اردو انسائیکلوپیڈیا

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۲۱۷

تین سو روپیہ ماہوار ان کا وظیفہ مقرر کیا۔ نواب کے ساتھ وہ نباہ نہ سکے اور دربار سے ترک تعلق کر لیا۔ لیکن وظیفہ برقرار رہا۔ آخری زمانہ پریشان حالی میں گزارا۔ لکھنؤ میں ہی انتقال کیا۔ وہ غزل کے سب سے بڑے شاعر تسلیم کیے جاتے ہیں۔ ان کی برتری کا اعتراف ہر زمانے میں کیا گیا۔ میر کی ایک نمایاں خصوصیت سادگی بیان ہے۔ زبان شستہ، کلام صاف، اسلوب ایسا ہے جیسے باتیں کرتے ہوں۔ لیکن ان کا کلام معنی آفرینی اور پیچیدگی سے خالی نہیں۔ بالخصوص عشق اور تصوف کے نئے نئے مضمون انھوں نے خوب باندھے ہیں۔ عشقیہ شاعری کے اعلٰی ترین نمونے میر کے کلام میں ملتے ہیں۔ میر کی شاعری کا سرمایہ ان کے چھ دیوان غزلوں کے اور متعدد عاشقانہ مثنویاں ہیں۔ قصیدہ گوئی سے انھیں مناسبت نہیں تھی۔ فارسی نثر میں "تذکرہ نکات الشعراء" اور "ذکر میر" اہم ہیں۔

میکالے، تھامس بیبنگٹن (( ۱۸۵۹ – ۱۸۰۰، Macaulay, Thomas Babington)) : انگریزی ادیب اور مؤرخ، اپنی اعلٰی نثر نگاری اور علمیت کے لیے مشہور ہے۔ لیسٹر شائر میں پیدا ہوا اور کیمبرج میں تعلیم حاصل کی۔ ۲۵ سال کی عمر میں اس نے ملٹن پر ایک مضمون لکھا۔ یہ بہت پسند کیا گیا اور یہاں سے مضمون نگاری کا سلسلہ شروع ہو گیا۔

۱۸۲۶ میں اس نے وکالت شروع کی اور ۱۸۳۰ میں پارلیمنٹ کا ممبر چنا گیا۔ بہت اچھا مقرر تھا۔ چنانچہ وہگ پارٹی کا ایک سربرآوردہ رکن بن گیا۔ ۱۸۳۴ سے ۱۸۳۸ تک وہ ہندوستان میں رہا۔ یہاں وہ ایسٹ انڈیا کمپنی کی سپریم کونسل کا ممبر تھا۔ اپنے قیام کے دوران اس نے ہندوستان کے تعلیمی نظام میں اصلاحات کیں۔ اس نے
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۲۱۸

انگریزی کو بطور ذریعہ تعلیم رواج دیا اور ساتھ ہی یہاں کے لیے ضابطہ قانون مرتب کیا۔ ہندوستان سے لوٹنے کے بعد وہ برطانوی حکومت میں وزیر جنگ مقرر ہوا۔ وہ پارلیمنٹ کا ممبر تھا۔ ۱۸۵۷ میں وہ بیرن بنا دیا گیا۔

میکالے کا سب سے بڑا علمی کارنامہ تاریخِ انگلستان ہے۔ یہ پانچ جلدوں میں ہے اور جیمس اول کی تخت نشینی سے شروع ہوتی ہے۔ یہ تاریخ انگلستان کی انیسویں صدی کی سب سے بڑی علمی تخلیق سمجھی جاتی ہے۔ اس کا اندازِ بیان منفرد ہے اور جس طرح میکالے نے سترہویں صدی کے انگلستان کی سماجی زندگی کی تصویر کشی کی ہے اس کی مثال بہت کم ادبی و علمی کارناموں میں ملتی ہے۔ لیکن بعد کے دور میں اس پر سخت تنقیدیں بھی ہوئی ہیں کہ اس میں غیر جانبداری سے کام نہیں لیا گیا ہے۔ وہگ پارٹی اور پروٹسٹنٹ مذہب سے میکالے کے تعلق نے سچائی کو کچھ دھندلا کر دیا ہے۔

میکالے نے اس تاریخ کے علاوہ جانسن، وارن پیسٹنگز وغیرہ پر سوانحی مضامین بھی لکھی ہیں۔ اس کے شعری کارناموں میں قدیم روم پر اس کی نظم بہت مشہور ہے۔

میکڈانل، آرتھر اینتھونی ((۱۹۳۰ – ۱۸۵۴، Macdonnel, Arthur Anthony)) : میکڈانل برطانیہ کا مشہور عالم ہے جو اپنے وقت کا سنسکرت کا بہت بڑا عالم تصور کیا جاتا ہے۔ اس نے سنسکرت زبان و ادب پر کئی کتابیں لکھیں۔ وید کی نہایت معیاری گرامر مرتب کی اور سنسکرت، انگریزی لغت بھی بڑی محنت سے تیار کی۔

میل ویل، ہرمن ((۱۸۹۱ – ۱۸۱۹، Melville, Herman)) : ہرمن شاعر اور ناول نگار تھے۔ وہ نیویارک میں پیدا ہوئے۔ ان کے دادا اور نانا دونوں ممتاز گھرانوں سے تھے۔ لیکن میلویل کے والد دیوالیہ ہو گئے اور جب وہ بارہ سال کے تھے تو ان کے والد کا انتقال ہو گیا۔ وہ البانیا منتقل ہو گئے جہاں کی اکادمی میں تعلیم حاصل کی۔
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۲۱۹

انھوں نے ایک تجارتی جہاز میں ملازمت کی جو لیورپول ((انگلینڈ)) سے روئی لے کر جانے والا تھا۔ لیورپول کی گندی بستیوں پر انھوں نے اپنا ناول Redburn لکھا۔ اس کے بعد وہ وہیل مچھلی کے شکاری جہاز میں نوکر ہو گئے لیکن کام کی سختی کی تاب نہ لا کر وہ ایک ساتھ کے ساتھ فرار ہو گئے اور ایک جزیرے میں پناہ لی۔ اس تجربے کو انھوں نے اپنے ناولوں Typee اور Omoo میں بیان کیا ہے۔ انھوں نے انگلینڈ کا سفر کیا اور یوروپ کے کئی مشہور شہروں کی سیاحت کی۔ وہ امریکی سفارت خانے کی ملازمت کے لیے کوشاں رہے لیکن اسے حاصل نہ کر سکے۔ ان کے ناولوں میں ((۱۸۴۶)) Typee، ((۱۸۴۷)) Omoo، ((۱۸۴۹)) Mardi، ((۱۸۴۹)) Redbun، ((۱۸۵۰)) White Jacket، ((۱۸۵۱)) Moby Dick، ((۱۸۵۲)) Pierre، ((۱۸۵۵)) Israel Potter، ((۱۸۵۷)) The Confidence Man ہیں۔ ان کا ناول Billy Budd بعد مرگ ۱۹۲۴ میں شائع ہوا۔ ان کی شاعری کے چار مجموعے شائع ہوئے۔ ان میں "موبی ڈک" دنیا کے اعلٰی ترین بیس ناولوں میں شمار کیا جاتا ہے۔

