طبیعت کا اپنی نشان چھوڑ آئے ورق در ورق داستان چھوڑ آئے ہر اک اجنبی سے پتہ پوچھتے ہیں تجھے زندگی ہم کہاں چھوڑ آئے (کیف عظیم آبادی)