نمرہ
محفلین
ممنون ہوں جناب۔کاغذ پہ حرف فرضی حقیقی اتار کر
چل دیں گے ہم بھی اپنی سی مدت گزار کر
مٹی سے میری یا تو ستارہ بنا دے ایک
یا رہروانِ شوق کی رہ کا غبار کر
بہت خوب نمرہ صاحبہ!
ممنون ہوں جناب۔کاغذ پہ حرف فرضی حقیقی اتار کر
چل دیں گے ہم بھی اپنی سی مدت گزار کر
مٹی سے میری یا تو ستارہ بنا دے ایک
یا رہروانِ شوق کی رہ کا غبار کر
بہت خوب نمرہ صاحبہ!
آپ کی رائے کا انتظار رہے گا۔کاغذ پہ حرف فرضی حقیقی اتار کر
چل دیں گے ہم بھی اپنی سی مدت گزار کر
کل ہے میرا امتحاں اور امتحاں مشکل بھی ہے
پر ابھی ہے شام ساری، فکر تو مہمل سی ہے
کورس میں ایسا ہے کیا، بس دس منٹ درکار ہیں
ہم کوئی عامی نہیں، پہنچی ہوئی سرکار ہیں
نمرہ
شکریہ شکریہ۔۔اپنے رسک پر پڑھ لیجیے گاکاغذ پہ حرف فرضی حقیقی اتار کر
چل دیں گے ہم بھی اپنی سی مدت گزار کر
سرو و سمن ملیں تو پھر ان سے کنار کر
آ جائے راستے میں جو صحرا سو پار کر
مٹی سے میری یا تو ستارہ بنا دے ایک
یا رہروانِ شوق کی رہ کا غبار کر
اے خود پرست، خُو سے کوئی بت شکن ہے تو
موقع ملے تو اپنی انا پر بھی وار کر
سود و زیاں کے باب میں اب سوچنا ہے کیا
کس نے کہا تھا ، عشق کو سر پر سوار کر
ترتیب ایک شام رہی ہے حیات میں
آیا تھا باغ میں کوئی زلفیں سنوار کر
واہ کیا ہی اچھی غزل ہے
سبحان اللہ
بہت سی داد قبول کیجیے
ہاہاہا
بہت زبردست نظم۔۔۔۔ کالج پارٹیز میں بہت مزے آئے گا پڑھ کے۔ اگر کبھی موقع ملا تو آپ سے پڑھنے کی اجازت چاہوں گا۔
محترمہ نمرہ صاحبہ
ترے جہان نے ہمیں تو بے امان کر دیا
کہ شہر کربلا میں ہم امان ڈھونڈتے رہے
وہ مسجدِ نبی ہو یا مدینۃ النبی کی خاک
حبَش کے اک غلام کی اذان ڈھونڈتے رہے
کہاں ہے تو چھپا ہوا، کبھی تو ان کی آہ سن
تجھے پکارنے کو جو زبان ڈھونڈتے رہے
واہ واہ واہ
سبحان اللہ
بہت اچھے اشعار
داد قبول کیجیے میری طرف سے
مدتیں ہوئیں گزرے
پھر بھی تیرے جانے کا
دکھ نہیں گھٹا سکتے
غم میں جلنے والوں کا
غم نہیں بٹا سکتے
لہجہ اجنبی سا ہے
دل گرفتہ سا ہے پل
اس طرح الجھتا ہے
گزرا بیتا ہر اک پل
یاد کے حوالے ہیں
دل میں یوں اجالے ہیں
پر کہیں کمی سی ہے
آنکھ میں نمی سی ہے
ہر کسی کے جانے کا
سوگ جاں مناتی ہے
جانے کیوں مجھے ایسے
یاد تیری آتی ہے
نجانے کیوں مگر یہ نظم پڑھ کے آنکھوں کے گوشے نم ہو گئے۔ بہت دل سے لکھی گئی نظم کہ سچا کرب، دکھ، اداسی جس کی سطر سطر سے جھلکتی ہے۔
بہرحال بلا شک و بے گماں بہت عمدہ نظم
ڈھیروں داد قبل کیجیے اس خوبصورت تخلیق پہ ناعمہ عزیز آپی
عرض ہے کہ جون سے زیادہ کامیاب شاعر اب تک اردو کی تاریخ میں مقبول نہیں ہوا۔ بات رہی علی کی، تو کون کہتا ہے وہ وجد میں رہتا ہے، یہ جو بھیس ہے، اس کے قبیلے کی نشانی ہے، اور رسوم کی پابندی۔ علی زریون وہ ذہین و فطین ہے کہ لوگ اس کی سادگی کا دھوکا کھا جاتے ہیں
!
