یونس
محفلین
میں نے کہیں پڑھا تھا کہ میرؔ نے دو علیحدہ علیحدہ ایسے مصرعے (یعنی دو ادھورے اشعار) بھی کہے ہیں کہ پھر انھیں شعر کی صورت پورا نہیں کیا کہ اول مصرعہ ہی پورا مفہوم اور شاعر کا پورا درد بیان کر رہا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں :
پہلا ادھورا شعر:
’’ اب کے بھی دن بہار کے یونہی گزر گئے ‘‘
دوسرا ادھورا شعر:
’’ چاک اس بلبلِ تنہا کی نوا سے دل ہوں ‘‘
"چاک اس بلبلِ تنہا کی نوا سے دل ہوں
جاگنے والے اسی بانگ ِ درا سے دل ہوں"
علامہ اقبال کا شعر ہے اور "شکوہ" میں موجود ہے۔۔ ۔ اس سے اگلے اشعار:
یعنی پھر زندہ نئے عہد، وفا سے دل ہوں
پھر اسی بادہِ درینہ کے پیاسے دل ہوں
عجمی خُم ہے تو کیا، مے تو حجازی ہے مری
نغمہ ہندی ہے تو کیا، لے تو حجازی ہے مری
ممکن ہے اقبال نے یہ مصرعہ میر سے ہی مستعار لیا ہو ؟!