شمشاد
لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۳۴۷
بکسلے، آلڈس لیونارڈ ((۱۹۶۳ – ۱۸۹۴، Huxley, Aldous Leonard)) : بکسلے انگریز مصنف ہے۔ یہ مشہور سائنس داں تھامس بکسلے کا پوتا تھا۔ اٹین ((Eton)) اور آکسفورڈ میں تعلیم پائی۔ یوروپ کی سیر کے زمانہ میں اٹلی میں اس کی ڈی۔ ایچ۔ لارنس سے ملاقات ہوئی اور دونوں میں گہری دوستی ہو گئی۔ ۱۹۳۰ میں وہ امریکا آیا اور پھر یہیں رہنے لگا۔ ۱۸ سال کی عمر ہی سے اس کی آنکھیں خراب ہونا شروع ہو گئی تھیں۔ ساری عمر ان کو بچانے پر صرف ہو گئی۔
بکسلے کی ادبی زندگی نظم گوئی سے شروع ہوئی۔ کچھ تنقیدی مضامین لکھے اور پھر ناول کا رخ کیا۔ اپنے ناولوں "کروم یلو" ((Crome Yellow))، "پائنٹ کاونٹر پائنٹ" ((Point Counter Point)) وغیرہ میں اس نے ایک زوال پذیر سماج کا نقشہ پیش کیا ہے۔ انداز نہایت طنزیہ ہے۔ "بریو نیو ورلڈ" ((Brave New World)) میں اس نے پچیسویں صدی میں آنے والے سماج کا ایک خیالی خاکہ پیش کیا ہے جسے پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اس کے بعد اس نے آئی لس ان غزہ ((Eyeless In Gaza))، "ڈیولز آف لندن" ((Devils of London))، "دی جینیس اینڈ گوڈیس" ((The Genius and Goddes)) وغیرہ لکھیں۔ ان میں نئے نئے خیالات کی بھرمار ہے۔ نئے نئے قسم کے پلاٹ ہیں۔ اس کی تحریر سے صاف جھلکتا ہے کہ اسے موجودہ سماج سے کس قدر ناامیدی ہو گئی تھی۔ اور اس کی وجہ سے نفرت اور حقارت کا جذبہ پرورش پا گیا تھا۔
بکسلے کی بعد کی تحریروں سے پتہ چلتا ہے کہ اسے تصوف ((Mysticism)) اور مشرقی فلسفہ سے دلچسپی پیدا ہو گئی تھی۔ ناولوں کے علاوہ اس کی کہانیوں اور مضامین کے مجموعے بھی شائع ہوئے ہیں۔
صفحہ ۳۴۷
بکسلے، آلڈس لیونارڈ ((۱۹۶۳ – ۱۸۹۴، Huxley, Aldous Leonard)) : بکسلے انگریز مصنف ہے۔ یہ مشہور سائنس داں تھامس بکسلے کا پوتا تھا۔ اٹین ((Eton)) اور آکسفورڈ میں تعلیم پائی۔ یوروپ کی سیر کے زمانہ میں اٹلی میں اس کی ڈی۔ ایچ۔ لارنس سے ملاقات ہوئی اور دونوں میں گہری دوستی ہو گئی۔ ۱۹۳۰ میں وہ امریکا آیا اور پھر یہیں رہنے لگا۔ ۱۸ سال کی عمر ہی سے اس کی آنکھیں خراب ہونا شروع ہو گئی تھیں۔ ساری عمر ان کو بچانے پر صرف ہو گئی۔
بکسلے کی ادبی زندگی نظم گوئی سے شروع ہوئی۔ کچھ تنقیدی مضامین لکھے اور پھر ناول کا رخ کیا۔ اپنے ناولوں "کروم یلو" ((Crome Yellow))، "پائنٹ کاونٹر پائنٹ" ((Point Counter Point)) وغیرہ میں اس نے ایک زوال پذیر سماج کا نقشہ پیش کیا ہے۔ انداز نہایت طنزیہ ہے۔ "بریو نیو ورلڈ" ((Brave New World)) میں اس نے پچیسویں صدی میں آنے والے سماج کا ایک خیالی خاکہ پیش کیا ہے جسے پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اس کے بعد اس نے آئی لس ان غزہ ((Eyeless In Gaza))، "ڈیولز آف لندن" ((Devils of London))، "دی جینیس اینڈ گوڈیس" ((The Genius and Goddes)) وغیرہ لکھیں۔ ان میں نئے نئے خیالات کی بھرمار ہے۔ نئے نئے قسم کے پلاٹ ہیں۔ اس کی تحریر سے صاف جھلکتا ہے کہ اسے موجودہ سماج سے کس قدر ناامیدی ہو گئی تھی۔ اور اس کی وجہ سے نفرت اور حقارت کا جذبہ پرورش پا گیا تھا۔
بکسلے کی بعد کی تحریروں سے پتہ چلتا ہے کہ اسے تصوف ((Mysticism)) اور مشرقی فلسفہ سے دلچسپی پیدا ہو گئی تھی۔ ناولوں کے علاوہ اس کی کہانیوں اور مضامین کے مجموعے بھی شائع ہوئے ہیں۔