اردو انسائیکلوپیڈیا

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۳۶۶

گائی جائے تو اس کے کم از کم چار مسلسل راتیں درکار ہیں۔ غالباً ہومر میں ایسی غیر معمولی صلاحیت تھی کہ وہ مسلسل اپنے سننے والوں کو محو رکھ سکتا تھا۔

ہومر نے اپنی نظموں کے لیے روایتی مواد استعمال کیا جیسے انسانوں یا دیوتاؤں کی محفلیں، بچھڑے ہوؤں کا ملاپ، کسی گم گشتہ کی شناخت وغریہ۔ یہ سوال کہ ہومر کی اپنی جدت کہاں دکھائی دیتی ہے گہری تحقیق کا طالب ہے۔ اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ ہومر کی نظمیں زمان و مکاں کی قید سے آزا دہیں کیونکہ ان کا تانا بانا انسان کی گہری نفسیاتی اور تہذیبی حقیقتوں سے تیار کیا گیا ہے۔

ہومر کی نظموں سے متعلق ایک اہم سوال یہ ہے کہ ان کو تحریری شکل میں کب لایا گیا۔ یونان میں تحریر نویں یا ابتدائی آٹھویں صدی ق۔ م۔ میں نمودار ہوئی۔ یہ بات مشتبہ ہے کہ ہومر نے خود اپنی نظموں کو لکھا یا کسی سے لکھوایا۔ زیادہ امکان یہ ہے کہ ساتویں صدی ق۔ م۔ کے آخر میں جب لکھی ہوئی شاعری باقاعدہ طور پر نمودار ہونے لگی تو ان لوگوں نے جو رہپسسوڈ ((Rhapsodes)) کہلاتے تھے اور پیشہ ور مغنی تھے ((جو خود اپنی کوئی تخلیق نہیں رکھتے تھے)) ان نظموں کو مکمل تحریری شکل میں لائے ہوں گے۔ اس سے پیشتر ہومر کے اخلاف نے جو ہوم ریٹے ((Home Ridae)) کہلاتے تھے اور جنھوں نے ہومر کی نظموں کو زندہ رکھا غالباً جستہ جستہ ان نظموں کو لکھتے رہے ہوں گے۔

ہوولس، ولیم ڈین ((1920 – 1837، Howells, William Dean)) : ناول نگار، ڈرامہ نگار، نقاد اور مدیر تھے۔ وہ شاعر بھی تھے۔ اور سفر نامے بھی لکھے ہیں۔ وہ اوہیو کے شہر مارٹنس فیری میں پیدا ہوئے۔ ان کی باقاعدہ تعلیم بہت معمولی ہوئی تھی لیکن مسلسل مطالعے سے اپنے علم میں اضافہ کرتے رہے۔ وہ پینتیس ناولوں،
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۳۶۷

چوبیس ڈراموں، بارہ کہانیوں کے مجموعوں، دو خود نوشت سوانح حیات اور چھ تنقید کی کتابوں کے مصنف تھے۔ ان کی نظموں کے بھی دو مجموعے شائع ہوئے۔ انھوں نے کمپوزیٹر اور رپورٹر سے زندگی کی ابتدا کی۔ وہ دینس میں امریکی کونسل رہے۔ نیویارک کے مختلف رسالوں میں کام کیا۔ نو سال تک اٹلانٹک منتھلی کے ایڈیٹر رہے۔ ان کو ییل ((Yale))، کولمبیا، ہارورڈ، پرنسٹن اور آکسفورڈ یونیورسٹیوں نے اعزازی ڈگریاں دیں۔ ان کو جانسن باپکنس اور ہارورڈ یونیورسٹیوں سے پروفیسری کی پیش کش کی گئی لیکن انھوں نےقبول نہ کی۔

ہی سییڈ ((Hesiod)) : یونان کے اولین رزمیہ شاعروں میں سے مغربی دنیا کا پہلا شاعر ہے جس نے شاعری کے بارے میں اصول و ضابطے بنائے تھے۔ ہی سییڈ نے اپنی تقریباً ساری زندگی بیوشیا ((Boeotia)) کے وسطی یونانی ضلع میں اپنے گاؤں اسکرا ((Ascra))میں گزاری جو ماؤنٹ ہیلی کن ((Mt. Helicon)) کے دامن میں واقع تھا اور جہاں وہ ایک چرواہے کی زندگی گزارتا تھا۔ حکایت ہے کہ شاعری کی دیویاں ((Muses)) اس پر ظاہر ہوئیں اور اسے شاعری کا ملکہ عطا کیا۔ ہی سییڈ کا زمانہ ۷۰۰ ق۔ م۔ ہے۔ ہی سیید کی دو رزمیہ نطمیں ہم تک پہنچی ہیں۔ ان میں سے پہلی تھیو گئی ((Theogony)) ہے جس میں ہی سییڈ نے یونانی خداؤں کی داستان نطم کی ہے۔ روح ارضی یا زمین کی دیوی گے یا ((Gaea)) اپنی کوکھ سے آسمان یورے نس ((Uranus)) پہاڑ اور سمندر پونٹس ((Pontus)) پیدا کرتی ہے اور پھر یورے نس کی مجامعت سے اس کے کئی اولادیں ہوتی ہیں۔ ان اولادوں میں ایک کرونس ((Cronus)) کا ٹائی ٹن ((Titan)) ہے جو اپنے باپ کو ہٹا کر خود مالک کائنات بن جاتا ہے۔ یہاں تک کہ زی یوس ((Zeus)) اس پر غالب ہو کر تخت پر قابض ہو جاتا ہے۔ یہ دغا و بغاوت کی حکایت اور چھوٹے دیوی دیوتاؤں کی داستانوں سے
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۳۶۸

گتھی ہوئی ہے۔ ان میں سے بعض رات کی اولادیں اور خبیث روحیں ہیں جو موت، جنگ اور بھوک کی قوتیں ہیں۔ رات خود Chaos کی اولاد ہے۔ ہی سییڈ نے اس نظم میں نئے خداوندی زی یوس اور اس کے ساتھی اولمپس کے دیوتاؤں اور کرونس کے ٹائی ٹن کے ساتھیوں کے درمیان کائناتی جنگ کی زبردست تصویر کھینچی ہے۔ زی یوس ((Zeus)) میں اس کا عقیدہ محکم اور غیر متزلزل ہے۔

