شمشاد
لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۱۲۸
کے لیے فارسی میں "اتالیق ہندی" لکھی۔ اس میں اخلاقی حکایات ہیں۔ ان کی مشہور ترین کتاب "بیتال پچیسی" کا اردو ترجمہ ہے۔ ولا نے شیر شاہ سوری کے عہد کی تاریخ "تاریخ شیر شاہی" اور "اقبال نامہ جہانگیری" کا بھی ترجمہ کیا۔
معراج نامہ : اس عنوان کے تحت بعض دکنی شاعروں نے ایسی نظمیں لکھی ہیں جن میں معراج کا واقعہ بیان کیا گیا ہے اور اس کو استعاروں کے ذریعے سے سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ ہاشمی بیجاپوری، سید بلاقی، معظم مختار وغیرہ نے مشہور معراج نامے لکھے۔
معزی نیشا پوری، ابو عبد اللہ محمد بن عبد الملک ((م۔ ۱۱۲۶)) : محمد بن عبد الملک نام، معزی تخلص، نیشا پور میں پیدا ہوئے۔ باپ کا تخلص برہانی تھا۔ جو الپ ارسلان کے دربار کا شاعر تھا۔ الپ ارسلان کے بعد اس کا بیٹا ملک شاہ تخت نشین ہوا۔ برہانی نے مرنے سے قبل بادشاہ کے دربار میں اپنے لڑکے کی سفارش کی۔ اپنی بدیہہ گوئی کی بنا پر اس نے بہت جلد بلند مراتب حاصل کیے اور گراں قدر انعامات سے سرفراز ہوتا رہا اور امیر کا خطاب پایا۔ ملک شاہ کے انتقال کے بعد وہ سلطان سنجر کے دربار کا ملک الشعرا بنا۔ اس سے اس کی عزت، شہرت اور دولت میں کئی گنا اضافہ ہوا۔ وہ بادشاہ کی طرف سے روم میں سفیر بنا کر بھیجا گیا۔ اس نے اپنے پیشرووں کی تقلید میں قصائد لکھے اور ہر صنف میں طبع آزمائی کی۔ صاحب "لباب الالباب" نے لکھا ہے کہ شاعروں میں تین شعرا نے دولت اور قبولیت عامہ حاصل کی۔ عہد سامانیان میں رودکی، عہد محمود غزنوی میں عنصری اور عہد سلطان ملک شاہ میں معزی۔ اس نے ۱۱۲۶ میں سنجر کے تیر سے زخمی ہو کر انتقال کیا۔ حکیم سنائی نے اس کی موت پر درد ناک مرثیہ لکھا ہے۔
معشر : دس مصرعوں کے بند کو معشر کہتے ہیں۔
صفحہ ۱۲۸
کے لیے فارسی میں "اتالیق ہندی" لکھی۔ اس میں اخلاقی حکایات ہیں۔ ان کی مشہور ترین کتاب "بیتال پچیسی" کا اردو ترجمہ ہے۔ ولا نے شیر شاہ سوری کے عہد کی تاریخ "تاریخ شیر شاہی" اور "اقبال نامہ جہانگیری" کا بھی ترجمہ کیا۔
معراج نامہ : اس عنوان کے تحت بعض دکنی شاعروں نے ایسی نظمیں لکھی ہیں جن میں معراج کا واقعہ بیان کیا گیا ہے اور اس کو استعاروں کے ذریعے سے سمجھانے کی کوشش کی ہے۔ ہاشمی بیجاپوری، سید بلاقی، معظم مختار وغیرہ نے مشہور معراج نامے لکھے۔
معزی نیشا پوری، ابو عبد اللہ محمد بن عبد الملک ((م۔ ۱۱۲۶)) : محمد بن عبد الملک نام، معزی تخلص، نیشا پور میں پیدا ہوئے۔ باپ کا تخلص برہانی تھا۔ جو الپ ارسلان کے دربار کا شاعر تھا۔ الپ ارسلان کے بعد اس کا بیٹا ملک شاہ تخت نشین ہوا۔ برہانی نے مرنے سے قبل بادشاہ کے دربار میں اپنے لڑکے کی سفارش کی۔ اپنی بدیہہ گوئی کی بنا پر اس نے بہت جلد بلند مراتب حاصل کیے اور گراں قدر انعامات سے سرفراز ہوتا رہا اور امیر کا خطاب پایا۔ ملک شاہ کے انتقال کے بعد وہ سلطان سنجر کے دربار کا ملک الشعرا بنا۔ اس سے اس کی عزت، شہرت اور دولت میں کئی گنا اضافہ ہوا۔ وہ بادشاہ کی طرف سے روم میں سفیر بنا کر بھیجا گیا۔ اس نے اپنے پیشرووں کی تقلید میں قصائد لکھے اور ہر صنف میں طبع آزمائی کی۔ صاحب "لباب الالباب" نے لکھا ہے کہ شاعروں میں تین شعرا نے دولت اور قبولیت عامہ حاصل کی۔ عہد سامانیان میں رودکی، عہد محمود غزنوی میں عنصری اور عہد سلطان ملک شاہ میں معزی۔ اس نے ۱۱۲۶ میں سنجر کے تیر سے زخمی ہو کر انتقال کیا۔ حکیم سنائی نے اس کی موت پر درد ناک مرثیہ لکھا ہے۔
معشر : دس مصرعوں کے بند کو معشر کہتے ہیں۔