شمشاد
لائبریرین
میری ڈائری کے ایک ورق پر " ماں " کے موضوع پر مندرجہ ذیل اقتباس ہے :
ماں
ابا جی مجھے مارتے تھے تو امی بچا لیتی تھیں۔ ایک دن میں نے سوچا کہ اگر امی پٹائی کریں گی تو ابا جی کیا کریں گے اور یہ دیکھنے کے لئے کہ کیا ہوتا ہے میں نے امی کا کہا نہ مانا۔ انہوں نے کہا بازار سے دہی لا دو، میں نہ لایا، انہوں نے سالن کم دیا، میں نے زیادہ پر اصرار کیا، انہوں نے کہا پیڑھی پر بیٹھ کر روٹی کھاؤ، میں نے زمین پر دری بچائی اور اس پر بیٹھ گیا، کپڑے میلے کر لئے، میرا لہجہ بھی گستاخانہ تھا۔ مجھے پوری توقع تھی کہ امی ضرور ماریں گی۔ مگر انہوں نے کیا یہ کہ مجھے سینے سے لگا کر کہا “ کیوں دلور (دلاور) پتر! میں صدقے، بیمار تو نہیں ہے تُو؟“
اس وقت میرے آنسو تھے کہ رکتے ہی نہیں تھے۔
(مرزا ادیب کی کتاب “مٹی کا دیا“ سے اقتباس)
ماں
ابا جی مجھے مارتے تھے تو امی بچا لیتی تھیں۔ ایک دن میں نے سوچا کہ اگر امی پٹائی کریں گی تو ابا جی کیا کریں گے اور یہ دیکھنے کے لئے کہ کیا ہوتا ہے میں نے امی کا کہا نہ مانا۔ انہوں نے کہا بازار سے دہی لا دو، میں نہ لایا، انہوں نے سالن کم دیا، میں نے زیادہ پر اصرار کیا، انہوں نے کہا پیڑھی پر بیٹھ کر روٹی کھاؤ، میں نے زمین پر دری بچائی اور اس پر بیٹھ گیا، کپڑے میلے کر لئے، میرا لہجہ بھی گستاخانہ تھا۔ مجھے پوری توقع تھی کہ امی ضرور ماریں گی۔ مگر انہوں نے کیا یہ کہ مجھے سینے سے لگا کر کہا “ کیوں دلور (دلاور) پتر! میں صدقے، بیمار تو نہیں ہے تُو؟“
اس وقت میرے آنسو تھے کہ رکتے ہی نہیں تھے۔
(مرزا ادیب کی کتاب “مٹی کا دیا“ سے اقتباس)