تیرے کرم کی ہیں سوغاتیں
میری غزلیں میری باتیں
آو چپ کا روزہ توڑیں
خاموشی سے کر کے باتیں
اک اک پل کو گرہ لگا کر
کاٹی ہیں برہا کی راتیں
اُس کے آگے سب اک جیسے
کسکا جاہ اور کیسی ذاتیں
عشق نے ہیر کو رانجھا کر کے
منوا لیں سب اپنی باتیں
جھولی پھیلا کر مانگی ہیں
تیری جیتیں اپنی ماتیں
سانسوں کے جھولے میں جھولیں
ہونے نہ ہونے کی باتیں
واہ واہ واہ
بے انتہا خوبصورت غزل
حیرت ہے کہ آپ اپنا کلام محفل پہ کیوں نہیں پیش کرتیں جبکہ بے پناہ خوبصورت لکھتی ہیں۔
ڈھیروں داد اس خوبصورت غزل کے لئے
*****
ایک بارش کا جیسے سایا تھا
کوئی گیلا نہیں ہوا مجھ میں
نارسائی تھی کیسی خواہش میں
حبس ہی حبس بھر گیا مجھ میں
میرے موسم تھے تیرے کہنے میں
جو بھی تو نے کہا ہوا مجھ میں
کیسی مٹی میں اس نے ڈھالا تھا
نہ رہی آگ نہ ہوا مجھ میں
ہمیں منظور نہیں سوداگری سالوں کی
دل کے خانے سے اب عمر ہٹا لی جائے
بالا اشعار بیحد پسند آئے۔
لاجواب کلام
صائمہ شاہ صاحبہ
بجا ارشادہم تمام محفلین سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ مشاعرے میں پیش کیے گئے کلام پر (اس) تبصرے کی لڑی میں داد پیش کریں۔ مشاعرے کی لڑی میں صرف پسند کے بٹنوں پر اکتفاء کیجے۔
فیصل آباد میں صوفیوں کا ایک قبیلہ۔یہ کونسا قبیلہ ہے قبلہ ؟
ہمارے ناقص علم میں اضافے کی خاطر مزید روشنی ڈالیےفیصل آباد میں صوفیوں کا ایک قبیلہ۔
دیگر صوفیوں کی سی ہیں تمام خصوصیات۔ خاص یہ ہے کہ بال نہیں کٹواتے، اور نہ کسی دھات سے اٹکانے کے قائل ہیں۔ اپنے ہی بالوں سے بال باندھ لیتے ہیں حسب ضرورت!ہمارے ناقص علم میں اضافے کی خاطر مزید روشنی ڈالیے
شکریہدیگر صوفیوں کی سی ہیں تمام خصوصیات۔ خاص یہ ہے کہ بال نہیں کٹواتے، اور نہ کسی دھات سے اٹکانے کے قائل ہیں۔ اپنے ہی بالوں سے بال باندھ لیتے ہیں حسب ضرورت!
جناب فاتح صاحب کا یہ شعر تو نہیں یاد آرہا آپ کو؟تاہم ایسا ملتا جلتا کوئی شعر پہلے بھی نظر سے گزرا ہوا ہے.
اُس صورتِ مریم کو سرِ بام جو دیکھا
سینے میں اتر آئی اک انجیلِ تمنا
تو پھر تم ہی بتا دو ہم کہاں جائیں علی زریونبات رہی علی کی، تو کون کہتا ہے وہ وجد میں رہتا ہے، یہ جو بھیس ہے، اس کے قبیلے کی نشانی ہے، اور رسوم کی پابندی۔ علی زریون وہ ذہین و فطین ہے کہ لوگ اس کی سادگی کا دھوکا کھا جاتے ہیں
تو پھر تم ہی بتا دو ہم کہاں جائیں علی زریون
ہماری سادگی کو بھی تم استادی سمجھتے ہو