ہی سییڈ کی دوسری نظم "کاروبار حیات" ((Works + days)) اس کے ذاتی تجربات پر مبنی ہے۔ اس نظم میں وہ اپنے ایک بھائی کو سخت ملامت کرتا ہے کیونکہ وہ جائیداد کے غالب حصے پر ناجائز قبضہ کر بیٹھتا ہے اور حکام کو رشوت دے کر اپنا ہمنوا بنا لیتا ہے۔ ہی سییڈ نے یہاں عدل کی دیوی کو ابھارا ہے اور اس کی پرستش و احترام کو سکون و مسرت کے حصول کے لیے لازمی بتایا ہے۔ اس نظم میں ہی سییڈ نے ابتدا میں دو اساطیری مکاتبوں کو تفصیل سے پیش کیا ہے۔ ایک پنڈووا ((Pandova)) کی حکایت ہے جو زی یوس کا دیا ہوا صندوق اس کے حکم کے خلاف کھولتی ہے اور انسانیت کے لیے بہت سی بلاؤں کو آزاد کر دیتی ہے۔ دوسری حکایت انسانی تاریخ کے زوال کی ہے جو سونے چاندی اور تانبے کے ادوار سے گزرتی ہوئی اپنے بدترین دور یعنی لوہے کے دور تک پہنچتی ہے جو خود ہی سییڈکا اپنا دور بھی ہے۔ اس نطم کے دوسرے حصے میں کاشتکاری کی تفصیل دی ہے اور کسان کو سال کے مختلف حصوں میں جو کام کرنے پڑتے ہیں ان کی ایک تقویم بنائی ہے۔ اس نظم میں انسانی زندگی اور موسموں اور قدرت کی قوتوں کے زیر و بم کی بڑی جاندار اور دلکش تصویریں ملتی ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۳۶۹

ہیر رانجھا : ہیر رانجھا پنجاب کے عشقیہ قصوں میں سب سے قدیم اور مشہور افسانہ ہے۔ ہیر جھنگ کے سردار چوجک سیال کی لڑکی تھی اور رانجھا تخت ہزارہ کا رہنے والا تھا۔ اپنی بھاوجوں کی بدسلوکیوں سے تنگ آ کر بھاگ گیا۔ دریائے چناب کے کنارے ہیر سے ملاقات ہو گئی۔ دونوں میں محبت ہو گئی۔ رانجھا چوجک کےمویشی چرانے کے لیے نوکر ہو گیا۔ پریم بڑھنے لگا۔ مشک و عشق چھپائے نہین چھپتے۔ بات ظاہر ہو گئی۔ ہیر کی شادی ایک گاؤں میں کر دی گئی۔ رانجھا جوگی بن کر وہاں پہنچا اور ہیر کو وہاں سے لے اڑا مگر راستے میں ہی پکڑا گیا۔ اس قصہ کا پہلا مصنف دامودر لکھتا ہے کہ اس قصہ کو ثالث کے سپرد کیا گیا، ثالثی فیصلے کے مطابق ہیر رانجھا کو سونپ دی گئی اور وہ آگے بڑھ گئے۔ وارث شاہ اور ان کے بعد کے شعرا نے قصہ کا انجام المیہ کیا ہے۔ ہیر نے اپنے والدین کی بدنامی کے خیال سے اور رانجھا نے ہیر کے فراق میں اپنی جانیں دے دیں۔ عوامی خیال میں یہ قصہ نہیں واقعہ ہے۔ ہیر کی قبر جھنگ میں ہے۔ دامودر عہد اکبری کا شاعر ہے۔ وہ اپنے کو ہیر کے باپ چوجک کا ملاقاتی بتاتا ہے، اور لکھتا ہے کہ میں اس واقعہ کا عینی شاہد ہوں۔ ۱۵۷۲ کے بعد پنجاب میں ہیر رانجھا پر ۳۰ قصے لکھے گئے۔

۱۶۰۷ گروداس، ۱۷۰۰ سے ۱۶۹۲ احمد گوجر، گرو گویند سنگھ، میاں چراغ آواں، ۱۷۱۰ میں بکبل، ۱۷۵۵ میں وارث علی شاہ اور حامد شاہ، ۱۸۰۵ ہاشم احمد یار خاں، پیر محمد بخش فصل شاہ ملا شاہ مولا بخش بھگوان سنگھ کشن سنگھ عارف ۱۸۸۲، سنت مضرارہ سنگھ ۱۸۴۱ اور گوکل چند شرما، یہ سب ہیر رانجھا کے قصہ کے مصنفین ہیں لیکن جو شہرت و مقبولیت وارث شاہ کو ملی کسی اور کو نصیب نہ ہوئی۔ ناٹک کی زبان ((مکالمے)) مرصع مثنوی مراۃ خیال کا نیا پن ملک کے رسم و رواج اور روایاتی ثقافت سماج اور افراد کے باہمی روابط کا بیان اور طرز ادا وغیرہ
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۳۷۰

بہت سی ادبی خوبیاں ہیں، اس قصے میں چھند شاعری کا پراثر اور کامیاب بیان ہے۔ دیہاتی زندگی کی سچی تصویریں اور منظر نگاری عروج پر ہیں۔ ادبی نکتہ نظر سے مستقبل کے ہیر رانجھا، وارث شاہ کا ہیر رانجھا اور عبد الوحید مجاہد یکتا کی مثنوی ((اردو میں منظوم ترجمہ وارث شاہ)) لاجواب ہے۔

ہیزلٹ، ولیم ((۱۸۳۰ – ۱۷۷۸، Hazlitt, William)) : انگریزی کا مشہور انشا پرداز ((Essayist)) ہے۔ انگریزی زبان و ادب میں اس کا خاص اور اہم مقام ہے۔ اس نے بے شمار موضوعات پر مضامین لکھے جس سے اس کی ذہانت، معلومات پر عبور اور دلچسپی کا ثبوت ملتا ہے۔ وہ نہایت حساس طبیعت کا مالک تھا۔ شروع میں ہیزلٹ کا خیال پادری بننے کا تھا۔ لیکن پھر وہ مصور بن گیا اور بعد میں جرنلزم کا رخ کیا۔ اخبار "مارننگ کرانیکل" کے لیے وہ پارلیمنٹ کی سرگرمیوں کی رپورٹیں لکھتا تھا اور سقتھ ہی ان کی سرگرمیوں پر بھی وقتاً فوقتاً تبصرے اور مضامین لکھتا۔ بعد میں وہ کئی رسالوں میں بھی مکتلف موضوعات پر لکھنے لگا۔ اس کی ادبی تنقیدوں اور دوسرے مضامین کو مجموعوں میں اکٹھا کر دیا گیا ہے جن میں سے شیکسپیئر کرونس ((Cronus)) کے ٹائی ٹن ((Titan)) کے ڈراموں کے کردار، انگریزی شاعروں پر تقاریر، انگریزی مزاح نگاروں پر تقاریر وغیرہ بہت مشہور ہیں۔ ان کے پڑھنے سے اس کی علمیت، ادبی نقطہ نظر کی گہرائی اور تنقدی حسن کا پتہ چلتا ہے۔ اس کے مضامین سے لوگوں میں عہد ایلزبیتھ کے ڈراموں سے دلچسپی بڑھ گئی تھی۔

