اردو انسائیکلوپیڈیا

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 575

تقسیم ہند کے بعد حکومتِ پاکستان نے انھیں کشمیر میں پبلسٹی کے کاموں پر لگا دیا۔ وہ پاکستان کے قومی ترانے کے مصنف بھی ہیں۔ انتقال لاہور میں ہوا۔ ان کی کتابوں میں شاہ نامہ اسلام کی متعدد جلدوں کے علاوہ شعری مجموعے نغمہ راز، سوز و ساز، تلخابہ شیریں اور چراغ صحرا ہیں۔

ایک مجموعہ افسانوں کا بھی ہفت پیکر کے نام سے چھپا لیکن افسانہ نگاری کے میدان میں ان کی کوئی جگہ نہیں بن سکی۔ 1922 میں جالندھرسے ایک رسالہ اعجاز بھی جاری کیا تھا جو کچھ دنوں تک شائع ہوتا رہا۔

حقیقت پرستی

Realism

رومانی مصنفین کے خلاف سخت رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے ادب میں ایک نئی تحریک حقیقت پسندی کو فروغ رہا جو بعد میں "فطرت پسند" کے روپ میں ڈھل گئی۔

1850 کے بعد ایک فنکار میں فردیت اور موضوعیت کی جگہ معروٖیت اور لاشخصیت نے لے لی۔ حقیقت نگار مصنفین بالزاک

Balzac

استےدال

Stendhal

اورفلابرٹ

Flaubert

پر مشتمل ہیں جنھوں نے اپنے نظریات کو ٹھوس طور پر حقیقت میں سمو دیا۔ ان مصنفین نے انسان کا مطالعہ اس کے میلانات اور اس کے سماجی ماحول کے مطابق معاسرتی عضویاتی نظریوں کی روشنی میں کیا ہے۔

ادب میں حقیقت کو تصویت کے مقابلہ میں پیش کیا جاتا ہے۔ حقیقت نگار مصنفین نے ارادی طور پر اپنے موضوعات کو نہ صرف مذہب اورفطرت کے خوبصورت پہلوؤں سے اخذ و منتخب کیا ہے بلکہ اپنی خانگی زندگیوں اور یادداشتوں سے بھی چنا ہے۔ انھوں نے ہر فرد کو انفرادی طور پر حقائق کو ان کے اصلی روپ میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ حقیقت نگار مصنفین نے اپنی شاہکار تخلیقات کا ایک ضحخیم مجموعہ مرتب کیا ہے جن
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 576

میں سے بالزاک کا

La Comedie Humaine

استےدال کا

Le Rougeet Le Nou

اور فلابرٹ کاشاہکار

Madame Bovary

قابل ذکر ہیں۔

حکیم احمد شجاع ((1893 - 1869 )) : حکیم احمد شجاع کا تعلق پنجاب سے تھا۔ انھوں نے اس صدی کی ابتدائی تین دہائیوں کے دوران اردو ڈرامے کی ترویج و ترقی کے لیے ناقابل فراموش کام انجام دیا۔ کالج کے زمانے سے ہی انھوں نے اردو شاعری اور ڈرامے میں دل چسپی لینا شروع کی۔ فنِ ڈرامہ نگاری میں وہ آغا حشر کاشمیری کے مداح اور مقلد تھے۔

اسٹیج ڈراموں کے علاوہ حکیم نے فلمی کہانیاں، مکالمے اور گانے بھی بکثرت لکھے جنھیں قیام پاکستان سے قبل ممبئی کی فلم کمپنیوں نے پیش کیا لیکن کامیاب نہ ہوئے۔ پاکستان کے قیام کے بعد وہاں ان کی کہانیاں خاصی کامیاب ہوئیں۔ ان میں خاص حسب ذیل ہیں : دو آنسو، گم نام، قاتل، انتقام، باپ کا گناہ۔

اسٹیج ڈراموں میں حکیم کے مشہور ڈرامے حسبِ ذیل ہیں۔ رات کا گناہ، حسن کی قیمت، باپ کا گناہ، بھیثم پرتگیہ، آخری فرعون، جانباز، بھارت کا لال، دولہن۔

حکیم نے تین بنگالی ڈراموں کے ترجمے بھی کیے جن کے عنوان مینا، سنتوش اور تارا ہیں۔ یہ گورنمنٹ کالج لاہور کے لیے لکھے اور وہیں پیش کیے گئے۔

حیدری، سید حیدر بخش ((1823 – 1768)) : حیدری کے اجداد ترکِ وطن کر کے عراق سے ہندوستان آئے اور دہلی میں قیام کیا۔ ان کے والد سید ابو الحسن فکر معاش میں بنارس پہنچے۔ علی ابراہیم خان خلیل نے جو بنارس کے ناظم عدالت تھے، حیدری کو اپنی نگرانی میں لے کر تعلیم دلائی اور عدالت میں ملازمت بھی دی۔ فورٹ
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۵۷۷

ولیم کالج ((۱۸۰۰)) قائم ہوا تو حیدری نے کولکتہ کا رخ کیا اور "قصہ مہر و ماہ" لکھ کر گل کرسٹ کی خدمت میں پیش کیا جس کی بنا پر کالن میں ان کا تقرر ہو گیا۔ یہاں انھوں نے حضرت امیر خسرو کی فارسی مثنوی "لیلی مجنوں" کا ترجمہ کیا۔ ان کی دوسری مقبول کتاب "طوطا کہانی" ہے جو سنسکرت کتاب "شکاسب تتی" کا ترجمہ ہے۔ "شکاسب تتی" کے کئی ترجمے ہوئے۔ لیکن "طوطا کہانی" اپنے سادہ اسلوب اور انداز بیان کی وجہ سے بہت مقبول ہوئی۔ ان کی دوسری مقبول کتاب "آرائش محفل" یا "قصہ حاتم طائی" ہے جو فارسی سے آزاد ترجمہ ہے۔ اس کے علاوہ حیدر بخش حیدری نے "تاریخ جہاں کشائے نادری" کا ترجمہ "گلزار دانش" اور "ملا حسین واعظ" کی "روضۃ الشہدا" کا ترجمہ "گل مغفرت" کے نام سے کیا۔ اس میں اپنی طرف سے بہت کچھ اضافے بھی کیے۔ ان کے علاوہ "گلدستہ حیدری" ان کے مراثی، حکایات، غزلیات اور دیگر کلام کا ایک مجموعہ اور ہے۔ ان کی حکایتوں کا ایک مجموعہ شائع ہو چکا ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ 1، فائینل 3

صفحہ ۱

گارڈنر، سلیمان شکوہ فنا ((۱۹۰۲ – ۱۸۳۱))

