فیض کے نام پر یاد آیا، انہوں نے ایک بار کہا تھا: ’’اقبال پہاڑ ہے اور یہ چھوٹی چھوٹی گلہریاں اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں‘‘۔
فیض احمد فیض نے اقبال کی عظمت کا ہمیشہ اعتراف کیا اور انہیں اس دور کا سب سے بڑا شاعر کہا۔ ایک بار فیض سے پوچھا گیا کہ آپ کے خیال میں علامہ اقبالؒ کا شاعری میں کیا مرتبہ ہے؟ بولے: جہاں تک شاعری میں sensibility، زبان پر عبور اور غنائیت کا تعلق ہے ہم تو انکی خاک پا بھی نہیں۔ علامہ بہت بڑے شاعر ہیں۔ اگر وہ سوشلزم کے معاملے میں ذرا سنجیدہ ہو جاتے تو ہمارا کہیں ٹھکانا نہ ہوتا۔ فیض ہی نے تو کہا ہے:
آیا ہمارے دیس میں اک خوش نوا فقیرآیا اور اپنی دھن میں غزل خواں گزر گیاسنسان راہیں خلق سے آباد ہو گئیںویران مے کدوں کا نصیبہ سنور گیاتھیں چند ہی نگاہیں جو اس تک پہنچ سکیں پر اس کا گیت سب کے دلوں میں اتر گیافیض کہتے تھے کہ اقبال کو پڑھتے وقت کوئی اور شاعر نظر میں نہیں جچتا‘ فکر اور شعر دونوں میں ہمہ گیر اور آفاقی۔فیض کراچی جاتے تو ہمیشہ مجید ملک کے ہاں ٹھہرتے ایک بار مجید ملک پوچھنے لگے: فیض، اب تمہاری عمر کیا ہے؟ فیض نے بتایا کہ وہ پچپن سال کے ہو چکے ہیں۔ مجید ملک بولے: آپکو معلوم ہے کہ اقبال نے اس عمر تک کیا کچھ کر لیا تھا۔ اسکے بعد مجید ملک نے اقبال کی جملہ تصنیفات نظم و نثر کے نام گنوا دیے اور تان اس پر توڑی کہ فیض کی اب تک فقط دو ہی کتابیں شائع ہوئی ہیں: ’’نقش فریادی‘‘ اور ’’دست صبا‘‘۔ فیض نے بڑے ادب اور انکسار کے لہجے میں جواب دیا: مجید بھائی، اب آپ میرا موازنہ اقبال سے تو نہ کیجئے۔ ان کا تخلیقی جوہر تو ایک شعلہ جوالا تھا اور میرا ایک ننھی سی شمع کی لو۔
یہ تصور کس قدر المناک ہے کہ اقبال اب ہم میں نہیں۔ جدید ہندوستان اردو کا اس سے بڑا شاعر پیدا نہیں کر سکتا۔ اسکی فارسی شاعری کا بھی جدید فارسی ادب میں اپنا ایک مقام ہے۔ یہ تنہا ہندوستان ہی کا نہیں بلکہ پورے مشرق کا نقصان ہے۔ ذاتی طور پر میں ایک پرانے دوست سے محروم ہو گیا ہوں۔
آسی صاحب! ہم حلفیہ بیان دیتے ہیں کہ یہ کار خیر ہم نے نہیں کیا۔’’شاعرات‘‘ کہنا کافی ہے، ’’خواتین شاعرات‘‘ کیوں؟ مجھے یاد آ رہا ہے، جناب فاتح نے یہاں یا فیس بک پر شاعرات اور ان کی شاعری کے تعارف ایک سلسلہ شروع کیا تھا۔ مزے کی بات ہے انہوں نے بھی ’’خواتین شاعرات‘‘ ہی لکھا، اس کی کوئی نہ کوئی توجیہ رہی ہو گی۔
اس سلسلے میں ایک باتجناب محب علوی اور جناب مزمل شیخ بسمل
اقبال کے ہاں اغلاط کی بات بہت سوں سے سنی ہے مگر میرا کم مطالعہ کہہ لیجئے کہ کوئی تفصیلی مباحث میرے علم میں نہیں۔
ادھر
غالب کے کلام پر علامہ نظم طباطبائی نے بہت سخت گرفت کی ہے۔
حفیظ جالندھری کا فرمان ہے: اگر اقبال نہ ہوتا تو حفیظ بھی نہ ہوتا۔۔۔اقبال کے بعد کے تمام بڑے شعرا کو دیکھ لیجیے ، سب اقبال کی عظمت کا دم بھرتے ہیں جس میں سرفہرست فیض احمد فیض جیسا بڑا شاعر موجود ہے۔