میناٹچی سندرم پلائی ((۱۸۷۶ – ۱۸۱۵، Meenatchi Sundaram Pillai)) : انیسویں صدی کے مشہور تمل شاعر، ان کا تعلق ترو واڈو تُرائی مٹھ سے تھا۔ تمل کے مشہور شہر تروچراپلی میں پیدا ہوئے۔ تمل زبان میں سب سے زیادہ تصانیف چھوڑیں ہیں جن کی تعداد نوے سے زیادہ ہے۔ ان کی کئی تصانیف بہت مشہور ہوئیں۔ مثلاً مُرگن پلائی تمل ((Murugan Pillai Tamil))، ترو وڈائی کلئی کُروون جی ((Thiru Vidai Kalai Kuru Vanji))، نمبلوانا دیسگر کلمبگم ((Nambalvana Desigar Kalmabgam))،
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۲۲۰

ترو وِڈائی مَرا دور اُلا ((Thiruvidai Mara Dur Ula)) اور سُبرامنیہ دیسگر نینجہ وِڈُو دو دو ((Subrahmaniya Desigar Nenjai vidu Thoothu))۔

انھوں نے کئی تُلا پُرانم ((Tula Puranam)) بھی لکھے ہیں۔ ان کی تصانیف میں بھگتی رس غالب ہے۔ اپنی تصنیف سیکلار پلائی تمل ((Sekkilar Pillai Tamil)) کی وجہ سے انھیں شہرت نصیب ہوئی۔

ناٹیہ شاستر : ناٹیہ اور نرتیہ مناظری ادب کی دو صورتیں۔ رقاص اور رقاصہ کے توسط سے کسی انسانی جذبہ کی اداکاری ناٹیہ ہے۔ راگ، تال، لَے موسیقی کی پابندیوں کے ساتھ حرکات و اداکاری میں اظہار کے رقص کو نرتیہ کہتے ہیں۔ ان دونوں کا تعلق اداکاری سے ہے اور فنون لطیفہ ہی کی یہ ضمنی صورتیں ہیں۔ ناٹیہ کی خاص صورتیں یہ ہیں :((۱)) تلفظ، آواز و ترنم کا اتار چڑھاؤ، ((۲)) ساتوک، ((۳)) انکیک اور ((۴)) پاہاریہ۔

بھرت منی کی "ناٹیہ شاستر" فن ڈراما پر پہلی مستند تصنیف ہے جس میں رس کا نظریہ پیش کیا گیا ہے۔ بھرت کے چند سو سال بعد آنند وردھن اور اس سے اگلی صدی میں ابھینوگپت نے اس کے نظریات کی تشریح کی اور اس میں اضافے کیے۔ بھرت منی نے ڈرامے کو دنیا اور کاروبار دنیا کی نقل قرار دیا ہے۔ اس کے لیے وہ "انوکرن" کا لفظ استعمال کرتا ہے۔ بھرت کے خیال میں ڈرامے سے دنیا کے مسائل، انسان کے اعمال اور رس کے جذبات اور زندگی کی مختلف حالتیں اس طرح پیش کی جاتی ہیں کہ ان سے سامعین کے ذہن میں رس پیدا ہو۔ بھرت منی کے مطابق بنیادی اسباب و عوامل خارجی اثرات اور عارضی جذبات کی ہم اہنگی سے رس کی تخلیق ہوتی ہے۔ رس دراصل ایک احساس کا نام ہے اس لیے اسے الوکک یا ماورائی بھی کہا جاتا ہے۔ بنیادی طور پر رس ایک جمالیاتی تجربہ ہے جو کسی فن سے قاری کے ذہن میں پیدا ہوتا ہے۔ فن کار اپنے تجربات و محسوسات کو
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۲۲۱

تخلیق کے ذریعے قاری تک پہنچاتا ہے اور اس کے ذہن میں بھی وہی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے جو پہلے شاعر کے ذہن میں تھی۔ اس سلسلے میں تین کڑیاں ہیں۔ فنکار تخلیق اور قاری۔ ناٹیہ شاستر میں اس کی مثال یوں دی گئی ہے کہ جس طرح بیج سے پودا پیدا ہوتا ہے اور پھل پھول لاتا ہے اسی طرح رو بھائو کی اساس۔ فن کار کے تجربے کو بیج سمجھنا چاہیے۔ بھرت کے مطابق وبھائو انوبھائو اور بھیچاری بھائو کے ملاپ سے رس وجود میں آتا ہے۔ جذبات کو بیدار کرنے والے محرکات کو جب کسی نظم یا ڈرامے میں پیش کیا جئاے تو انھیں وبھائو کہا جاتا ہے۔ وہ خارجی علامات جو مستقل جذبات کے ساتھ یا اس کے بعد ظاہر ہوں انوبھائو کہلاتے ہیں اور وبھیچاری بھائو سے مراد وہ عارضی جذبات ہیں جو استھائی بھائو یعنی مستقل جذبات کو برانگیختہ کر کے خود فنا ہو جاتے ہیں۔ انسان کے پیدائشی اور فطری جذبات کو استھائی بھائو کہا جاتا ہے، مثلاً غصہ اور خوف وغیرہ۔ ہر استھائی بھائو کسی رس کو جنم دیتا ہے۔ مثلاً کوف بھیانک رس کو جنم دیتا ہے اور جذبہ عشق سے شرنگار رس وجود میں آتا ہے۔ بھرت منی نے رس کو آٹھ قسموں میں تقسیم کیا ہے لیکن بعض ماہرین نے نو اور بعض نے ان کی تعداد گیارہ کر دی ہے۔ شرنگار رس عشق و عاشقی کے جذبات سے متعلق ہے۔ ہاسیہ رس دوسروں کی کمزوریوں اور ناہمواریوں پر تمسخر کے جذبے سے تعلق رکھتا ہے۔ کسی محبوب شے کے چھن جانے سے غم ہوتا ہے یا کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آ جائے تو طبیعت مکدر ہو جاتی ہے۔ اس سے رودر رس پیدا ہوتا ہے۔ احساس محرومی و ناکامی کرون رس کو جنم دیتا ہے۔ خطرات کا مقابلہ کرنے کا حوسلہ ویر رس کو پیدا کرتا ہے۔ خطروں میں گھر کر ہمت ہار جانے سے بھیانک رس وجود میں آتا ہے۔ ناگوار صورت حال یا چیز سے ویھتس رس پیدا ہوتا ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۲۲۲

غیر معمولی واقعات اور کارناموں کو دیکھ کر ادبھت رس وجود میں آتا ہے۔ بعض کے نزدیک شانت رس کا تعلق جذبہ ایثار سے ہے اور بعض کے خیال میں ذہن کی باقی آٹھوں کیفیت کے عرفان کا نام ہی شانت رس ہے۔

