اردو محفل سالانہ مشاعرہ 2014 - تبصرہ جات کی لڑی

ساقی۔

محفلین
رات ہی تو ہے آخر
رات کٹ ہی جائے گی۔۔۔۔!

لاجواب کلام ساقی۔ صاحب

خوش رہیے۔ :)

شکریہ۔نوازش۔مہربانی۔:aadab:
مشاعرے میں "داد خواہانہ بذلہ سنجی" کے لئے الگ سے نمبرز ملنے چاہیے آپ کو۔ :) :)
کہاں سے ملیں گے ؟ تا کہ میں قطار میں لگ جاوں:)
:)
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
ترے جہان نے ہمیں تو بے امان کر دیا
کہ شہر کربلا میں ہم امان ڈھونڈتے رہے

وہ مسجدِ نبی ہو یا مدینۃ النبی کی خاک
حبَش کے اک غلام کی اذان ڈھونڈتے رہے

کہاں ہے تو چھپا ہوا، کبھی تو ان کی آہ سن
تجھے پکارنے کو جو زبان ڈھونڈتے رہے

واہ واہ واہ

سبحان اللہ

بہت اچھے اشعار

داد قبول کیجیے میری طرف سے



مدتیں ہوئیں گزرے
پھر بھی تیرے جانے کا
دکھ نہیں گھٹا سکتے
غم میں جلنے والوں کا
غم نہیں بٹا سکتے
لہجہ اجنبی سا ہے
دل گرفتہ سا ہے پل
اس طرح الجھتا ہے
گزرا بیتا ہر اک پل
یاد کے حوالے ہیں
دل میں یوں اجالے ہیں
پر کہیں کمی سی ہے
آنکھ میں نمی سی ہے
ہر کسی کے جانے کا
سوگ جاں مناتی ہے
جانے کیوں مجھے ایسے
یاد تیری آتی ہے


نجانے کیوں مگر یہ نظم پڑھ کے آنکھوں کے گوشے نم ہو گئے۔ بہت دل سے لکھی گئی نظم کہ سچا کرب، دکھ، اداسی جس کی سطر سطر سے جھلکتی ہے۔

بہرحال بلا شک و بے گماں بہت عمدہ نظم

ڈھیروں داد قبل کیجیے اس خوبصورت تخلیق پہ ناعمہ عزیز آپی
 
آئینہ حسنِ یار سے پوچھے کبھی یہ کاشکے
اہلِ نظر کے سامنے پردگی اِختیار کیوں؟

تجھ کو خبر ہے اے خدا کوئی بُرا ہے یا بھلا
روزِ جزا میں پھر بتا اِس قدر اِنتظار کیوں؟
یومِ حساب کیا کہیں؟ بس میں ہو اُس سے پوچھ لیں
دوسری دفعہ کیا جئیں؟ مر گئے پہلی بار کیوں؟

کہنے لگا بہ صد فخر‘ تجھ سے ہزار ہیں اِدھر
میں نے کہا بجا مگر مجھ سوں کا ہی شمار کیوں؟


منیب احمد فاتح
 

ساقی۔

محفلین
اچھی غزل ہے محترم ساقی۔ صاحب اور نظم تو بہترین ہے۔
بہت شکریہ
سلامت رہیے

بہت شکریہ ۔آداب آداب۔

مگر یہ تو کمال کے اشعار ہیں بھیا جی۔

سوکھا ہوا جنگل ہوں، مجھے آگ لگا دو
اور پھر کسی دریا میں مری راکھ بہا دو
مصلوب کرو، سنگِ ملامت مجھے مارو
لوگو! مجھے اِس عہد کا منصور بنا دو

ہو کسی اور کا گزر کیسے
دل کی دنیا فقط تمہاری ہے
آج تو چاند بھی نہیں نکلا
آج کی رات کتنی بھاری ہے

اور

سنتا رہا تاویلِ جفا اُس کی زباں سے
بہتا رہا آنکھوں سے مری نیلِ تمنا
ایسا بُتِ کافر ہے کہ دیکھا نہیں مڑ کر
ہر چند کہ ہوتی رہی تعلیلِ تمنا
مدھم ہوئی آنکھوں میں تو پھر دل میں جلا لی
پر بجھنے نہیں دی کبھی قندیلِ تمنا

ما شا اللہ ۔۔ بہت خوب۔
 
اُس شخص پہ لکھنے بیٹھا جب، اک پل میں صدیاں بیت گئیں
کب دن ڈوبا اور رات ڈھلی، کچھ ہوش نہیں، کچھ یاد نہیں
ہم کہ تجھ سے تری آنکھوں کا پتہ پوچھتے ہیں
ایک بھٹکے ہوئے آہو کی سکونت کے لئے