ہیزلٹ انقلاب فرانس اور انسانی حقوق اور آزادی کے اصولوں کا زبردست حامی تھا۔ اس کے زیر اثر اس نے نیپولین کی سوانح حیات چار جلدوں میں لکھی۔ اس کی تمام تصانیف کا ایک مکمل مجموعہ بھی چھپا ہے۔ اس کے علاوہ اس کے پوتے ولیم کیرو ہیزلٹ نے اپنے دادا کی یادیں قلم بند کی ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۳۷۱

ہیس، ہرمان ((۱۹۶۲ – ۱۸۷۷، Hesse, Hermann)) : جرمن شاعر و ناول نگار ہے۔ ۱۹۱۹ میں وہ سوئٹزرلینڈ منتقل ہو گیا اور وہیں کا شہری بن گیا۔ ہیس اپنے اپ کو ہمیشہ تنہا اور موجودہ دنیا میں اجنبی محسوس کرتا تھا۔ اس کی تصنیفات میں بھی یہ موضوع بار بار شدت کے ساتھ ابھر کر آتا ہے۔ اس نے اپنے اکثر ناولوں میں رمزیت اور تحلیل نفسی سے کام لیا ہے اور انسانوں کی دوہری شخصیت کو پیش کیا ہے۔ اس کے ناولوں میں اس طرز کے "پیٹر کیمن زنڈ"، "عقلمند"، "عاشق کی موت"، میجسٹر لوڈی" ((Magister Ludi)) وغیرہ بہت مشہور ہیں۔ اسے ہندوستانی مذاہب اور فلسفہ سے خاص دلچسپی تھی چنانچہ اس نے ایک ناول "سدھارتھ" ((۱۹۲۲)) بھی لکھا تھا جو کافی مقبول ہوا۔ ہیس کی نثر میں بڑی شعریت اور رنگینی تھی۔ ۱۹۴۶ میں یس کو ادب کا نوبل انعام ملا۔

ہیملین، گارلینڈ ((۱۹۴۰ – ۱۸۶۰، Hamlin, Garland)) : ہیملین گارلینڈ ناول نگار، سوانح نگار اور سماجی مؤرخ تھے۔ ونسکانس کے ایک فارم میں پیدا ہوئے۔ سیڈاروبلی سیمناری میں تعلیم حاصل کی جہاں سے وہ گریجویٹ ہوئے۔ مشرقی صوبوں میں گشت کرتے اور بڑھئی کا کام کرتے رہے۔ بوسٹن میں کچھ دنوں تعلیم و تدریس دینے کا کام کیا۔ ۱۸۹۹ میں انگلینڈ کا سفر کیا۔ ۱۹۲۱ میں بہترین سوانح حیات کے لیے اس سال کا پولئیزر انعام ملا۔ ونسکانسن یونیورسٹی نے دی۔ لٹ ((D.Litt)) کی اعزازی ڈگری دی۔ ۱۹۳۱ میں روزویلٹ میموریل تمغہ ملا۔ وہ امریکی اکادمی آف آرٹس کے رکن رہے۔ تقریباً پندرہ ناول، ایک سوانح حیات اور آپ بیتی تحریر کی۔ اس کی جمع کردہ کہانیاں Main Travelled Roadکے نام سے ۱۸۹۱ میں شائع ہوئیں۔ ان کے مشہور
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۳۷۲

ناول ۱۸۹۴، Crumbling Idols اور ۱۹۱۷، A Son of the Middle Border ہیں۔ مشہور سوانح حیات ۱۹۲۱، A Daughter of the Middle Border ہے جو آپ بیتی بھی ہے۔

ہیمنگ وے، ارنیسٹ ((۱۹۶۱ – ۱۸۹۹، Hemingway, Ernest)) : ہیمنگ وے امریکا کا مشہور ناول نگار و افسانہ نگار ہے۔ ۱۹۵۴ میں اسے ادب کا نوبل انعام ملا۔ اوک پارک نامی مقام پر پیدا ہوا۔ پہلی عالمگیر جنگ کے زمانہ میں وہ فرانس میں ایک ایمبولنس ڈرائیور کی خدمت انجام دیتا رہا۔ اس کے علاوہ کچھ دن اطالوی فوج میں بھی رہا۔ کچھ دن فرانس میں بھی گزارے۔ اس کے شروع کے کئی ناولوں اور کہانیوں کی بنیاد یہی تجربات ہیں۔ اس کی پہلی کہانیاں، نظمیں اور ناول ۱۹۲۳ ور ۱۹۲۶ کے درمیان شائع ہوئے۔ لیکن عام طور پر کسی نے ان پر توجہ نہیں کی۔ ۱۹۲۶ میں "دی سن آلسو رائزیز" ((The Sun Also Rises)) اور پھر "فیرویل ٹو آرمس" ((Farewell to Arms)) شائع ہوئے تو ہیمنگ وے کے اسٹائل اور نثر نگاری نے لوگوں کی توجہ اپنی طرف منعطف کروا لی۔ ۱۹۴۰ میں اس کا ناول "فار ھوم دی بیل ٹولس" ((For Whom the Bell Tolls)) شائع ہوا تو اس کی ادبی حیثیت مسلم ہو گئی۔ اس ناول میں ہسپانوی خانہ جنگی کی بڑی حقیقت پسندانہ تصویر پیش کی گئی ہے۔ ہیمنگ وے کا سب سے اچھا ناول "دی اولڈ میں اینڈ دی سی" ((The Old Man and the Sea)) ہے۔ اس میں ایک بوڑھے ملاح کا ایک مہیب سمندر سے مقابلہ یا فطرت سے اس کی کشمکش کو نہایت پُر اثر اور ماہرانہ انداز میں پیش کیا گیا ہے چنانچہ یہ ناول بیسویں صدی کی اعلٰی تخلیقات میں شمار کیا گیا اور اسی پر اسے ادب کا نوبل انعام ملا۔
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۳۷۳

ہیمنگ وے نے کئی اعلٰی پایہ کی کہانیاں بھی لکھیں جن کے مجموعے نکل چکے ہیں۔ ان میں "دی اسنوز آف کلی منجارو" ((The Snows of the Kilimanjaro))، "دی اَن ڈفیٹڈ" ((The Undefeated)) اور "کِلرس" ((Killers)) بہت مقبول ہوئے۔ اس کے کئی ناولوں اور کہانیوں پر فلمیں بھی بنی ہیں۔ ہیمنگ وے کی سوانح عمریاں اور اس پر تنقیدی کتابیں بھی چھپی ہیں۔