نادر، درگاپرشاد ((پ۔ ۱۸۳۳)) : دہلی کے ایک معزز اور علمی گھرانے کے فرد تھے۔ ان کے والد منشی منسا رام ناتواں بھی معروف شاعر تھے۔ نادر نے دہلی کالج میں عربی، فارسی اور دیگر علوم کی تعلیم حاصل کی۔ پھر ایک مدت تک سرکار انگریزی کے محکمہ تعلیمات میں مختلف عہدوں پر فائز رہے۔ جن کی علمی دلچسپیوں کی وسعت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ انھوں نے "نادر الاذکار" کے نام سے ایک تذکرہ شعرائے دکن لکھا تو باغبانی کے فن پر ایک رسالہ "معیشت چمن" بھی تصنیف کیا۔

درگاپرشاد نادر کا نام دو تذکروں کے لیے خاص طور پر یاد رکھا گیا ہے۔ پہلا تذکرہ "خزینۃ العلوم فی متعلقات المنظوم" ۱۸۷۰ سے ۱۸۷۷ کے درمیان لکھا گیا۔ ۱۸۷۹ میں لاہور سے شائع ہوا۔ اس میں ۲۵۹ شعرا کے حالات ہیں اور فن شعر پر کئی ابواب پر مشتمل بحث بھی شامل ہے۔ دوسرا تذکرہ بھی اسی زمانے کی تصنیف ہے اور اس کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں صرف شاعرات فارسی و اردو کے حالات ہیں۔ فارسی گو شاعرات کے تذکرے کا نام "گلشن ناز" ہے۔ یہ ۱۲۹۳ھ مطابق ۱۸۷۶/۱۸۷۷ ہے۔ دونوں کو ملا کر نادر نے کتاب کا نام "تذکرۃ النسائے نادری" رکھا اور "مرآت خیالی" اس کا تاریخی نام رکھا۔ لیکن تذکرے کی شہرت "چمن انداز" ہی کے نام سے ہوئی۔ یہ تذکرہ پہلی بار دہلی سے ۱۸۷۸ میں شائع ہوا۔ اس میں ۱۴۱ شاعرات کے ترجمے ہیں۔ دونوں تذکرے اردو میں ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۲۲۳

بیان کیا جاتا ہے کہ نادر نے پچاس سے زائد کتابیں تصنیف کیں۔ ان کے ایک شاگرد حلم نے ایک نئی وضع کی کتاب لکھی جس میں اور باتوں کے علاوہ غالب کے بہت سے شعروں کی شرح بھی شامل ہے۔

نادر کاکوروی ((۱۹۱۲ – ۱۸۵۷)) : حامد علی عباسی کے بیٹے تھے۔ انگریزی شاعری کے انداز میں لکھی ہوئی ان کی نظمیں بہت مشہور ہوئی ہیں جن میں شمع و پروانہ، شعاع امید، پیکر بے زبان اور فلسفہ شعری قابل ذکر ہیں۔ بہت سے انگریزی نظموں کے انھوں نے اردو میں ترجمے کیے۔ ان میں سب سے زیادہ کامیاب نظم "گزرے ہوئے زمانے کی یاد" ہے۔ مقدس سرزمین اور مادر ہند، وطنی جذبات کی عکاس نظمیں ہیں۔ "لالہ رخ" ان کی مشہور مثنوی ہے جو انھوں نے انگریزی شاعر ٹامس مور ((Thomas Moore)) کی نظم Lalla Rookh سے متاثر ہو کر لکھی تھی۔ ان کے کلام کا مجموعہ "جذبات نادر" کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔

نارِس، فرینک ((۱۹۰۲ – ۱۸۷۰، Norris, Frank)) : نارس شکاگو کے امیر گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ۱۸۷۰ میں ان کی پیدائش ہوئی۔ انھوں نے دو سال پیرس میں مصوری کی تعلیم حاصل کی۔ کیلیفورنیا اور ہارورڈ یونیورسٹی میں زیر تعلیم رہے جہاں انھوں نے دو ناول ۱۸۹۹ ((Macteague)) اور Vandover لکھے۔ وہ چند سال صحافی رہے۔ بوئروار ((Boer War)) میں شرکت کی۔ کیوبا میں وہ جنگی نامہ نگار رہے۔ وہ گندم کی کاشت و تجارت پر ایک سہ المیہ لکھنا چاہتے تھے۔ وہ ناول اکٹوپس ((۱۹۰۱)) The Octopus میں اور خندق ((۱۹۰۲)) The Pit شائع ہوئے۔ آخری ناول بھیڑیا ((The Wolf)) کے مکمل ہونے سے پہلے ان کا انتقال ہو گیا۔
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۲۲۴

ناروے زبان و ادب : نارویجی زبان کی دو شکلیں ہیں۔ دونوں شمالی جرمینی خاندان کی ہیں۔ ایک ڈینو نارویجین پارکس مال کہلاتی ہے۔ یہ صدر مقام اوسلو کے اطراف میں بولی جاتی ہے اور یہ ڈین زبان کی ایک شکل ہے۔ بیسویں صدی تک یہی شکل سرکاری طور پر تسلیم کی جاتی تھی۔ دوسری لینڈس مال ہے جو نارویجی بولی کی ایک معیاری شکل ہے اور محض قوم پرستی کے زور پر مقبول ہوئی ہے۔

۱۳۸۰ میں ناروے اور ڈنمارک میں اتحاد ہو گیا تھا۔ اس کے اثر سے ڈین زبان اور ڈنمارک کا کلچر ناروے پر چھا گیا۔ دین سرکاری زبان بن گئی۔ اٹھارویں صدی تک یہی حالت رہی۔ لیکن آہستہ آہستہ ۱۸۱۴ میں ناروے الگ اور آزاد ہوا تو زندگی کے اور شعبوں کی طرح نارویجی ادب کو بھی نئی زندگی ملی۔ ۱۸۵۰ میں آسن نے لینڈس مال کو اتنی ترقی دی کہ وہ ڈین زبان کی جگہ لے سکے۔ اسی زمانہ میں ادب پر قومی رومانیت چھا گئی۔ ۱۸۷۰ تک ہنرک ابسن اور جارن سن جیسے ڈرامہ نگار اور ادیب ناروے کے ادبی افق پر ابھرے اور اپنی حقیقت پسندی سے نہ صرف ناروے بلکہ سارے یوروپ کے ادب کو متاثر کیا۔

نورومانی تحریک کے زیر اثر نٹ ہمسن اور ہینسن نے سارے یوروپ میں شہرت حاسل کی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد پرانے ادیب اسی طرح لکھتے رہے اور جنگ کے زمانہ میں ہٹلر کے قبضہ اور جنگ کے بعد کی پریشانیوں اور امیدوں کو اپنی تخلیقات کا موضوع بناتے رہے۔ ان میں بینگ ہینسن اور کیرہولٹ قابل ذکر ہیں۔

