اردو انسائیکلوپیڈیا

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۱۲۸

کے لیے فارسی میں "اتالیق ہندی" لکھی۔ اس میں اخلاقی حکایات ہیں۔ ان کی مشہور ترین کتاب "بیتال پچیسی" کا اردو ترجمہ ہے۔ ولا نے شیر شاہ سوری کے عہد کی تاریخ "تاریخ شیر شاہی" اور "اقبال نامہ جہانگیری" کا بھی ترجمہ کیا۔

معراج نامہ : اس عنوان کے تحت بعض دکنی شاعروں نے ایسی نظمیں لکھی ہیں جن میں معراج کا واقعہ بیان کیا گیا ہے اور اس کو استعاروں کے ذریعے سے سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ ہاشمی بیجاپوری، سید بلاقی، معظم مختار وغیرہ نے مشہور معراج نامے لکھے۔

معزی نیشا پوری، ابو عبد اللہ محمد بن عبد الملک ((م۔ ۱۱۲۶)) : محمد بن عبد الملک نام، معزی تخلص، نیشا پور میں پیدا ہوئے۔ باپ کا تخلص برہانی تھا۔ جو الپ ارسلان کے دربار کا شاعر تھا۔ الپ ارسلان کے بعد اس کا بیٹا ملک شاہ تخت نشین ہوا۔ برہانی نے مرنے سے قبل بادشاہ کے دربار میں اپنے لڑکے کی سفارش کی۔ اپنی بدیہہ گوئی کی بنا پر اس نے بہت جلد بلند مراتب حاصل کیے اور گراں قدر انعامات سے سرفراز ہوتا رہا اور امیر کا خطاب پایا۔ ملک شاہ کے انتقال کے بعد وہ سلطان سنجر کے دربار کا ملک الشعرا بنا۔ اس سے اس کی عزت، شہرت اور دولت میں کئی گنا اضافہ ہوا۔ وہ بادشاہ کی طرف سے روم میں سفیر بنا کر بھیجا گیا۔ اس نے اپنے پیشرووں کی تقلید میں قصائد لکھے اور ہر صنف میں طبع آزمائی کی۔ صاحب "لباب الالباب" نے لکھا ہے کہ شاعروں میں تین شعرا نے دولت اور قبولیت عامہ حاصل کی۔ عہد سامانیان میں رودکی، عہد محمود غزنوی میں عنصری اور عہد سلطان ملک شاہ میں معزی۔ اس نے ۱۱۲۶ میں سنجر کے تیر سے زخمی ہو کر انتقال کیا۔ حکیم سنائی نے اس کی موت پر درد ناک مرثیہ لکھا ہے۔

معشر : دس مصرعوں کے بند کو معشر کہتے ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۱۲۹

معظم : محمد حسین نام تھا۔ حضرت امین الدین علی اعلی کے مرید تھے۔ متعدد مثنویاں لکھیں۔ ان میں شجرۃ الاتقیا اور گلزار چشت نے کافی شہرت پائی۔ مثنویوں میں بزرگان دین کے حالات نظم کیے ہیں۔ اول الذکر میں ان بزرگوں کے حالات ہیں جو ان کے سلسلے سے تعلق رکھتے تھے اور دوسری مثنوی میں چشتیہ سلسلے کے بزرگوں کے حالات بیان کیے ہیں۔ ان سے بعض نئی باتوں کا علم ہوتا ہے۔ معظم نے ایک معراج نامہ بھی لکھا ہے جس کا سنہ تصنیف ۱۶۶۹ ہے۔

مقبول شاہ کرالہ واری ((1820 – 1876)) : مقبول شاہ نام، مقبول تخلص، مقام پیدائش موضع کرالہ واری ((کشمیر))، اس کی محبوب صنف "مثنوی" ہے۔ پہلا شاعر ہے جس نے مزاحیہ، طنزیہ اور ہجویہ مثنویوں سے کشمیری ادب کو مالا مال کیا۔ اس کی سب سے مقبول مثنوی "گلریز" ہے جو فارسی سے ماخوذ ہے۔ ۱۹۳۰ میں پہلی بار شائع ہوئی۔ اس مثنوی میں "عجیب ملک" اور "نوش لب" کی داستان عشق بیان کی گئی ہے۔ دو ہزار اشعار سے زیادہ اشعار پر مشتمل یہ مثنوی عشق و محبت اور فراق کے جذبات سے معمور ہے۔ مقبول نے عشقیہ موضوعات سے ہٹ کر کشمیر اور کشمیری کسانوں کو بھی اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے۔ پیر نامہ، بہار نامہ، منصور نامہ اور گریس نامہ اس موضوع پر قابل ذکر کتابیں ہیں۔ ان کا لہجہ تلخ ہے۔ بیشتر کلام میں بالواسطہ طور پر اپنے وطن کشمیر کی نعمتوں سے اپنی محرومی کا اظہار ہے۔ شاعر نے زیادہ عمر نہ پائی۔ عین شباب میں انتقال کیا۔

معلقّات : مؤرخین ادب میں اس بات پر خاصا اختلاف ہے کہ معلقات کن قصیدوں کو کہتے ہیں۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ وہ لمبے قصیدے ہیں جنھیں عطبوں نے اتنا پسند کیا کہ انھیں لکھ کر خانہ کعبہ کی دیوار پر لٹکا دیا تھا۔ بعض دوسرے کہتے ہیں کہ یہ لٹکائے نہین گئے تھے بلکہ حماد راویہ نے جب یہ دیکھا کہ لوگوں کو شعر و شاعری سے دلچسپی
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۱۳۰

کم ہونے لگی ہے تو اس نے یہ وقصیدے جمع کیے اور لوگوں کو سنایا اور کہا یہی جاہلی زمانے کے مشہور قصیدے ہیں۔ اس لیے ان کا نام مشہور قصیدے رکھا گیا ہے۔ لیکن اکثر مؤرخین، نقاد اور راویوں کا اتفاق ہے کہ یہ قصیدے خانہ کعبہ پر لٹکائے گئے تھے۔ اسی لیے انھیں معلقات یعنی لٹکائے ہوئے قصیدے کہتے ہیں۔ خانہ کعبہ کی دیوار پر اہم اعلانات اور دستاویز کا لٹکایا جانا ایک تاریخی حقیقت ہے اور عصر جاہلی سے اس کے ثبوت ملتے ہیں۔ بعد میں بھی یہ روایت قائم رہی۔ ہارون رشید نے اپنے لڑکے امین کی خلافت کا اعلان نامہ بھی خانہ کعبہ کی دیوار پر آویزاں کر لیا تھا۔ معلقات کی زبان اور اسلوب خود اس کے شاہد ہیں کہ اتنا پختہ کلام بعد کے کسی شاعر کے بس کا روگ نہیں۔