ہیوگو، وکٹر ((۱۸۸۵ – ۱۸۰۲، Hugo, Victor)) : وکٹر ہیوگو فرانس کے عظیم شاعروں، ڈرامہ نگاروں اور دانشوروں میں سے ایک تھا۔ ۱۸۰۲ میں بیوارکون ((Bevarcon)) میں پیدا ہوا۔ اس کے والد ایک ممتاز سپاہی تھے اور والدہ شہنشاہیت پسند۔ اس نے پہلے اسپین اور پھر فرانس میں تعلیم پائی۔ وکٹر نے ایک کیتھولک عیسائی کی حیثیت سے تربیت حاصل کی اور آگے چل کر شہنشاہیت پسند بنا۔ اس کی ابتدائی تحریریں اس عقیدے کے اعلان کے لیے وقف تھیں۔

بیس سال کی عمر کو پہنچنے سے پہلے وہ اپنی غنائی نطموں، مدحیہ قصیدوں اور جذباتی، مترنم گیتوں کے لیے خاصا معروف تھا۔ ۱۸۲۳ میں اپنے رشتہ کی بہن ادیل فوشر ((Adele Foucher)) سے شادی کی۔ اب وہ بڑی تعداد میں اپنی تصنیفات شائع کرنے لگا جنھوں نے اسے شہرت دوام بخشی۔ مثلاً ڈرامائی نظم "کرام ویل" ((Cormwell)) اور نظموں کا مجموعہ "لے اورین تیلز" ((Les Orientales)) ہیں۔ ان کے علاوہ "لے فیولس و آتومن" ((Les Feuilles d’Automne))، "لے ووآاِنتی ریر" ((Les Voix Interieures))، "لے رایون اے لے آمہرس" ((Les Rayonset Les Ombres)) بھی ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۳۷۴

ہیوگو نے اپنے دراموں ہرنانی ((۱۸۳۰)) Hernani اور عظیم المیہ ((۱۸۲۸)) Marion de Lorme)) سے اسٹیج کی رونق بڑھائی۔ اس کے کھیلوں پر پہلے ملک کے حکمرانوں کی ہنسی اڑانے کی پاداش میں امتناع عائد کر دیا گیا تھا۔ بالآخر برسوں کی جد و جہد کے بعد وہ نہ صرف اپنے ڈراموں کو اسٹیج پر لانے میں کامیاب ہوا بلکہ ان کی وجہ سے اس کو شہرت و عظمت بھی ملی۔

اس کے پیش کیے ہوئے بہترے ڈراموں میں روئی بلاس ((۱۸۳۸، Ruy Blas)) سب سے زیادہ قابل ذکر ہے۔ اس میں جذبات، سوز و گداز، مزاح اور گہرے المیہ کا باہم امتزاج ہے۔ "لے برگریو" ((Les Burgraves)) ایک پردرد نظم ہے جس کی بنیاد ھسن اور تخیل پر رکھی گئی ہے۔ ناتردام دی پاری ((۱۸۳۱، Notre Dame de Paris)) نثری داستان کی صورت میں المیاتی، تاریخی اور رومانی نظموں میں سب سے زیادہ عظیم ہے۔

۲۸ سال کی عمر میں اس کو فرنچ اکادمی کا ممبر بننے کا اعزاز حاصل ہوا۔ اس وقت ہم ہیوگو کو ایک پُرجوش محب وطن کے روپ میں دیکھتے ہیں۔ بہرحال ایک ایسے وقت میں جب سیاسی نرزج، غداری اور قتل و غارت کا بازار گرم تھا ہیوگو جیسے معزز افراد کو ملک بدر کر دیا گیا۔ اور اس طرح ہیوگو کو ۱۰ سال غریب الوطنی میں بسر کرنے پڑے۔

اس نے یکے بعد دیگرے کئی کتابیں شائع کیں۔ "ہزتوار دار کرائم" ((Histoire d’ur Crime)) دوسری فرانسیسی شہنشاہیت کے داؤ پیچ اور حکمت عملی کی روداد ہے۔ شات مان ((۱۸۵۳)) ((Chatiments)) میں اس نے اپنی نفرت، ذہانت اور عقیدہ کا اظہار کیا ہے۔ تین سال بعد "لے کان تم پلے شان" ((Les
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۳۷۵

Contemplations)) کے چھ حصے منظر عام پر آئے۔ ہر حصہ ایک علاحدہ موضوع رکھتا تھا۔ جیسے گریہ و تبسم، خیال اور موسیقی، فکر و جذبہ وغیرہ۔ ان کے علاوہ جلاوطنی کے دوران اور بہت سی نظمیں لکھی گئیں جو عقیدہ، فطرت، ریاضت، سچائی اور موت سے متعلق ہیں۔

۱۸۵۹ میں ہیوگو نے انیسویں صدی میں شائع ہونے والے ایک عظیم شاہکار کی تخلیق کی۔ جس کا ایک حصہ ۱۸۵۹ میں شائع ہوا۔ اس تخلیق La Le’gende des Siecles میں زمانہ کے آغاز اور خدا کی مخلوق سے لے کر روز قیامت تک کا خاکہ کھینچا گیا ہے۔ تین سال بعد ایک رزمیہ "لے مزرابل" ((Les Miserables)) دنیا کے سامنے آئی۔ یہ زندگی کے نشاط و غم کے پس منظر میں ایک خیالی کہانی کی بنیاد پر لکھا ہوا ایسا ڈرامائی کام تھا جس کا جواب آج تک پیش نہیں کیا جا سکا ہے۔ دو سال بعد ہیوگو نے اپنی ایک اور عظیم الشان کتاب موسوم بہ اے پروپوز دا شیکپیئر ((A propos de Shakespeare)) میں اپنے پیشرو شیکسپیئر کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔

فرانسیسی ادب میں ہیوگو کی جگہ نامور قلم کاروں میں ہے۔ اس نے اپنی تحریر کی آمد بیساختگی، تنوع کاملیت، غور و فکر اور جذبات کی پیش کشی میں خود کو ایک عظیم الشان شاعر ثابت کر دکھایا جس کا کوئی مدمقابل نہیں۔ اس کے کارنامے ہجو و صداقت اور دلائل سے بھرے ہوئے ہیں تاہم کچھ تخلیقات ایسی بھی ہیں جو زندگی کی تازگی، جیتی جاگتی فطرت، الم آمیز مزاح اور شدید درد و غم کی عکاسی کرتی ہیں۔ وہ ایک منفرد شاعر تھا اور ہر زمانے میں ایک عظیم شاعر کی حیثیت سے یاد کیا جاتا رہے گا۔
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۳۷۶