ناسخ، شیخ امام بخش ((۱۸۳۸ – ۱۷۷۲)) : فیض آباد میں پیدا ہوئے اور وہیں پروان چڑھے۔ ورزش کا شوق تھا۔ بدن کسرتی اور پھرتیلا تھا۔ فیض آباد کے ایک امیر محمد تقی کو ایسے بانکوں کی سرپرستی کا شوق تھا۔ محمد تقی نے ان کو بھی ملازم رکھا لیا اور ناسخ ان کے ساتھ لکھنؤ آ گئے۔ ایک رئیس میر کاظم علی سے منسلک ہو گئے جنھوں نے
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۲۲۵

ناسخ کو اپنا بیٹا بنا لیا۔ ان کے انتقال پر اچھی خاصی دولت ناسخ کے ہاتھ آئی۔ انھوں نے لکھنؤ میں بود و باش اختیار کر لی اور فراغت سے بسر کی۔

ناسخ کسی کے باقاعدہ شاگرد نہیں تھے۔ اودھ کے حکمراں غازی الدین حیدر نے ناسخ کو باقاعدہ ملازم رکھنا چاہا تھا مگر انھوں نے منظور نہ کیا۔ شاہی عتاب اور درباری آویزشوں کے سبب ان کو لکھنؤ چھوڑ کر الہ آباد، فیض آباد، بنارس اور کانپور میں رہنا پرا۔ لیکن آخر لکھنؤ واپس آ گئے۔ نظام دکن کے دیوان، چندو لال نے کثیر رقم بھیج کر ناسخ کو حیدر آباد آنے کی دعوت دی لیکن وہ وطن چھوڑ کر نہیں گئے۔ ناسخ لکھنؤ اسکول کے اولین معمار قرار دیے جا سکتے ہیں۔ ان کی پیروی کرنے والوں میں لکھنؤ کے علاوہ دہلی کے شاعر بھی تھے۔ ناسخ اسکول کا سب سے بڑا کارنامہ اصلاح زبان ہے۔ لکھنؤیت سے شاعری کا جو خاص رنگ مراد ہے اور جس کا سب سے اہم عنصر خیال بندی کہلاتا ہے، وہ ناسخ اور ان کے شاگردوں کی کوشش و ایجاد کا نتیجہ ہے۔ ناسخ کے کلام کا بڑا حصہ شائع ہو چکا ہے۔ ان کے کلیات میں غزلیں، رباعیاں، قطعات، تاریخیں اور ایک مثنوی شامل ہے۔

ناسخ التواریخ : مرزا محمد تقی سپہر کاشانی کی فارسی تالیف ہے۔ یہ فتح علی شاہ قاچار اور محمد شاہ قاچار کے عہد میں لکھی گئی۔ اس کے دو حصے ہیں۔ پہلے حصے میں حضرت آدم سے حضرت امام زین العابدین تک کے حالات تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں۔ دوسرا حصہ شاہان قاچار کی تاریخ ہے۔ زبان نہایت صاف اور شستہ ہے۔

ناصر خسرو ((۱۰۸۸ – ۱۰۰۳)) : حکیم ابو معین ناصر بن خسرو قبادیان بلخ میں پیدا ہوا۔ حصول علم میں کافی جد و جہد کی۔ سلطان محمود غزنوی اور مسعود غزنوی کی درباروں میں بھی رہا۔ سلجوقی دربار میں دبیر کی خدمت انجام دی۔ سات سال تک کئی ملکوں کی سیاحت کی اور مختلف قوموں کے حالات، ان کے مذاہب اور عقائد کا مطالعہ کیا
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۲۲۶

اور باطنیہ عقیدہ اختیار کیا۔ "حجت" کا لقب پایا۔ اس کی تبلیغ کے لیے ایران گیا۔ ایران سے بلغ واپس ہوا۔ اس کی اسی تبلیغ سنی اور دوسرے علما ناراض ہوئے۔ سلجوقی امرا کی ناراضگی کے ڈر سے شہر شہر گھومتا پھرا۔ اس نے کئی کتابیں لکھیں جس میں سفر نامہ اور "زاد المسافرین" نے شہرت پائی۔ اس کے قصائد اور مثنویاں بلند پایہ ہیں۔ ان میں دینی مسائل پر بحث ہے اور دنیا کی بے ثباتی اور اس کی رنگا رنگی سے نفور ملتا ہے۔ اس کے اشعار میں نہ تغزل ہے نہ مدح سرائی۔ قصیدے زیادہ تر علم و حکمت کی تعریف میں لکھے ہیں۔ ناصر خسرو نے قصبہ یمگان صوبہ بدخشان میں وفات پائی۔

ناصر علی دہلوی، میر ((۱۹۳۳ – ۱۸۴۷)) : سید نصیر الدین محمد المنصور الدین ناصر علی کا گھرانہ علم ادب میں ممتاز تھا۔ ان کے آباو و اجداد ترکستان سے ہندوستان آئے تھے۔ ناصر علی علم دین سے واقف اور انگریزی کے تعلیم یافتہ تھے۔ دہلی کالج میں تعلیم پائی۔ پچیس سال تک سرکاری ملازمت کی۔ گورنمنٹ کی طرف سے خان بہادر کا خطاب پایا تھا۔ ان کا ذاتی کتب خانہ بہت بڑا تھا۔ انھوں نے اپنا پریس بھی مطبع ناصری کے نام سے قائم کیا تھا۔ سر سید اور حالی کے تہذیب الاخلاق کے جواب میں پہلے ۱۸۷۶ میں آگرہ سے تیرہویں صدی نکالا جو ۱۸۸۰ میں زمانہ کے نام سے شائع ہونے لگا۔ ۱۸۸۵ میں "اضافہ ایام" کی شروعات کی اور ۱۸۸۸ میں اسے بند کر کے "ناصری" کی اشاعت شروع کی جس کے لکھنے والوں میں مرزا حیرت دہلوی کا نام بھی تھا۔ ان کا رسالہ "صلائے عام" تقریبا" بیس سال تک شائع ہوتا رہا اور بہت مقبول ہوا۔ اس رسالہ میں بیشتر مضامین ان کے اپنے ہوتے تھے۔ ساری عمر کی پونجی انھوں نے اس میں لگا دی تھی۔ دہلی میں وفات پائی۔
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۲۲۷

ناصر علی انشاپرداز تھے اور فلسفیانہ موضوعات پر لکھتے تھے۔ اپنی طویل ادبی زندگی میں بہت کچھ لکھا۔ انھوں نے فارسی میں قران مجید کی تفسیر بھی لکھی تھی جس پر انھیں ترکی کے سلطان کی طرف سے خلعت ملا تھا۔