اصحاب معلقات کی تعداد پر بھی علما میں اختلاف ہے۔ بعض کا خیال ہے کہ ان کی تعداد سات ہے۔ اور بعض کہتے ہیں کہ ان کی تعداد دس ہے مگر متفقہ فیصلہ یہ ہے کہ وہ شعرا جن کے قصیدے خانہ کعبہ میں لٹکائے گئے تھے ان کی تعداد سات ہے ویسے سب طویل اور مشہور قصیدے کہنے والوں کو شامل کر لیا جائے تو یہ تعداد دس ہو جاتی ہے۔ جن کے نام یہ ہیں : ((۱)) امرا و القیس، ((۲)) زبیر بن ابی سلمی، ((۳)) النابغہ الذبیانی، ((۴)) لبید بن ربیعہ، ((۵)) عنترہ بن شداد العبسی، ((۶)) طرفہ بن العبد، ((۷)) عمرو بن کلثوم، ((۸)) الحارث بن حلزہ الیشکری، ((۹)) الاعشی قیس اور ((۱۰)) عروہ بن الورد۔

مقیمی بیجاپوری ((زمانہ سترہویں صدی)) : مرزا محمد مقیم فارسی کے ساتھ اردو میں بھی شاعری کرتے تھے۔ انھوں نے تمام اصناف سخن میں طبع آزمائی کی ہے۔ اس کا کلیات کتب خانہ آصفیہ میں محفوظ ہے۔ محمد عادل شاہ کی مدح میں کئی قصائد کہے۔ اس کے دور یں چندر بدن مہیار کے عشق کی داستان عام تھی۔ مقیمی نے اس داستان کو
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۱۳۱

مثنوی کی شکل میں پیش کیا ہے۔ اس مثنوی کا زمانہ تصنیف ۱۶۴۰ ہے۔ بیجاپور کی یہ پہلی عشقیہ طبع زاد مثنوی ہے۔ ورنہ اس سے پہلے جو مثنویاں لکھی گئیں ان کا موضوع مذہب اور تصوف ہے۔ اس میں محی الدین مہیار ((ایک مسلمان سوداگر کا لڑکا)) اور چندر بدن ((ایک ہندو لڑکی)) کے عشق کی داستان بیان کی گئی ہے۔ کدری ضلع کڑپہ ((آندھرا پردیش)) میں ان کی قبریں اب بھی موجود ہیں۔ ایک ہی قبر پر دو تعویذ بنے ہیں۔ مقیمی نے اپنی مثنوی میں ذکر کیا ہے کہ غواصی کی مثنوی "سیف الملوک و بدیع الجمال" کے مطالعہ کے بعد انھیں اس قصہ کو نظم کرنے کا خیال آیا۔ مقیمی کے بعد متعدد شاعروں نے فارسی اور اردو میں اس قصہ کو اپنے اپنے طور پر نظم کیا۔ فارسی میں حکیم محمد الدین آتش، عشق اور قاسم علی نے اور اردو میں بلبل، محمد باقر آگاہ، عبد القادر شاکر وغیرہ کے منظومے مشہور ہیں۔

مکاتیب : مکتوب یا خط ترسیل و ابلاغ کا ایک ذریعہ ہے۔ اس کی ابتدا ماقبل تاریخ سے بتائی جاتی ہے۔ اس لیے تحریر کو خط بھی کہا جاتا ہے جس نے بعد میں اپنے معنوں میں قدرے تبدیلی پیدا کی۔ یعنی یہ ایسی تحریر تھی جو اپنا مافی الضمیر ظاہر کرنے کے لیے کسی دوسرے فرد کو بھیجی گئی ہو۔ گفتگو اور تحریر میں ترسیل و ابلاغ کے لحاظ سے بڑا فرق ہوتا ہے۔ گفتگو میں بولنے والا، آواز، لب و لہضہ اور چشم و ابرو کے اشاروں سے اپنی بات کو موثر بناتا ہے جبکہ خط عموماً یہ تاثر نہیں پیدا کر سکتا۔ لیکن جس شخص کو زبان و بیان پر قدرت ہو وہ خط کو اثر آفریں بنانے کی کوشش کرتا ہے۔

خط متعدد اقسام کے ہوتے ہیں۔ نجی، سیاسی، دفتری، کاروباری، علمی، معلوماتی اور ایسے جن کا کوئی بھی مقصد نہ ہو۔ نجی خط دو آدمیوں کے درمیان آپسی معاملہ، ضرورت یا مقصد کے لیے لکھے جاتے ہیں اور ان خطوں میں کوئی
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۱۳۲

تکلف نہیں ہوتا۔ ان کی کیفیت راست گفتگو کی ہوتی ہے۔ عموماً یہ اشاعت کے لیے نہیں ہوتے۔ کبھی کبھی ان خطوط میں عالمانہ اور خطیبانہ انداز بھی آ جاتا ہے۔ مثال کے طور پر ابو الکلام آزاد کے خطوط۔ کچھ کے نزدیک اچھا خط وہی ہو گا جو کسی خاص مقصد یا پیغام کی ترجمانی کرے۔ مکتوب نگار کے جذبات کا مظہر بھی خط ہی ہوتے ہیں۔ اس سے خطوط میں انسانی عناصر کی شمولیت ادب کی عام صفتوں کے مقابلے میں زیادہ حقیقی اور جیتی جاگتی سطح پر نظر آتی ہے اور ہم خط کو خود نوشت سوانح کے طور پر بھی پڑھتے ہیں۔

اردو مکاتیب پر شروع میں فارسی کا رنگ غالب رہا۔ اعجاز خسروی میں امیر خسرو نے جن ہدایات کی نشان دہی کی تھی فارسی مکتوب نگاری انھیں خطوط پر چلتی رہی۔ ابو الفضل نے اپنے خطوں میں مشکل اور پیچیدہ طرط تحریر اپنایا۔ اس کے خطوط سرکاری معاملات سے متعلق اور کاروباری انداز کے تھے۔ انھیں سہل ہونا چاہیے تھا لیکن وہ دقیق ہیں اور اُن کا مطالعہ معمولی پڑھے لکھے کے بس کی بات نہیں۔ القاب و آداب کی طوالت، مشکل الفاظ کا استعمال فارسی خطوط کی عام خصوصیات تھیں۔ اردو خطوط میں بھی یہی طرز رواج پا گئی۔

غالب نے اس روایت سے روگردانی کی اور خط لکھنے کا ایک نیا انداز اپنایا۔ یعنی تحریر میں بات چیت کا ڈھنگ پیدا کیا۔ انھوں نے اپنی زندگی کی الجھنوں کو من و عن مکتوب الیہ کے سامنے رکھا۔ علمی مباحث اٹھائے، اپنے آپ پر بھی تنقید کی اور دوسروں کو بھی تمسخر کا نشانہ بنایا۔ القاب و آداب کا انداز یا تو بالکل سیدھا سادہ رکھا یا سرے سے اڑا دیا۔ غالب کے خطوط نے مکتوب نگاری کو ایک نیا اعتبار بخشا۔ واجد علی شاہ اختر کے خطوط میں بھی گفتگو کا یہی طور اپنایا گیا ہے لیکن ان کی نثر پھیکی ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۱۳۳