ایک بار کسی نے مجھ سے کہا کہ غالب کا سائنسی شعور اقبال سے بلند ہے۔ میں اڑ گیا کہ اقبال سے بڑا کوئی شاعر ہو ہی نہیں سکتا۔ جتنی تخلیقات اقبال کی ہیں، غالب کی کہاں؟ (ان دنوں ہم کتابوں کی تعداد سے شعراء کی عظمت کا اندازہ بھی لگایا کرتے تھے، لیکن اس وضاحت سے یہ نہ سمجھا جائے کہ اقبال کو غالب سے کم کہنے پر میں اب برا نہیں مانوں گا)، کہنے لگے غالب کا شعر ہے:
رگ سنگ سے ٹپکتا وہ لہو کہ پھر نہ تھمتا
جسے غم سمجھ رہے ہو، یہ اگر شرار ہوتا
آج کی سائنس مانتی ہے کہ واقعی وہ رگیں ہوتی ہیں جن میں لاوا خون کی طرح بہہ سکے۔ اقبال نے جہاں جہاں ایسی باتیں کی ہیں وہاں کہیں کہیں اس کی فکر دھوکہ کھا گئی ہے لیکن غالب کہیں نہیں ڈگمگایا (خیر ان کے اس بیان کو میں اب بھی نہیں مانتا، جب تک اس پر سنجیدہ تحقیق کے ساتھ کچھ لکھا نہ جائے ) ۔۔۔ اب میری سوچ کچھ بدلی ہے تو میری رائے یہ ہے کہ اقبال اور غالب کا تقابل ہی درست نہیں ہے۔۔۔ غالب نظم کا شاعر نہیں ہے، اقبال کا نظم میں کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا۔۔۔ تو تقابل کی بات ہی کیا۔۔۔ رہی بات اقبال کے استاد ہونے کی تو اقبال اس چکر میں نہیں پڑے ، میں اس بات سے اتفاق کرتا ہوں۔۔۔ پھر ان کے کلام میں جو خامیاں بیان کی جاتی ہیں، میرا قیاس ہے کہ وہ محض ادائیگی کے طریقے پر ہوسکتی ہیں۔۔۔ غزل ایسے نہیں کہی جاتی، جیسے اقبال کہتے ہیں:
ضمیر مغرب ہے تاجرانہ، ضمیر مشرق ہے راہبانہ
وہاں دگرگوں ہے لحظہ لحظہ یہاں بدلتا نہیں زمانہ
خبر نہیں کیا ہے نام اس کا، خدا فریبی کہ خود فریبی
عمل سے فارغ ہوا مسلماں بنا کے تقدیر کا بہانہ
کنار دریا خضر نے مجھ سے کہا بانداز محرمانہ
سکندری ہو قلندری ہو یہ سب طریقے ہیں ساحرانہ ۔۔۔
ایک اور مثال ملاحظہ ہو:
زمانہ آیا ہے بے حجابی کا عام دیدار یار ہوگا
سکوت تھا پردہ دار جس کا وہ راز اب آشکار ہوگا
گزر گیا اب وہ دور ساقی کہ چھپ کے پیتے تھے پینے والے
بنے گا سارا جہان مے خانہ ہر کوئی بادہ خوار ہوگا
سنا دیا گوش منتظر کو حجاز کی خامشی نے آخر
جو عہد صحرائیوں سے باندھا گیا تھا پھر استوار ہوگا
دیارمغرب کے رہنے والو خدا کی بستی دکاں نہیں ہے
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہ اب زرِ کم عیار ہوگا
اب اس درج بالا کلام پر غزل کی زبان ہونے یا نہ ہونے کا سوال حل طلب چھوڑتے ہوئے میرا جو درج بالا کلام کے بارے میں ذاتی خیال ہے وہ کچھ یوں ہے کہ اقبال کا یہ کلام بلا شبہ قابل تعریف سہی لیکن یہ ایک اہل علم کا خطاب زیادہ محسوس ہوتا ہے، غزل نہیں لگتی۔ اس میں لکھنے والا تاریخ کے حوالے دیتا ہے، آپ کو دوستوں اور دشمنوں کی فطرت سے آگاہ کرتا ہے اور اس میں وہ کوئی تشبیہ یا اشارے کنائے کی ایسی زبان استعمال نہیں کرتا جس سے بات بیاں ہونے کے باوجود چھپتی بھی ہو۔۔ اقبال بڑا شاعر ہے جس نے تشبیہ، استعارے اور دیگر شعری محاسن کا دوسروں سے بڑھ کر استعمال کیا ہے۔۔ لیکن وہ محض اس خیال سے کہ میری غزل خطاب لگے گی، حقیقت کو ٹھیک ٹھیک بیان کرنے میں کسی مصلحت پسندی کا شکار نہیں ہوتا۔۔ آخری شعر یعنی:
دیارمغرب کے رہنے والو خدا کی بستی دکاں نہیں ہے
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہ اب زرِ کم عیار ہوگا
یہ بالکل سادہ سی بات ہے جیسے کوئی انگلی اٹھا کر دشمنوں کو للکار رہا ہو۔ میں نہیں سمجھتا کہ غزل اس کی اجازت دے گی۔۔۔ لیکن اقبال کو اس اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔ وہ سچ کا علمبردار ہے اور اسلام کاپیروکار۔۔۔ محض غزل سرا ہونا اس کے نزدیک فضول ہے، اس لیے اس نے غزل کے فن پر زیادہ دھیان نہیں دیا۔۔۔
میں اقبال کا بہت بڑا پرستار بنا پھرتا تھا۔۔۔ ایک بار ہمارے اردو کے استاد طارق منصور صاحب نے پوچھا کہ اقبال نے کیا صرف حقیقی شاعری کی ہے؟ مجازی نہیں کی؟؟ میں نے کہا نہیں۔ اقبال مجازی شاعری کرتے ہی نہیں ہیں۔۔۔ وہ صرف حقیقت پر لکھتے ہیں۔۔۔ کہنے لگے پھر یہ غزل کیا ہے؟؟
ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں؟؟
میں نے کہا استاد محترم! یہ بھی تو اسی غزل کا شعر ہے:
ذرا سا تو دل ہوں مگر شوخ اتنا
وہی لن ترانی سنا چاہتا ہوں
جناب! لن ترانی کا مطلب ہے تم مجھے نہیں دیکھ سکتے۔۔ اللہ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا تھا میرا جلوہ تم سے برداشت نہیں ہوگا۔ تم مجھے نہیں دیکھ سکتے۔۔۔ اقبال نے وہی بات اس غزل میں کہہ دی جس کو آپ مجازی فرما رہے ہیں۔۔۔ آپ کی دلیل میں مجھے کوئی جان محسوس نہیں ہوتی۔۔۔ انہوں نے ایک لمحے کو سوچا، پھر کہا اقبال کا مجازی کلام ہے تو سہی، اس وقت یاد نہیں آرہا، خیر، پھر کبھی اس پر بات کریں گے۔۔۔ لیکن وہ پھر کبھی کا موقع ہمیں ُپھر کبھی نہ مل سکا اور ہم کالج چھوڑ کر زندگی کی یونیورسٹی میں داخل ہوگئے۔۔۔ ۔بہرحال مجازی کلام تو اقبال کا ہے، لیکن اقبال کا فرمان اس ضمن میں یہ ہے کہ ایسا کلام میں نے عام لوگوں کے لیے نہیں، اپنے لیے لکھا تھا۔۔۔ (ان کا کوئی قول پڑھا تھا، جس کا مفہوم یہ نکلتا ہے)۔۔۔ مزید تفصیل ہمارے علم میں نہیں ہے۔۔۔
میں تو غالب کو ہی استاد سمجھتا ہوں۔ یہ ثابت کرنے کے لیے ان کے اردو دیوان کا فارسی دیباچہ ہی کافی ہے۔ میری ناقص رائے میں، اقبال، استادی کے کلاسیکل پیمانوں پر پورا نہیں اترتے۔ کچھ یہ بھی ہے کہ اقبال سے فکری اتفاق نہ ہونے کے باعث میری ذاتی زندگی میں ان کی شاعری کا کوئی کردار نہیں۔ ہاں ان کے بڑا شاعر ہونے میں کلام نہیں، کہ اس بات کا تعلق کسی کی ذاتی پسند، نا پسند سے نہیں۔کاشف عمران صاحب۔
یہاں (اس تاگے میں) جو مسئلہ چل رہا ہے وہ آپ نے دیکھ لیا!؟ اپنے سے بڑوں کی درجہ بندی کرنی ہے۔
اب دیکھیں نا! جو بھی ایسا کر سکے، استاد تو وہ ہُوا، اور بھائی، ہم نے یہ ’’اُستادی دِکھائی‘‘ کہ صاف پھسل گئے! اب ’’استادی دکھانے کی باری‘‘ آپ کی ہے۔