ناصر علی سرہندی ((۱۶۹۶/۹۷ – ۱۶۳۸)) : ناصر علی نام اور علی تخلص تھا۔ سرہند ((سہرند)) میں ۱۶۳۸ میں پیدا ہوئے۔ علوم متداولہ کے حصول کے بعد مرزا فقیر اللہ سیف خاں بدخشی کے ملازم ہوئے۔ وہ جب الہ آباد کے صوبہ دار مقرر ہوئے تو ناصر علی بھی اس کے ساتھ الہ آباد گئے۔ مرزا فقیر اللہ سیف خاں بدخشی وہی ہیں جنھوں نے موسیقی کی مشہور کتاب "راگ درپن" لکھی۔ جب سیف خاں کا ۱۶۸۳ میں انتقال ہو گیا تو ناصر علی بیجاپور چلے گئے اور نواب ذوالفقار خاں وزیر عالمگیر کے یہاں ملازم ہو گئے۔ ایک غزل کا مطلع پڑھا تھا کہ ذوالفقار خاں نے ایک ہاتھی اور ایک لاکھ روپے نذر کیے اور دوسرا شعر پڑھنے کی اس لیے اجازت نہ دی کہ مزید انعام دینے کی اپنے میں سکت نہ پائی۔ انعام کی یہ رقم لے کر ہاتھی پر بیٹھے ہوئے روپے مٹھیوں سے لٹاتے چلے اور آخر میں ہاتھی مہاوت کو انعام میں دے دیا۔ ذوالفقار خاں کے ساتھ وہ کرناٹک میں بھی رہے۔ ارکاٹ کے حاکم غضنفر خاں سے بھی انھیں ارادت تھی۔ ارکاٹ کے ایک مجذوب شاہ حمید الدین سے بھی عقیدت تھی۔ انھیں کے کہنے پر وہ دہلی واپس ہوئے اور صوفی صافی کی زندگی گزاری۔ وہ حضرت شیخ سرہندی کے فرزند شیخ محمد معصوم کے سلسلہ نقشبندیہ میں مرید تھے۔ ذکر و شغل، زندگی کا مشغلہ تھا۔ تجرد کی زندگی گزار کر ۱۶۹۶/۹۷ میں واصل بحق ہوئے اور درگاہ حضرت نظام الدین اولیا میں دفن ہوئے۔
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۲۲۸

شاعری میں صائب کا اتباع کیا اور مثالیہ اشعار کہنے میں مہارت دکھائی۔ ان کی شاعری پر خواجہ حافظ اور مولانا روم کی بھی گہری چھاپ نظر آتی ہے۔ موضوع ہمیشہ تصوف رہا۔ چونکہ انھوں نے اشاروں کنایوں میں مسائل تصوف کو سمجھایا ہے اس لیے مفہوم واضح نہیں ہوتا۔ دور اذکار تشبیہیں ادائے مطلب میں پیچیدگی پیدا کرتی ہیں۔

ناصر علی نے نئے نئے مضامین بھی پیدا کیے ہیں۔ خیالات میں رفعت ہے۔ طرز ادا میں دلکشی ہے۔ انکساری، فقر و استغنا اور ترک دنیا کے مضامین زیادہ ملتے ہیں۔

ناصر کاظمی ((۱۹۲۵ – ۱۹۷۲)) : ناصر رضا کاظمی انبالہ ((پنجاب)) میں پیدا ہوئے۔ ۱۹۴۷ میں تقسیم ہند کے بعد لاہور میں سکونت اختیار کی۔ ابتدائی تعلیم انبالہ میں ہوئی۔ اس کے بعد اسلامیہ کالج لاہور میں زیر تعلیم رہے۔ اعلیٰ تعلیم کی تکمیل نہ ہو سکی۔ شعر گوئی کا آغاز جوانی میں ہو گیا تھا۔ شاعری کے علاوہ موسیقی سے بھی گہری دلچسپی تھی۔ ناصر کاظمی، حفیظ ہوشیارپوری ((۱۹۱۲ تا ۱۹۷۳)) کے شاگردوں میں تھے۔

ناصر کاظمی جدید غزل کے اولین معماروں میں ہیں۔ چند مضامین لکھے اور نظمیں بھی لکھیں لیکن ان کی شناخت غزل کے حوالے سے قائم ہے جس میں کیفیت، روانی اور لہجے کی نرمی کا بڑا دخل ہے۔ پہلا مجموعہ "برگ نے" ((اشاعت اول ۱۹۵۵)) ان کی زندگی میں شائع ہوا۔ اس میں ۱۹۴۶ – ۱۹۴۷ تک کا کلام شامل ہے۔ دوسرے دو مجموعے "دیوان" ((اشاعت اول ۱۹۷۲)) اور "پہلی بارش" ((اشاعت اول ۱۹۷۵)) ان کی وفات کے بعد سامنے آئے۔ یہ مجموعے صرف غزلوں پر مشتمل ہیں اور دراسل یہی وہ کلام ہے جس کی بنیاد پر ناصر کاظمی کے مقام و مرتبے کا تعین ہوتا ہے۔ تیسرے مجموعہ "پہلی بارش" کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس کی تمام غزلیں ایک ہی زمین میں ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۲۲۹

ناصر کاظمی کی وفات کے بعد ان کی مزید تین کتابیں منظر عام پر آئیں۔ پہلی "سُر کی چھایا" ایک طویل نظم ہے جسے خود شاعر نے کتھا کہا ہے۔ دوسرے "نشاط خواب" جس میں ریڈیو کے لیے کہی گئی نظمیں شامل ہیں۔ تیسرے کتاب نثر کی ہے "خشک چشمے کے کنارے" ((اشاعت اول ۱۹۸۲)) جس میں ناصر کاظمی کے مضامین شامل ہیں۔ انھوں نے تین ادبی رسائل "اوراق نو"، "خیال" اور "ہمایوں" جو لاہور سے شائع ہوتے تھے، ان کی ادارت بھی کی۔

ناظر، خوشی محمد خاں ((۱۹۴۴ – ۱۸۷۲)) : والد کا نام مولا داد تھا۔ وہ پنجاب کے ضلع گجرات ((پنجاب)) کے رہنے والے تھے۔ ناظر وہیں پیدا ہوئے اور وہیں اسکول کی ابتدائی تعلیم کے ساتھ فارسی میں بھی دستگاہ حاصل کی۔ بعد میں پھر علی گڑھ کالج سے بی۔ اے۔ کی ڈگری لی۔ ریاست کشمیر کے گورنر مقرر ہوئے۔ عمر کا زیادہ حصہ وہیں بسر کیا۔ گورنری سے علیحدگی کے بعد ضلع لائل پور، موجودہ فیصل آباد، میں مستقل سکونت اختیار کر لی۔ وہیں وفات ہوئی۔

ناظر نے سرسید کی تحریک اور فطری شاعری کے میلان سے متاثر ہو کر نظم گوئی اختیار کی اور قومی نطمیں لکھیں۔

