اس سال کہاں کی سیر کا ارادہ ہے؟

بہار کو تو کبھی خاطر میں نہ لایا، الرجی تو اب عادت بن گئی ہے.
سال قبل میری کولہے کی ہڈی تبدیل ہوئی ہے، ابھی تک زیادہ لمبے سفر سے گریز کرتا ہوں. :)
ہم بھی عرصہ سات دال اسلام آباد میں رہ چکے ہیں لہٰذا اس بات کا ادراک کرسکتے ہیں کہ اسلام آباد میں رہائش پذیر ہونے کے باعث آپ ہر موسم میں ، اپنی خاطر نہ سہی ، خیالِ خاطرِ احباب کے باعث ہی ایک آدھ بار مری، پٹریاٹہ تو ضرور جاتے ہوں گے۔

اس مراسلے میں بھی ایک الرجی کاتذکرہ کیا ہے آپ نے جو ہم ہی سمجھ سکتے ہیں۔

موسمِ بہار میں اسلام آباد کی فضا میں موجود پولن سے الرجی کے باعث کئی اصحاب تنگ ہوتے ہیں۔ کیوں ٹھیک کہا نا؟
 

یاز

محفلین
ہم بھی عرصہ سات دال اسلام آباد میں رہ چکے ہیں لہٰذا اس بات کا ادراک کرسکتے ہیں کہ اسلام آباد میں رہائش پذیر ہونے کے باعث آپ ہر موسم میں ، اپنی خاطر نہ سہی ، خیالِ خاطرِ احباب کے باعث ہی ایک آدھ بار مری، پٹریاٹہ تو ضرور جاتے ہوں گے۔

اس مراسلے میں بھی ایک الرجی کاتذکرہ کیا ہے آپ نے جو ہم ہی سمجھ سکتے ہیں۔

موسمِ بہار میں اسلام آباد کی فضا میں موجود پولن سے الرجی کے باعث کئی اصحاب تنگ ہوتے ہیں۔ کیوں ٹھیک کہا نا؟
جی بجا فرمایا۔ ذکاوتِ حس واقعی ایک بڑا مسئلہ ہوتا ہے موسمِ بہار میں۔
 

زیک

مسافر
ہمارا گرمیوں اور اکثر سیر و سیاحت کا آغاز بیٹی کے سکول کی چھٹیوں میں ہوتا ہے۔ اب جبکہ مئی کا آغاز ہو چکا ہے تو ان چھٹیوں میں مہینے سے بھی کم رہ گیا۔
 

عباس اعوان

محفلین
سب دوست سوات کالام کا تذکرہ کر رہے ہیں تو ہماری سیر بھی گوش گزار ہے۔
ایک اچھے دوست جو پرائیویٹ ٹرپ پلانر بھی ہیں، ان کے گروپ کے ساتھ سوات اور کالام کا منصوبہ بنا، لیکن جمعے کی چھٹی نہ کر سکے اور ٹرپ والے نکل گئے، ہم نے دوست کو مع ان کی کار پکڑا اور جمعے کی رات کو اسلام آباد سے نکل کر ہفتے کی صبح ان کو کالام میں جا لیا۔ راستے میں ایک دوست کے ہاں سوات میں رات کو آرام اور صبح کا ناشتہ کیا تھا۔ بحرین تک سڑک عمدہ تھی لیکن اس سے آگے سڑک کی حالت دگرگوں تھی، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ سڑک ناپید تھی، سڑک کی باقیات سے کار کو بچا کر گزرنا پڑتا تھا۔ وجہ اس کی یہ تھی کہ جیسے عموماً سڑک کے بیچ میں کھڈے ہوتے ہیں، ویسے اس راستے پر کہیں کہیں سڑک کا ٹکڑا آجاتا تھا اور گاڑی کو نقصان سے بچانے کے لیے وہاں سے بچانا پڑتا تھا۔اسی دن ہم نے جھیل مہوڈنڈ اور جھیل سیف اللہ کی سیر بھی کی اور جھیل سیف اللہ سے ایک آبشار تک ہائیکنگ بھی کی۔ کالام شہر سے ان جھیلوں تک جیپ میں جانا پڑتا ہے۔ اب یہ بتانا تو شاید مکرر ہو گا کہ آتے جاتے ہم چپل کباب سے خوب لطف اندوز ہوئے۔
گاڑی کی خطرناک کٹس، ایک البینو(Albino) کی ٹکر سے گاڑی کا سائڈ ویو مرر ٹوٹنا، اور مزید واقعات پھر کبھی سہی۔
:)
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
یادش بخیر، سفروں کی بات چل نکلی ہے تو پھر اپنی جوانی تک بھی پہنچے گی :)

