چیدہ چیدہ
کاشف عمران
آج یہ زندگی میں چوتھا موقع ہے کہ میرے نام کے ساتھ "استاد" کا لفظ جڑا ہے۔ جو احباب مجھے جان چکے ہیں، انھیں معلوم ہے کہ میں بہت سی اہم باتیں شعر کی شکل میں کرتا ہوں۔ تو پھر آج استادی کی خوشی میں شعر کیوں نہ ہوں۔ اور چونکہ خوشی استادی کی ہے، تو فارسی لازم ٹھہری:
من کہ استادم، فقط در فارسی بُڑ بُڑ کنم
قافیہ گر در نمی یابم، تو پھر گُڑگُڑ کنم
شب نمی خوابم اگر تو پھر بہ ہنگامِ صبوح
چائے می نوشم، اگر ہو گرم تو سُڑ سُڑ کنم
جب گلی میں سگ قریب آجائے، دھتکاروں اسے
اور وہ نہ بھاگے تو پھر میں چیخ کر ہُڑہُڑ کنم
صبر سے بیٹھا ہوا ہوں میں وَ اِن آذَیتَنِی
پھر مثالِ صیدِ بسمل بسکہ من پھُڑپھُڑ کنم
سوچتا ہوں حضرتِ کامل ؔ ،کہ استادی کے بعد
چھوڑ دوں اردو، فقط در فارسی بُڑ بُڑ کنم
محمد یعقوب آسی
’’بُڑبُڑیدن‘‘ در زبانِ فارسی
شیخِ کامل را بھلا چہ آرسی!
محمد اسامہ سرسری
آپ کی یہ فارسی خواندہ زبانِ من بگفت
چوں کند استاد بُڑبُڑ ، کیوں نہ من چُڑچُڑ کنم
کاشف عمران
’’بُڑبُڑیدن‘‘ محورِ دھاگا شُدست
میں نے کیا چاہا تھا، کیا سے کیا شُدست
حرفِ "ڑے" را فارسی گفتن خطاست
سخت بد ذوقیست، جہلِ نا رواست
حضرتِ کامل ؔ یہ تم نے کیا کِیا
فارسی میں "ڑ" کو شامل کر دیا!
محمد یعقوب آسی
شوق تھا کتنا؟ نیا کچھ کیجئے
فارسی والوں کو تحفہ دیجئے
’’ڑ‘‘ پہ ’’ڑُکنے‘‘ کے نہیں ’’استاڈ‘‘ اَب
’’اَوڑ‘‘ ’’بڑسے‘‘ گی نئی ’’افتاڈ‘‘ اَب
فکر ہے کچھ ’’ڈال‘‘ کا بھی ہو رہے
اہلِ فارس کیوں ہیں اب تک سو رہے
پھر ’’گھر و گلیاں‘‘ کی نوبت آئے گی
پوری محفل، دیکھنا! پچھتائے گی
ذوق بھی دیکھیں گے اب اوجِ ’’کمال‘‘
جانئے کیا ہو رہے اردو کا حال
’’چوٹ را‘‘ صد شوق سے پھر چاٹیے
ورنہ ’’در نینداں‘‘ ہمہ خراٹیے
کاشف عمران
میرے شعروں پر لکھے اشعار ہیں
میں سمجھتا ہوں کہ اک للکار ہیں
کوئی ہرگز یہ نہ سمجھے جنگ ہے
کھیل ہے، اک دل لگی کا ڈھنگ ہے
مثنوی در مثنوی در مثنوی
شاعری در شاعری در شاعری
فارسی در فارسی در فارسی
دل لگی در دل لگی در دل لگی
شیخ جو اک حضرتِ یعقوب ہیں
"محفلینوں" کو بڑے محبوب ہیں
آج پھر لَے میں نظر آنے لگے
"فی البدیہا" شعر فرمانے لگے
یار کو کیسے اکیلا چھوڑتا
میں بھی ان کے ساتھ جا کر مل گیا
پہلے تو تڑکا لگایا "ڑ" کا تھا
"ڈ" کو بھی بعد میں ڈالا کیا
آزمائی خوب "تلوارِ قلم"
ایسی پہنچائیں "تراکیبیں" بہم
"ڈھالِ قلبِ فارسی" صد پارہ شد
اس گلی میں آ کے کیا بیچارہ شد!
ملک عدنان
حیران ہوں میں دیکھ کے آمد کی یہ رفتار
ہر بات کے بدلے میں ہی کہہ دیتے ہو اشعار۔۔۔
کاشف عمران
یہ تم نے جو لکھا ہے وہ شعر بھی اچھا ہے
اچھا ہے مگر کیا ہے، بیچارا اکیلا ہے
آؤ کہ ہم اب اس کی تنہائی مٹا ڈالیں
ایسے ہی بہانے سے کچھ شعر بنا ڈالیں
شعروں کے بہانے سے کرتا ہوں تعلّی اب
وہ کیا ہے کہ کرنی ہے تعریف بھی اپنی اب
"موزوں ہے سخن میرا، باتیں ہیں مری زندہ
اشعار بھی فرخندہ، پائندہ و تابندہ
سانسین بھی جو لیتا ہوں، وہ بحر میں ہوتی ہیں
ہیرے ہیں، جواہر ہیں، باتیں مری موتی ہیں"
--------
جس گھڑی آیا بہ دستِ کاملِؔ رنگیں نوا
زورِ رفتارِ قلم از بسکہ بے اندازہ تھا
-------
بہ شہرِ لال زباناں عجب نہیں کاملؔ
مرے سخن کو اگر معجزہ کہے کوئی
کاشف عمران ۔ ایک خاتون کی طرف سے انکل کہے جانے پر
ارے یہ کیا کہا!! مجھے تو میرا بیٹا بھی ایک زمانے تک اپنا بھائی کہتا اور سمجھتا رہا۔ مجھے کوئی انکل نہیں کہتا۔ یہ لو پھر شعر:
اولڈ تو ہونے لگا ہوں میں مگر
مجھ کو ہر گز کوئی انکل نہ کہے
بھائی کہہ سکتا نہیں کوئی اگر
پھر یہ بہتر ہے کہ وہ چپ ہی رہے!