یاکوپونے دا تودی ((۱۳۰۶ – ۱۲۳۰، Jacopone de Todi)) : اصلی نام "یاکوپودی اے بینے دیتی" ((Jacopodie Benedetti)) تھا۔ اطالیہ کے مذہبی شاعر ہیں۔ سو سے زیادہ متصوفانہ نظموں کے خالق جو اپنی جدت اور طاقتور روحانیت کی وجہ سے بے حد مشہور ہیں۔ غالباً یہی اس مشہور لاطینی نظم Stabat Maker Doloroso کے مصنف ہیں جو اٹھارویں صدی میں رومن کیتھولک مذہب کی Liturgy کا جزو بن گئی اور کئی کمپوزروں نے اس کی موسیقی کی دھن بنائی۔

امیر خاندان میں پیدا ہوا لیکن ۱۲۶۸ میں بیوی کی اچانک موت کے بعد ترک و تیاگ کی زندگی اختیار کی اور سینٹ فرانسیس ((St. Francis)) کے نظام درویشی میں داخل ہوا جس کا مسلک غربت و فقیری تھی۔ پوپ بونی فاچے ہشتم ((Boniface VIII)) کے خلاف سخت تنقیدی شعر لکھے۔ نتیجتاً بند کر دیا گیا لیکن بونی فاچے کی موت کے بعد نئے پوپ نے اسے رہا کر دیا۔

یاکو پونے کی اطالوی نظمیں جنھیں لاودی سپرنوالی ((Laudi Spirinali)) یعنی "روحانی مناجاتیں" کا نام دیا گیا ہے بہت مشہور اور جاندار ہیں۔ ان مناجاتوں کو پہلی دفعہ یکجا کر کے ۱۴۹۰ میں شائع کیا گیا۔

یرراپرگدا ((Yerrapregada)) : ریڈی راجاؤں کے ان مشہور تین شاعروں میں سب سے آخری شاعر یرانا ((Yerrana)) تھا جنہوں نے آندھرا مہابھارت کی تدوین کی۔ یرانا کا زمانہ تیرہویں صدی کے آخری ربع سے چودہویں صدی کے نصف اول تک ہے۔ اپنی علمیت اور شاعرانہ صلاحیت کے لحاظ سے وہ ننیا ((Nannaya)) اور تککنا ((Tikkana)) کے ہم پایہ تھا۔ اس نے ننیا کی تصنیف "آرانیاپروا" کے نصف آخر
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۳۷۷

حصہ کی تکمیل کر کے اس کو "راجا راجا" ہی کے نام سے منسوب کیا۔ اس کام کو اس نے ننیا کے طرز پر شروع کیا اور اس کی تکمیل تککنا کے طرز پر کی۔ گویا کہ وہ ان دونوں بڑی شاعروں کے ادب کے درمیان ایک واسطہ بنا۔ آرانیا پروا ((Aranyaparva)) میں "گھوشیاترا" ((Ghoshyatra)) یعنی راما اور سوتری کے قصے اور یکسا اور دھرما راجا کے مکالمے بہت دلکش انداز میں بیان کیے گئے ہیں جو عوام میں مقبول ہوئے۔ اس میں سنسکرت اور تلگو الفاظ کا خوب میل جول ہوا ہے۔

یرانا کی دوسری تصنیف والیکی کی رامائن کا ترجمہ ہے جو اب دستیاب نہیں ہے۔

اس کی تیسری تصنیف "ہری وروسا" ((Harivarusa)) جس میں اس کی شاعری اپنے عروج کمال پر پہنچ گئی۔ اس میں بھی سنسکرت ادب کا ترجمہ اور اس میں ہری خاندان سلطنت کا قصہ بہت تفصیل سے بیان کیا گیا ہے اور گوکل ((Gokula)) کی دیہاتی زندگی کے مناظر کے ساتھ ((Rukmini)) رکمنی اور اوشا ((Usha)) کے عشق و محبت کے جذبات نہایت ماہرانہ انداز میں پیش کیے گئے ہیں۔

اس کی آخری تصنیف "لکشمی نرسمہا پرانہ ((Purana)) ہے جس میں پراداتدا ((Pradatada)) کا قصہ بیان کیا گیا ہے۔ یہ قصہ برہمنداپرانہ ((Brahmanda Purana)) سے ماخوذ ہے لیکن اس میں کافی اضافے کیے گئے اور اس کی بھی ایک پرابھندہا کی شکل ہو گئی ہے۔ غالباً اس تصنیف سے پوتھنا ((Pothanna)) نے کافی سبق حاصل کر کے اپنی تصنیف "بھگوتا" میں پراداتدا ((Pradatada )) کا قصہ بیان کیا ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۳۷۸

یرانہ کا طرز بیان بہت سلیس اور شگفتہ ہے اور علم فہم، محاورہ جات اور خوش وضع الفاظ کے استعمال کرنے میں اسے کافی مہارت تھی جس کی وجہ سے اسے پرمیشورا اور سمبھودسا ((Sambhudasa)) کے القاب سے یاد کیا جاتا ہے۔


یشپال ((۱۹۰۳ – ۱۹۷۶)) : پنجاب کے فیروز پور چھاؤنی میں پیدا ہوئے۔ یش پال ہندی کے مارکسی ناول نگار مانے جاتے ہیں۔ ادب کے میدان میں قدم رکھنے سے پہلے وہ ایک انقلابی تنظیم سے وابستہ تھے۔ ان کے ابتدائی ناولوں میں انقلابی رحجان کا اثر دکھائی دیتا ہے۔ یش پال کے ناول تین رحجانات کے حامل ہیں۔ "دادا کامریڈ" رومانی انداز کا ناول ہے۔ اس کے کردار جذباتی اور تخیل پسند ہیں۔ اسے ہندی کا ایسا پہلا ناول قرار دیا گیا ہے جس میں سیاست اور رومانیت کا امتزاج ہے۔ دوسرا رحجان سماجی حقیقت نگاری کا ہے۔ "دیش دروہی"، "دبیا" اور "پارٹی کامریڈ" سماجی حقیقت نگاری کے ناول ہیں۔ ان میں ایسے سماج کی تمنا کی گئی ہے جس میں لوگ طبقوں میں بٹے ہوئے نہ ہوں۔ اس طرح کے ناولوں میں متوسط طبقے کی تصویر ملتی ہے۔ تیسرا رحجان فطرت پسندی کا ہے۔ "منش کے روپ" میں یش پال فطر پسندی کی طرف مائل نظر آتے ہیں۔ "پرتشٹھا کا بوجھ" اور "دھرم رکھشا" یش پال کی ایسی کہانیاں ہیں جن میں فطرت پسندی کی طرف جھکاؤ ملتا ہے۔ لیکن یش پال کے جس ناول کو سب سے زیادہ شہرت ملی وہ "جھوٹا سچ" ہے۔ اس ناول میں کا پس منظر تقسیم کے بعد کے فسادات ہیں۔ تقسیم نے دونوں ملکوں کے مختلف فرقوں اور مختلف مذہبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے درمیان جو زہر گھولا اس کی موثر انداز میں تصویر کشی کی گئی ہے۔ یش پال اپنی تخلیقات میں سماجی برائیوں، اندھے عقائد اور سماجی ناانصافی
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۳۷۹