Gardiner, Sulaiman Shikoh Fana

سلیمان شکوہ گارڈنر فنا عرف منا جان کے والد کا نام جیمس ویلنٹائن گارڈنر

James Valentine Gardner

اور والد کا نام شہزادی قمر چہرہ عرف ملکہ ہوہانی بیگم تھا۔ ہوہانی بیگم شاہزادہ سلیمان شکوہ ابن شاہ عالم بادشاہ کی گود لی ہوئی بیٹھی تھیں۔ فنا کی پیدائش ۱۸۳۱ میں لکھنؤ میں ہوئی تھی اور اکہتر ((۷۱)) سال کی عمر گزار کر انھوں نے ۱۹۰۲ میں علاقہ چھاؤنی ((لکھنؤ)) میں انتقال کیا۔ وہ اپنے اہل خاندان کے ساتھ لکھنؤ میں ہی علاقہ چھاؤنی میں سکونت پذیر رہے۔

فنا خاص ہندوستانی معاشرتی زندگی کے دلدادہ تھے اور ہندوستانی شرفا کی طرح زندگی گزارتے تھے۔ انھیں اپنے والد سے ورثہ میں بہت سی جائیداد ملی تھی۔ وہ بہت ہی سخی اور فراخ دل تھے۔ ان کی فیاضی اور سخاوت کے بہت سے واقعات مشہور ہیں۔ رقض و سرود اور جام و مینا میں بہت دلچسپی لیتے تھے۔

۱۸۵۷ کے زمانے میں فنا علی گڑھ چلے گئے تھے اور وہاں راجہ علی گڑھ کی پناہ میں رہے اور پھر وہاں سے آگرہ چلے گئے۔ وہ درگاِ مارہرہ کے سجادہ نشین کے گہرے دوست تھے۔ ان کا حلقہ احباب بہت وسیع تھا اور ان کی دوستی الور کے راجہ شیو دھیان سنگھ جی سے بھی تھی اور یہ دونوں پگڑی بدل بھائی بھی بن گئے تھے اور اپنے اس رشتے کو بہت پختہ کر لیا تھا۔

سلیمان شکوہ کا ادبی ذوق بہت ہی نفیس اور مطالعہ بہت وسیع تھا۔ متعدد زبانوں پر ان کی اچھی گرفت تھی۔ خصوصاً عربی فارسی، انگریزی اردو، ہندی اور پشتو زبان میں اتنی اچھی استعداد تھی کہ وہ ان میں روانی سے گفتگو
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ 1، فائینل 3
صفحہ ۲

بھی کر سکتے تھے۔ عربی، فارسی اور اردو میں اس طرح گفتگو کرتے تھے جیسے یہ ان کی مادری زبان ہو۔ علم نجوم اور علم طب میں بھی سلیمان شکوہ گارڈنر کو خاصا دخل تھا۔ خطاطی میں بھی انھوں نے مہارت حاصل کر لی تھی۔ سلیمان شکوہ گارڈنر فنا کا شمار اینگلو انڈین اردو شعرا میں درجہ اول کے شعرا میں ہوتا ہے۔ انھوں نے مشکل بحروں میں طبع آزمائی کی ہے۔ ان کی غزلیں فنی عیوب سے مبریٰ ہیں اور ان کی بیشتر غزلیں شعری محاسن اور پاکیزہ فکر کی مثال ہیں۔

گارسین دتاسی ((۱۸۷۸ – ۱۷۹۴))

Garein de Tassy

اردو زبان و ادب کے فرانسیسی علما میں اولین نام گارسیں دتاسی کا ہے۔ دتاسی نے پیرس میں اپنے زمانے کے مشہور عالم مشرقیات سلوستر دساسی

Sylvestre de Sassy

سے عربی فارسی سیکھی اور ۱۸۲۱ میں اپنے استاد سلوستر دساسی کی ہی اعانت سے کالیثر د فرانس

College de France

میں ملازم ہو گیا۔ انگریزی اسے کوب آتی تھی۔ اب استاد کی ہدایت کے بموجب اس نے "ہندوستانی" ((اردو)) کا علم برطانیہ ، اور دیگر جگہوں سے حاصل کیا۔ ۱۸۲۸ میں دتاسی کو پیرس کے مدرسئ اُلسنہ مشرقیہ میں اردو کے پروفیسر کی نوکری عارضی طور پر مل گئی۔ اگلے ہی سال یہ آسامی مستقل کر دی گئی۔ دور دور کے طالب علم اس کے کلاس میں شریک ہوتے اور دتاسی کی علمی ساکھ میں اضافہ ہوتا گیا۔۱۸۷۶ میں وہ سوسیتئے آسیاتیک

Societie Asiatique

((پیرس کی ایشیائی سوسائٹی)) کا صدر منتخب ہوا۔ اس کے بہت پہلے ۱۸۳۸ ہی میں وہ فرانس کی مشہور ادبی اکیڈمی

Academie des Insereciptions a Belles Letters

کا بھی رکن مقرر ہو چکا تھا۔ دتاسی کا انتقال ۲ ستمبر ۱۸۷۸ کو پیرس میں ہوا۔ تدفین فرانس کے ایک شہر مارسیئی

Marseilles

میں ہوئی۔
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۳

دتاسی کی پہلی اہمیت یہ ہے کہ اس نے اس بات کا سختی سے انکار کیا کہ "ہندوستانی" ((اردو)) محض مسلمانوں کی زبان ہے۔ کالج کھلنے پر اپنے سالانہ لکچر میں وہ ہمیشہ اس بات کا اعادہ کرتا کہ "ہندوستانی" ((اردو)) ملک ہند کی عام زبان ہے۔ اور کروڑوں لوگ اسے بولتے ہیں۔ دتاسی کی دوسری اہمیت یہ ہے کہ اگرچہ وہ ہندوستان کبھی نہیں آیا، لیکن وہ اردو کے لسانی اور ادبی حالات سے خود کو پوری طرح باخبر رکھتا تھا، اور ہر سال کی ادبی سرگرمیوں کا خلاصہ ایک لکبر میں بیان کرتا۔ دسمبر ۱۸۵۰ سے لے کر ۱۸۷۷ تک دیے گئے یہ خطبات ہماری ادبی تاریخ کا بڑا سرمایہ ہیں۔ انجمن ترقی اردو کی طرف سے بابئے اردو مولوی عبد الحق نے انھیں تین جلدوں میں ترجمہ کرا کے ۱۹۳۵ سے ۱۹۴۳ کے درمیان چھپوایا۔ مترجمین میں سر راس مسعود، مارما ڈیوک پکتھال، اختر حسین رائے پوری، اور عزیز احمد جیسے نام ہیں۔ ۱۹۶۴ سے ۱۹۷۹ کے درمیان یہی تراجم چار جلدوں میں ڈاکٹر محمد حمید اللہ کی نظر ثانی کے بعد کراچی سے شائع ہوئے۔