سر سید احمد خاں نے بھی اردو میں خطوط لکھے۔ ان کے مقاصد کی نوعیت جداگانہ تھی۔ وہ تکلف اور بے مقصد عبارت آرائی سے گریز اورکم سے کم لفظوں میں اپنا مقصود مدعا بیان کر دیتے تھے۔ ان کے رسالے "تہذیب الاخلاق" اور ان کے خطوط نے بھی نثر کے اسلوب کو بدلنے میں بڑا کام کیا ہے۔ خصوصاً زبان کو سادہ اور مضمون کو جامع بنانے میں ان کا بڑا حصہ ہے۔ ان کے رفقا محسن الملک اور وقار الملک بھی انھی کے نقش قدم پر چلے۔ البتہ حالی اور شبلی کا طرز تحریر بدلا ہوا ہے۔ حالی کی سادگی اور پرکاری، شبلی کے اسلوب کی تازگی ، ندرت اور ایجاز اور بات کو کھل کر نہ کہنے کا انداز منفرد ہے۔ مہدی افادی شبلی کی تحریر کے شائق ہونے کے باوجود خطوط میں اپنا انفرادی اسلوب رکھتے ہیں۔ اردو کے دوسرے بڑے مکتوب نگاروں میں اکبر الہ آبادی، خواجہ حسن نظامی، داغ دہلوی، امیر مینائی، ریاض خیر آبادی، سید ناصر علی اور شوق قدوائی ہیں۔

اکبر الہ آبادی کے خطوط مختصر اور دلچسپ ہوتے ہیں اور ان کے اشعار کی طرح یہ بھی طنز و مزاح کا پہلو لیے ہوتے ہیں۔ اکبر الہ آبادی نے اپنے خطوں میں کبھی اپنے اشعار استعمال نہیں کیے۔ جدید دور میں جن مکتوب نگاروں نے شہرت پائی، ان میں نیاز فتح پوری، سید سلیمان ندوی، عبد الماجد دریا آبادی، رشید احمد صدیقی، مجنوں گورکھپوری، شاد عظیم آبادی، ابو الکلام آزاد اور مولوی عبد الحق ہیں۔

نیاز فتح پوری نے برجستہ، بے تکلف اور بے مقصد خط لکھے مگر وہ بھی ادب لطیف یا انشائیہ کا نمونہ ہیں۔

دوسروں کے یہاں عالمانہ اور ادیبانہ شان پیدا کرنے کی شعوری کوشش ملتی ہے۔ ابو الکلام آزاد کے خطوط "غبار خاطر" کے نام سے شائع ہوئے۔ ان کے مخاطب صدیق مکرم ((صدر یار جنگ شیروانی)) ہیں۔ ان خطوں کا
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۱۳۴

اسلوب الہلال اور البلاغ کے اسلوب سے زیادہ واضح ہے اور ان میں آزاد کی شخصیت کھل کر سامنے آتی ہے۔ تحریر نہایت شگفتہ مگر قدرے تصنع آمیز ہے۔

مولوی عبد الحق نے اپنی زندگی میں کم و بیش ایک لاکھ خطوط لکھے ہونگے۔ زبان کی سادگی اور ادائے مطلب کی بے تکلف کوشش ان کے خطوط کی خصوصیت ہے۔ جن خطوں میں مدعا نگاری اور کاروباری انداز ہوتا ہے وہ بھی ادبی شان رکھتے ہیں۔ بعض خطوط سادگی میں روزمرہ تک پہنچ گئے ہیں۔ یہ وصف ان کی قدرت بیان کا مظہر ہے۔

اقبال اپنے خطوط میں علمی مسائل کو فطری انداز میں روانی کے ساتھ بیان کر دیتے ہیں۔ سیاسی مسائل اور مباحث پر بھی سیدھے سادے انداز میں گفتگو کرتے ہیں۔ عبارت میں کہیں تکلف نظر نہیں آتا۔

مولانا محمد علی جوہر بھی اچھے مکتوب نگار تھے۔ وہ ہر بات کو ذرا تفصیل سے بیان کرنے کے عادی تھے تا کہ بات مکتوب الیہ کے ذہن نشیں ہو جائے۔

"نقوش زنداں" سجاد ظہیر کے خطوط کا مجموعہ ہے جو انھوں نے دورانِ قید اپنی بیوی رضیہ کو لکھے تھے۔ "زیر لب" جاں نثار اختر کو لکھے گئے ان کی بیوی صفیہ کی خطوں کا مجموعہ ہے۔ ایسا ہی ایک ذاتی خطوں کا مجموعہ فیض احمد فیض کا انگریزی میں تھا جو اب اردو میں منتقل ہو چکا ہے۔ سجاد ظہیر کے خطوط میں گھریلو فضا ہے۔ "زیر لب" میں غم فراق کی شدت کا اظہار اور فیض کی تحریر میں والہانہ، شائستہ اور قدرے شاعرانہ انداز ہے۔ ڈاکٹر محمد دین تاثیر کے خطوں کا مجموعہ "عزیز کے نام" سے شائع ہو چکا ہے۔ ان خطوں میں شاگردی اور استادی کا ایک حجاب حائل ہے لیکن تحریر شگفتگی نے ان خطوں کو بوجھل اور ثقیل نہیں بننے دیا۔
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۱۳۵

"گویا دبستان کھل لگیا" میں محمد ردولوی کے خطوط نہایت بے تکلفانہ گھریلو انداز کے ہیں۔ ان میں کسی طرح کی ذہنی الجھن نظر نہیں آتی۔ معلوم یہ ہوتا ہے کہ مکتوب نگار نے بڑے کھلے ذہن کے ساتھ جزئیات پر نظر رکھ کر یہ خط لکھ ہیں۔ اردو کے مکتوباتی ادب میں فراق کے خطوط ((من آنم)) اور منٹو کے خطوط کا بھی ایک خاص مقام ہے۔ بعض ادیبوں نے پیروڈی کا انداز اختیار کیا ہے۔ ایسے خطوں میں محمد خالد اختر کے "مکاتیب خضر" بہت اہمیت کے حامل ہیں۔

مُلا، آنند نرائن ((۱۹۰۱ – ۱۹۹۷)) : کشمیری الاصل برہمن تھے۔ پیدائش اور تربیت لکھنو میں ہوئی۔ والد کا نام جسٹس جگت نرائن تھا۔ ۱۹۲۱ میں کیننگ کالج لکھنؤ سے بے۔ اے۔ کیا۔ پھر ۱۹۲۳ میں لکھنؤ یونیورسٹی سے ایم۔ اے۔ کرنے کے بعد وکالت کے پیشے سے وابستہ ہو گئے۔ ۱۹۵۴ میں وہ الہ آباد ہائی کورٹ کے جج مقرر ہوئے۔ ۱۹۶۸ میں وہ لوک سبھا کے لیے منتخب ہوئے۔ اس کے بعد دو بار راجیہ سبھا کے ممبر بنائے گئے۔

