تمام روز و شب تیرے فراق میں جو کٹ گئے
اس احتساب سے نکل سکوں تو کوئی کام ہو
میں مشت خاک جس کو کہکشاں صدائیں دیتی ہیں
زمیں کے باب سے نکل سکوں تو کوئی کام ہو۔
مجھ پہ گزری یہ ابتلا برسوں
میں رہی تجھ میں مبتلا برسوں
اسکو مدت ہوئی نہیں دیکھا
جو کہ دل میں بسا رہا برسوں
اس کی ہی ذات کے بیاباں میں
دل اسے ڈھونڈتا پھرا برسوں
شہر ویران کر گیا ہے وہ
بن کے جس میں رہا خدا برسوں
ایک آنسو نے فاش کر ڈالا
راز جو تھا نہیں کُھلا برسوں
مجھے تو وقت نے تھمنے کا حوصلہ نہ دیا
مرا نصیب تھا ایسا، دیا دیا، نہ دیا
یہ کیا کہ رنج دیے بےشمار تُو نے مگر
انہیں سہار سکوں، ایسا حوصلہ نہ دیا
تینوں غزلیں بہترین ہیں لیکن بالا اشعار تو بے پناہ اچھے ہیں۔
بہت عمدہ
لاجواب
نور سعدیہ شیخ صاحبہ