ناظم، یوسف علی خاں ((۱۸۶۵ – ۱۸۱۶)) : خلف نواب محمد سعید خاں والی رامپور، بڑے علم دوست، ہنر پرور اور شعرا کے مربی تھے۔ خود بھی اچھے شاعر تھے۔ اردو اور فارسی دونوں میں شعر کہتے تھے۔ ابتدا میں مومن سے اصلاح لی۔ ان کے بعد مرزا غالب کو اپنا کلام دکھایا۔ میر مظفر علی اسیر سے بھی مشورہ سخن کیا۔ غدر میں انگریزوں کی مدد کرنے کے بدلے کچھ علاقہ جاگیر میں ملا اور دولت آصفیہ کا خطاب بھی۔ ناظم نے اپنی چھوٹی سی ریاست میں بڑے بڑے اہل کمال اور اہل فن کو جمع کر لیا تھا۔ دہلی اور لکھنؤ کی تباہی کے بعد جو شاعر وہاں سے نکلے، انھیں رامپور ہی میں امان ملی۔ مرزا غالب، جلال لکھنوی، جان صاحب، مظفر علی اسیر، امیر مینائی اور بہت سے علما و
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۲۳۰

شعرا ان کے دربار سے وابستہ تھے۔ یوسف علی خاں صاحب دیوان شاعر ہیں۔ ان کا اردو اور فارسی دیوان طبع ہو چکا ہے۔

ناگارجن ((۱۹۱۰ – ۱۹۹۸)) : ترقی پسند شاعر اور ناول نگار، ضلع دربھنگہ ((بہار)) کے قصبہ تیرانی میں ۱۹۱۰ میں پیدا ہوئے۔ اصل نام ودیہ ناتھ مشر ہے۔ ناگارجن تخلص کرتے ہیں۔ ترقی پسند شعور کے اہم شاعر مانے جاتے ہیں۔ "یگ دھارا" ان کا پہلا شعری مجموعہ ہے۔ اس کے علاوہ ((۱)) سترنگے پنکھوں والی، ((۲)) پیاسی پتھرائی آنکھیں، ((۳)) تالاب کی مچھلیاں، ((۴)) ہزار ہزار ہاتھوں والی، ان کے اہم شعری مجموعے ہیں۔سنجیدہ طنز و مزاح کے سبب ناگارجن نے ہندی کویتا میں اپنی الگ پہچان بنا لی ہے۔ عوامی شعور اور حقیقی تجربے کی آمیزش سے ناگارجن نے بڑے تیکھے طنز کیے ہیں۔ ان کی نظموں کی ایک اہم خصوصیت غنائیت ہے۔ نرالا کی اہم طنزیہ نطم "ککرمتا" کی روایت سے متاثر ہو کر ناگارجن نے بڑی خوبصورت نظمیں لکھیں۔ ایسی ہی ایک اہم نظم "بھارت بھاگیہ ودھاتا" میں ناگارجن نے ان وزیر صاحب پر زبردست طنز کیا ہے جو تعلیمی امور کے ذمہ دار ہیں۔ یہ وزیر غریب بچوں کے فیل ہو جانے پر چین کی نیند سوتا ہے کیونکہ پاس ہو جانے کی صورت میں بےکاروں کی فوج ان کی نیند حرام کر دیتی۔ ناگارجن نے اپنی ایک اہم نظم میں معاشی نظام کی ناہمواری کے سبب متوسط طبقہ کے نوکری پیشہ لوگوں کی خراب و خستہ حالت کی بڑی پُر اثر تصویر کھینچی ہے۔ اس میں پرائمری اسکول کے ماسٹر کی قابل رحم حالت کو دکھایا گیا ہے۔ اس سے ہندوستان کے تعلیمی نظام اور تعلیمی اداروں کی خستہ حالت پر بھی روشنی پڑتی ہے۔ ناگارجن جو حکومت بہار، اترپردیش اور ساہتیہ اکادمی دہلی کی طرف سے فیلوشپ عطا کیا گیا۔
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۲۳۱

ان کی پہچان حقیقت نگار آنچلک ناول کے سلسلے کے بانی کے طور پر بنی ہے۔ "رتی ناتھ کی چاچی" ((۱۹۴۸)) کے نام سے جب ان کا پہلا ناول شائع ہوا تو عورت کے دل کی صحیح ترجمانی کے سبب اس پر زبردست بحثیں ہوئیں۔ ناگارجن مارکسی نظریہ کے حامل تھے۔ دیہاتی زندگی کی تصویر کشی وہ بڑی عقیدت سے کرتے ہیں۔ نچلے اور متوسط طبقے کی معاشی جد و جہد کی پیش کش کے وقت ان کا رحجان سیاسی ہو جاتا ہے۔ ان کے ناولوں میں باغی کسان کا کردار ابھرتا ہے۔ ((۱)) بلچ نما، ((۲)) نئی پودھ، ((۳)) بابابئیسر ناتھ، ((۴)) ورون کے بیٹے، ((۵)) دکھ موچن، ان کے قابل ذکر ناول ہیں۔

نالاڈیار ((Naaladiyar)) : تمل میں اخلاقی رباعیات کا مجموعہ ہے۔ چونکہ اس میں چار مصرعی نظمیں شامل ہیں اس لیے نالاڈیار کے نام سے موسوم ہے۔ اس میں مختلف شعرا کی رباعیات شامل ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ پانڈیا راجاؤں کے دورِ حکومت میں تقریباً آٹھ ہزار جین رشی منیوں نے انھیں لکھا جنھیں بادشاہ نے یکجا کر کے "نالاڈیار" مجموعے کی شکل میں محفوظ کر دیا۔ اس میں بے ثباتی دنیا اور ترکِ دنیا، دولت کی ناپائداری جیسے موضوعات کو پیش کیا گیا ہے۔

نام دیو ((۱۲۷۰ – ۱۳۵۰)) : یہ ذات کے درزی تھے۔ والد کا نام داما سیٹھ اور ماں کا گونائی تھا۔ گورا کمہار، ساوتا مالی اور دوسرے کئی سنت کوی ان کے ہمعصر تھے۔ ان سب کا تعلق انھیں ذاتوں سے تھا جنھیں حقارتاً نیچ ذات کا نام دیا جاتا ہے۔ ان کی ماں، بیوی، بچے اور جنا بائی نامی ایک ملازمہ، یہ سب کے سب بھکتی گیت لکھا کرتے تھے۔ نام دیو کی زندگی کے حالات بہت کم معلوم ہیں۔ اتنا ضرور مشہور ہے کہ گیانیشور اور نام دیو دونوں ایک ساتھ بنارس یاترا پر گئے تھے۔ بیکانیر ((راجستھان)) سے دس میل دور کولادجی ناک کے گاؤں میں ایک باؤلی
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۲۳۲