کے خلاف اعلان جنگ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ۱۹۷۶ میں"میری تیری اس کی بات" پر ان کو ساہتیہ اکاڈمی انعام سے نوازا گیا۔

یش شرما جی : یش شرما جی ڈوگری کے ایک گیت کار ہیں۔ ان کے گیتوں میں پہاڑوں کے درد کی کسک ہے۔ بسوہلہ کی مٹھاس گھولتے ہوئے ان کے نغمے من کے تاروں کو چھو لیتے ہیں۔ جب وہ اپنی مترنم آواز میں گیت سناتے ہیں تو ایک سماں بندھ جاتا ہے۔ ڈوگری زبان کے ابتدائی دور میں جب اس زبان کی ترویج کے لیے گاؤں گاؤں میں مشاعرے منعقد کیے جا رہے تھے تو یش شرما کے بغیر کوئی مشاعرہ کامیاب نہ ہوتا تھا۔

یعقوب میراں، شیخ : یعقوب میراں، میراں جی حسن خدا نما کے مرید اور خلیفہ تھے۔ سلسلہ چشتیہ سے تعلق رکھتے تھے۔ یعقوب میراں نے اپنے مرشد کے فرزند امین الدین کی فرمائش پر "شمائل الاتقیاء" مرتب کی تھی۔ یہ برہان الدین اولیا اورنگ آبادی کی اسی نام کی تصنیف کا ترجمہ ہے۔ یہ ضخیم کتاب تصوف کے موضوع پر ہے۔ اپنے ترجمہ میں یعقوب میراں نے بعض جگہ اشعار اور رباعیاں بھی نقل کی ہیں۔ توبہ، ہدایت، کرامت، حکم مرشد اور معجزہ جیسے مسائل پر یعقوب میراں نے اپنے مخصوص انداز میں روشنی ڈالی ہے۔ اردو میں "شمائل اتقیاء"، "سب رس" سے صرف ((۳۳)) سال بعد سامنے آئی تھی۔ لیکن "سب رس" کے مقابلے میں اس کی زبان بہت صاف اور جدید معلوم ہوتی ہے۔

یقین، انعام اللہ خاں ((۱۷۵۵ – ۱۷۲۷)) : نواب اظہر الدین خاں کے بیٹے اور مرزا مظہر جان جاناں کے شاگرد تھے۔ کم گو تھے۔ کلام پختہ اور خوب ہے۔ اس دور کے اکثر تذکروں میں ان کے کلام کی تعریف ملتی ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۳۸۰

تاباں نے تو یہاں تک لکھ دیا ہے کہ اگر یقین جیتے رہتے تو میر اور مرزا کا چراغ نہیں جل سکتا تھا۔ اپنے زمانے کی نامور شخصیت تھے۔

یقین کی غزلوں پر استادوں نے بھی غزلیں کہی ہیں۔ نئی زمینیں نکالنے میں انھیں کمال حاصل تھا۔ روزمرہ کا استعمال بڑی خوبی سے کرتے ہیں۔

یک رنگ، غلام مصطفٰی خاں ((م۔ ۱۷۴۹)) : غلام مصطفٰی خاں نام تھا۔ دہلی میں زندگی بسر کی۔ باوجود کہنہ مشقی کے مرزا مظہر جان جاناں کو اپنا کلام دکھاتے تھے۔ یک رنگ کے کلام کی خصوصیات صفائی، سادگی اور سلاست ہیں۔ استعارات سے شغف رکھتے تھے۔ فکر بلد ہے۔ طرز ان کا وہی ہے جو شاہ مبارک اور مضمون کا تھا۔ یک رنگ کے سارے معاصر انھیں خوش فکر اور باکمال شاعر مانتے تھے۔ ایک دیوان یادگار چھوڑا ہے۔ ایک مرثیہ بھی امام حسینؑ کے حال میں لکھا ہے۔

یگانہ/یاس چنگیحی، مرزا واجد حسین ((۱۹۵۶ – ۱۸۸۳)) : تاریخی نام مرزا فضل علی بیت مگر مرزا یاس چنگیحی لکھنوی کے عرف سے زیادہ مشہور ہیں۔ پہلے یاس تخلص کرتے تھے بعد میں یگانہ تخلص رکھا۔ عظیم آباد ((پٹنہ)) میں پیدا ہوئے۔ شعر و سخن سے فطر مناسبت تھی۔ شروع میں علی خاں بیتاب اور شاد عظیم آبادی سے مشورہ سخن کیا۔ ۱۹۰۴ میں مٹیا برج ((کولکتہ)) گئے۔ وہاں کی آب و ہوا نے صحت پر ایسا خراب اثر کیا کہ بیمار ہو کر عظیم آباد واپس آ گئے اور وہاں سے ملازمت پر لکھنؤ چلے گئے۔ لکھنؤ سے سول کورٹس کے رجسٹرار بن کر حیدر آباد گئے۔ جب وظیفہ یاب ہوئے تو پھر لکھنؤ آ گئے۔ اور وہیں مستقل سکونت اختیار کر لی۔ مشاعروں میں بہت نام پیدا کیا۔
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۳۸۱

یگانہ منفرد شاعر تھے۔ ان کی سب سے اہم خصوصیت زور اور گرمی کلام ہے۔ کھردرا پن، درشتگی، بانکپن، زور اور جوش ان کے خاص اوصاف ہیں۔ حقائق و معارف کے مضامین انھوں نے بڑی قادر الکلامی کے ساتھ غزلوں میں ڈھالے ہیں۔ ان کی نکتہ آفرینی اور بلند خیالی نے رنگ تغزل کو زیادہ ابھرنے نہیں دیا ہے۔ رباعیات بھی کثرت سے کہی ہیں اور بہت کامیاب۔ لیکن غالب کی مخالفت میں جو رباعیات کہیں وہ بدمذاقی کا شکار ہو گئی ہیں۔ مطبوعات میں نشتر یاس ((۱۹۱۴))، غالب شکن ((۱۹۲۵))، آیات وجدانی ((۱۹۲۷)) اور گنجیتہ ((۱۹۴۷)) ہیں۔