دتاسی نے دلی دکنی کا دیوان ۱۸۳۳ میں مرتب کر کے پیرس سے شائع کیا۔ پھر اس نے اردو ادب کی تاریخ

Historie de la Literature Hindouie et Hindoustanie

کے نام سے دو جلدوں میں ۱۸۳۹ اور ۱۸۴۷ میں شائع کی۔ جلد اول کی بنیاد پر ایک کتاب ہندوستان میں چھپی۔ اسے دتاسی کی کتاب کا ترجمہ تو نہیں، لیکن تحریر نو قرار دے سکتے ہیں۔ "طبقات شعرائے ہند" کے نام سے یہ کتاب ایک انگریز ایف۔ فیلن

F. Fallon

اور مولوی کریم الدین نے مل کر ۱۸۴۸ میں شائع کی۔

دتاسی نے فارسی، عربی، اسلامیات، ہندوستانی تہذیب وغیرہ موضوعات پر لکھنے کے علاوہ میر، ولی، مسکین ((مرثیہ گو)) سیر علی افسوس، نہال چند لاہور وغیرہ کی متعدد تحریروں کے فرانسیسی تراجم کیے۔ اس نے
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۴

ہندوستانی / ہندی قواعد اور صرف و نحو پر بھی لکھا۔ شمس الدین فقیر کی "حدائق البلاغت" پر مبنی عروض اور بیان پر ایک مبسوط کتاب لکھی۔ اس کی تحقیق، تراجم اور فیصلے ہر جگہ درست نہیں ہیں، لیکن پھر بھی اس کی تحریروں میں آج کے طالب علم کے لیے معلومات کا خزانہ بکھرا پڑا ہے۔

گاسکل، ایلزبیتھ ((کلیگیورن)) ((۱۸۶۵ – ۱۸۱۰))

Gaskell, Elizabeth

برطانوی ناول نگار اور سوانح نگار۔ یہ ولیم اسٹیونس نامی ایک سول سرونٹ کی بیٹی تھیں اور چلسی لندن میں پیدا ہوئیں۔ ان کو ان کی کالہ نے چیشائر میں پالا پوسا۔ انھوں نے اسٹرٹیفورڈ، اپان، ایون کے ایون بیک اسکول میں تعلیم حاصل کی اور پھر نیو کاسل میں ایک دور کے رشتہ دار پادری کے یہاں دو سال مقیم رہیں۔ ان کی شروع کی زندگی غیر یقینی اور سپاٹ رہی پھر ان کی ملاقات ولیم گاسکل نامی ایک پادری سے ہوئی جو بعد میں ان کے شوہر ہوئے۔ وہ مانچسٹر نیو کالج میں انگریزی، تاریخ اور ادب کے استاد تھے اور بہت سے مذہبی کتابچے اور رسالے لکھ چکے تھے۔ ۱۸۳۲ میں ان کی شادی ہوئی اور یہ دونوں شمالی انگلستان میں رہنے لگے۔

گلاسکل نے اس دوران کچھ کہانیاں لکھیں، ۱۸۴۸ میں ان کا پہلا ناول "میری بارٹن" شائع ہوا اور جب ہی سے وہ ادبی میدان میں آ گئیں۔ یہ ناول انھوں نے اپنے چھوٹے بیٹے کی وفات کے بعد لکھا تھا اور اس میں صنعتی جھگڑوں اور بے چینی کا ذکر تھا اور ساتھ ہی ۱۸۴۰ کی چارٹسٹ تحریک کی خوشگوار یادیں بھی تھیں۔ ڈکنس نے گلاسکل کے ناول کو سراہا اور اس کی ہمت افزائی کی۔ ان کی تحریریں "ہاؤس ہولڈ ورڈس" میں دو تین سال تک چھپتی رہیں۔ ان کی ایک مشہور کہانی "کرینیفورڈ" جسمیں ایک عمر رسیدہ ناکتخدا عورت کے حالات اور مسائل بڑے اچھے طریقہ سے بیان کیے گئے ہیں بھی اسی رسالہ میں چھپی۔ اس کے بعد ایک افسانہ "اوتھ" جس میں
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۵

ایک غیر شادی شدہ ماں کے احساسات و تجربات بیان کیے گئے۔ ایک اور کہانی جو پسند کی گئی وہ "نارتھ اینڈ ساوتھ" تھی، اس میں صنعقی جھگڑوں اور بے اطمینانی کی نقشہ کھینچا تھا۔ ان کا آخری ناول "سلویاس لورس" ۱۸۶۳ میں شائع ہوا اور ان کے مرنے کے بعد جین آسٹن کی طرز میں ایک نیم مزاحیہ ناول "وائیوز اینڈ ڈاٹرس" چھپا جو اس کے رنگ سے بالکل الگ تھا۔

۱۸۵۰ میں ان کی ملاقات شارلٹ برونٹ سے ہوئی جو گہری دوستی میں بدل گئی اور ۱۹۵۵ میں اس کے مرنے کے بعد انھوں نے "لائف آف شالٹ" کے نام سے اس کی سوانح عمری لکھی جس میں اس کی زندگی اور کردار کے حقیقی واقعات پیش کیے گئے تھے۔ لیکن انھوں نے برونٹ کے بچوں کے بارے میں کچھ ایسی غیر دانشمندانہ باتیں لکھیں جس کی وجہ سے ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی گئی۔ دوسرے ایڈیشن سے قبل اعتراض عبارتیں حذف کرنا پڑیں۔ اس کے باوجود اس سوانح عمری کو لوگوں نے پسند کیا۔

گاسکل عام طور پر طویل افسانے لکھتی تھیں جو مثل ناول کے ہوتے تھے۔ ان کے مجموعے "لائف ان ماچسٹر"، "لیزی لیھ"، "راونڈ دی صوفہ" اور "کزن فیلز" کے نام سے شائع ہوئے۔ اپنی معاصر خاتون لکھنے والیوں میں مسنر گاسکل اپنے شگفتہ انداز بیان، بے سہارا لوگوں کے ساتھ ہمدردی اور مناظر قدرت کی مصوری کی وجہ سے فوقیت رکھتی ہیں۔ آخر زمانہ کی تحریروں خاص طور پر "وائیوز اینڈ ڈاٹرس" میں مزاح اور تفریح کی جھلکیاں بھی ملتی ہیں۔

گالس وردی، جان ((۱۹۳۳ – ۱۸۶۷))

Galsworthy, John

گالس وردی انگریزی کا ناول نگار اور ڈرامہ نگار ہے۔ اس نے تقریباً ۲۷ سال تک ناول نگاری کی۔ اس کے ناول درمیانی طبقہ کے ایک نہایت مدیود حلقہ کے
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۶