ہے جو نام دیو کوپ کہلاتی ہے۔ سکھوں کی مقدس کتاب "آدی گرنتھ" یا "گرو گرنتھ صاحب" میں نام دیو کے اکسٹھ اشعار شامل ہیں۔ گھومان ((پنجاب)) میں نام دیو کا ایک مندر بھی ہے۔ کئی ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو نام دیو پنتھ یا نام دیو جاتی سے تعلق رکھتے ہیں۔ کبری کے بیٹے کمال نے ان کے متعلق کہا تھا کہ "نام دیو دکن کے ایک درزی ہیں جن کا ظاہر و باطن سوائے ایشور کے کچھ نہیں ہے۔"

مراٹھی کے علاوہ نام دیو کی ہندی اور پنجابی میں بھی متعدد کویتائیں ہیں۔ نام دیو پر ایک مقالہ ((از ڈاکٹر پربھاکرماچوے)) انگریزی میں پنجاب یونیورسٹی ((پٹیالہ)) سے شائع ہوا ہے جس میں سکھوں کی مقدس کتاب میں شامل ان کے "پدوں" کے ترجمے اور ان کی زندگی کے حالات اور شاعری پر سیر حاصل تبصرہ موجود ہے۔ نام دیو پر مراٹھی میں متعدد کتابیں ہیں جن میں مولے، ایس۔ ڈی۔ پینڈسے، ایچ۔ انعامدار اور بی۔ ایس۔ منڈلے کی کتابیں مشہور ہیں۔ ساہتیہ اکادمی نے بھی ان پر ایم۔ جی۔ دیش مکھ کا مونوگراف شائع کیا ہے۔جس کا اردو ترجمہ یونس اگاسکر نے کیا ہے۔

نام کل کونجر ((۱۹۷۲ – ۱۸۸۸، Namakkal Kavingnar)) : ان کا اصلی نام راملنگم پلائی ہے لیکن نام کل کونجر کے نام سے مشہور ہوئے۔ تمل شعری روایت کی پیروی کرتے ہوئے تمل عوام کی مدح میں انھوں نے ایک نظم تمل اِدَیَم ((Tamil Idhayam)) لکھی۔ ایک رزمیہ اولم اونم ((Olum Onum)) لکھا۔ مختلف موضوعات پر ان کی دو شعری تصانیف سنگولی ((Sanguoli)) اور تمل تیر ((Tamil Ter)) پائی جاتی ہیں۔ لیکن گاندھی جی پر لکھی ان کی نظموں سے انھیں شہرت ملی۔ یہ نطمیں "گاندھی انجلی" کے نام سے شائع
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۲۳۳

ہوئیں۔ ان کی نظموں میں حالانکہ جذبات اور تاثر کی کمی ہے لیکن ایک قسم کی نرمی اور حلاوت پائی جاتی ہے اور یہی خصوصیت ان کی شہرت کا باعث بنی۔ انھیں تمل کا پہلا درباری شاعر ہونے کا شرف بھی حاصل ہے۔

نانک، گرو ((۱۴۶۹ – ۱۵۳۹)) : سکھوں کے پہلے گرو، نانک پہلی بار ۱۵۰۷ سے ۱۵۱۵ کے درمیان دوسرے بار ۱۵۱۷ اور ۱۵۱۸ میں اور تیسری بار ۱۵۱۸ سے ۱۵۲۱ تک ہندوستان کے دور دراز علاقوں میں گھومتے رہے۔ انھیں کئی زبانیں آتی تھیں۔ ان کی جو شاعری ملتی ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ ٹھیٹ پنجابی میں لکھنے کے علاوہ انھوں نے اس زمانے میں شمالی ہند کی رائج زبان برج میں بھی بہت سے نظمیں لکھی ہیں۔ ان کی برج بھاشا کی شاعری میں بھی بے شمار راگ راگنیوں کا استعمال ہوا ہے۔ مذہبی نقطہ نظر سے ان کی شاعری کو جتنی اہمیت حاصل ہے اتنی ہی اس کی ادبی حیثیت بھی ہے۔ کئی جگہ فطرت کا بہت اچھا بیان ان کی شاعری میں ملتا ہے۔ نکھاری راگ کے بارہ ماہاں ((بارہ ماسہ)) میں بارہوں مہینوں کے بارے میں گرو کی وجدانیت کا اظہار ہوا ہے۔ ان کی پنجابی زبان کی طرح برج بھاشا کی زبان میں بھی شانت رس ((اخلاقی)) نمایاں ہیں۔ گرو نانک نے روپک سے بھی کام لیا ہے۔ تمثیل بنجاروں سے متعلق ان کے گیتوں میں تمثیل نگاری یا علامت نگاری کا فن عروج پر ہے۔

ناول – اردو : یوروپ میں نشاۃ ثانیہ کے بعد علم و ادب کے فروغ کے ساتھ ناول کا جنم ہوا ۔ نئے نظام فکر و عمل کی تفسیر و تشریح کے لیے ایک جدید صنف ادب درکار تھی جو ناول کی شکل میں سامنے آئی۔ ہندوستان میں انگریزوں کے تسلط نے زندگی کے مختلف شعبوں کی طرح ادب کو بھی متاثر کیا۔ اردو میں ۱۸۵۷ سے قبل ناول کا رواج نہ تھا۔ جب زندگی کے ہر شعبہ میں انقلاب آیا، ادب کی نئی صنفوں کو بھی ابھرنے کا موقعہ ملا تو مغربی
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۲۳۴

افکار کے ساتھ ساتھ مغربی اصناف نے بھی لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیا۔ اردو میں ناول کا ورود انگریزی ادب کی مقبولیت کا ہی نتیجہ تھا۔ اس کے علاوہ ہندوستان کے حالات بھی ایسے تھے کہ یہاں کے ادیبوں کو ناول کی صنف میں اپنے اظہار کا ایک موثر ذریعہ مل گیا۔

اردو ناول کے بیشتر ناقدین نے نذیر احمد کو اردو کا پہلا ناول نگار تسلیم کیا ہے۔ اگرچہ نذیر احمد کے ناولوں کو کچھ لوگ تمثیلی قصوں کا نام دیتے ہیں، یہ قصے مغربی ناول کے معیار پر پورے نہیں اترتے۔ نذیر احمد کے ناولوں میں مرات العروس، بنات النعش، توبۃ النصوح، ابن الوقت اور فسانہ مبتلا مقبول ہوئے۔ "مراۃ العروس" ((۱۸۷۹)) اردو کا پہلا ناول ہے۔ اس ضمن میں اختلاف رائے ہے۔ نذیر احمد کے ناولوں کا بنیادی مقصد مسلم معاشرہ کی اصلاح ہے۔ رتن ناتھ سرشار کا ناولوں کا دائرہ عمل نذیر احمد سے زیادہ وسیع ہے۔ ان کے تین ناول "فسانہ آزاد"، "سیر کہسار" اور "جام سرشار" مشہور ہیں۔ ان میں "فسانہ آزاد" اردو ناول کی تاریخ میں خاص اہمیت رکھتا ہے کہ اس کی بدولت ایک خاص عہد کا لکھنؤ آج بھی زندہ ہے۔ عبد الحلیم شرر نے شعوری طور پر ناول کے فن کو سمجھنے اور برتنے کی کوشش کی۔ ان کی اہمیت اس میں ہے کہ انھوں نے والٹر اسکاٹ کی طرح تاریخی ناول نگاری کو رواج دیا۔ ان کے ناولوں میں "فردوس بریں"، ملک عبد العزیز و رجنا"، "بابک خرمی"، "حسن کا ڈاکو"، "قیس و لبنی"، "فلورا فلورنڈا" اور "دربار حرام پور" قابل ذکر ہیں۔ محمد ہادی رسوا بہت ذہین اور طباع تھے۔ غیر معمولی تخلیقی صلاحیتوں سے مالا مال تھے۔ ان کا شاہکار ناول "امراؤ جان ادا" ((۱۸۹۹)) ہے جس سے نفسیاتی اور تجزیاتی ناول کا آغاز ہوا۔ امراؤ جان ادا ایک طوائف کی کہانی ہے اور اس کا پس منظر لکھنؤ کا وہی انحطاط پذیر معاشرہ ہے جس
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۲۳۵

