دل پا کے اُس کی زلف میں آرام رہ گیا
درویش جس جگہ کہ ہوئی شام رہ گیا
جھگڑے میں ہم مبادی کے یاں تک پھنسے کہ آہ!
مقصود تھا جو اپنے تئیں کام رہ گیا
ناپختگی کا اپنی سبب اُس ثمر سے پوچھ
جلدی سے باغباں کی جو وہ خام رہ گیا
صیّاد تو تو جا ہے پر اُس کی بھی کچھ خبر
جو مرغِ ناتوں کہ تہِ دام رہ گیا
قسمت تو دیکھ ٹوٹی ہے جا کر کہاں کمند
کچھ دُور اپنے ہاتھ سے جب بام رہ گیا
ماریں ہیں ہم نگینِ سلیماں کو پشتِ دست
جب مٹ گیا نشان تو گو نام رہ گیا
نے تجھ پہ وہ بہار رہی اور نہ یاں وہ دل
کہنے کو نیک و بد کے اِک الزام رہ گیا
موقوف کچھ کمال پہ یاں کامِ دل نہیں
مجھ کو ہی دیکھ لینا کہ ناکام رہ گیا
قائم گئے سب اُس کی زباں سے جو تھے رفیق
اِک بے حیا میں کھانے کو دشنام رہ گیا
(قائم چاند پوری)