نیٹ پر ہی کہیں یوں پڑھا تھا کہپلیز بتائیں یہ مکمل شعر کیسے ھے اور شاعر کون ھیں
رگِ گل سے بلبل کے پر باندھتے ھیں
یہ اعجاز ہے حسنِ آوارگی کا
جہاںبھی گئے داستاں چھوڑ آگئے
(حبیب جالب)
۔
ایک اور بر سبیل تذکرہ ۔کم و بیش کچھ اسی لب و لہجے کا اظہار۔میر و سودا کے دو ٹکراتے اشعاریاد آ گئے۔۔۔ ۔
چشم گریاں میں جو آؤ۔ تو سنبھل کر آنا
دیکھنا پاؤں نہ پھسلے۔ کہ یہاں کائی ہے۔۔۔ میر
رکھنا قدم ۔۔تصور جاناں۔ سنبھال کے
کائی ہے جا بہ جا۔ مری چشم پرآب میں۔۔۔ سودا
والد صاحب سنایا کرتے تھے اور فرماتے تے کہ میر کا کلام آہ ہے اور سودا کا کلا م واہ
ہمیں تو یہ اشعار نہ سودا کی کلیا ت میں ملے نہ میر کی کلیات میں۔ اگر مذکورہ دیوان کا حوالہ دے سکیں تو عنایت ہو گیمیر و سودا کے دو ٹکراتے اشعاریاد آ گئے۔۔۔ ۔
چشم گریاں میں جو آؤ۔ تو سنبھل کر آنا
دیکھنا پاؤں نہ پھسلے۔ کہ یہاں کائی ہے۔۔۔ میر
رکھنا قدم ۔۔تصور جاناں۔ سنبھال کے
کائی ہے جا بہ جا۔ مری چشم پرآب میں۔۔۔ سودا
والد صاحب سنایا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ میر کا کلام آہ ہے اور سودا کا کلا م واہ
برادر فاتح ۔۔۔محض بچپن کی یاد داشت کی بنیاد پہ لکھا گیا ہے کوئی سند یا حوالہ فراہم نہ کر سکوں گا اور میرے پاس یہاں کتب وسائل بھی نہیں کہ کچھ کوشش ہی کرسکوں۔ہمیں تو یہ اشعار نہ سودا کی کلیا ت میں ملے نہ میر کی کلیات میں۔ اگر مذکورہ دیوان کا حوالہ دے سکیں تو عنایت ہو گی
یہ حبیب جالب کا شعر ھےیہ اعجاز ہے حسنِ آوارگی کا
جہاںبھی گئے داستاں چھوڑ آگئے
۔
میں نے سنا ہے کہ یہ شعر صوفی تبسم کا ہے
نیٹ پر ہی کہیں یوں پڑھا تھا کہ
سُنا ہے کہ دِلی میں الو کے پٹھے
رگِ گُل سے بلبل کے پر باندھتے ہیں
شاید بیلٹ سے کام چلاتے ہوں؟شائید یہ شعر ایسے ہے مگر شاعر کا نام یاد نہیں آرہا
یہ دلی کے شاعر یہ الو کے پٹھے
رگِ گل سے بلبل کے پر باندھتے ھیں
کہتے ہی میرے محبوب کی کمرنہیں
حیراں ہوں نالہ کہاں باندھتے ہیں
شاید بیلٹ سے کام چلاتے ہوں؟
میں نے کہیں پڑھا تھا کہ میرؔ نے دو علیحدہ علیحدہ ایسے مصرعے (یعنی دو ادھورے اشعار) بھی کہے ہیں کہ پھر انھیں شعر کی صورت پورا نہیں کیا کہ اول مصرعہ ہی پورا مفہوم اور شاعر کا پورا درد بیان کر رہا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں :
پہلا ادھورا شعر:
’’ اب کے بھی دن بہار کے یونہی گزر گئے ‘‘
دوسرا ادھورا شعر:
’’ چاک اس بلبلِ تنہا کی نوا سے دل ہوں ‘‘[/QUOTE