اردو رباعیات

محمد وارث

لائبریرین
خاموشی میں یاں لذّتِ گویائی ہے
آنکھیں جو ہیں بند، عین بینائی ہے
نے دوست کا جھگڑا ہے نہ دشمن کا فساد
مرقد بھی عجب گوشۂ تنہائی ہے

(میر انیس)
 

محمد وارث

لائبریرین
ظلمات کو موجِ نور کیسے سمجھیں
پھر برق کو برقِ طور کیسے سمجھیں
مانا کہ یہی مصلحت اندیشی ہے
ہم لوگ مگر حضور کیسے سمجھیں

(احمد فراز)
 

محمد وارث

لائبریرین
آتش بازی ہے جیسے شغلِ اطفال
ہے سوزِ جگر کا بھی اُسی طَور کا حال
تھا موجدِ عشق بھی قیامت کوئی
لڑکوں کے لیے گیا ہے کیا کھیل نکال

(غالب)
 

محمد وارث

لائبریرین
کرتے ہیں طلبِ جوع و خیانت سے پناہ
قوموں کو کیا کثرتِ عصیاں نے تباہ
ہوتی نہیں فاسق کی مناجات قبول
رستے میں دعا کو روک لیتے ہیں گناہ

(عبدالعزیز خالد)
 

محمد وارث

لائبریرین
مستوں میں نہیں وہ عشق و مستی باقی
وہ پیرِ مغاں ہے اور نہ ساقی باقی
مے خانہ میں مے حافظ و رومی کی نہیں
باقی ہے برانڈی اور وسکی باقی

(خوشی محمد ناظر - نغمۂ فردوس)
 

محمد وارث

لائبریرین
اے درد، اگرچہ مے میں ہے جوش و خروش
رہتے ہیں ولے اہلِ تامّل خاموش
موجوں کو شراب کی وہ پی جاتے ہیں
گرداب کی مانند جو ہیں دریا نوش

(خواجہ میر درد)
 

محمد وارث

لائبریرین
ہر جلوہ سے اِک درسِ نَمُو لیتا ہوں
چھلکے ہوئے صد جام و سبُو لیتا ہوں
اے جانِ بہار تجھ پہ پڑتی ہے جب آنکھ
سنگیت کی سرحدوں کو چُھو لیتا ہوں

(فراق گورکھپوری)
 

محمد وارث

لائبریرین
گر یار کے سامنے میں رویا تو کیا
مژگاں میں جو سخت دل پرویا تو کیا
یہ دانۂ اشک سبز ہو نامعلوم
اس شور زمیں میں تخم بویا تو کیا

(مرزا رفیع سودا)
 

محمد وارث

لائبریرین
پہنچا جو کمال کو وطن سے نکلا
قطرہ جو گہر بنا عدن سے نکلا
تکمیلِ کمال کی غریبی ہے دلیل
پختہ جو ثمر ہوا چمن سے نکلا

(میر انیس)
 

محمد وارث

لائبریرین
دل سخت نژند ہو گیا ہے گویا
اُس سے گلہ مند ہو گیا ہے گویا
پر یار کے آگے بول سکتے ہی نہیں
غالب، منہ بند ہو گیا ہے گویا
 

محمد وارث

لائبریرین
سبطینِ نبی یعنی حَسن اور حُسین
زہرا و علی کے دونوں نور العین
عینک ہے تماشائے دو عالم کے لئے
اے ذوق لگا آنکھوں سے انکی نعلین

(ابراہیم ذوق)

 

فرحت کیانی

لائبریرین
جمالِ عشق و مستي نے نوازي
جلالِ عشق و مستی بے نيازي
کمالِ عشق و مستي ظرفِ حيدر
زوالِ عشق و مستي حرفِ رازي

(اقبال)
 

فرحت کیانی

لائبریرین
کبھي آوارہ و بے خانماں عشق
کبھي شاہ شہاں نوشيرواں عشق
کبھي ميداں ميں آتا ہے زرہ پوش
کبھي عريان و بے تيغ و سناں عشق

(اقبال)
 

محمد وارث

لائبریرین
گر مہ سے بلندی میں ہوا تو دہ چند
پستوں کی طرف دیکھ کے مت ہو خورسند
جتنے کہ بلندوں کی ہیں نظروں میں پست
پستوں کی بھی نظروں میں ہیں اتنے ہی بلند

(مرزا رفیع سودا)
 

محمد وارث

لائبریرین
تُو ہاتھ کو جب ہاتھ میں لے لیتی ہے
دکھ درد زمانے کے مٹا دیتی ہے
سنسار کے تپتے ہوئے ویرانے میں
سکھ شانت کی گویا تو ہری کھیتی ہے

(فراق گورکھپوری)
 

نوید صادق

محفلین
کی کوہ کنی تو کس نے دیکھا
اور قیس کا بن میں شور کس نے دیکھا
کرنا ہے جو کچھ کریں گے ان کے در پر
ناچا جنگل میں مور کس نے دیکھا

شاعر: شاہ نصیر
 

نوید صادق

محفلین
کیا ابرِ بہار سے ہے گلشن سیراب
دے بھر کے ہمیں ساغرِ گل میں مئے ناب
فوارہ نہیں حوض میں چھوٹے ہے یہ
ساقی تری تعظیم کو اٹھا ہے آب

شاعر: شاہ نصیر
 

نوید صادق

محفلین
بدلی ہے زمانے کی ہوا و تاثیر
صد چاک کروں کیوں نہ گریباں کو نصیر
آنسو کو سمجھتا تھا میں نور دیدہ
آخر کو ہوا یہ بھی مرا دامن گیر

شاعر: شاہ نصیر
 

نوید صادق

محفلین
محفل میں پہن آبِ رواں کی پوشاک
یوں رقص کرے اب وہ شوخ و بے باک
تیرے ہے شمار دم سے دریا میں کھڑا
ہاتھ اپنے اٹھا کے دونوں جیسے تیراک

شاعر: شاہ نصیر
 
Top