کی مصوری سرشار نے "فسانہ آزاد" میں کی ہے۔ اس ناول کے ذریعہ ادبی اور شاعرانہ قدروں کو بھی ایک وسیع مفہوم ملا۔ رسوا کے دوسرے ناول اختری بیگم، زات شریف، افشائے راز اور شریف زادہ ہیں۔

یہ وہ زمانہ تھا جب اہم ادبی رحجانات، تحریکیں اور تصورات ہندوستان کی سیاسی، سماجی اور معاشرتی زندگی کو متاثر کر رہے تھے۔ حال کی پستی کے احساس سے نکلنے اور ایک نیا حوصلہ بیدار کرنے کے لیے اپنے آپ کو نئے سرے سے سمجھنے کی روش عام ہوئی۔ قومیت اور وطن پرستی بھی اس دور کا اہم رحجان بنتی جا رہی تھی۔ ان رحجانات کی عکاسی اودھ پنچ کے ایڈیٹر منشی سجاد حسین کے ناولوں میں ملتی ہے جو صحافی بھی تھے اور ناول نگار بھی۔ ان کے قابل ذکر ناول حاجی بغلول، احمق الذیں اور کایا پلٹ ہیں۔ قاضی سرفراز حسین نے آٹھ ناول لکھے جن میں شاہد رعنا اور بہار عیش سر فہرست ہیں۔ ان کے تمام ناولوں کا موضوع طوائفوں کی زندگی اور ان کی اصلاح ہے۔ راشد الخیری نے طبقہ نسواں کی فلاح و ترقی کو اپنا مسلک بنایا۔ انھیں بیگماتی زبان پر عبور تھا۔ وہ "مصور غم" کے لقب سے یاد کیے جاتے ہیں۔ ان کے ناولوں میں عروس کربلا، آمنہ کا لال، سمرنا کا چاند، نوحہ زندگی، سیدہ کا لال اور شام زندگی کے نام لیے جا سکتے ہیں۔ نیاز فتحپوری اور سجاد حیدر یلدرم کے رومانوی تصوارت ان کے باغیانہ رحجان کی بھی نمائندگی کرتے ہیں۔ نیاز نے اردو میں تصوراتی ناول لکھنے کی بنیاد ڈالی۔ ان کے دو ناول "شہاب کی سرگزشت" اور "ایک شاعر کا انجام" مشہور ہیں۔ ان ناولوں میں ان کی شاعرانہ فلسفیت اور انشا پردازی نمایاں ہیں۔ یلدرم نے ترکی ادب کے اثرات قبول کیے اور اردو فکشن میں بعض نئے عناصر کا اضافہ کیا۔ پہلی جنگ عظیم سے ۱۹۳۶ تک کے دور کو بحیثیت مجموعی ہیجان و اضطراب کا دور سمجھا جاتا ہے۔ ہندوستان کی عملی اور سیاسی زندگی میں جو انقلاب رونما ہوئے ان کے تحت کسانوں اور مزدوروں کے مسائل کو حل کرنے کی
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۲۳۶

کوشش شروع ہوئی۔ اس دور میں پریم چند اور ان کی قبیل کے دوسرے ناول نگاروں نے شہری زندگی کے بجائے دیہاتی زندگی کے مسائل پر توجہ دی۔ ارضیت اور مقامیت کے تصورات کو تخلیقی سمت عطا کرنے کی یہ ایک وقیع کوشش تھی۔ پریم چند کی ناول نگاری ایک پورے عہد اور حقیقت پسندی اور آدرش واد کی امتزاج سے پیدا ہونے والی ایک نئی تخلیقی فکر کی عکاس ہے۔ پریم چند نے شعوری طور پر سماج کے سب سے درماندہ اور مظلوم طبقہ یعنی مزدوروں اور کسانوں کو اپنے ناولوں کا موضوع بنایا۔ انھوں نے ناول کو ایک بلند مقام پر پہنچا دیا۔ ۱۵ ناول لکھے جن میں گوشہ عافیت، بازار حسن، نرملا، میدان عمل، پردہ مجاز، بیو، غبن، چوگان ہستی اور گئودان نمایاں ہیں۔ ان ناولوں میں مغربی اثرات بھی تلاش کیے جا سکتے ہیں، خاص کر ڈکنس، ٹالسٹائے اور گورکی کے۔ لیکن ان کا قابل قدر پہلو مشرقیت نہیں بلکہ ہندوستانیت ہے۔

۱۹۳۶ میں انجمن ترقی پسند مصنفین کے قیام نے ہندوستانی ادیبوں کے تخلیقی رویہ میں انقلابی تبدیلیاں پیدا کیں۔ اس دور کے جن ادیبوں نے ناول کو اظہار کا ذریعہ بنایا وہ پریم چند سے زیادہ کھلے ذہن، گہرے سیاسی تفکر اور تازہ احساس کے مالک تھے۔ ان کے رویے کی تعمیر میں اگر ایک طرف مارکس اور اشتراکی ادب کا اثر تھا تو دوسری طرف فرائڈ اور نفسیاتی حقیقت نگاری کے تصورات سے متاثر ہونے والے ادیبوں مثلاً ڈی۔ ایچ۔ لارنس کا۔ اردو ناول میں زندگی کے جدلیاتی شعور، تحلیل نفسی اور داخلی حقیقت نگاری کی ایک تازہ لہر پیدا ہوئی۔ سجاد ظہیر کے ناولٹ "لندن کی ایک رات" ((۱۹۳۸)) کی حیثیت ایک تجرباتی ناول کی ہے۔ یہ پہلا ناولٹ ہے جس میں شعور کی رو کی تکنیک کا استعمال کیا گیا ہے۔ یہ ناولٹ اپنی نئی تکنیک، نقطہ نگاہ اور فنی ساخت کے اعتبار سے جدید امکانات کی بشارت ثابت ہوا۔ کرشن چندر نے بہت سے ناول لکھے جن میں "شکست" اپنے وقت کی آواز
 
Top