آنند نرائن ملا کی زندگی اردو کی خدمت اور اردو کی ترویج و ترقی کے لیے کوشش اور محنت سے عبارت ہے۔ وہ اردو کے مختلف بڑے اداروں میں اعلٰی عہدوں پر رہے۔ ان کی انجمن ترقی اردو ((ہند)) کی صدارت ((۱۹۶۹ تا ۱۹۸۳)) کے زمانے میں انجمن نے بہت ترقی کی۔ وہ حکومت ہند کے ترقی اردو بورڈ کے نائب صدر رہے۔ اتر پردیش اردو اکادمی کے صدر کی حیثیت سے عرصے تک کام کیا۔ حکومت اتر پردیش کی فخر الدین علی احمد یادگاری کمیٹی برائے ترقی اردو کے بھی وہ بنیاد گزار صدر تھے۔ آنند نرائن ملا کا سیاسی مزاج مہاتما گاندھی اور پنڈت نہرو کے تصورات کے زیر سایہ پروان چڑھا تھا۔ ان کی شاعری میں حب الوطنی اور جذبہ قومی یک جہتی
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۱۳۶

کے ساتھ ایک فکری میلان بھی ہے۔ نظم اور غزل دونوں میں انھوں نے قابلِ قدر کارنامے انجام دیے اور نثر میں بھی بہت کچھ لکھا۔

آنند نرائن ملا کے پانچ مجموعہ کلام شائع ہوئے۔ "جوئے شیر" ((۱۹۴۹))، "کچھ ذرے کچھ تارے" ((۱۹۵۹))، "میری حدیثِ عمرِ گریزاں" ((۱۹۶۳))، "سیاہی کی ایک بوند" ((۱۹۷۳))، "کربِ آگہی"، ((۱۹۷۷))۔ انھیں ۱۹۶۴ میں ساہتیہ اکیڈمی انعام بھی ملا۔ انھوں نے چند طویل نظمیں بھی لکھی ہیں۔ مثلاً "اندھیر نگری میں دیپ جلائیں" اور "اور ایک دن انسان جاگے گا"۔

ملا رموزی، حافظ محمد صدیق ارشاد ((۱۹۵۲ – ۱۸۹۶)) : بھوپال میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم وہیں پائی۔ کانپور سے فاضل الہیات کی سند حاصل کی۔ علم نجوم سے انھیں گہری واقفیت تھی۔ فن حکمت میں بھی دخل تھا اور علم الہندسہ میں بھی مہارت رکھتے تھے۔ نواب حمید اللہ خاں والی بھوپال نے ان کی ادبی خدمات کے لیے وظیفہ بھی جاری کر دیا تھا۔ وہ شاعر بھی تھے۔ مزاح نگار کے طور پر شہرت پائی۔ ان کی تحریروں میں سیاسی واقعات کی طرف اشارے بہت ہیں۔ انھوں نے سیاسی طنزیہ کا ایک خاص انداز اختیار کیا۔ ان کی نثر کو "گلابی اردو" کہا جاتا ہے۔ "گلابی اردو" کے نام سے ان کی پہلی کتاب ۱۹۲۱ میں شائع ہوئی۔ اس اردو کے وہ بانی بھی تھے اور خاتم بھی۔ اس میں بے ساختگی اور روانی سے زیادہ بناوٹ اور آورد کا رنگ ہے۔ ملا طموزی واقعات سے بھی مزاح پیدا کرتے ہیں۔ الفاظ سے بھی اور اسلوب سے بھی۔ ان کا طنز مزاح پر حاوی ہے۔ سنجیدہ شاعری بھی انھوں نے کی ہے۔ ان کی کتابوں میں خاص یہ ہیں : گلابی اردو، عورت ذات، لاٹھی اور بھینس، نکات رموزی، دیوان رموزی۔
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۱۳۷

ملائی پالی نیشین خاندان کی زبانیں : جغرافیائی اعتبار سے ہند یوروپی زبانوں کے بعد اس خاندان کی زبانیں ایک وسیع خطے میں یعنی بحر الکاہل کے جزائر سے لے کر مڈغاسکر تک پھیلی ہوئی ہیں۔ اس کی دو شاخیں ہیں۔ مشرقی اور مغربی۔

مشرقی میں مائیکرونیشین، پالی نیشین اور میلانیشین ہیں، ان میں پالی نیشین ہوائی سے نیوزی لینڈ تک بولی جانے والی زبانوں سے قریبی رشتہ رکھتی ہے جن میں ہوائی تاہی تان اور سماؤن مشہور ہیں۔ سیلانیشین کی نمائندہ زبان فی جی ہے۔

مغربی شاخ میں انڈونیشین زبانیں آتی ہیں جن میں ملائی ((Malay)) سماترا جاوا بورنیو تک پھیلی ہوئی ہے۔ انڈونیشی انڈونیشیا کی سرکاری زبان ہے۔ بری حد تک ملائی زبان ہی سے ماخوذ ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ اس میں سماترا، جاوا، مدور ان کی زبانوں کے دخیل الفاظ ہیں۔ ان کے علاوہ باتک، تگالوگ، بساین، دایک، بالسنی، مکستر زبانیں ہیں جو اس خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔

ملایائی زبان : ملایائی زبان آسٹرونیشین ((Austronesian)) زبان کی ایک شاخ ہے جو جزیرہ نما ملایا، سماترا بورنیو اور اس علاقہ کے کئی اور چھوٹے جزیروں میں استعمال ہوتی ہے۔

ملایائی زبان کی بے شمار بولیاں ہیں۔ ان میں سے جنوبی ملایا کی بولی سب سے اہم ہے اور مستند سمجھی جاتی ہے۔ یہ ملائیشیا میں دوسری زبان کے طور پر استعمال ہوتی ہے۔ یہی زبان جمہوریہ انڈونیشیا کی سرکاری زبان یا "بھاشا انڈونیشیا" بھی ہے۔ اس پر عربی اور سنسکرت کی گہری چھاپ ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۱۳۸

ملایائی زبان کا رسم الخط لاطینی ہے۔ ملائیشیا اور انڈونیشیا میں استعمال ہونے والے رسم الخط میں تھوڑا فرق ہے۔ اس کے علاوہ ملایا اور سماترا کے بعض حصوں میں عربی رسم الخط بھی استعمال ہوتا ہے۔ قدیم زمانے میں اس کے لیے جنوبی ہند کا رسم الخط پلاوی استعمال ہوتا تھا۔ ساتویں صدی عیسوی کے ریکارڈ اسی خط میں ملتے ہیں۔

