شمشاد
لائبریرین
صفحہ ۵۵۵
کلام عاشقانہ بھی ہے اور عارفانہ بھی۔ بہت سے اشعار اخلاقیات اور پند و نصائح سے مملو ہیں۔ ان کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ انھوں نے اپنی غزلوں کے نیچے تاریخ تکمیل بھی دے دی ہے۔ اور یہ بھی بتایا ہے کہ یہ غزل کس شاعر کی طرح پر ہے۔ اس طرح خود ان کی زبان اور تخلیقی ارتقا کے علاوہ اس زمانے کی عہد بہ عہد زبان اور شعرا کے اثر و نفوذ کا بھی پتہ چلتا ہے۔ ولی کے بارے میں بھی بعض اہم معلومات کا ماخذ شاہ حاتم کے حوالے سے مصحفی کی تحریریں ہیں۔ اٹھارہویں صدی کی اردو غزل کی تاریخ میں شاہ حاتم مرکزی حیثیت رکھتے ہیں۔
حاتم نے بہ زمانہ عالمگیر ثانی ((زمانہ حکومت ۱۷۵۴ – ۱۷۵۹)) ایک دیوان مرتب کیا۔ اس پر انھوں نے شروع میں ایک مفید دیباچہ بھی لکھا ہے اور اس دیوان میں غزلیں، مخمس، رباعیات، مستزاد، ترجیع بند اور ساقی نامہ اور مثنویاں سب کچھ ہیں۔
حافظ ابراہیم، محمد ((۱۹۳۲ – ۱۸۷۰)) : شہر دیروط میں پیدا ہوئے۔ ان کی کم عمری میں والد ابراہیم فہمی جو انجینیئر تھے انتقال کر گئے۔ یہ اپنے ماموں کے پاس قاہرہ آ گئے۔ یہاں ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ ابتدا سے شاعری کا ذوق تھا۔ ابتدائی کلام شکایات اور مایوسی کا عکاس ہے۔ جلد ہی معاش کی تلاش میں سرگرداں ہو گئے۔ پہلے وکلا کے دفاتر میں کام کیا۔ پھر ملڑی اسکول میں داخل ہو گئے اور فوجی آفیسر بن گئے۔ کچھ عرصے کے لیے پولیس کے محکمے میں بھی چلے گئے اور ڈکیچز کے تحت کام کرنے سے آزادی کے جذبات موجزن ہو گئے۔ ۱۸۹۹ میں کچھ افسروں کے ساتھ آزادی کی جد و جہد میں حصہ لیا تو ان پر مقدمہ چلایا گیا اور پنشن دے دی گئی۔ مفتی محمد عبدہ کے ساتھ کچھ دنوں کام کیا۔ ان سے استفادہ بھی کرتے رہے۔ اپنا کلام بھی انھیں دکھاتے تھے۔ ۱۹۱۱ میں
کلام عاشقانہ بھی ہے اور عارفانہ بھی۔ بہت سے اشعار اخلاقیات اور پند و نصائح سے مملو ہیں۔ ان کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ انھوں نے اپنی غزلوں کے نیچے تاریخ تکمیل بھی دے دی ہے۔ اور یہ بھی بتایا ہے کہ یہ غزل کس شاعر کی طرح پر ہے۔ اس طرح خود ان کی زبان اور تخلیقی ارتقا کے علاوہ اس زمانے کی عہد بہ عہد زبان اور شعرا کے اثر و نفوذ کا بھی پتہ چلتا ہے۔ ولی کے بارے میں بھی بعض اہم معلومات کا ماخذ شاہ حاتم کے حوالے سے مصحفی کی تحریریں ہیں۔ اٹھارہویں صدی کی اردو غزل کی تاریخ میں شاہ حاتم مرکزی حیثیت رکھتے ہیں۔
حاتم نے بہ زمانہ عالمگیر ثانی ((زمانہ حکومت ۱۷۵۴ – ۱۷۵۹)) ایک دیوان مرتب کیا۔ اس پر انھوں نے شروع میں ایک مفید دیباچہ بھی لکھا ہے اور اس دیوان میں غزلیں، مخمس، رباعیات، مستزاد، ترجیع بند اور ساقی نامہ اور مثنویاں سب کچھ ہیں۔
حافظ ابراہیم، محمد ((۱۹۳۲ – ۱۸۷۰)) : شہر دیروط میں پیدا ہوئے۔ ان کی کم عمری میں والد ابراہیم فہمی جو انجینیئر تھے انتقال کر گئے۔ یہ اپنے ماموں کے پاس قاہرہ آ گئے۔ یہاں ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ ابتدا سے شاعری کا ذوق تھا۔ ابتدائی کلام شکایات اور مایوسی کا عکاس ہے۔ جلد ہی معاش کی تلاش میں سرگرداں ہو گئے۔ پہلے وکلا کے دفاتر میں کام کیا۔ پھر ملڑی اسکول میں داخل ہو گئے اور فوجی آفیسر بن گئے۔ کچھ عرصے کے لیے پولیس کے محکمے میں بھی چلے گئے اور ڈکیچز کے تحت کام کرنے سے آزادی کے جذبات موجزن ہو گئے۔ ۱۸۹۹ میں کچھ افسروں کے ساتھ آزادی کی جد و جہد میں حصہ لیا تو ان پر مقدمہ چلایا گیا اور پنشن دے دی گئی۔ مفتی محمد عبدہ کے ساتھ کچھ دنوں کام کیا۔ ان سے استفادہ بھی کرتے رہے۔ اپنا کلام بھی انھیں دکھاتے تھے۔ ۱۹۱۱ میں