اللّہ تعالیٰ کی شان میں اشعار

سیما علی

لائبریرین
برس رہی ہے خدا کی رحمت درِ عطا و کرم کھلا ہے
زمیں ہے عرشِ بریں یہاں کی جمالِ وارث خدا نما ہے
خیالِ جنت تمہیں مبارک کہ میں ہوں محوِ جمالِ وارث
تلاشِ دیر وحرم نہیں ہے صنم کدہ مجھ کو مل گیا ہے
حسین یکتا جمیل یکتا کہ میں نے تجھ سا تجھی کو دیکھا
یہ شیفتہ ہے فریفتہ ہے ازل سے دل تیرا مبتلا ہے
تجلیّات جمالِ جاناں سےہے منور یہ دونوں عالم
نگاہِ حق بیں سے دیکھنے کو نظر سے پردہ اٹھا ہوا ہے
رہِ محبت میں کام آیا ہمارا یہ ذوق جبّہ سائی
نصیب بیدارؔ ہوگیا ہے اُسی آستاں پر جو سر جھکا ہے
بیدم شاہ وارثی
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
ہر ذرہ میں ہے ظہور تیرا
ہے برق و شرر میں نور تیرا

افسانہ تیرا جہاں نہاں ہے
چرچا ہے قریب و دور تیرا

ہر ذرہ خاک میں ہے لمعاں
مخصوص نہیں ہے طور تیرا

محتاج شراب و جام کب ہے
جس کو ہوا سرور تیرا

گاتے ہیں سحر ہوا میں کیا کیا
دم بھرتے ہیں سب طیور تیرا

تو جلوہ فگن کہاں نہیں ہے
وہ جا نہیں تو جہاں نہیں ہے

تلوک چند محروم
 

سیما علی

لائبریرین


الٰہی رحم اب کیا دیر ہے تنزیل رحمت میں
مدد فرما مدد کا وقت ہے ہم ہیں مصیبت میں

گنہ گار آنکھ میں بھر لائے ہیں آنسو ندامت کے
نہ اب آیا تو کب جوش آئے گا دریائے رحمت میں

کرم تیرا نہ ہوگا اے خدا گر میری کشتی پر
تو یا رب غرق ہو جائے گی دریائے ہلاکت میں

تجھ ہی پر ناز ہے مجھ کو تو ہی میرا معاون ہے
تیری رحمت ہی کام آتی ہے میری ہر مصیبت میں

خداوندا تیرے بندے تیرے بندوں سے عاجز ہیں
مدد کر عاجزوں کی ہم بھی ہیں تیری حکومت میں

سوا تیرے کہاں جائیں کدھر جائیں کسے ڈھونڈیں
مدد کرنے کی طاقت بھی ہے تیرے دست قدرت میں

سوائے تیرے قیصرؔ وارثی کا کون ہے یا رب
بچا لے شر اعدا سے تو رکھ اپنی حفاظت میں
قیصر وارثی
 