ملٹن، جان ((۱۶۷۴ – ۱۶۰۸ Milton, John,)) : انگریزی کا ایک عظیم شاعر جس کے کلام کو نہ صرف انگریزی ادب میں بلکہ دنیا کے ادب میں اہم مقام حاصل ہے۔ اس کی بعض نظمیں دنیا کے اعلٰی ترین ادب میں شمار کی جاتی ہیں۔ جان ملٹن کی شاعری کی عظمت پر سب کو اتفاق ہے لیکن اس کی نجی زندگی، اس کی سیاست اور اس کے مذہبی خیالات کے بارے میں اس کے نقادوں میں ہمیشہ سخت اختلاف رہا ہے۔

ملٹن لندن میں پیدا ہوا اور سینٹ پال اسکول اور کرائسٹ کالج کیمبرج میں تعلیم حاصل کی۔ اس نے انگریزی اور لاطینی دونوں میں شاعری کی۔ شروع میں وہ چرچ میں داخل ہونا چاہتا تھا۔ بعد میں اس نے یہ ارادہ ترک کر دیا۔ اس لیے کہ برطانوی چرچ میں رسم پرستی بہت آ گئی تھی۔ آخر کار اس نے شاعری پر پوری توجہ صرف کرنے کا فیصلہ کیا اور کیمبرج میں تعلیم ختم کرنے کے بعد وہ اپنے باپ کی دیہی جائیداد پر رہنے لگا۔ یہاں اس نے کئی نظمیں لکھیں جن میں اس کی ایک نہایت عظیم نظم لسی ڈس ((Lycidas)) بھی ہے جو اس نے اپنے دوست ایڈورڈکنگ کی وفات پر لکھی تھی۔ ۱۶۳۸ میں اپنی ماں کے انتقال کے بعد وہ اٹلی گیا۔ وہاں سیر کے علاوہ کافی مطالعہ بھی کیا اور اہم شخصیتوں سے ملا۔ ان میں گیلی لیو بھی تھا۔ ایک سال بعد واپس آیا اور بڑے زور شور کے ساتھ چرچ میں اصلاح کی مہم میں لگ گیا۔ کئی رسالے لکھے۔ ۱۶۴۳ میں اس نے میری پاول کے ساتھ شادی کی جو ایک سال بعد اسے چھوڑ کر چلی گئی۔
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۱۳۹

اسی سال ملٹن نے چار رسالے لکھنے شروع کیے جن پر طوفان کھڑا ہو گیا۔ ایک میں اس نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی تھی کہ اگر شوہر اور بیوی کی ایک دوسرے کے ساتھ نبھ نہ سکے تو طلاق لے لینا اخلاقاً جائز ہے۔ اس نے ایک اور رسالہ پریس کی آزادی پر لکھا جس کا عنوان "آریوپوگٹیکا" ((Areopogitica)) تھا۔ اسے اس کی نثری تصنیفات میں اہم مقام حاصل ہے۔ اس میں پارلیمنٹ کی پریس پر لگائی ہوئی سنسر شپ پر سخت تنقید کی گئی تھی۔ ایک اور رسالہ میں اس نے اس پر بحث کی ہے کہ رعایا اپنے نااہل بادشاہ کو تخت سے ہٹا سکتی ہے اور اسے موت کی سزا بھی دے سکتی ہے۔ اس کے نتیجہ کے طور پر اسے کرامول نے اپنی حکومت میں سکریٹری یا وزیر بنا لیا اور اسے بیرونی زبانوں کا محکمہ سپرد کیا گیا۔اسی زمانہ میں اس نے برطانوی عوام کی مدافعت میں کئی رسالے لکھے۔

ملٹن کی آنکھیں بچپن سے بہت خراب تھیں جب اتنا سرکاری کام اس کے سر پر آ پڑا تو آنکھیں بالکل جواب دے گئیں اور وہ بالکل اندھا ہو گیا اور اپنے سکریٹری کی مدد سے کام چلانے لگا۔

۱۶۶۳ میں ملٹن نے ن ایلزبیتھ من شل سے شادی کر لی۔ وہ آخر تک کامن ویلتھ کی حمایت کرتا رہا اور جب شاہیت دوبارہ قائم ((۱۶۶۰)) ہو گئی تو وہ کچھ عرصہ کے لیے روپوش ہو گیا۔ اس کی بعض کتابیں جلا دی گئیں۔ عام معافی میں اسے بھی معاف کر دیا گیا اور اس کے بعد سے وہ خاموش زندگی گزارنے لگا۔

وہ ایک زمانہ سے ایک شاہکار نظم لکھنا چاہتا تھا۔ چنانچہ اس نے اب ایک طویل نظم بلینک ورس میں لکھی جو ۱۶۶۷ میں مکمل ہوئی۔ یہ بارہ جلدوں میں پھیلی ہوئی ہے۔ اس کا نام اس نے "جنت کی گمشدگی" ((Paradise Lost)) رکھا۔ ہم عصروں نے بے حد تعریف کی اور اس کے بعد سے یہ عظیم رزمیہ نظموں میں
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۱۴۰

شمار ہونے لگی۔ اس میں حضرت آدم اور حضرت حوا کا قصہ بیان کیا گیا ہے۔ جب وہ باغ عدن میں تھے۔ اس نے ذریعہ اس نے اس دنیا میں پھیلی ہوئی برائیوں کی وجہ سمجھائی ہے۔ "جنت کی بازیافت" ((Paradise Regained)) اس کی ایک اور طویل بلینک ورس نظم ہے جو چار جلدوں میں ہے۔ اس میں اس نے یہ بتایا ہے کہ کس طرح حضری عیسٰی حضرت آدم سے برتر تھے۔ کس طرح شیطان ان کو ترغیب دینے میں ناکام رہا۔ اسی کے ساتھ اس نے یونانی ٹریجڈی کے نمونہ پر ایک منظوم ڈرامہ بھی لکھا جس کا قصہ انجیل ہی سے لیا گیا تھا۔ ملٹن اگرچہ بنیادی طور پر پروٹسٹنٹ مذہب کا تھا لیکن بہت ساری چیزوں کے بارے میں اس کے اپنے ذاتی عقائد تھے جو اس نے اپنے ایک رسالہ میں تفصیل سے بیان کیے ہیں۔ یہ رسالہ اس کی زندگی میں شائع نہیں ہوا۔ اس کا سراغ بہت بعد میں لگا اور پھر یہ شائع ہوا۔

