شمشاد
لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۱8
میں لینن سے پہلی ملاقات کے بعد سے آخری دن تک اس کا اعتماد حاصل رہا۔ ۱۹۰۱ میں شہر بدر کیا گیا۔ ۱۹۰۲ میں اکادمی کا ممبر چنا گیا جسے زار نے منسوخ کر دیا۔
اسی زمانے میں ڈرامے کی طرف توجہ کی اور دو ڈرامے "می شانی" اور "پاتال میں" اسٹیج کیے گئے اور آج تک ہوتے ہیں۔ ۱۹۰۶ میں قانونی شکنجے سے بچنے کے لیے غیر قانونی سفر کیا اور امریکا چلا گیا۔ ۱۹۱۳ میں شاہی معافی اور روس واپسی کی اجازت ملی۔ یوروپ اور امریکا کے سفر کے تاثرات نے اس کی تصانیف کو وسعت اور جلا تو دی، لیکن رفتہ رفتہ تاثیر کم ہوتی گئی۔ انقلاب اور خانہ جنگی کے بعد ادبی تنظیمی مصروفیتوں اور فوری تقاضوں کی تحریروں نے کسی بڑی تصنیف کی گنجائش نہیں رکھی۔ ۱۹۲۱ میں اس پر دوبارہ تب دق کا حملہ ہوا جس کے سبب تین سال جرمنی اور چیکوسلاواکیہ میں بسر کرنے پڑے۔
فن میں "اشتراکی حقیقت پسندی" کا نعرہ اور اصول اسی نے عام کیا اور اپنی تصانیف سے اس کا نمونہ دیا۔
افسانے، ناول، مضامین، طنزیہ نثر پارے، نثری نظمیں، ڈرامے، سوانح عمری، ہدایات، تقاریر، تنقید، پمفلٹ سبھی کچھ لکھے ہیں۔ ناول "ماں" ((۱۹۰۶)) کو خاص مقبولیت ملی۔
گوکھلے، اروند وشنو (۱۹۱۹ – ۱۹۹۲)) : مراٹھی نوکتھا (( نئی کہانی)) کے ایک اہم ستون، اروند گوکھلے کا جنم ضلع سانگلی کے ایک گاؤں اسلام پور میں ہوا۔ بی۔ ایس۔ سی۔ تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد انھوں نے وسکانسن یونیورسٹی، امریکہ سے ایم۔ ایس۔ کی ڈگری حاصل کی اور ڈاکٹری کا پیشہ اپنایا۔
اروند گوکھلے کی پہلی کہانی "ہیر کٹنگ سیلون" پرشورام بھاوو کالج، سانگلی کے رسالے میں ۱۹۳۵ میں شائع ہوئی۔ اس کے بعد وہ مسلسل لکھتے رہے اور تین سو سے زائد کہانیاں لکھیں۔ انھوں نے جس کہانی کے ساتھ نئی کہانی
صفحہ ۱8
میں لینن سے پہلی ملاقات کے بعد سے آخری دن تک اس کا اعتماد حاصل رہا۔ ۱۹۰۱ میں شہر بدر کیا گیا۔ ۱۹۰۲ میں اکادمی کا ممبر چنا گیا جسے زار نے منسوخ کر دیا۔
اسی زمانے میں ڈرامے کی طرف توجہ کی اور دو ڈرامے "می شانی" اور "پاتال میں" اسٹیج کیے گئے اور آج تک ہوتے ہیں۔ ۱۹۰۶ میں قانونی شکنجے سے بچنے کے لیے غیر قانونی سفر کیا اور امریکا چلا گیا۔ ۱۹۱۳ میں شاہی معافی اور روس واپسی کی اجازت ملی۔ یوروپ اور امریکا کے سفر کے تاثرات نے اس کی تصانیف کو وسعت اور جلا تو دی، لیکن رفتہ رفتہ تاثیر کم ہوتی گئی۔ انقلاب اور خانہ جنگی کے بعد ادبی تنظیمی مصروفیتوں اور فوری تقاضوں کی تحریروں نے کسی بڑی تصنیف کی گنجائش نہیں رکھی۔ ۱۹۲۱ میں اس پر دوبارہ تب دق کا حملہ ہوا جس کے سبب تین سال جرمنی اور چیکوسلاواکیہ میں بسر کرنے پڑے۔
فن میں "اشتراکی حقیقت پسندی" کا نعرہ اور اصول اسی نے عام کیا اور اپنی تصانیف سے اس کا نمونہ دیا۔
افسانے، ناول، مضامین، طنزیہ نثر پارے، نثری نظمیں، ڈرامے، سوانح عمری، ہدایات، تقاریر، تنقید، پمفلٹ سبھی کچھ لکھے ہیں۔ ناول "ماں" ((۱۹۰۶)) کو خاص مقبولیت ملی۔
گوکھلے، اروند وشنو (۱۹۱۹ – ۱۹۹۲)) : مراٹھی نوکتھا (( نئی کہانی)) کے ایک اہم ستون، اروند گوکھلے کا جنم ضلع سانگلی کے ایک گاؤں اسلام پور میں ہوا۔ بی۔ ایس۔ سی۔ تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد انھوں نے وسکانسن یونیورسٹی، امریکہ سے ایم۔ ایس۔ کی ڈگری حاصل کی اور ڈاکٹری کا پیشہ اپنایا۔
اروند گوکھلے کی پہلی کہانی "ہیر کٹنگ سیلون" پرشورام بھاوو کالج، سانگلی کے رسالے میں ۱۹۳۵ میں شائع ہوئی۔ اس کے بعد وہ مسلسل لکھتے رہے اور تین سو سے زائد کہانیاں لکھیں۔ انھوں نے جس کہانی کے ساتھ نئی کہانی