یلدرم، سجاد حیدر ((۱۹۴۳ – ۱۸۸۰)) : اترپردیش کے ضلع بجنور میں پیدا ہوئے۔ ایم۔ اے۔ او۔ علی گڑھ کالج سے بی۔ اے۔ کیا۔ ترکی زبان سیکھی۔ برطانوی قونصل خانہ بغداد میں ترکی زبان کے ترجمان کی حیثیت سے بھی کام کیا۔ برطانیہ سے قسطنطنیہ چلے گئے۔ پھر امیر کابل کے پولیٹیکل ایجنٹ مقرر ہوئے۔ ۱۹۲۰ میں علی گڑھ کالج کو جب یونیورسٹی کا درجہ ملا تو اس کے پہلے رجسٹرار مقرر ہوئے۔ عمر کا آخری حصہ جزیرہ انڈمان میں ریونیو کمشنر کی حیثیت سے گزارا۔ لکھنؤ میں وفات پائی۔

سجاد حیدر کی شہرت ان کے ترجموں اور افسانوں کی وجہ سے ہے۔ انھوں نے سب سے پہلے اردو میں ترکی افسانوں کے ترجمہ کیے۔ ان ترجموں کی خوبی ان کی برجستگی اور فطری انداز ہے۔ سجاد حیدر کے طبع زاد افسانوں میں نفسیاتی تحلیل سے شغف نمایاں ہے۔ موضوعات میں تنوع نہیں ملتا۔ان کا خیال ہے کہ صرف محبت کا تجربہ ادب کا مستقل موضوع بن سکتا ہے۔ عورت کے وجود کو ان کی تحریروں میں مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ روشن خیالی کا عنصر ان کی تحریروں میں نمایاں ہے۔ سجاد حیدر کے افسانوں کا مجموعہ "خیالستان" کافی مقبول ہوا۔ یہ
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۳۸۲

افسانے انشائے لطیف کا نمونہ ہیں۔ دوسری تصانیف یہ ہیں : "آسیب الفت"، "گمنام خط"، "زھرا"، "کوسم سلطان"، "خارستان و گلستان"، "جلال الدین خوارزم شاہ"، "عورت کا انتقام" اور "مطلوب حسینان" وغیرہ ۔

یورانی خاندان کی زبانیں : اس خاندان کو فنواگرک ((Finno Ugric)) خاندان بھی کہتے ہیں۔ اس کی زبانیں بحر اوقیانوس سے بحیرہ اکھوتسک تک پھیلی ہوئی ہیں۔ اس کی کچھ شاخیں بحیرہ روم بھی پائی جاتی ہیں۔ یورالی خاندان کی زبانیں التائی خاندان کی زبانوں سے بعض خصوصیات میں مماثلت رکھتی ہیں۔ اس بنا پر دونوں خاندان ایک ہی ماخذ سے سمجھے جاتے ہیں۔ یورالی زبانوں کا ابھی گہرا مطالعہ نہیں ہوا جس سے یہ بات ثابت ہو سکے۔ اس کی اہم زبانیں فن نش ((Finnish))، ایستونین اور ہنگیرین ہیں۔ ان کے علاوہ شمالی یوروپ میں فن لینڈ اور شمالی روس اور ایشیا میں پھیلی ہوئی زبانیں لیاپش، موردون، چیریمس اور ووتیاک ہیں۔ سیموئی زبانیں بھی اس سے رشتہ رکھتی ہیں۔

یوری پڈیز ((Euripides, 480 B.C. – 406 B.C.)) : یوری پڈیز یونانی ٹریجڈی کے اکابر ثلاثہ کا آخری ڈرامہ نگار ہے۔ یوری پڈیز کی گہری فکر نے اس کے ڈراموں کو سماجی اور اخلاقی اقدار اور ان پر حساس تبصروں کا ایک بیش بہا خزانہ بنا دیا ہے۔ یوروپ کی مصنفین نے یوری پڈیز سے بہت استفادہ کیا ہے اور اس کے فقرے مذہبی مواعظ تک میں منقول ہیں۔

ایک روایت کے مطابق یوری پڈیز ۴۸۰ ق۔م۔ میں پیدا ہوا۔ یہ دس سال کا تھا جب ایتھنز کو ایران کے مقابلہ میں ایک فیصلہ کن بحری فتح حاصل ہوئی۔ تیسری صدی ق۔م۔ کے ایک کتبے میں اس کی پیدائش کا سال ۴۸۴ ق۔
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۳۸۳

م۔ دیا گیا ہے۔ یوری پڈیز نے پہلی بار ۴۵۵ ق۔م۔ کے درامائی مقابلوں میں حصہ لیا۔ یہ مقابلے بہار اور شراب کے دیوتا ڈائیونائی سَس ((Dionysos)) کے سفر کے موقع پر منعقد ہوا کرتے تھے۔

۴۴۱ ق۔ م۔ میں اسے ان مقابلوں میں پہلی کامیابی حاصل ہوئی۔ ۴۰۸ ق۔ م۔ میں ہمیشہ کے لیے ایتھنز سے رخصت ہوا اور میسی ڈونیا ((Macedonia)) چلا گیا۔ جہاں کے بادشاہ نے اسے دعوت دے کر بڑے اعزاز کے ساتھ بُلایا تھا۔ وہیں ۴۰۶ ق۔ م۔ میں اس کی وفات ہوئی۔ ۴۰۵ ق۔ م۔ میں یونانی کے کامیڈی نگار ایرسٹوفینز ((Aristophanes)) نے "فراگس" ((The Frogs)) لکھا تو اس کا بنیادی خیال یہ تھا کہ اب ایتھنز میں کوئی بڑا ٹریجڈی کا شاعر نہیں رہا۔ تاریخ نے ایرسٹوفینز کے اس خیال کو صحیح ثابت کیا ہے۔ اسکی لس اور سوفکلیز ایتھنز کی اہم سیاسی اور سماجی شخصیتیں رہی ہیں لیکن یوری پڈیز کے بارے میں ایسی کسی بات کا پتہ نہیں چلتا جس سے ثابت ہو کہ اس نے ایتھنز کی سیاسی زندگی میں کوئی اہم حصہ لیا تھا۔ اس کی خانگی زندگی کے بارے میں ہماری معلومات برائے نام ہیں۔