ملر، آرتھر ((پ۔ ۱۹۱۵ Millere, Arthur,)) : امریکی ڈرامہ نگار اور مصنف ہے۔ ۱۹۱۵ میں ایک متوسط یہودی گھرانے میں پیدا ہوا جو نیویارک کے ایک پسماندہ علاقے میں آباد تھا۔ تیسری دہائی کے اقتصادی بحران کے دوران یہ خاندان مفلوک الحال ہو گیا اور ملر کو ہائی اسکول کے بعد تعلیم کا سلسلہ منقطع کرنا پڑا۔ اعلٰی تعلیم کے لیے روپیہ جمع کرنے کی خاطر اس نے ایک فیکٹری کے گودام میں ملازمت کی۔ یہاں اسے مزدوروں اور پس ماندہ طبقے کی زندگی کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا اور ظلم، ناانصافی اور استحصال کے خلاف اس کے دل میں شدید جذبہ پیدا ہوا۔ اس زمانے میں اس نے وسیع مطالعہ کیا اور اپنے تجربات کو ایک مختصر ڈرامے "دو سومواروں کی یاد" میں پراثر انداز سے پیش کیا۔ ۱۹۳۵ میں اس نے این۔ آربر یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور زمانہ طالب علمی ہی میں ڈرامہ نگاری کے مقابلوں میں کئی انعامات حاصل کیے۔ ۱۹۴۵ میں پہلی بار اس کا ایک ڈرامہ "ایک بے حد خوش
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۱۴۱

قسمت انسان" اسٹیج پر پیش کیا گیا۔ یہ ابسن ((Ibsen)) کے انداز میں لکھا ہوا بڑا کامیاب ڈرامہ تھا۔ ۱۹۴۷ میں اس کا ایک اور ڈرامہ "میرے سب بیٹے" اسٹیج پر پیش کیا گیا۔ اس ڈرامے میں فرد اور سماج کے باہمی تعلق اور فرد کی اخلاقی ذمہ داری کے مسئلے کو پیش کیا گیا تھا۔ لیکن جس ڈرامے نے اسے آسمانِ شہرت پر پہنچایا وہ اس کا شہرہ آفاق ڈرامہ "ایک سیلز مین کی موت" ((۱۹۴۹)) ہے۔ یہ امریکی سماج اور بورژوا اقدار پر ایک گہرا طنز ہے۔ اس میں سماجی حقیقت نگاری کے ساتھ نفسیاتی بصیرت اور وجودی عناصر بھی موجود ہیں۔ یہ بڑا تہ دار اور منفرد ڈرامہ ہے۔ اس میں مخصوص امریکی ماحول میں ایک بے حد معمولی انسان کا المیہ پیش کیا گیا ہے اور اس اعتبار سے یہ جدید ڈرامہ نگاری کے ارتقا میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ آرتھر ملر کا دوسرا چونکا دینے والا ڈرامہ "کروسی بل" ((۱۹۵۳)) ہے۔ اس ڈرامے کا پس منظر سترھویں صدی کی "چڑیلوں کی تلاش" ہے جسے شدید مذہبی تعصب اور تنگ نظری نے جنم دیا تھا لیکن اس تاریخی واقعے کے پردے میں آرتھر ملر نے اپنے زمانے کے شدید سیاسی ہیجان اور ذہنی جمود پر بھرپور طنز کیا ہے اور اس طرح "میک آرتھی ازم" کے مہلک پہلو کو پیش کیا ہے۔ اس ڈرامے کے نتیجے میں خود ملر کو اس ہیجان کا شکار ہونا پڑا اور اس نے کمیونسٹ مخالف کمیٹی کے سامنے اپنا نقطہ نظر بڑی مضبوطی کے ساتھ رکھا۔ ملر کے دوسرے قابل ذکر ڈرامے "وشی کا واقعہ" پل سے نظارہ" ((۱۹۵۵)) "پستی میں گرنے کے بعد" ((۱۹۶۴)) اور "قیمت" ((۱۹۶۸)) وغیرہ ہیں۔ مجموعی طور سے ملر کے ڈراموں میں عقلی اور فکری عناصر، اخلاقی تصورات، سماجی تجزیے، فرد اور سماج کے تعلق اور انسانی ضمیر کے مسائل پر زور ہے۔ "پستی میں گرنے کے بعد" ڈرامہ بڑی حد تک دوسرے ڈراموں سے مختلف ہے۔ یہ بے حد ذاتی اور داخلی قسم کا ڈرامہ ہے اور اس کا منظر نامہ نفسیاتی ہے۔ تکنیک کے اعتبار سے بھی یہ ڈرامہ منفرد
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۱۴۲

اور تجریدی ہے۔ آرتھر ملر کی ڈرامہ نگاری پر ابسن ((Ibsen)) او بریخت کے اثرات نمایاں ہیں۔ اس کا سیاسی مسلک مارکسی نقطہ نظر سے قریب ہے۔

ملر ایک سنجیدہ اور باشعور فن کار تھا۔ ڈرامہ نگاری کے علاوہ اس نے ادبی، سیاسی، سماجی اور اخلاقی مسائل پر متعدد تنقیدی اور تجزیاتی مضامین بھی تحریر کیے ہیں اور کئی ناول بھی لکھے ہیں جن میں "نارمل صورت حال"، "فوکس" اور "ناموزوں" وغیرہ شامل ہیں۔ آرتھر ملر نے تین شادیاں کیں۔ اس کی دوسری بیوی مشہور ہالی وڈ اداکارہ مارلن منرہ تھی۔

مُلر، فریڈرک میکس میلین ((۱۹۰۰ – ۱۸۲۳ Muller, Friedrich Maxmelian,)) : جرمن مستشرق و ماہر لسانیات، مشہور جرمن شاعر و معلم ملر کا بیٹا تھا۔ ابتدائی تعلیم اس نے جرمنی میں حاصل کی اور پھر اس کے بعد آکسفورڈ چلا گیا جہاں اس نے اپنی زندگی کے بقیہ دن گزارے۔

اس نے لسانیات کو مقبول بنانے میں کافی دلچسپی لی۔ مذاہت کا تقابلی مقابلہ اس کی دلچسپیوں کا سب سے بڑا مرکز تھا۔ اسے مشرق اور خاص طور پر ہندوستان کے مذاہب سے بھی خاص دلچسپی تھی۔ اس نے نہ صرف رگ وید کا ترجمہ کیا بلکہ اس کی ایک مستند شرح بھی شائع کی۔ ۱۸۷۵ سے مرنے تک یعنی پورے پچیس سال اُس نے "مشرق کی مقدس کتابیں" مرتب کرنے پر صرف کیے جو اس نے ۵۱ جلدوں میں شائع کیں۔ ان میں اس نے مشرق کے غیر عیسائی مذاہب کے بارے میں تمام اہم تصنیفات کے ترجمے کر کے اکٹھا کر دیے ہیں۔ یہ اس کا ایک نہایت عظیم کارنامہ ہے۔ اس میں ہندوستان کے بھی تمام مذاہب کو شامل کر لیا گیا ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۱۴۳

مغربی جرمنی کی حکومت نے ہندوستان کے مکتلف بڑے بڑے شہروں میں جو تہذیبی مراکز قائم کیے ہیں ان کا نام بھی اس نے "کیکس مُلر بھون" رکھا ہے