سیما علی

لائبریرین
شکر خالق کس طرح سے ہو اَدا
اک زباں اور نعمتیں بے اِنتہا

پھر زباں بھی کس کی مجھ ناچیز کی
وہ بھی کیسی جس کو عصیاں کا مزا
حسن رضا بریلوی
 

سیما علی

لائبریرین
شکر خالق کس طرح سے ہو اَدا
اک زباں اور نعمتیں بے اِنتہا

پھر زباں بھی کس کی مجھ ناچیز کی
وہ بھی کیسی جس کو عصیاں کا مزا

اے خدا کیوں کر لکھوں تیری صفت
اے خدا کیوں کر کہوں تیری ثنا

گننے والے گنتیاں محدود ہیں
تیرے اَلطاف و کرم بے انتہا

سب سے بڑھ کر فضل تیرا اے کریم
ہے وجودِ اقدسِ خیر الوریٰ

ہر کرم کی وجہ یہ فضل عظیم
صدقہ ہیں سب نعمتیں اس فضل کا

فضل اور پھر وہ بھی ایسا شاندار
جس پہ سب افضال کا ہے خاتمہ

اولیا اس کے کرم سے خاص حق
انبیا اس کی عطا سے انبیا

خود کرم بھی خود کرم کی وجہ بھی
خود عطا خود باعثِ جود و عطا

اس کرم پر اس عطا و جود پر
ایک میری جان کیا عالم فدا

کر دے اک نم سے جہاں سیراب فیض
جوش زن چشمہ کرم کے میم کا

جان کہنا مبتذل تشبیہ ہے
اللہ اللہ اُس کے دامن کی ہوا

جان دی مردوں کو عیسیٰ نے اگر
اُس نے خود عیسیٰ کو زندہ کر دیا

بے سبب اُس کی عطائیں بے شمار
بے غرض اُس کے کرم بے اِنتہا

بادشا ہو ، یا گدا ہو ، کوئی ہو
سب کو اُس سرکار سے صدقہ ملا

سب نے اس در سے مرادیں پائی ہیں
اور اسی در سے ملیں گی دائما

جودِ دریا دل کے صدقہ سے بڑھے
بڑھتے بادل کو گھٹا کہنا خطا

مَنْ رّاٰنِیْ والے رُخ نے بھیک دی
کیوں نہ گلشن کی صفت ہو دل کشا

جلوۂ پائے منور کے نثار
مہر و مہ کو کتنا اُونچا کر دیا

اپنے بندوں کو خدائے پاک نے
اس کے صدقہ میں دیا جو کچھ دیا

مصطفی کا فضل ہے مسرور ہیں
نعمت تازہ سے عبد المصطفیٰ

عالم دیں مقتدائے اہلِ حق
سُنیّوں کے پیشوا احمد رضا

فضلِ حق سے ہیں فقیرِ قادری
اِس فقیری نے اُنھیں سب کچھ دیا

لختِ دل حامد میاں کو شکر ہے
حق نے بیٹا بخشا جیتا جاگتا

میں دعا کرتا ہوں اب اللہ سے
اور دعا بھی وہ جو ہے دل کی دعا

واسطہ دیتا ہوں میں تیرا تجھے
اے خدا از فضلِ تو حاجت روا

عافیت سے قبلہ و کعبہ رہیں
ہم غلاموں کے سروں پر دائما

دولت کونین سے ہوں بہرہ ور
اخِّ اعظم – مصطفی – حامد رضا

نعمتِ تازہ کو دے وہ نعمتیں
کیں جو تو نے خاص بندوں کو عطا

دوست ان سب کے رہیں آباد و شاد
دشمنِ بد خواہ غم میں مبتلا

آفریں طبعِ رواں کو اے حسنؔ
قطعہ لکھنا تھا قصیدہ ہو گیا

  • مولانا حسن رضا بریلوی
 

سیما علی

لائبریرین
بحر و بر کو سنبھالتا ، تُو ہے
ہیرے موتی نکالتا ، تُو ہے

مشرقوں سے اُبھار کر سورج
دن سے راتیں اجالتا ، تُو ہے

جنکو خود بُلا کے لاتا ہوں
اُن بَلاؤں کو ٹالتا ، تُو ہے

دیکھی اَن دیکھی سب زمینوں پر
سب خلائق کو پالتا ، تُو ہے

جان جاتی ہے جب بھی شورش سے
دردِ دل کو سنبھالتا ، تُو ہے

ہر بھنور سے غمِ زمانہ کے
میری کشتی نکالتا ، تُو ہے
  • محمد اویس ابن محمود
 

سیما علی

لائبریرین
یقیناً تو صحرا کو گلزار کر دے
تو ہی یہ صفت ، یہ ہنر رکھنے والا

بکھر جائے پل بھر میں ہر شے جہاں کی
تو ہی سب کو شیر و شکر رکھنے والا

ثنا میں ہے مصروف تیری الٰہی !
فراغؔ آج ہے چشمِ تر رکھنے والا
  • فراغ روہوی
 

سیما علی

لائبریرین
یہ شمس و قمر یہ ارض و سما
سبحان اللہ سبحان اللہ
ہر رنگ میں تیرا ہے جلوہ
سبحان اللہ سبحان اللہ
(سیماب اکبرآبادی)
 

سیما علی

لائبریرین
پتلی کی طرح نظر سے مستور ہے تو
آنکھیں جسے ڈھونڈتی ہیں وہ نور ہے تو
اقرب ہے رگ جاں سے اور اس پر یہ بعد
اللہ اللہ کس قدر دور ہے تو
میر انیس
 

سیما علی

لائبریرین
تو ہی رحمن ہے رحیم ہے تو
میرے مولا! بڑا کریم ہے تو

انجمن انجمن ترے جلوے
بوئے گل ہے کہیں شمیم ہے تو

ہر کوئی سرنگوں ہے تیرے حضور
ہر شہنشاہ سے عظیم ہے تو

دور ہے آنکھ کی رسائی سے
اور دلوں میں سدا مقیم ہے تو

ہے ترے پاس سب حساب عمل
کاتب و محرم و منعم ہے تو

تیری رحمت، کہ کوئی حد نہ شمار
اور کرم گستر و حلیم ہے تو

تجھ سے پوشیدہ کب عمل ہے کوئی
سب تجھے علم ہے علیم ہے تو

صابری، پُرخطا ترا بندہ
طالبِ فضل ہے، رحیم ہے تو

(محمد علی صابری)
 