سوکھا ہوا جنگل ہوں، مجھے آگ لگا دو
اور پھر کسی دریا میں مری راکھ بہا دو
مصلوب کرو، سنگِ ملامت مجھے مارو
لوگو! مجھے اِس عہد کا منصور بنا دو
اِس بار میں آیا ہوں چراغوں کو بجھا کر
اِس بار مجھے اپنی نگاہوں کی ضیا دو



محمد بلال اعظم
 

ابن رضا

لائبریرین
سنتا رہا تاویلِ جفا اُس کی زباں سے
بہتا رہا آنکھوں سے مری نیلِ تمنا
ماشاءاللہ بہت خوب محمد بلال اعظم صاحب. بہت عمدہ کلام. بہت سی داد

تاہم ایسا ملتا جلتا کوئی شعر پہلے بھی نظر سے گزرا ہوا ہے.:thinking:

اُس صورتِ مریم کو سرِ بام جو دیکھا
سینے میں اتر آئی اک انجیلِ تمنا
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
کاغذ پہ حرف فرضی حقیقی اتار کر
چل دیں گے ہم بھی اپنی سی مدت گزار کر
سرو و سمن ملیں تو پھر ان سے کنار کر
آ جائے راستے میں جو صحرا سو پار کر
مٹی سے میری یا تو ستارہ بنا دے ایک
یا رہروانِ شوق کی رہ کا غبار کر
اے خود پرست، خُو سے کوئی بت شکن ہے تو
موقع ملے تو اپنی انا پر بھی وار کر
سود و زیاں کے باب میں اب سوچنا ہے کیا
کس نے کہا تھا ، عشق کو سر پر سوار کر
ترتیب ایک شام رہی ہے حیات میں
آیا تھا باغ میں کوئی زلفیں سنوار کر


واہ کیا ہی اچھی غزل ہے

سبحان اللہ

بہت سی داد قبول کیجیے



ہاہاہا

بہت زبردست نظم۔۔۔۔ کالج پارٹیز میں بہت مزے آئے گا پڑھ کے۔ اگر کبھی موقع ملا تو آپ سے پڑھنے کی اجازت چاہوں گا۔


محترمہ نمرہ صاحبہ
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
راہِ دیارِ عشق سے پھر گئے جاں نثار کیوں؟
شہرِ نگار چھوڑ کر چل دئیے دل فگار کیوں؟
دشتِ دل و جگر میں ہے‘ چشمۂ چشمِ تر میں ہے
وسعتِ ریگ زار کیوں؟ مستئ جوئےبار کیوں؟
موسمِ گل فرار میں‘ تتلیاں اِنتشار میں
عرصۂ روزگار میں ہائے رے اِختصار کیوں؟
آئینہ حسنِ یار سے پوچھے کبھی یہ کاشکے
اہلِ نظر کے سامنے پردگی اِختیار کیوں؟
تجھ کو خبر ہے اے خدا کوئی بُرا ہے یا بھلا
روزِ جزا میں پھر بتا اِس قدر اِنتظار کیوں؟
یومِ حساب کیا کہیں؟ بس میں ہو اُس سے پوچھ لیں
دوسری دفعہ کیا جئیں؟ مر گئے پہلی بار کیوں؟
چشمِ صنم ہری ہری‘ دیکھ یہ سبز تُرمِری
حسرتِ مرغزار کیوں؟ خواہشِ سبزہ زار کیوں؟
کہنے لگا بہ صد فخر‘ تجھ سے ہزار ہیں اِدھر
میں نے کہا بجا مگر مجھ سوں کا ہی شمار کیوں؟
فصلِ خزاں ہے عنقریب جان لے گر یہ عندلیب
میری طرح سے پھر منیبؔ ہو نہ وہ سوگوار کیوں؟



واہ واہ واہ

سبحان اللہ

منیب احمد فاتح بھائی

ہمیشہ کی طرح بہترین تخلیق

بہت شکریہ
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
بہت شکریہ ۔آداب آداب۔

مگر یہ تو کمال کے اشعار ہیں بھیا جی۔

سوکھا ہوا جنگل ہوں، مجھے آگ لگا دو
اور پھر کسی دریا میں مری راکھ بہا دو
مصلوب کرو، سنگِ ملامت مجھے مارو
لوگو! مجھے اِس عہد کا منصور بنا دو

ہو کسی اور کا گزر کیسے
دل کی دنیا فقط تمہاری ہے
آج تو چاند بھی نہیں نکلا
آج کی رات کتنی بھاری ہے

