یادش بخیر، سفروں کی بات چل نکلی ہے تو پھر اپنی جوانی تک بھی پہنچے گی
اللہ جنت نصیب کرے، والد صاحب مرحوم مجھے کالج کے دنوں میں کہا کرتے تھے کہ یار کبھی کسی بس یا ٹرین وغیرہ کا ٹکٹ لو اور سمبڑیال تک ہی ہو آؤ۔ سمبڑیال سیالکوٹ سے یہی تیس پنتیس کلومیڑ دُور ہے اور والد صاحب یہ اس لیے کہتے تھے کہ میں تب بھی کہیں آتا جاتا نہیں تھا۔
1993ء کی گرمیوں کی بات ہے، کالج کے پانچ سات دوستوں نے کلام جانے کا پروگرام بنایا۔ میں نے حسبِ عادت انکار کر دیا، دوست یہ سننے کو تیار نہیں تھے۔ میں نے بہانہ بنا دیا کہ والد صاحب اجازت اور پیسے دونوں نہیں دیں گے۔ میرے دوستوں نے سازش کی اور بالا بالا میرے والد صاحب سے رابطہ کیا، وہ تو پہلے ہی تیار بیٹھے تھے کہ یہ بھی اپنے "حجرے" سے کہیں باہر نکلے، پیسوں کی بات ہوئی، دوستوں نے بجٹ بتایا، والد صاحب نے کہا کہ میں اس سے زیادہ دونگا بس اس کو گھما پھرا لاؤ۔ مرتا کیا نہ کرتا، تیار ہو گیا۔ کپڑے وغیرہ تو کیا ساتھ لینے تھے میرے دوستوں نے مجھے خبردار کیا تھا کہ ان علاقوں میں "گولڈ لیف" نہیں ملتا سو اس کے دو بڑے پیک ہی میری تیاری تھے۔
سیالکوٹ سے پنڈی ٹرین میں، وہاں سے سوات تک بس میں اور پھر سوات سے کالام ٹیوٹا ویگن میں۔ وہاں پہنچ کر کسی جھیل کی سیر کا پروگرام بنا جس کے راستے میں ایک گلیشیر بھی تھا، یہ سفر ایک پرائیوٹ جیپ میں کیا اور گلیشیر کا کچھ حصہ پیدل بھی عبور کیا۔ سات آٹھ دنوں بعد واپسی، اللہ اللہ خیر صلیٰ۔
اپنی پہاڑ جیسی زندگی میں پہاڑوں کا یہی ایک سفر میں نے کیا ہے، اس کے علاوہ دو بیرونِ ملک سفر تھے 2003ء اور 2004ء میں، ایک ایک ہفتے کے تقریبا اور یہ پیشہ وارانہ مجبوری کے تحت کیے گئے تھے، اور ویزا نہ ملنے کی میری تمام خواہشوں اور دعاؤں کے باوجود یہ اسفار مجھے کرنے پڑے۔ تیاری میں حسبِ سابق "گولڈ لیف" کے پیکٹ ہی میرے ساتھ تھے۔
اللہ کا شکر ہے کہ پچھلے بارہ سال میں مجھے سیالکوٹ لاہور کے علاوہ کوئی بڑا سفر نہیں کرنا پڑا اور اللہ نہ کرے کہ کوئی مزید کرنا پڑے