شمشاد
لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۲۳۷
تھا۔ ان کے دیگر ناولوں میں ان داتا، طوفان کی کلیاں، باون پتے اور دل کی وادیاں سو گئیں، ایک گدھے کی سرگزشت قابل ذکر ہیں۔ عزیز احمد ترقی پسند تحریک سے تعلق کے باوجود ایک آزاد تخلیقی شعور رکھتے تھے۔ انھوں نے کئی ناول لکھے : ہوس، ایسی بلندی ایسی پستی، مرمر اور خون، گریز اور آگ اور شبنم۔ یہ ناول ترقی پسندی سے وابستہ حقیقیت نگاری کے تصور اور ایک نئے فنکارانہ شعور کی نمائندگی کرتے ہیں۔ عصمت چغتائی کے اسلوب کی بیباکی ان کا طرہ امتیاز بنی۔ ان کا ناول "ٹیڑھی لکیر" اردو ناولوں میں ایک اضافے کی حیثیت رکھتا ہے۔ ان کے دوسرے اہم ناول : ایک بوند لہو کی، ضدی، جنگلی کبوتر اور معشوقہ ہیں۔ قیسی رام پوری، رشید اختر ندوی، رئیس احمد جعفری، عظیم بیگ چغتائی، خان محبوب طرزی، شوکت تھانوی، عادل رشید اور اے۔ حمید وغیرہ کو عوامی مقبولیت ملی۔ منشی فیاض علی جو پیشے سے وکیل تھے انھوں نے شمیم اور انور نامی دو ناول لکھے۔ یہ سماجی ناول ہیں اور اپنے دور کی تہذیبی قدروں کے عکاس ہونے کے ساتھ قاری کی دلچسپی کے کئے پہلو بھی ان میں موجود ہیں۔ اے۔ آر۔ خاتون کے ناول مسلم ثقافتی قدروں کے عکاس ہیں۔ شمع، تصویر، افشاں اور چشمہ ان کے مقبول ناول ہیں۔
۱۹۴۷ کے بعد ناول کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہوا۔ تقسیم اور فسادات کی آنچ عصری ادب تک بھی پہنچی۔ بالخصوص فسادات کو اپنا موضوع بنانے اور اس ماحول میں انسانی قدروں کو اجاگر کرنے میں اردو ناول نگار سب سے آگے رہے۔ فسادات کے موضوع پر ایم۔ اسلم کا "رقص ابلیس"، رئیس احمد جعفری کا "مجاہد"، رامانند ساگر کا "اور انسان مر گیا"، نسیم حجازی کا "خاک و خون" اور قدرت اللہ شہاب کا ناولٹ "یا خدا" نمایاں حیثیت رکھتے ہیں۔ اس دور میں ایسے ناول بھی ملتے ہیں جو اپنی فکری وسعت کے باعث پائیداری اور ہمہ گیریت کے حامل ہیں۔ قرۃ العین
صفحہ ۲۳۷
تھا۔ ان کے دیگر ناولوں میں ان داتا، طوفان کی کلیاں، باون پتے اور دل کی وادیاں سو گئیں، ایک گدھے کی سرگزشت قابل ذکر ہیں۔ عزیز احمد ترقی پسند تحریک سے تعلق کے باوجود ایک آزاد تخلیقی شعور رکھتے تھے۔ انھوں نے کئی ناول لکھے : ہوس، ایسی بلندی ایسی پستی، مرمر اور خون، گریز اور آگ اور شبنم۔ یہ ناول ترقی پسندی سے وابستہ حقیقیت نگاری کے تصور اور ایک نئے فنکارانہ شعور کی نمائندگی کرتے ہیں۔ عصمت چغتائی کے اسلوب کی بیباکی ان کا طرہ امتیاز بنی۔ ان کا ناول "ٹیڑھی لکیر" اردو ناولوں میں ایک اضافے کی حیثیت رکھتا ہے۔ ان کے دوسرے اہم ناول : ایک بوند لہو کی، ضدی، جنگلی کبوتر اور معشوقہ ہیں۔ قیسی رام پوری، رشید اختر ندوی، رئیس احمد جعفری، عظیم بیگ چغتائی، خان محبوب طرزی، شوکت تھانوی، عادل رشید اور اے۔ حمید وغیرہ کو عوامی مقبولیت ملی۔ منشی فیاض علی جو پیشے سے وکیل تھے انھوں نے شمیم اور انور نامی دو ناول لکھے۔ یہ سماجی ناول ہیں اور اپنے دور کی تہذیبی قدروں کے عکاس ہونے کے ساتھ قاری کی دلچسپی کے کئے پہلو بھی ان میں موجود ہیں۔ اے۔ آر۔ خاتون کے ناول مسلم ثقافتی قدروں کے عکاس ہیں۔ شمع، تصویر، افشاں اور چشمہ ان کے مقبول ناول ہیں۔
۱۹۴۷ کے بعد ناول کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہوا۔ تقسیم اور فسادات کی آنچ عصری ادب تک بھی پہنچی۔ بالخصوص فسادات کو اپنا موضوع بنانے اور اس ماحول میں انسانی قدروں کو اجاگر کرنے میں اردو ناول نگار سب سے آگے رہے۔ فسادات کے موضوع پر ایم۔ اسلم کا "رقص ابلیس"، رئیس احمد جعفری کا "مجاہد"، رامانند ساگر کا "اور انسان مر گیا"، نسیم حجازی کا "خاک و خون" اور قدرت اللہ شہاب کا ناولٹ "یا خدا" نمایاں حیثیت رکھتے ہیں۔ اس دور میں ایسے ناول بھی ملتے ہیں جو اپنی فکری وسعت کے باعث پائیداری اور ہمہ گیریت کے حامل ہیں۔ قرۃ العین