اشعار جو اپنے خالق کو پیچھے چھوڑ گئے

محمداحمد

لائبریرین

سید عاطف علی

لائبریرین
میر و سودا کے دو ٹکراتے اشعاریاد آ گئے۔۔۔۔
چشم گریاں میں جو آؤ۔ تو سنبھل کر آنا
دیکھنا پاؤں نہ پھسلے۔ کہ یہاں کائی ہے
۔۔۔میر
رکھنا قدم ۔۔تصور جاناں۔ سنبھال کے
کائی ہے جا بہ جا۔ مری چشم پرآب میں
۔۔۔سودا
والد صاحب سنایا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ میر کا کلام آہ ہے اور سودا کا کلا م واہ
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
میر و سودا کے دو ٹکراتے اشعاریاد آ گئے۔۔۔ ۔
چشم گریاں میں جو آؤ۔ تو سنبھل کر آنا
دیکھنا پاؤں نہ پھسلے۔ کہ یہاں کائی ہے
۔۔۔ میر
رکھنا قدم ۔۔تصور جاناں۔ سنبھال کے
کائی ہے جا بہ جا۔ مری چشم پرآب میں
۔۔۔ سودا
والد صاحب سنایا کرتے تھے اور فرماتے تے کہ میر کا کلام آہ ہے اور سودا کا کلا م واہ
ایک اور بر سبیل تذکرہ ۔کم و بیش کچھ اسی لب و لہجے کا اظہار۔
سرہانے میر کے ۔۔۔۔آہستہ بولو
ابھی ٹک روتے روتے ۔سو گیا ہے
میر صاحب

سودا کی جو بالیں پہ ہوا۔۔۔ شور قیامت
خدّام ِ ادب بولے ۔۔ابھی آنکھ لگی ہے

مرزا سودا
 

فاتح

لائبریرین
میر و سودا کے دو ٹکراتے اشعاریاد آ گئے۔۔۔ ۔
چشم گریاں میں جو آؤ۔ تو سنبھل کر آنا
دیکھنا پاؤں نہ پھسلے۔ کہ یہاں کائی ہے
۔۔۔ میر
رکھنا قدم ۔۔تصور جاناں۔ سنبھال کے
کائی ہے جا بہ جا۔ مری چشم پرآب میں
۔۔۔ سودا
والد صاحب سنایا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ میر کا کلام آہ ہے اور سودا کا کلا م واہ
ہمیں تو یہ اشعار نہ سودا کی کلیا ت میں ملے نہ میر کی کلیات میں۔ اگر مذکورہ دیوان کا حوالہ دے سکیں تو عنایت ہو گی
 

سید عاطف علی

لائبریرین
ہمیں تو یہ اشعار نہ سودا کی کلیا ت میں ملے نہ میر کی کلیات میں۔ اگر مذکورہ دیوان کا حوالہ دے سکیں تو عنایت ہو گی
برادر فاتح ۔۔۔محض بچپن کی یاد داشت کی بنیاد پہ لکھا گیا ہے کوئی سند یا حوالہ فراہم نہ کر سکوں گا اور میرے پاس یہاں کتب وسائل بھی نہیں کہ کچھ کوشش ہی کرسکوں۔:sad4:
 

مانی عباسی

محفلین
نیٹ پر ہی کہیں یوں پڑھا تھا کہ
سُنا ہے کہ دِلی میں الو کے پٹھے
رگِ گُل سے بلبل کے پر باندھتے ہیں :rollingonthefloor:


یہ تو مجھے نہیں معلوم کہ یہ شعر کس کا ہے لیکن صحیح شعر یوں ہے
سنا ہے کہ لکھنؤ میں الو کے پٹھے
رگِ گُل سے بلبل کے پر باندھتے ہیں

اس شعر کی ایک تاریخی حیثیت ہے ۔وہ یوں کہ دلی اور لکھنؤ اسکول کا فرق اس سے ظاہر کیا ہے۔دلی کے شعرا داخلی اور باطنی شاعری کیا کرتے تھے جبکہ لکھنؤ میں خارجی شاعری ہوا کرتی تھی۔مزید یہ کہ لکھنوی شاعری میں بڑی نزاکت پائی جاتی ہے اور اس نازک خیالی میں وہاں کے شعرا رگِ گل سے بلبل کے پر باندھنے لگے تھے۔
 

یونس

محفلین
دو اشعار میں ایک ہی مضمون:

عقل اگر داند کہ دل دربند زلفش چوں خوش است
عاقلان دیوانہ گردند از پئے زنجیر ما

(حافظ شیرازی)​

جو دیکھتے تیری زنجیر زلف کا عالم
اسیر ہونے کی آزاد آرزو کرتے

(خواجہ حیدر علی آتش)​
 

ایوب ناطق

محفلین
اقتباس ۔۔۔۔
یہ کنارہ چلا کہ ناؤ چلی
کہئے کیا درمیان میں آئی
شاید احباب کو یاد ہو کہ اس شعر کے پہلے مصرعے کو یوسفی نے کسی حصے کا عنوان بنایا تھا.
یہ شعر
یاس یگانہ چنگیزی کا ہے.۔۔۔۔۔ محترم الف عین صاحب
دوسرے مصرح کے کوئی معنی نہیں ہوئے شاید تائیپو کی غلطی ہو ، اصل شعر کچھ یوں ہے
یہ کنارہ چلا کہ نائو چلی
کہیے کیا بات دھیان میں آئی
پہلا مصرح کیا کہنے ۔۔۔ جوہرِ یگانہ کی روشن مثال ، کہنے دیجیے کہ دوسرا مصرح اس جوہر کو چھو بھی نہ پایا ۔۔۔ کاش یگانہ صاحب ذرا توجہ فرماتے تو اس کا شمار یقینا" اردو کے عظیم ترین اشعار میں ہوتا۔۔۔ یہ میری ذاتی رائے ہوسکتی ہے ۔۔۔ اہلِ علم کی رائے کا طالب۔۔۔۔ فقط ایوب ناطق
 

امجد بٹ

محفلین
شائید یہ شعر ایسے ہے مگر شاعر کا نام یاد نہیں آرہا :mad:
یہ دلی کے شاعر یہ الو کے پٹھے
رگِ گل سے بلبل کے پر باندھتے ھیں
کہتے ہی میرے محبوب کی کمرنہیں
حیراں ہوں نالہ کہاں باندھتے ہیں
 

قیصرانی

لائبریرین
شائید یہ شعر ایسے ہے مگر شاعر کا نام یاد نہیں آرہا :mad:
یہ دلی کے شاعر یہ الو کے پٹھے
رگِ گل سے بلبل کے پر باندھتے ھیں
کہتے ہی میرے محبوب کی کمرنہیں
حیراں ہوں نالہ کہاں باندھتے ہیں
شاید بیلٹ سے کام چلاتے ہوں؟ :thinking:
 

لالکائی

محفلین
میں نے کہیں پڑھا تھا کہ میرؔ نے دو علیحدہ علیحدہ ایسے مصرعے (یعنی دو ادھورے اشعار) بھی کہے ہیں کہ پھر انھیں شعر کی صورت پورا نہیں کیا کہ اول مصرعہ ہی پورا مفہوم اور شاعر کا پورا درد بیان کر رہا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں :

پہلا ادھورا شعر:
’’ اب کے بھی دن بہار کے یونہی گزر گئے ‘‘

دوسرا ادھورا شعر:

’’ چاک اس بلبلِ تنہا کی نوا سے دل ہوں ‘‘
 

لالکائی

محفلین
ویسے جب میں نے اپنے ایک شاعر دوست کو میر کا پہلا ادھورا شعر سنایا تو اس نے میر ہی کے رنگ میں برجستہ اس کو یوں اپنی طرف سے مکمل کر دیا (ابتسامہ) :

’’ اب کے بھی دن بہار کے یونہی گزر گئے ‘‘
ہم وصل کی بھی کیا کیا تمنا کیا کئے
 

یونس

محفلین
میں نے کہیں پڑھا تھا کہ میرؔ نے دو علیحدہ علیحدہ ایسے مصرعے (یعنی دو ادھورے اشعار) بھی کہے ہیں کہ پھر انھیں شعر کی صورت پورا نہیں کیا کہ اول مصرعہ ہی پورا مفہوم اور شاعر کا پورا درد بیان کر رہا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں :

پہلا ادھورا شعر:
’’ اب کے بھی دن بہار کے یونہی گزر گئے ‘‘

دوسرا ادھورا شعر:

’’ چاک اس بلبلِ تنہا کی نوا سے دل ہوں ‘‘[/QUOTE
 

یونس

محفلین
"چاک اس بلبلِ تنہا کی نوا سے دل ہوں
جاگنے والے اسی بانگ ِ درا سے دل ہوں"

علامہ اقبال کا شعر ہے اور مشہور نظم "شکوہ" میں موجود ہے۔ اس سے اگلے اشعار:

یعنی پھر زندہ نئے عہد، وفا سے دل ہوں
پھر اسی بادہِ درینہ کے پیاسے دل ہوں

عجمی خُم ہے تو کیا، مے تو حجازی ہے مری
نغمہ ہندی ہے تو کیا، لے تو حجازی ہے مری

یا پھر ممکن ہے اقبال نے میر کا مصرع ہی مستعار لیا ہو ؟!
 
Top