سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ الیکشن کا انعقاد ایک امیدوار کا فیصلہ نہیں ہوسکتا ۔ اگر کوئی امیدوار کود ہی الیکشن الیکشن کا شور مچانا شروع کردے اور بڑے بڑے دعوے بھی کرے تو یہ اس بات کا ثبوت ہوتا ہے کہ نفسیاتی طور پر وہ امیدوار ہارا ہوا ہے ۔ اور اپنی اس ہار کا درد کم کرنے کے لیئے وہ نئے الیکشن کا شور مچا رہا ہے ۔
دوسری بات یہاں الیکشن کمیشن کا چناؤ کرنے کا اختیار کس کو ہے ۔ الیکشن کمیشن ہمیشہ خفیہ ووٹنگ کے ذریعے منتخب ہوتے ہیں یا پھر بیورو کریسی کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے وہاں تک پہنچتے ہیں تو ان دونوں میں سے کوئی بھی شرط پوری نہیں ہوتی لہذا الیکشن کمیشن کا قیام ہی غیر قانونی ہے ۔
الیکشن کا پہلا اصول یہ ہوتا ہے کہ امیدوار کو نامزد کیا جاتا ہے نہ کہ امیدوار خود ہی اشتہار ۔ بینر لگوا کر اپنے امیدوار ہونے کا اعلان کرتا ہے ۔ اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ لالچی امیدواروں سے بچا جا سکے ۔
اس کے علاوہ ابھی پچھلا الیکشن متنازعہ رہا ہے جسکی وجہ ایک ہارنے والے امیدوار کو آسمان سے ٹپکنے والے ووٹوں کے باوجود فتح نصیب نہ ہوسکی تھی اور اسکے ان ووٹوں کے متعلق “کچھ“ عوام کو تحفظات ہیں آپ ایک نیا الیکشن کرانے چلے ہیں ۔
ایسے تو الیکشن الیکشن نہیں بلکہ ریفرنڈم ہو جائے گا اور ریفرنڈم بھی کسی فوجی حکومت والا لہذا میں ایسے الیکشن کے حق میں نہیں ہوں ۔
ویسے بھی عوام میں سے اکثریت خاموشی سے اپنا فیصلہ سنا دیتی ہے یہ الگ بات ہے کہ وہ ریلیوں ۔ جلسوں میں شامل نہیں ہوتی لہذا خاموش اکثریت کو مت للکاریں اور ان سوئے ہوئے شیروں کو مت اٹھائیں ورنہ ۔ ۔ ۔ ۔ ایک امیدوار کو تو ہارنا ہی ہے ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ پرانے زخموں کو ہی اسپرٹ لگاتے رہیں ۔ ۔ ۔