ملک محمد جائسی ((۱۴۶۴ – ۱۵۴۲)) : ہندی کے تین بڑے شاعروں کے نام اس طرح ہیں۔ تلسی داس، سورداس اور ملک محمد جائسی۔ اودھ کے جائس نامی قصبہ میں پیدا ہوئے۔ ان کی مشہور تصنیف، "پدماوت" ۱۵۴۰ میں تحریر کی گئی۔ اس کتاب کے آخر میں کوی نے بتایا ہے کہ وہ بوڑھا ہو چکا ہے۔ پدماوت کے شروعات میں انھوں نے شاہ وقت شیر شاہ سوری ((زمانہ حکومت ۱۵۴۵ – ۱۵۴۰)) کی مدح لکھی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جائسی پیر شاہ مبارک بودلے اور شاہ کمال تھے۔ بعض لوگ سید اشرف جہانگیر سمنانی رحمۃ اللہ کو بھی ان کی مرشد مانتے ہیں۔ بہرحال جائسی صوفی سنتوں کے رنگ میں رنگے ہوئے تھے۔ ان کی اہم تصانیف ہیں : ((۱)) پدماوت، ((۲)) اکھراوٹ، ((۳)) آخری کلام، ((۴)) مہری جائسی، ((۵)) چتر ریکھا اور ((۶)) کہرا نامہ اور مسلا نامہ۔ جامہ عثمانیہ اور سالار جنگ کے کتب خانے کی قلمی کتابوں میں جائسی کی ایک تصنیف چتراولی یا چتروت (( چتر ریکھا کے نام سے شائع ہوئی۔)) بھی موجود ہے۔ جائسی نے بول چال کی اودھی کا استعمال کیا ہے۔ یوں تو تلسی داس نے رام چر تر مانس ((رامائن)) بھی اودھی میں لکھی ہے۔ لیکن اس میں اودھی کا وہ فطری روپ نہیں ہے جو جائسی یا دوسرے مثنوی نگاروں کے یہاں ملتا ہے۔ جائسی نے صوفی روایتوں کو عام لوگوں تک پہنچانے کے لیے شاعری کی ہے۔ ان کی شاعری نے انسانیت کا جذبہ پیدا کرنے میں بڑی مدد دی۔ یہ اتفاق نہیں کہ جائسی نے ہی نہیں بلکہ سبھی صوفی کویوں نے اپنی مثنویوں کے لیے ہندو کرداروں کو ہی چنا۔ جائسی
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۱۴۴

نے پدماوت میں علاء الدین خلجی کو اعلٰی کردار کے روپ میں پیش نہیں کیا بلکہ چتوڑ کے راجہ رتن سین، گورا، بادل وغیرہ کے کردار کو اعلٰی کردار بنا کر پیش کیا ہے۔

کسی واقعہ یا کہانی کو لے کر اچھے ڈھنگ سے پیش کرنے والے ہندی کے شاعروں میں جائسی بہت بلند مقام کے حامل تھے۔ پدماوت ایک اونچے درجے کی عشقیہ تصنیف ہے۔ اس میں مجازی عشق، عشق حقیقی میں بدل جاتا ہے۔ جائسی نے اپنی شاعری کے لیے دوہا اور چوپائی کی صنف پسند کی۔ یہ دونوں اصناف اب بھرنش کے ادب میں بہت رائج تھیں۔ "چوپائی" فارسی کی "مثنوی" کے بہت قریب ہے۔

ممتاز شیریں ((۱۹۲۴ – ۱۹۷۳)) : ۱۲ ستمبر ۱۹۲۴ کو بمقام ہندوپور، ضلع اننت پور، آندھرا پردیش میں پیدا ہوئی۔ ان کے والد قاضی عبد الغفور سرکاری ملازم تھے۔ ممتاز شیریں کی والدہ اپنے ماں باپ کی اکلوتی بیٹی تھیں۔ ان کے والد صاحب کو سرکاری ملازمت کی وجہ سے ادھر ادھر جانا پڑتا تھا اس لیے ممتاز شیریں کی والدہ اپنے ماں باپ کے ساتھ رہتی تھیں۔ ممتاز شیریں چار برس کی ہوئی تو بچوں کی تعلیم کے خیال سے وہ سب میسور آ گئے۔ ممتاز شیریں نے مہارانی اسکول میسور سے میٹرک اور مہارانی کالج بنگلور سے ۱۹۴۲ میں بے۔ اے۔ کیا۔ ۲۳ اگست ۱۹۴۲ کو ان کی شادی صمد شاہین سے ہوئی جو اس وقت چکمگور میں کافی پلانٹر تھے۔

۱۹۴۸ میں ممتاز شیریں اور ان کے شوہر کراچی پاکستان منتقل ہو گئے۔ وہاں ممتاز شیریں نے لٹریچر میں ایم۔ اے۔ کیا۔ پھر آکسفورڈ جا کر ادب کا ایک Summer Course بھی کیا۔ اس وقت صمد شاہین کو ہالینڈ کی حکومت سے سوشل سائنس میں پی۔ ایچ۔ ڈی۔ کرنے کے لیے اسکالر شپ ملا۔ وہاں قیام کے دوران ممتاز شیریں نے مغربی ادب کے اپنے مطالعے کو مزید وسعت اور جلا بخشی۔ صمد شاہین کے ساتھ ممتاز شیریں نے بنکاک اور ترکی میں کئی
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۱۴۵

کئی سال تک قیام کیا۔ پاکستان سے ترکی جاتے وقت انھوں نے چند دن طہران اور لبنان و استنبول میں قیام کیا۔ تین سال بعد وہ اسلام آباد آ گئے۔ صمد شاہین جوائنٹ ڈائرکٹر بیوریو آف نیشنل ریسرچ اینڈ ریفرنس کی حیثیت سے کام کرنے لگے۔

ممتاز شیریں کی موت سرطان کے مرض میں اسلام آباد میں ہوئی لیکن اس کم عمری میں بھی انھوں نے اپنی تنقید اور تخلیق دونوں کے ذریعہ جدید اردو ادب میں اپنی جگہ قائم کر لی تھی۔ ان کا تنقیدی ذوق مغربی معیاروں کے زیر اثر پروان چڑھا تھا لیکن خود اردو زبان اور خاص کر اردو فکشن پر ان کی نظر بہت اچھی تھی۔

پہلا افسانہ "انگڑائی" ساقی دہلی ۱۹۴۳ میں شائع ہوا۔ ۱۹۴۴ میں بنگلور سے صمد شاہین کے ساتھ "نیا دور" جاری کیا۔ نیا دور کے پہلے شمارے میں پہلا تنقیدی مضمون "۱۹۴۳ کے افسانے" شائع ہوا۔ افسانوں کا پہلا مجموعہ "اپنی نگریا" ۱۹۴۷ میں شائع ہوا۔ افسانوں کا دوسرا مجموعہ "میگھ ملہار" ۱۹۶۲ میں کراچی سے شائع ہوا۔ تنقیدی مضامین کا مجموعہ "معیار" ۱۹۶۳ میں لاہور سے شائع ہوا۔ جان اسٹائن بیک کے ناول "دی پرل" کا اردو ترجمہ "در شہوار" کے نام سے ۱۹۵۷ میں کیا۔ امریکی افسانوں کا مجموعہ "پاپ کی زندگی" ((ترجمہ)) بمع مقدمہ ۱۹۵۸ میں شائع کیا۔ اپنے تیسرے بچے کی ولادت اور فوری موت سے متاثر ہو کر ناولٹ "کفارہ" بنکاک میں لکھا جس پر پریسیڈنشل ایوارڈ دیا گیا۔ یہی ان کی آخری تصنیف ہے۔ منٹو نوری نہ ناری ((مطبوعہ)) نامکمل ہے۔