بارے میں ہیں۔ ان میں سے بھی اکثر ایک ہی خاندان فورسائٹس کے بارے میں ہیں جنھیں بس پیسے کی ہوس تھی۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ گالس وردی کا تجربہ اور شعور بہت محدود تھا۔

گالس وردی کا خاندان قدیم اور مالدار تھا۔ بچپن کی زندگی خوش حالی میں گزری۔ آکسفورڈ میں تعلیم حاسل کی۔ خاصی سیر و سیاحت کی۔

گالس وردی کے فورسائٹ خاندان کے بار ے میں ناول تین گروپس میں تقسیم ہیں اور ہر گروپ میں تین ناول ہیں۔ ان میں سے پہلا گروپ فورسائٹ ساگا

Forsite Saga

ہے۔ دوسرا گارڈن اور تیسرا اینڈ آف دی چیپٹر

End of the Chapter

ہے۔

۱۹۰۶ سے گالس وردی نے تھیٹر کا رخ کیا اور اگلے بیس سال میں کئی ڈرامے لکھ ڈالے جو مختلف سماجی مسائل کے بارے میں ہیں۔ اس کے مشہور ڈرامے "دی سلور باکس"

The Silver Box

"اسٹرایف"

Strife

"جسٹس"

Justice

"اسکن گیم"

Skin Game

وغیرہ ہیں۔

۱۹۳۲ میں اسے ادب کا نوبل انعام ملا۔ ناولوں اور ڈراموں کے علاوہ اس کے خطوط اور سوانح عمریاں بھی شائع ہوئے ہیں۔

گجانن مادھو مکتی بودھ ((۱۹۱۷ – ۱۹۶۴)) : ترقی پسند شاعر اور فکشن نگار، گوالیار ضلع شیوپوری میں ۱۹۱۷ میں پیدا ہوئے۔ گوالیار اور اجین سے اعلٰی تعلیم حاصل کرنے کے بعد تدریسی خدمات پر مامور ہو گئے۔ صحافت، شاعری، کہانی اور تبصرہ ان کے مخصوص میدان تھے۔ مکتی بودھ رومانی شاعری سے دامن چھڑا کر نئی شاعری کی طرف آئے تھے۔ انھوں نے نئی کویتا تحریک کو اگے سچیدانند واتسائن کے ساتھ مل کر موضوع اور اسلوب
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۷

دونوں سطحوں پر مستحکم کیا۔ مکتی بودھ نے اس کے لیے مغرب سے استفادہ کیا۔ مکتی بودھ اگے کے انتخاب "تار سپتک" ((۱۹۴۳)) کے شاعر تھے۔ اس انتخاب میں مکتی بودھ کی شامل نظموں کا مرکزی احساس انسانی وجود ہے۔ غریبوں اور استحصال زدہ طبقوں کے کرب کو انھوں نے اپنی شاعری میں جگہ دی ہے۔ مکتی بودھ مارکسی نظریات سے بھی متاثر تھے۔ انھوں نے سرمایہ دار طبقے کی مذہبیت اور روحانیت پر زبردست طنز کیا ہے۔ ((۱)) چاند کا منھ ٹیڑھا ہے، ((۲)) بھوری بھوری خاک دھول، مکتی بودھ کے دو اہم شعری مجموعے ہیں۔ مکتی بودھ نے "اندھیرے میں" اور "برہمہ راکشش" نام کی دو اہم طویل نظموں میں معاصر زندگی کی عکاسی کی ہے۔

مکتی بودھ نئی کہانے کے اہم کہانی کار بھی ہیں۔ انھوں نے سماجی مسائل کے ساتھ ساتھ انسانی ذات کے کرب اور اس کے نفسیاتی مسائل کو بھی اہمیت دی ہے جس سے کہانی خارجیت کے دائرے سے نکل کر داخلیت کی طرف مڑتی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔ ان کے یہاں کافکاکی سی دھندلی فضا اور سارتر کی طرح کہانی میں فلسفے کی آمیزش دیکھنے کو ملتی ہے۔ "زندگی کی کترن"، "سمجھوتا"، "چابک"، "بھوت کا اپچار"، "آکھیٹ"، "سطح سے اٹھتا آدمی"، "جلنا" وغیرہ مکتی بودھ کی قابل ذکر کہانیاں ہیں۔

مکتی بودھ ادب کے نئے موضوعات پر فکر انگیز مضامین لکھنے والے مضمون نگار بھی ہیں۔ "کاماینی ایک پز وچار" جیسی کتاب سے ان کی فکری و تنقیدی خیالات کا پتہ چلتا ہے۔ انھوں نے نئی کویتا تحریک کے استحکام کے لیے جو عالمانہ و فکری مضامین لکھے ان میں سماجیاتی و نفسیاتی امور کے ساتھ جمالیاتی امور پر خاص زور دیا ہے۔ ان کے تنقیدی مضامین کے دو مجموعے ((۱)) "نئی کویتا کا آتم سنگھرش اور انیہ نبندھ" ((۲)) "نئے ساہتیہ کا سوندریہ شاستر" شائع ہو چکے ہیں۔ "ایک ساہتیک کی ڈائری" کے نام سے ان کی ایک اہم یادگار کتاب ہے۔ وشنو چندر شرما نے
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۸

"مکتی بودھ ایک آتم کتھا" کے نام سے مکتی بودھ کی سوانح عمری لکھی ہے۔ وشنو چندر شرما نے "مکتی بودھ ایک آتم کتھا" کے نام سے ان کی سوانح لکھی۔

گدادھر بھٹ ((زمانہ سولہویں صدی)) : گدادھر بھٹ برج بھاشا کے مشہور شاعر ہیں۔ وہ ہندی کے بھکتی شاعروں میں اعلٰی مقام رکھتے ہیں۔ رام چندر شکل کے مطابق گدادھر بھٹ جنوبی ہند کے برہمن تھے۔ ان کی تاریخ پیدائش کے سلسلے میں اختلاف ہے۔ مشر بندھوؤں کی مرتب کردہ ہندی ادب کی تاریخ اور رام چندر شکل کی رایوں کو مدنظر رکھ کر نئی تحقیق نے گدادھر بھٹ کی تاریخ پیدائش ۱۵۱۳ سے ۱۵۲۳ کے درمیان طے کی ہے اور ان کی تصانیف کا زمانہ ۱۵۴۰ سے ۱۵۴۶ کے درمیان قرار دیا ہے۔ بھٹ سنسکرت کے بڑے عالم تھے۔ برج بھاشا پر بھی زبردست قدرت رکھتے تھے۔ بھٹ شری مدبھگوت گیتا کے بہترین مقرر تھے۔ ایک محقق نابھاجی نے انھیں نیک بااخلاق، وعدہ کے پکے، ہمدرد، بھکت سیوک اور بھگوت کا بے مثال مقرر قرار دیا ہے۔ افسوس ہے کہ ان کوئی بھی آزاد کتاب دستیاب نہیں۔ مشر بندھوؤں نے ان کی ایک بانی اور دھیان مالا تصنیف کا ذکر کیا ہے۔ ویوگی ہری جی نے کچھ پھنکر پدوں کی اطلاع دی ہے۔ گدادھر بھٹ کے نام سے ان کی وانیوں کی جو کتاب شائع ہوئی ہے اس میں ۸۵ پد ہیں۔ دراصل گدادھر نام کے کئے شاعر ہونے کے سبب اس مجموعہ کے استناد پر شک کیا گیا ہے۔ کیونکہ کئی پدوں کے اسلوب میں واضح فرق ہے۔ گدادھر بھٹ نے کرشن لیلا کو بیان کیا ہے۔ رادھا کرشن کی مختلف لیلائیں شادی، تہوار وغیرہ کا بیان ان کی پدوں میں نہایت خوبصورت ڈھنگ سے ہوا ہے۔ گدادھر بھٹ کا بنیادی سروکار رادھا اور کرشن کے عہد شباب کی لیکاؤں سے
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۹