باقیوں کا معاملہ تو بہت زیادہ سنجیدہ نہیں ہوا، بات کا رُخ یوں ہو گیا کہ اقبال بڑا ہے یا غالب؟ شروع میں بات اساتذہ کی چلی تھی، پھر یہاں پہنچی کہ اِن دونوں بڑوں میں استاد کون ہے اور کون نہیں ہے۔ ہم نے تو اقبال کے ایماء پر کہہ دیا تھا کہ ’’صاحبو! ہم قلندر لوگ ہیں، ہمیں استادی وغیرہ سے کچھ نہیں لینا اور نہ ہم فقیروں کو اِس تاج پوشی کی تمنا ہے۔ آپ غالب کو پہنا دیجئے، کسی اور کو پہنا دیجئے، ہمیں کچھ غرض نہیں ہے۔‘‘
۔۔۔ ۔۔۔
سو فیصد متفق۔غالب غزل گو شاعر ہے، نظم کا شاعر نہیں کہاجاسکتا۔ اقبال نظم پر حیران کن دسترس رکھتے ہیں، غزل گوئی سے دلچسپی نہیں ہے، ہوتی تو ان سے بڑا غزل گو کوئی نہ ہوتا۔ فکری اختلاف اقبال سے بہت سے لوگ کرسکتے ہیں اور اس کی انہیں کھلی اجازت بھی دینی چاہئے کیونکہ ہر انسان کا عقیدہ، سوچ اور فلسفہ حیات دوسرے سے مختلف ہوتا ہے۔ اقبال کے موضوعات بے حد اور بے حساب ہیں۔ ان کی کوئی بھی کتاب اٹھائیے، محسوس ایسا ہوتا ہے کہ ان کو موضوع کی حاجت ہی نہیں ہے، علم کا ایک ٹھاٹھیں مارتا سمندر ہے جسے احساس اور فکر نے جلا بخشی اور اقبال کے فن نے چار چاند لگا دئیے۔ فن بھی وہ جو کسی کے سیکھنے سکھانے سے حاصل نہیں ہوا کرتا۔ انسان علم حاصل کرے، اس پر عمل کرے اور پوری طرح اپنے مقاصد صالحہ سے مخلص ہو، تبھی ایسی جاندار نظم رقم کرسکتا ہے جو اقبال نے کہی۔ غالب میں یہ بات نہیں ہے، لیکن جو بات غالب میں ہے، وہ اقبال میں نہیں ہوسکتی کیونکہ غالب اقبال نہیں اور اقبال غالب نہیں ہوسکتے۔ ان کا تقابل ہی ناجائز ہے کیونکہ ان دونوں نے اپنی اپنی راہ الگ چنی ہے اور تقابل دو ایک جیسی راہوں پر چلنے والوں کا ہوا کرتا ہے۔ پھر غالب کا احسان اردو شاعری پر یہ ہے کہ انہوں نے مشکل پسندی اور سہل پسندی دونوں کا مظاہرہ کیا ہے۔ شاید یہی دکھانا مقصود تھا کہ اردو کا دامن بے انتہا وسیع ہے اور بطور زبان اس کو ماننا ضروری ہے۔ اقبال نے زبان پر محنت نہیں کی۔ زبان کے الفاظ تو ان کے سامنے ہاتھ باندھے کھڑے تھے۔ ان کی ساری محنت فلسفہ اسلام کو اشعار میں ڈھالنے میں ہوئی اور یہاں میں اس بات کا اضافہ کردوں کہ وہ فلسفہ اسلام جو اقبال کے خیال میں فلسفہ اسلام تھا اور آج اقبال کی شاعری سے بطور فلسفہ اسلام استفادہ کرنے والوں کی تعداد اتنی ہے کہ شمار میں ہی نہیں لائی جاسکتی۔ لہٰذا میں یہ کہنے میں کوئی عار نہیں سمجھتا کہ اقبال کا فلسفہ اگر کہیں اسلام سے انحراف پر مبنی دکھائی دیتا ہے تو زیادہ تر یہ دیکھنے والوں کی نظر کا قصور ہے، اقبال نے پورے اخلاص کے ساتھ سچ اور صرف سچ لکھا ہے۔ غالب نے فلسفے کی بات ضرور کی لیکن وہ کوئی فلسفہ اسلام کے علمبردار نہیں کہے جاسکتے۔ اقبال کی شاعری سے فلسفہ اسلام نکال دیں تو پیچھے کچھ بھی نہیں بچتا۔ اور اگر بچتا ہے تو اقبال کو اس سے کوئی غرض نہیں ہے۔