ممتاز مفتی ((۱۹۰۵ – ۱۹۹۵)) : اصل نام ممتاز حسین اور مقبول حسین، والد کا نام مفتی محمد حسین تھا۔ ممتاز مفتی ۱۱ ستمبر ۱۹۰۵ کو بٹالہ ((پنجاب)) میں پیدا ہوئے۔ ۱۹۱۳ میں امرتسر کے ایک اسکول سے تعلیم کا سلسلہ شروع ہوا۔ ۱۹۲۱ میں گورنمنٹ ہائی اسکور، ڈیرہ غازی خاں سے ہائی اسکول، ۱۹۲۶ میں ہندو سبھا کالج، امرتسر
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۱۴۶

سے انٹرمیڈیٹ کے امتحانات پاس کیے۔ ۱۹۲۹ میں اسلامیہ کالج لاہور سے بی۔ اے۔ کرنے کے بعد ۱۹۳۱ میں پہلی ملازمت کی۔ ۱۹۳۳ میں گورنمنٹ ہائی اسکول خانیوال میں انگریزی کے استاد مقرر ہوئے۔ پہلا مضمون ۱۹۳۴ میں ن۔ م۔ راشد کے ایما پر لکھا اور پہلا افسانہ ۱۹۳۶ میں "جھکی جھکی آنکھیں" کے عنوان سے ادبی دنیا میں شائع ہوا۔ شادی ۱۹۳۶ میں ہوئی۔ ۱۹۴۵ میں پہلی بیوی انور سلطان کے انتقال کے بعد ۱۹۴۶ میں دوسری شادی کر لی جن سے تین اولادیں ہوئیں۔

ممتاز مفتی کے افسانوں کا پہلا مجموعہ "ان کہی" ۱۹۴۳ میں، دوسرا مجموعہ "گہما گہمی" ۱۹۴۴ میں اور تیسرا مجموعہ "چپ" ۱۹۴۷ میں منظر عام پر آئے۔ انھوں نے ایک فلم "سلطانہ رضیہ" کی کہانی بھی ۱۹۴۷ میں لکھی۔ اس کے کچھ دنوں بعد ہی وہ پاکستان چلے گئے۔ اور ۱۹۴۸ میں حکومت کے رسالے "استقلال" کے سب ایڈیٹر مقرر کیے گئے۔ ۱۹۵۰ میں وہ ریڈیو آزاد کشمیر سے اسکرپٹ رائٹر کے طور پر منسلک ہو گئے۔ ۱۹۵۱ میں اسسٹنٹ انفارمیشن افسر بنا دیے گئے۔ ان کے افسانوں کا چوتھا مجموعہ "اسمارائیں" ۱۹۵۲ میں شائع ہوا اور "نظام سقہ" کے عنوان سے پہلا ڈرامہ ۱۹۵۳ میں سامنے آیا۔ مضامین کا مجموعہ "غباری" ۱۹۵۴ میں شائع ہوا۔ ممتاز مفتی کا شاہکار ناول "علی پور کا ایلی" ۱۹۶۱ میں، افسانوں کا پانچواں مجموعہ "گڑیا گھر" ۱۹۶۵ میں اور ناول "علی پور کا ایلی" کا دوسرا حصہ "ایلی اور الکھ نگری" کے نام سے ۱۹۹۲ میں سامنے آیا۔ "علی پور کا ایلی" نے ممتاز مفتی کی حیثیت جدید اردو ناول نگاروں میں مستحکم کر دی۔

ممتاز مفتی کی کچھ اور کتابیں "پیاز کے چھلکے"، ((خاکے – ۱۹۶۸))، افسانوں کا مجموعہ "روغنی پتلی" ((۱۹۸۴))، مضامین "رام دین" ((۱۹۸۶))، شخصی خاکے "اوکھے لوگ" ((۱۹۸۶))، "سمے کا بندھن" ((افسانے – ۱۹۸۷))
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۱۴۷

سفر نامے "ہند یاترا" ((۱۹۸۷)) اور "لبیک" ((۱۹۹۱)) میں شائع ہوئے۔ "لبیک" میں ان کا کردار ایک مذہبی، صوفی منش اور اسلام دوست درویش کا سا نظر آتا ہے۔

ممتاز مفتی کا مشاہدہ وسیع تھا۔ کرداروں کے نفسیاتی مطالعے سے خاص دلچسپی رکھتے تھے۔ کرداروں کے نفسیاتی مطالعے سے خاص دلچسپی رکھتے تھے۔ ان کا اسلوب فطری، حقیقت پسندانہ اور واضح ہے۔ زبان پر پنجابی محاورے کا اثر نمایاں ہے۔ ممتاز مفتی کی ایک اور خصوصیت اظہار کی بے باکی اور تخلیقی آزادی کے تصور میں ان کا یقین ہے۔ زندگی کے آخری دور میں وہ روحانیات کی طرف مائل ہو گئے تھے جس کا اثر ان کی تحریروں پر بھی پڑا۔ باطنی حقیقت نگاری کےمیلان کو ترقی دینے والوں میں وہ ایک ممتاز حیثیت رکھتے تھے۔

ممنون، نظام الدین ((۱۸۴۴)) : سونی پت وطن تھا۔ والد قمر الدین منت دلی آ کر بس گئے تھے۔ وہیں ممنون پیدا ہوئے۔ درسی علوم کی کتابیں اپنے والد سے پڑھیں۔ شعر میں اصلاح بھی انھیں سے لی۔ شاہ عالم ثانی نے فخر الشعرا کا خطاب دیا۔ لکھنؤ بھی گئے جہاں قدر دانی ہوئی۔ آخری عمر میں دلی واپس آ گئے۔ ان کے کلام میں معاملہ بندی، صفائی اور پختگی ہے۔ زبان صاف اور شیریں ہے۔ محاوروں کا برجستہ استعمال اور روزمرہ کی چاشنی لطف سخن بڑھا دیتی ہے۔ ایک ضخیم دیوان یادگار چھوڑا۔

منتخب التواریخ : یہ عبد القادر بدایونی کی تصنیف ہے۔ جس میں اکبر اعظم کے چالیس سالہ دور کی تاریخ کا احاطہ کیا گیا ہے۔ اس میں ۱۵۹۴ تک کے واقعات درج ہیں۔ اس کی ایک جلد میں علما، مشائخ اور شعرا کے احوال بھی لکھے گئے ہیں۔
 
Top