی ہوتی تھی۔ ایسی لاونیوں کو جن میں عشق مجازی کے توسط سے ویدانت اور بھکتی کی تعلیم دی گئی ہو، بھیدک لاونیاں کہلاتی ہیں۔
 
Top