اللہ جنت نصیب کرے، والد صاحب مرحوم مجھے کالج کے دنوں میں کہا کرتے تھے کہ یار کبھی کسی بس یا ٹرین وغیرہ کا ٹکٹ لو اور سمبڑیال تک ہی ہو آؤ۔ سمبڑیال سیالکوٹ سے یہی تیس پنتیس کلومیڑ دُور ہے اور والد صاحب یہ اس لیے کہتے تھے کہ میں تب بھی کہیں آتا جاتا نہیں تھا۔

1993ء کی گرمیوں کی بات ہے، کالج کے پانچ سات دوستوں نے کالام جانے کا پروگرام بنایا۔ میں نے حسبِ عادت انکار کر دیا، دوست یہ سننے کو تیار نہیں تھے۔ میں نے بہانہ بنا دیا کہ والد صاحب اجازت اور پیسے دونوں نہیں دیں گے۔ میرے دوستوں نے سازش کی اور بالا بالا میرے والد صاحب سے رابطہ کیا، وہ تو پہلے ہی تیار بیٹھے تھے کہ یہ بھی اپنے "حجرے" سے کہیں باہر نکلے، پیسوں کی بات ہوئی، دوستوں نے بجٹ بتایا، والد صاحب نے کہا کہ میں اس سے زیادہ دونگا بس اس کو گھما پھرا لاؤ۔ مرتا کیا نہ کرتا، تیار ہو گیا۔ کپڑے وغیرہ تو کیا ساتھ لینے تھے میرے دوستوں نے مجھے خبردار کیا تھا کہ ان علاقوں میں "گولڈ لیف" نہیں ملتا سو اس کے دو بڑے پیک ہی میری تیاری تھے۔

سیالکوٹ سے پنڈی ٹرین میں، وہاں سے سوات تک بس میں اور پھر سوات سے کالام ٹیوٹا ویگن میں۔ وہاں پہنچ کر کسی جھیل کی سیر کا پروگرام بنا جس کے راستے میں ایک گلیشیر بھی تھا، یہ سفر ایک پرائیوٹ جیپ میں کیا اور گلیشیر کا کچھ حصہ پیدل بھی عبور کیا۔ سات آٹھ دنوں بعد واپسی، اللہ اللہ خیر صلیٰ۔

اپنی پہاڑ جیسی زندگی میں پہاڑوں کا یہی ایک سفر میں نے کیا ہے، اس کے علاوہ دو بیرونِ ملک سفر تھے 2003ء اور 2004ء میں، ایک ایک ہفتے کے تقریبا اور یہ پیشہ وارانہ مجبوری کے تحت کیے گئے تھے، اور ویزا نہ ملنے کی میری تمام خواہشوں اور دعاؤں کے باوجود یہ اسفار مجھے کرنے پڑے۔ تیاری میں حسبِ سابق "گولڈ لیف" کے پیکٹ ہی میرے ساتھ تھے۔

اللہ کا شکر ہے کہ پچھلے بارہ سال میں مجھے سیالکوٹ لاہور کے علاوہ کوئی بڑا سفر نہیں کرنا پڑا اور اللہ نہ کرے کہ کوئی مزید کرنا پڑے :)
 
آخری تدوین:
یادش بخیر، سفروں کی بات چل نکلی ہے تو پھر اپنی جوانی تک بھی پہنچے گی :)

اللہ جنت نصیب کرے، والد صاحب مرحوم مجھے کالج کے دنوں میں کہا کرتے تھے کہ یار کبھی کسی بس یا ٹرین وغیرہ کا ٹکٹ لو اور سمبڑیال تک ہی ہو آؤ۔ سمبڑیال سیالکوٹ سے یہی تیس پنتیس کلومیڑ دُور ہے اور والد صاحب یہ اس لیے کہتے تھے کہ میں تب بھی کہیں آتا جاتا نہیں تھا۔

1993ء کی گرمیوں کی بات ہے، کالج کے پانچ سات دوستوں نے کلام جانے کا پروگرام بنایا۔ میں نے حسبِ عادت انکار کر دیا، دوست یہ سننے کو تیار نہیں تھے۔ میں نے بہانہ بنا دیا کہ والد صاحب اجازت اور پیسے دونوں نہیں دیں گے۔ میرے دوستوں نے سازش کی اور بالا بالا میرے والد صاحب سے رابطہ کیا، وہ تو پہلے ہی تیار بیٹھے تھے کہ یہ بھی اپنے "حجرے" سے کہیں باہر نکلے، پیسوں کی بات ہوئی، دوستوں نے بجٹ بتایا، والد صاحب نے کہا کہ میں اس سے زیادہ دونگا بس اس کو گھما پھرا لاؤ۔ مرتا کیا نہ کرتا، تیار ہو گیا۔ کپڑے وغیرہ تو کیا ساتھ لینے تھے میرے دوستوں نے مجھے خبردار کیا تھا کہ ان علاقوں میں "گولڈ لیف" نہیں ملتا سو اس کے دو بڑے پیک ہی میری تیاری تھے۔