زمانہ قدیم میں لوگوں کو یوری پڈیز کے ۹۲ ڈراموں کا علم تھا جن میں سے ۶۷ کے نام ہم تک پہنچے ہیں۔ صرف ۱۹ ڈرامے مکمل دستیاب ہیں، جن میں سے ایک مشتبہ سمجھا جاتا ہے۔

یوری پڈیز کے خیالاگ نے اس کے بہت سے دشمن پیدا کر دیے تھے۔ غالباً اس کے ایتھنز چھوڑنے کی ایک وجہ وہ مخالفت تھی جس کا اسے سامنا تھا۔ بہت لوگوں نے یوری پڈیز پر بدعت، تشکیک پرستی اور غیر اخلاقی خیالات رکھنے اور انسانیت کی طرف سے نفرت پیدا کرنے کا الزام لگایا ہے۔ یہ صحیح ہے کہ اس کی اکثر ہیروئین ((Heroines )) ایسی ہیں جو پُرغضب، دغاباز، بے وفا اور زناکاری کی مرتکب ہیں۔ بعض ایسی ہیں جو مظلوم
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۳۸۴

ہیں اور جن کے ساتھ قاری کو ہمدردی ہو جاتی ہے۔ لیکن یہی معصوم عورتیں بعد میں خوفناک انتقام کی مرتکب ہوتی ہیں۔ یوری پڈیز کے ڈرامے ایسی عورتوں اور مردوں سے بالکل خالی نہیں ہیں جو شریف اور اپنے آپ کو قربان کرنے کے اہل ہیں۔ مثلاً ہیکیوبا ((Hecuba)) اور اِپھن جی نیا ((Iphingenia)) وغیرہ۔ یوری پڈیز کا سب سے خوفناک ڈرامہ "میڈیا" ((Medea)) ہے جو ۴۳۱ ق۔ م۔ میں پیش ہوا۔ اس ڈرامہ میں میڈیا جو ایک جادوگرنی ہے اپنے شوہر جیسن ((Jessun)) سے انتقام لینے کے لیے ہر اس شخص کو ختم کر دیتی ہے جس جا اس کے شوہر سے تعلق ہے اور آخر میں اپنے بچوں کو قتل کر کے ان کو لیے ہوئے چھت پر چڑھ جاتی ہے جہاں کوئی اس تک نہیں پہنچ سکتا۔

زندگی اور کائنات کے بارے میں یوری پڈیز کا نقطہ نظر جذباتی اور بے ھد قنوطی ہے۔ اسے کاروبار حیات میں کوئی نظم دکھائی نہین دیتا۔ زندگی اتفاقات، بے نظامی اور ایسی قوتوں کے رحم و کرم پر ہے جن کو انسان اور اس کی قسمت سے کوئی دلچسپی نہیں۔ انسان کی عقل اس کی بے عقلی اور دیوانگی سے ہمیشہ شکست کھاتی ہے۔

۴۳۱ ق۔ م۔ میں ایتھنز کی اسپارٹا ((Sparta)) سے جنگ چھڑ گئی اور مسلسل چلتی رہی۔ یوری پڈیز نے شروع میں ایسے ڈرامے لکھے۔ Heracleidae, Suppliants جن میں ایتھینز کو حق کی خاطر لڑتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ لیکن بہت جلد اس نے ایسے ڈرامے پیش کیے Heeuba, Trojan War جن میں فاتح و مفتوح دونوں بے دردی اور مظالم کے مرتکب ہوتے ہیں۔

یوری پڈیز کے ڈرامے ایسے بلند نہیں جیسے اسکی لس یا سوفکلیز کے ہیں۔ اس کی کردار نگاری بھی اعلٰی درجہ کی نہیں۔ اس کا کمال خوف ناک مناظر کی تخلیق میں ہے۔ اس کے ڈرامے قاری یا تماشائی کے ذہن پر خوف اور
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۳۸۵

ہیبت کا اثر پیدا کرتے ہیں۔ اپنے تصنیفی دور کے آخری دو عشروں میں یوری پڈیز نے ایسے ڈرامے لکھے جنھیں المیہ ناٹک نہیں کہا جا سکتا۔ یہ ڈرامے رومانی یا کامیڈی اور ٹریجڈی کی ملی جلی شکل رکھتے ہیں۔ انھیں انگریزی میں Tragic Comedies کہا جائے گا۔ آئی آن ((Ion)) اور ٹارس میں اِپھن جی نیا اِن ٹیورس ((Iphingenia in Tauris)) ایسے ڈراموں کی مثالیں ہیں۔

یوسف حسین خاں ((1981 – 1891)) : آبا و اجداد کا تعلق قائم گنج، فرخ آباد سے تھا۔ یوسف حسین خاں، آزاد ہندوستان کے تیسرے صدر ڈاکٹر ذکر حسین کے چھوٹے بھائی تھے۔ حیدر آباد میں پیدا ہوئے۔ وہیں شخصیت کا نشو و نما ہوا۔ اٹاوہ ((اترپردیش)) میں ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ سے بی۔ اے۔ کیا۔ فرانس چلے گئے اور تاریخ میں پیرس سے ڈی۔ لٹ۔ کی سند حاصل کر کے ۱۹۲۶ میں ہندوستان واپس آئے۔ واپسی پر جامعہ عثمانیہ میں پہلے تاریخ کے ریڈر مقرر ہوئے۔ پھر اسی شعبہ کی صدارت پر فائز ہوئے۔ ایک مدت تک یہاں کام کرنے کے بعد مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے منسلک ہو گئے۔ بعد ازاں دہلی جا بسے۔ وہیں انتقال ہوا۔

ملازمت کے دوران یوسف حسین خاں کی تمام تر علمی توجہ کا مرکز زبان و ادب، شاعری اور تاریخ رہی۔ حیدر آباد کے قیام کے زمانے میں وہ وہاں کے علمی اور ثقافتی اداروں سے وابستہ رہے۔ ۱۹۷۸ میں ان کی کتاب "حافظ اور اقبال" پر انھیں ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ دیا گیا۔ یہ ان کی علمی خدمات کا اعتراف تھا۔ حکومت ہند نے انھیں پدم بھوشن کے خطاب سے سرفراز کیا۔

صنف غزل کی تنقید میں ڈاکٹر یوسف حسین خاں کی کتاب "اردو غزل" کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ "روح اقبال" اقبال کی فکر اور فن کا احاطہ کرتی ہے۔ انھوں نے مومن پر بھی علمی اور تحقیقی کام کیا۔ حسرت کی شاعری کے
 
Top