اور

سنتا رہا تاویلِ جفا اُس کی زباں سے
بہتا رہا آنکھوں سے مری نیلِ تمنا
ایسا بُتِ کافر ہے کہ دیکھا نہیں مڑ کر
ہر چند کہ ہوتی رہی تعلیلِ تمنا
مدھم ہوئی آنکھوں میں تو پھر دل میں جلا لی
پر بجھنے نہیں دی کبھی قندیلِ تمنا

ما شا اللہ ۔۔ بہت خوب۔

بہت شکریہ ساقی بھائی
تشکر
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
اُس شخص پہ لکھنے بیٹھا جب، اک پل میں صدیاں بیت گئیں
کب دن ڈوبا اور رات ڈھلی، کچھ ہوش نہیں، کچھ یاد نہیں
ہم کہ تجھ سے تری آنکھوں کا پتہ پوچھتے ہیں
ایک بھٹکے ہوئے آہو کی سکونت کے لئے

سوکھا ہوا جنگل ہوں، مجھے آگ لگا دو
اور پھر کسی دریا میں مری راکھ بہا دو
مصلوب کرو، سنگِ ملامت مجھے مارو
لوگو! مجھے اِس عہد کا منصور بنا دو
اِس بار میں آیا ہوں چراغوں کو بجھا کر
اِس بار مجھے اپنی نگاہوں کی ضیا دو



محمد بلال اعظم
زہے نصیب میرے
بہت بہت شکریہ استادِ محترم
امید ہے مشاعرے کے بعد جلد ہی رنگوں سے آشنائی ہو جائے گی۔
جزاک اللہ
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
ماشاءاللہ بہت خوب محمد بلال اعظم صاحب. بہت عمدہ کلام. بہت سی داد

تاہم ایسا ملتا جلتا کوئی شعر پہلے بھی نظر سے گزرا ہوا ہے.:thinking:

اُس صورتِ مریم کو سرِ بام جو دیکھا
سینے میں اتر آئی اک انجیلِ تمنا
بہت شکریہ ابن رضا بھائی
یہ وہی غزل ہے جو کچھ عرصہ پہلے محفل پہ بھی پیش کی تھی۔ بالا شعر فاتح بھائی کے ایک شعر سے متاثر ہو کے کہا تھا (وضاحت وہاں کسی تبصرے میں بھی موجود ہے)
:)
 

کاشف سعید

محفلین
کہنے لگا بہ صد فخر‘ تجھ سے ہزار ہیں اِدھر
میں نے کہا بجا مگر مجھ سوں کا ہی شمار کیوں؟
فصلِ خزاں ہے عنقریب جان لے گر یہ عندلیب
میری طرح سے پھر منیبؔ ہو نہ وہ سوگوار کیوں؟

بہت خوب فاتح بھائی!
 
کہنے لگا بہ صد فخر‘ تجھ سے ہزار ہیں اِدھر
میں نے کہا بجا مگر مجھ سوں کا ہی شمار کیوں؟
فصلِ خزاں ہے عنقریب جان لے گر یہ عندلیب
میری طرح سے پھر منیبؔ ہو نہ وہ سوگوار کیوں؟

بہت خوب فاتح بھائی!
بہت نوازش، جناب کاشف سعید صاحب۔۔
 

کاشف سعید

محفلین
جب حشرکا دن ہو، تریؐ قربت ہو میسر
ہم خاک نشینوں کی بس اتنی سی دعا ہے
مصلوب کرو، سنگِ ملامت مجھے مارو
لوگو! مجھے اِس عہد کا منصور بنا دو
مدھم ہوئی آنکھوں میں تو پھر دل میں جلا لی
پر بجھنے نہیں دی کبھی قندیلِ تمنا

بہت اعلی، محمد بلال اعظم!
 
ماشاءاللہ، بہت خوب محفل جمی ہے۔ ابھی شروع کے کچھ کلام پڑھے ہیں۔ بہت لطف آیا۔

تھام کر دستِ صبا خوابِ عدم ہوتی ہے
گُلفروشوں کے بدن میں نہیں بستی خوشبو
-محمد احمد


پھر قلم لکھ جائے گا تاریخ کی اِک داستاں
محفلِ اربابِ دانش پھر جواں ہو جائے گی
- غزالہ ظفر


سرد لہجے یہاں ہیں لوگوں کے
تم دسمبر کی بات کرتے ہو
- خرم شہزاد خرم


ہمیں تم سے محبت ہے زمانے کی پڑی تم کو
ہمیں باتیں کرو اپنی زمانہ چهوڑ دو صاحب
- واسطی خٹک (زبردست ردیف ہے)

شہر ویران کر گیا ہے وہ
بن کے جس میں رہا خدا برسوں
- نور سعدیہ شیخ
 
Top