سیما علی

لائبریرین
اَے دُنیا کے باغ کے مالی
اَے اپنے بندوں کے والی

دِل کے مالک ، جان کے مالک
دُنیا اور جہان کے مالک

دوسرا تجھ سا کوئی نہیں
تجھ سا داتا کوئی نہیں

بخش ہمارے جسم کو طاقت
بخش ہمیں محنت کی عادت

پڑھنے پر دِل مائِل کردے
علم وہنر میں کامل کردے

ہمت دے کچھ کام کریں ہم
جگ میں روشن نام کریں ہم

دِل میں وطن کی اُلفت بھر دے
خدمتِ قوم کے قبل کر دے
  • محمد شفیع الدین نیر
 

سیما علی

لائبریرین
تو ہی تو کل جہان کا رحمان اے خدا
سارے جہاں پہ ہے ترا احسان اے خدا

تیرے کرم سے حسن ہے تیرے کرم سے عشق
کیوں کر نہ تجھ پہ ہو کوئی قربان اے خدا

انکار تیری ذات سے انسان کر سکے
اس کا تو کوئی بھی نہیں امکان اے خدا

یہ درد یہ تڑپ یہ خلش یہ غم فراق
سب ہے ترا کرم ترا احسان اے خدا

بہزادؔ کو ہر ایک مراد اس کی مل چکی
یثرب کا رہ گیا ہے بس ارمان اے خدا
  • بہزاد لکھنؤی
 

سیما علی

لائبریرین
تیرا ہی ہرطرف یہ تماشا ہے اے کریم
جو بھی یہاں پہ ہے تیرا بندہ ہے اے کریم

تیرے ہی لطف سے ہے یہ راحت بھی عیش بھی
دُنیا ترے کرم ہی سے دُنیا ہے اے کریم

یہ مرگ، یہ حیات، یہ غم، یہ خوشی، یہ کیف
ادنیٰ سا سب یہ تیرا کرشمہ ہے اے کریم

عزّت بھی تیرے ہاتھ ہے، ذلّت بھی تیرے ہاتھ
جو چاہتا ہے جس کو تو دیتا ہے اے کریم

بہزاد پہ بھی اک نگہء مہر ہو ذرا
بہزاد بھی تو اک ترا بندہ ہے اے کریم
  • بہزاد لکھنؤی
 

سیما علی

لائبریرین
تمام حمد اسی قادرِ عظیم کی ہے
وہ جس کے کُنْ میں ہیں تخلیقِ کائنات کے راز
وہ جس نے سارے اندھیروں کو نور بخشا ہے
جو اس کی شانِ کریمی پہ مان رکھتا ہے
مرے خدا نے پھر اُس کو ضرور بخشا ہے

تمام حمد اُسی خالقِ قدیم کی ہے
کوئی بھی چیز کہ جس کو وہ پیدا کرتا ہے
خلاف اس کے ہو جانے سے تو رہی لوگو
حجابِ عظمت و قدرت میں وہ چھپا کیوں ہے
یہ بات عقل میں آنے سے تو رہی لوگو

تمام حمد اُسی کیلئے ہی مختص ہے
وہ جس کی شان پہ دامانِ فہم چاک ہوئے
کسی پہ کر دیا مدہوشیوں کا وار کہیں
کسی طلب کو نشانِ اجل بنا ڈالا
کسی کو لے گیا قوسین سے بھی پار کہیں

تمام حمد محبِّ شفیعِ اعظم کی
صدائیں سب کی حلق میں جب اٹک جائیں گی
زبانیں پیاس کی شدت سے لٹک جائیں گی
وہاں کریم پھر اپنا حبیب بھیجے گا
بلائیں آپ کو تکتے ہی بھٹک جائیں گی

تمام حمد اُسی شاکر و علیم کی ہے
ترانے شکرِ خدا کا مرا وظیفہ ہیں
مرے قلم کو تکلم بھی اُس نے بخشا ہے
گمان و وہمِ غلط کی سمجھ عطا کر کے
مجھے تیقنِ محکم بھی اُس نے بخشا ہے

تمام حمد بشکلِ دعا تجھے سونپی
کرم خدایا تبسم کی خستہ حالی پر
اِسے تُو اپنی عبادت میں ہر جگہ رکھنا
رسولِ حضرتِ عالی کا مدح خواں ہر دم
غلامِ عطرت و اصحاب بھی سدا رکھنا

تمام حمد خدایا تجھی کو زیبا ہے
تمام حمد خدایا تجھی کو زیبا ہے
  • ابو بکر تبسم
 
Top