ہے۔ زبان سنسکرت آمیز ہونے کے باوجود رواں اور شیریں ہے اور یہی ان کی امتیاز ہے۔ مختصر یہ کہ وہ اظہار بیان اور احساس دونوں کے اعتبار سے ہندی کے بھکت کویوں میں اعلٰی مقام رکھتے ہیں۔

گڈکری، رام گنیش ((۱۸۸۵ – ۱۹۱۹)) : مراٹھی کے عظیم ڈرامہ نگار جو بہ حیثیت شاعر "گووندا گرج" اور بہ حیثیت مزاح نگار "بالک رام" کے قلمی نام سے جانے جاتے ہیں۔ یہ ۱۸۸۵ میں نوساری ((گجرات)) میں پیدا ہوئے، ان کی عمر آٹھ سال کی تھی کہ ان کے والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ انیس سال میں انھوں نے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ فرگیوسن کالج میں وہ سال اول تک ہی تعلیم پا سکے۔ اکیس سال کی عمر میں جب وہ کرلوسکر کی ڈرامہ کمپنی میں کام کرتے تھے تو ان کی ملاقات ان کے گرو شری پادکرشن کولھنکر سے ہوئی۔ انھوں نے جرنلسٹ اور ٹیچر کی حیثیت سے بھی کام کیا اور ۱۹۱۱ میں "پریم سنیاس" کے نام سے اپنا پہلا ڈرامہ لکھا۔ ان کے دوسرے ڈرامے یہ ہیں : "پنیہ پربھاؤ"، ایکچ پیالہ" ((مشہور ڈرامہ جس میں شراب نوشی کی برائیاں بیان کی گئی ہیں))، "بھاو بندھن"، اور "راج سنیاس" جو ان کے انتقال کی وجہ سے مکمل نہیں ہو سکا۔ "واگ ویجینتی"

Vagvaijayanti

کے عنوان سے ان کا کلام شائع ہوا ہے۔ ان کے مزاحیہ مضامین کا مجموعہ "رکام پناچی کامگری" کے نام سے اور بعد ازاں "سمپورن بالک رام" کے عنوان سے چھپا ہے۔ ان کی ہر تحریر ان کے زور بیان کا نمونہ ہے۔ وہ اردو یا فارسی نہیں جانتے تھے پھر بھی وہ ان الفاظ کا بڑے شوق سے استعمال کرتے تھے۔ ایک صاحبِ اسلوب قلم کار کی حیثیت سے مراٹھی میں ان کا مقام بہت بلند ہے۔

گرجا کمار ماتھر ((۱۹۱۸ – ۱۹۹۴)) : نئی کویتا تحریک کے اہم شاعر ہیں، یہ ۱۹۱۸ میں مدھیہ پردیش کے اشوک نگر میں پیدا ہوئے۔ لکھنؤ یونیورسٹی سے انگریزی ادب میں ایم۔ اے۔ کیا۔ طالب علمی کے زمانے سے ہی ان کا
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۱۰

رحجان ہندی کویتا کی طرف ہو گیا تھا۔ انھوں نے بھی شاعری کا آغاز رومانی اور عشقیہ نظموں سے کیا۔ اس دور کی یادگار ان کا پہلا مجمموعہ "منچر" ((۱۹۴۱)) ہے۔ اس میں جسمانی لذت اور وصل کی آرزو اور آرزو کی عدم تکمیل کی صورت میں ناامیدی اور مایوسی کی جھلکیاں صاف دکھائی دیتی ہیہں۔ اس کے بعد انسان دوستی اور مستقبل سے گہری عقیدت کا جذبہ پیدا ہونے لگا چنانچہ ان کے یہاں سرمایہ دارانہ نظام سے پیدا شدہ کرب اور احتجاج کا اظہار ہونے لگا۔ وہ متوسط طبوے کی مختلف کیفیات کی عکاسی جذباتی انداز سے کرتے ہیں۔ تاریخی احساسات کی کویتاؤں میں وہ ماضی کو حال سے ہم آہنگ کر کے پیش کرتے ہیں۔ گرجا کمار ماتھر رومانی جذبات سے لے کر جدید سائنسی خیالات کو بھی اپنی شاعری میں پیش کیا ہے۔ ان کے یہاں قدرتی مناظر پر بھی خوبصورت نظمیں ملتی ہیں۔ وہ لفظ کی فضیلت پر زور دیتے ہیں اور اپنے اسلوب کو سجانے اور سنوارنے پر دھیان دیتے ہیں۔ انھوں نے اپنی شاعری میں آزاد چھند کا بےحد خیال رکھا ہے۔ گرجا کمار ماتھر اگے کی مرتب کردہ پہلے "تار سپتک" ((۱۹۴۳)) کے شاعر ہیں۔ ان کے نو شعری مجموعے شائع ہوئے ہیں : ((۱)) منچر، ((۲)) تاش اور نرمان، ((۳)) دھوپ کے دھان، ((۴)) شیلا کھنڈ، ((۵)) چمکیلے، ((۶)) اسدھ کی بیتھا، ((۷)) میں وقت کے ہوں سامنے، ((۸)) پرتھوی کلب، ((۹)) کلپانتر۔ "پرتھوی کلب" رزمیہ ہے اور "کلپانتر" علامتی شاعری کا نمونہ ہے۔ مجموعہ "میں وقت کے ہوں سامنے" پر گرجا کمار ماتھر کو ۱۹۹۱ میں ساہتیہ اکادمی ایوارڈ ملا۔ گرجا کما "نئی کویتا : سیما اور امبھاونائیں" کے عنوان سے ایک تنقیدی مقالے کے مصنف بھی ہیں۔