سیالکوٹ سے پنڈی ٹرین میں، وہاں سے سوات تک بس میں اور پھر سوات سے کالام ٹیوٹا ویگن میں۔ وہاں پہنچ کر کسی جھیل کی سیر کا پروگرام بنا جس کے راستے میں ایک گلیشیر بھی تھا، یہ سفر ایک پرائیوٹ جیپ میں کیا اور گلیشیر کا کچھ حصہ پیدل بھی عبور کیا۔ سات آٹھ دنوں بعد واپسی، اللہ اللہ خیر صلیٰ۔

اپنی پہاڑ جیسی زندگی میں پہاڑوں کا یہی ایک سفر میں نے کیا ہے، اس کے علاوہ دو بیرونِ ملک سفر تھے 2003ء اور 2004ء میں، ایک ایک ہفتے کے تقریبا اور یہ پیشہ وارانہ مجبوری کے تحت کیے گئے تھے، اور ویزا نہ ملنے کی میری تمام خواہشوں اور دعاؤں کے باوجود یہ اسفار مجھے کرنے پڑے۔ تیاری میں حسبِ سابق "گولڈ لیف" کے پیکٹ ہی میرے ساتھ تھے۔

اللہ کا شکر ہے کہ پچھلے بارہ سال میں مجھے سیالکوٹ لاہور کے علاوہ کوئی بڑا سفر نہیں کرنا پڑا اور اللہ نہ کرے کہ کوئی مزید کرنا پڑے :)
وارث بھائی، بچوں کے ساتھ زیادتی نہ کریں. ان کو لے کر نکلا کریں. :)
 

محمد وارث

لائبریرین
وارث بھائی، بچوں کے ساتھ زیادتی نہ کریں. ان کو لے کر نکلا کریں. :)
"شدید متفق" کی ریٹنگ بھی ہونی چاہئے فورم پہ۔
آپ دونوں، اور آپ سے متفق ہونے والے تمام دستوں نے یہ "فرض" کر لیا ہے کہ میرے بچے کہیں باہر گھومنا پھرنا چاہتے ہیں :p
 

arifkarim

معطل
وارث بھائی، بچوں کے ساتھ زیادتی نہ کریں. ان کو لے کر نکلا کریں. :)
محمد وارث بھائی اپنی کہانی پر مبنی کتاب اور فلم Around the world in 80 days ضرور دیکھیں۔ یہ ایک پڑھاکو سائنسدان کے بارہ میں ہے جس نے ساری عمر اپنے علاقے سے باہر قدم نہیں رکھا مگر پھر ایک شرط کے تحت 80 دنوں میں پوری دنیا گھومنی پڑی
 

محمد وارث

لائبریرین
محمد وارث بھائی اپنی کہانی پر مبنی کتاب اور فلم Around the world in 80 days ضرور دیکھیں۔ یہ ایک پڑھاکو سائنسدان کے بارہ میں ہے جس نے ساری عمر اپنے علاقے سے باہر قدم نہیں رکھا مگر پھر ایک شرط کے تحت 80 دنوں میں پوری دنیا گھومنی پڑی
اُس میں تو ہزاروں پونڈز کی شرط تھی قبلہ ( جو آج کل کے ملینز بنتے ہیں) :) اور اُس فلم کا سیاق و سباق انیسویں صدی کا ہے، اب تو شاید چند دنوں کی مار ہو۔
 

فہیم

لائبریرین
وقت اور وسائل میسر ہوں تو
دل تو پوری دنیا گھومنے کا ہے


وارث بھائی اسے شاعری کی زبان میں کیسے کہا جاسکتا ہے:)
 

محمد وارث

لائبریرین
وقت اور وسائل میسر ہوں تو
دل تو پوری دنیا گھومنے کا ہے


وارث بھائی اسے شاعری کی زبان میں کیسے کہا جاسکتا ہے:)
دل کے آئینے میں ہے تصویرِ یار
جب ذرا گردن جھکائی دیکھ لی :)

یار کی جگہ "دہر" رکھنے سے بھی کام چل جائے گا۔ :)
 
Top