گرے، تھامس ((۱۷۷۱ – ۱۷۱۶))

Gray, Thomas,

گرے انگریزی کا مشہور شاعر ہے۔ اس کے کلام میں اٹھارویں صدی کی پوری انگریزی شاعری کے ارتقا کی جھلک ملتی ہے۔ گرے نے پہلے ایٹن او رپھر کیمبرج
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۱۱

میں تعلیم حاصل کی۔ ۱۷۴۴ میں یہاں سے قانون کی ڈگری حاصل کی۔ اس نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ کیمبرج میں گزارا۔ زیادہ تر تنہا رہتا اور یونانی زبان و ادب کے مطالعہ اور لکھنے پڑھنے میں مصروف رہتا۔ اس دور کے مشہور سیاست داں وال پول سے اس کی بڑی دوستی تھی۔ لیکن بعد میں جب دونوں یوروپ کی سیر پر تھے، مخالفت ہو گئی، بعد میں دونوں پھر دوست بن گئے۔

۱۷۶۸ میں گری کیمبرج یونیورسٹی میں تاریخ اور جدید زبانوں کا پروفیسر مقرر ہوا لیکن اسے پڑھانے سے کبھی کوئی دلچسپی نہیں ہری۔ وہ نہایت شرمیلا اور حساس طبیعت کا تھا۔ اپنے دور کی سخت اور ہنگامہ پرور زندگی کے لیے بالکل موزوں نہین تھا۔ ۱۷۵۷ میں درباری شاعر بنانے کی پیش کش کی گئی تھی لیکن اس نے یہ اعزاز قبول کرنے سے فوراً انکار کر دیا۔

اس کے شروع کے دور کی اہم نطمیں "موسم بہار" اور "ایک دوست رچرڈ وسٹ کا نوحہ" ہے۔ ایٹن پر اس کی نظم بھی کافی مشہور ہوئی۔ لیکن جس نظم نے اسے حیات جاودانی بخشی وہ "گور غریباں"

Elegy Written in a Country Churchyard

ہے۔ اس کے کئی ترجمے اردو نظم میں ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ بھی اس نے کئی نظمیں لکھیں۔ گرے بہت کم لکھتا تھا۔ نظموں پر بڑی محنت کرتا، بار بار نظر ڈالتا اور بعض وقت ایک نظم کو مکمل ہونے میں برسوں لگ جاتے۔ اسی لیے اس کی نظموں میں سادگی کے ساتھ نغمگی اور سلاست ہے۔ وہ جدید ادب کے ساتھ کلاسکی ادب سے بھی اچھی طرح واقف تھا۔ اس لیے اس کے کلام میں کلاسیکی ادب سے لے کر اس کے اپنے جدید دور کے سب رنگ ملتے ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۱۲

گرے کی نثر بھی نہایت شگفتہ اور دل پذیر ہوتی تھی۔ اس کے خطوط انگریزی ادب عالیہ کا ایک گراں قدر حصہ ہیں۔

گرین، ہنری، گراہم ((۱۹۹۱ – ۱۹۰۴))

Greene, Graham

برطانوی ناول نگار، افسانہ نویس، ڈرامہ نویس، انشاپرداز اور نقاد۔ یہ ہرٹفورڈ شائر میں پیدا ہوئے اور برکھم اسکیڈ اسکول میں جہاں ان کے والد ہیڈ ماسٹر تھے تعلیم پائی پھر وہ بیالیل کالج آکسفورڈ چلے گئے۔ ۱۹۲۶ میں وہ روزنامہ "ٹائمز" سے منسلک ہو گئے اور ۱۹۲۷ میں ان کی شادی ہو گئی۔ ۱۹۳۵ میں وہ لائبیریا گئے اور سفر نامہ "جرنی وِد آؤٹ میپس" لکھا جو بہت پسند کیا گیا۔ واپسی پر وہ "دی اسپیکٹیٹر" کے فلمی نقاد مقرر کیے گئے اور ۱۹۴۰ میں اس کے ادبی ایڈیٹر بھی بن گئے۔ ۱۹۳۸ میں وہ میکسیکو میں مذہبی تعصب کی تحقیقات کرنے گئے اور وہاں کا افسانوی رنگ میں سفر نامہ "لالیس اوڈس" کے نام سے لکھا۔ دوسری جنگ عظیم میں وہ وزارت خارجہ سے منسلک رہے اور سیرالون میں دو تین سال رہے۔ ان کو ۱۹۶۶ میں کمپیسن آف آنر اور ۱۹۶۹ میں شوالیر ڈی الیجن ڈی آنر کے اعزازات سے نوازا گیا۔ ۱۹۲۶ میں انھوں نے رومن کیتھولک مذہب اختیار کر لیا۔ ان کا پہلا ناول "دی مَین وِدان" ۱۹۲۹ میں شائع ہوا جو ایک سنسنی خیز تاریخی ناول تھا جس میں جرائم، دھوکے بازی اور کامیابی و ناکامی کے واقعات بیان کیے گئے تھے مگر ان کو عوامی شہرت "استنبول ٹرین" نامی ناول سے ملی۔ اس کے بعد انھوں نے "اٹ از بینل فیلڈ"، "انگلینڈ میڈ می"، "اے گن فار سیل"، "دی کانفی ڈینشیل ایجنٹ"، "لوزو ٹیکس اٹ آل"، "اودر میں ان ہوانا"، "پادر اینڈ گلوی"، "دی ہارٹ آف میٹر"، "دی اینڈ آف میٹر"، "آنریری کونسل"، "دی ہیومن فیکٹر"، "ڈاکٹر فشر آف جنیلو"، "دی کمپنی اینڈ انیمی" وغیرہ متعدد ناول لکے جو زیادہ تر طربیہ تھے۔
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۱۳

ان کے افسانوں کے کئی مجموعے شائع ہو چکے ہیں مثلاً "دی بیسمنٹ روم ایند ادر اسٹوریز"، ٹونٹی ون اسٹوریز"، "دی لونگ روم"، "دی کمپلیزنٹ لور"، "کارونگ اے اسٹیچو" وغیرہ۔ فلمی دنیا کے لیے ان کا ڈرامہ "تھرڈ مین" بڑا مشہور ہوا۔ فلموں پر تنقیدات کا مجموعہ "پلثیر ڈوم" کے نام سے چھپا۔ ان کے مقالات اور تبصرے "ریفلیکشن"، "گیٹنگ ٹو نو دی جنرل" کے نام سے شائع ہوئے جن سے عالمی سیاست سے ان کی دلچسپی ظاہر ہوتی ہے۔ "اے سارٹ آف لائف" اور "ویز آف اسکیپ" کے نام سے دو سوانح عمریاں بھی انھوں نے لکھیں۔

گلستان : شیخ شرف الدین مصلح سعدی شیرازی کی تصنیف ہے۔ یہ ایرانی ادبیات کا گلِ سرسبز ہے۔ اس کی نثر مسجع اور مقفیٰ ہے لیکن تصنع نام کو نہیں۔ اس کی نثر کو سہل ممتنع کا بہترین نمونہ قرار دیا گیا ہے۔ چھوٹے چھوٹے جملے قند و نبات کا حکم رکھتے ہیں۔ برمحل اشعار اس کی زینت کو دوبالا کر رہے ہیں۔ قرآنی آیات بھی استعمال ہوئی ہیں۔ لیکن کہیں دلکشی کم نہیں ہونے پاتی۔ سعدی نے اپنی زندگی کے تجربات کا نچوڑ پیش کر دیا ہے۔ پند و موعظت بھی ہے اور تہذیب و اخلاق کی باتیں بھی۔ بادشاہوں کے لیے نصیحتیں بھی ہیں اور فقیروں کے لیے ہدایتیں بھی۔ فطری مناظر بھی ہیں اور انسانی خباثتوں کی لطیف عکاسی بھی۔ غرض گلستان میں ایک دنیا شمائی ہوئی ہے۔

گلکرسٹ، جان بارتھ وک ((۱۸۴۱ – ۱۷۵۹))

Gilchrist, John Borthwich

ایڈنبرا ((انگلستان)) میں پیدا ہوا، وہیں طب کی سند لی۔ حصول ملازمت کے لیے ۱۷۸۳ میں ہندوستان آیا۔ ممبئی میں فوج کے اسسٹنٹ سرجن کے حیثیت سے کام کرنے لگا۔ اس نے محسوس کیا کہ اگر انگریزوں کو ہندوستان میں نظم و نسق چلانا ہے تو انھیں ہندوستانی زبانیں سیکھنی ہو گی۔ چنانچہ اس نے اردو اور ہندوستانی زبان سیکھی۔قواعد اور لغت
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۱۴

کی کمی محسوس کی تو خود اس نے ۱۷۹۳ میں قواعد اور ۱۷۹۶ میں لغت مرتب کی۔ نووارد انگریزوں کو پڑھانے کے لیے ۱۸۰۰ میں "فورٹ ولیم کالج" قائم کیا گیا تو اس کالج میں وہ ہندوستانی زبان کا پروفیسر ہو گیا اور متعدد اصحاب کی مدد سے تصنیف و تالیف اور کتابوں کی طباعت کا کم شروع کیا۔ ۱۸۰۴ میں اس نے کرابی صحت کی بنا پر استعفا دے دیا اور ایڈنبرا لوٹ گیا جہاں اس کو ایل۔ ایل۔ ڈی۔ کی اعزازی ڈگری عطا کی گئی۔ ۱۸۱۶ میں وہ لندن آ گیا اور کمپنی کی ملازمے کے لیے ہندوستان جانے والوں کو اردو پڑھاتا رہا۔ کمپنی نے لندن میں ایک "ادارہ شرقیہ" قائم کیا تھا۔ گلکرسٹ وہاں اردو کا پروفیسر مقرر ہو گیا۔ ادارہ کے بڑھتے ہوئے مصارف کی وجہ سے ۱۸۲۵ میں اس کو بند کر دیا گیا لیکن گلکرسٹ نے اپنے طور پر درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھا۔ پیرانہ سالی کے باعث وہ اپنے وطن لوٹ گیا۔ کچھ عرصہ بعد بغرض علاج پیرس روانہ ہوا اور وہیں ۶ جنوری ۱۸۴۱ کو اس کا انتقال ہو گیا۔ اردو قواعد اور لغت کے علاوہ بھی گلکرسٹ کی کئی تصانیف موجود ہیں۔ اس کی چند اہم کتابیں یہ ہیں : انگریزی ہندوستانی ڈکشنری ((۱۷۹۰))، ہندوستانی گرامر ((۱۷۹۶))، اورینٹل لنگوسٹ ((۱۷۹۸))، قِصص مشرقی ((۱۸۰۳)) وغیرہ۔

کمانی لعل، منشی ((۱۸۰۱ – ۱۸۸۱-۲)) : ان کے والد کا نام منشی موہن لعل تھا۔ یہ لوگ کائستھ برادری سے تعلق رکھتے تھے اور راجہ ٹوڈرمل کے خاندان سے کہے جاتے تھے۔ اوائل عمری ہی میں کمانی لعل کی طبیعت درویشی کی طرف مائل ہو گئی۔ وہ اپنا زیادہ تر وقت سادھو سنتوں کی صحبت اور ایشور بھگتی میں گزارتے۔ اسی لیے عوام میں بھگت کمانی لعل کے نام سے مشہور ہوئے۔ روہتک اور بھٹناگر برادری میں ان کی کرامات اب تک دہرائی جاتی ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۱۵

منشی کمانی لعل کی دو کتابیں دستیاب ہیں۔ ایک "ریاض دلربا" اور دوسری "بھگت مال"۔ ان کے علاوہ بھی ان کی کئی کتابیں ہیں جو دستیاب نہیں ہیں۔ "بھگت مال" میں قصص الاولیا کی طرح ہندو دیوتاؤں کی ذکر ہے۔ یہ کتاب اہل ہنود میں بڑی مقدس سمجھی جاتی ہے۔ منشی کمانی لعل کے ہاتھ کا تحریر کردہ نسخہ ان کے وارثین کے یہاں پوجا گھر میں رکھا ہوا ہے۔ "بھگت مال" کی ابتدا ۱۸۳۸ میں ہوئی اور یہ ۱۸۵۱ میں پایہ تکمیل کو پہنچی۔

منشی کمانی لعل کی سب سے اہم اور قابل ذکر تصنیف "ریاض دلربا" ہے۔ موضوع اور پلاٹ کے پیش نظر کہا گیا کہ "ریاض دلربا" اردو ناول کا اولین نقش ہے۔ اردو میں نذیر احمد کے "مراۃ العروس" ((۱۸۶۹)) اور ہندوستان میں مراٹھی زبان کے "کرن گھیلو" ((۱۸۶۶)) کو پہلا ناول سمجھا جاتا رہا ہے۔ ان کے مقابلے میں "ریاض دلربا" ((۱۸۳۲)) کی تصنیف ہے۔ اس لیے اسے ہی اولیت کا درجہ ملنا چاہیے۔ "ریاض دلربا" کتاب کا تاریخی نام ہے۔ اس سے مادہ تاریخ ۱۲۴۸ھ حاصل ہوتا ہے۔ "ریاض دلربا" ۱۸۶۳ میں زیور طباعت سے آراستہ ہوئی۔

"ریاض دلربا" میں نہ فوق الفطرت عناصر ہیں، نہ حسن و عشق کی وہ رنگینیاں جو داستانوں کا موضوع خاص رہی ہیں۔ نہ میدان داریاں ہیں اور نہ تخیل کی مبالغہ آرائیاں۔ اس میں ایک عام شخص کی کہانی بیان کی گئی ہے۔ "ریاض دلربا" زبان کے اعتبار سے آج کے دور کے لیے نامونوس معلوم ہوتی ہے۔ لیکن اپنے وقت اور زمانے کے اعتبار سے وہ بالکل جدید تحریر ہے اور اس کا مزاج بھی داستان یا قصے کی جگہ جدید ناول کی یاد دلاتا ہے۔

گنیش آتمام رام کھانڈیکر : دیکھیے کھانڈیکر، وشنو سکھا رام۔

گوپال گنیش آگرکر : دیکھیے آگرکر، گوپال گنیش۔
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۱6

گورکھ ناتھ ((زمانہ بارہویں صدی)) : بارہویں اور تیرہویں صدی میں شمالی ہندوستان میں "ناتھوں" کا بہت زور تھا۔ اسی زمانہ میں مسلمان بڑی تعداد میں ہندوستان میں آ کر بسے۔ تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ ناتھ پنتھی سادھوؤں کا مسلمان فقیروں اور ولیوں سے اچھا خاصا تعارف تھا۔ مشہور ناتھوں کی تعداد نو ہے۔ ان میں سے بھی چار ناتھوں کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ سب سے پہلے آدی ناتھ پھر ان کے دو شاگرد جالندھر ناتھ اور متسیندر ناتھ یا مچھندر ناتھ۔

جالندھر ناتھ کے شاگرد تھے کانفا اور مچھندر ناتھ کے شاگرد تھے گورکھ ناتھ۔ آدی ناتھ، مچھندر ناتھ، جالندھر ناتھ اور گورکھ ناتھ، ان چاروں کو بہت عزت حاصل ہوئی۔ ان میں گورکھ ناتھ کا اثر صرف شمالی ہند تک ہی محدود نہیں رہا بلکہ جنوبی ہند تک دکھائی دیتا ہے۔ مراٹھی کی پرانی شاعری پر گورکھ ناتھ کا بہت اثر تھا۔

ہندی کے لیے گورکھ ناتھ کی خاص اہمیت ہے۔ جو پرانی تصانیف اب تک دستیاب ہوئی ہیں ان میں گورکھ ناتھ کے نام سے مشہور کتابوں کی تعداد بہت ہے۔ ہندی اور اُردو کے پرانے اسلوب کا اندازہ بھی گورکھ انتھ کی تصانیف سے ہوتا ہے کیونکہ گورکھ ناتھ سے منسوب کچھ کتابوں میں اُردو اور ہندی کی قدیم نثر کے نمونے ملتے ہیں۔ اب تک ان نمونوں کے بارے میں صحیح طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن یہ سچ ہے کہ گورکھ ناتھ کے زمانے سے ہی ملی جلی زبان کا استعمال ادب میں ہونے لگا۔ نام یو، کبیر اور جن دوسرے سادھوؤں اور مہاتماؤں نے مِلواں زبان میں لکھا ہے وہ سب گورکھ ناتھ سے متاثر تھے۔ گورکھ ناتھ کے نام سے تقریباً چالیس سے زیادہ کتابیں منسوب کی جاتی ہیں۔ گورکھ ناتھ نے اپنی تصانیف میں ساکار یاسگن بھکتی کی مخالفت کرتے ہوئے نراکار ایشور کی بھکتی کو اہمیت دی۔ انھوں نے مذہب کے نام پر ہر طرح کے دکھاوے کی مخالفت کی۔ کبیر داس گورکھ ناتھ کے بہت بعد میں ہوئے لیکن یہ ظاہر ہے کہ گورکھ ناتھ کا اثر کبیر اور دوسروں پر پڑا۔ گورکھ ناتھ کے نام
 

شمشاد

لائبریرین
فائل کا نام : پارٹ ۱، فائینل ۳
صفحہ ۱۷

سے جو نثر و نظم منسوب ہے اس پر مراٹھی اور پنجابی کا بھی اثر پایا جاتا ہے۔ بنگال اور مہاراشٹر میں بھی گورکھ ناتھ کو بہت مقبولیت حاصل ہوئی۔

گورکی، میکسم ((۱۹۳۶ – ۱۸۶۸))

Gorki, Maxim

اصل نام الیکسی میکسی مووچ پشکوف

Alexy Maximovich Pyeshkov

ہے۔ ماسکو کے نزدیک شہر توو گورد میں پیدا ہوا۔ باپ بڑھئی تھا۔ ماں ایک رنگ ریز کی بیٹی تھی۔ بچپن کی یتیمی نانا کے گھر گزاری۔ طرح طرح کی مشقت اور مزدوری میں لڑکپن گزرا۔ قازان یونیورسٹی میں داخلہ نہیں ملا۔ غیر قانونی مارکسی حلقوں سے تعلق ہوا۔ مزدوروں اور کسانوں میں سیاسی کام کرنے لگا۔ سکونت اور ماحول میں بار بار تبدیلی ہوتی رہی۔ عوانی شاعر کرالینکو نے اس کی ادبی صلاحیت بیدار کرنے کی پہلی کوشش کی۔ ۱۸۸۹ میں انقلابی حلقوں سے رشتہ رکھنے کے جرم میں گرفتار ہوا اور پولیس نگرانی میں رہا۔ اس نے عام مزدور کی حیثیت سے سرزمین روس کا جابجا سفر کیا۔ انھی مشاہدوں کو "مکار چدرا"

Makar Chidra

کے طویل افسانے کا موضوع بنایا جس سے اس کی ادبی شہرت شروع ہوئی۔ ۱۸۹۸ سے ۱۹۲۲ تک کی تحریریں ((ناول افسانے)) آپ بیتی پر مبنی ہیں اور پھر تین جلدوں میں اپ بیتی شائع کی۔ تحریر کی سادگی، بیان کی صداقت و سلاست، طنز کی چاشنی، تلخی اور گہرے تیز مشاہدے کی طراری نے اس کی نثر کو نرالا رنگ دے دیا۔

لینن اور پلے خانوف سے بیسویں صدی کے آغاز میں گورکی کی راہ و رسم ہوئی۔ دو نثری نظمیں "شہباز کا نغمہ" اور "طوفان کا نقیب" ((۱۹۰۱)) آمد انقلاب پر گورکی کے یقین کا سراغ دیتی ہیں اور اب تک مقبول ہیں۔ ۱۹۰۵
 
Top