ظفری میں ایک بار پھر۔۔۔لغت کے 400 ٹی مکمل ہوگئے ہیں۔۔۔میں بری طرح فیڈاپ ہوچکی ہوں اس لیے آج کل لغت پر کام کرنا چھوڑ رکھا ہے ( محب کو نہ بتایے گا۔۔۔ )
یہ کام واقعی محنت طلب کے ساتھ ساتھ توجہ طلب بھی ہے ۔ شمشاد بھائی کی بات سے میں متفق ہوں کہ محب کو یہ کام آپ کو نہیں دینا چاہیئے تھا ۔
ظفری یقین کریں یہ تجسس کی بیماری مجھے اردو محفل پر آکر لگی ہے۔۔مجھے لگتا ہے کسی فارماسیویٹکل کمپنی کو اس بیماری کے لیے خاص میڈیسن تیار کرنا پڑے گی۔۔۔ پہلے کبھی میں نے کسی کے بارے میں نہیں سوچا تھا۔۔۔میرا یہ hidden talent یہاں پتہ نہیں کسے اور کیونکر دریافت ہوگیا۔۔
نہیں امن ۔ تجسس اور وہم کی اب تک کوئی میڈیسن ایجاد نہیں
ہوئی ہے اور امکان بھی نہیں ہے کہ اس کی کوئی دوا ایجاد بھی ہو ۔ ویسے میرا مخلصانہ مشورہ تو یہ ہے کہ اس عادت کو ترک ہی کر دیا جائے کہ اس سے ہیمشہ انسان فکرمند ہی رہتا ہے ۔
کبھی ان پاکستانی دوستوں کو یہاں (اردو محفل) پر انوائیٹ کرنے کا خیال نہیں آیا۔۔؟
کئی دفعہ کہا ہے مگر اپنی مصروفیات کی وجہ سے یہاں آ نہیں پاتے ۔
ہ ظفری کیا آپ بھی سمجھتے ہیں کہ نیٹ پر اکثر لوگوں نے اپنے چہرے پر ماسک چڑھایا ہوتا ہے۔۔۔؟
ہ کبھی کسی نیٹ دوست سے ملاقات ہوئی؟
ہ اگر آپ کو اردو محفل کے اراکین سے ملاقات کا چانس ملے تو کس کس سے ملنا چاہیں گے۔۔؟
دیکھئے کسی بھی تعلق یا رشتے میں فزیکلی کانٹیکٹ بہت ضروری ہوتا ہے ۔اور اس کانٹیکٹ کے نتیجے میں ملنے والے شواہد کی بناء پر ہی کسی بھی تعلق کی مضبوطی کو پرکھا جاتا ہے یا یوں کہہ لیں کہ انہی شواہد و حقائق کو مدنظر رکھ کر کسی بھی نئے رشتے یا تعلق کی بنیاد رکھی جاتی ہے ۔
جبکہ نیٹ پر ان شواہد کا ملنا بہت مشکل ہوتا ہے ۔شایدایک آدھ ایسی مثال موجود ہو مگر عموماً ایسا نہیں ہوتا ۔ کیونکہ یہاں ہر کوئی لفظوں سے کھیل رہا ہوتا ہے ۔الفاظ ہی ہمارے چہرے ہوتے ہیں جن سے ہماری پہچان ہوتی ہے ۔ انہی الفاظوں کے اتار اور چڑاھاؤ سے ہم ایک دوسرے کے مزاج کو سمجھتے اور پرکھتے ہیں ۔ الفاظ بدل جاتے ہیں تو چہرے بھی بدل جاتے ہیں ۔ ایک فرد کئی کئی نک سے یہاں موجود ہوتا ہے ۔ اور ہر نک میں اپنی مختلف شناخت رکھتا ہے ۔ اور یہ مختلف شناخت الفاظوں کے ہیر پھیر سے بنتی ہے ۔ تو ایسا کہنا کہ یہاں لوگوں نے ماسک چڑھایا ہوتا ہے ۔ ایک حد تک صیح بھی ہے ۔ مگر میرے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ چونکہ الفاظ کنٹرول کیئے جاسکتے ہیں تو پھر کسی کے بارے میں حقیقی طور سے جانا بھی نہیں جا سکتا ۔ اور ہم یہاں نیٹ پر کسی کے الفاظوں کے سحر میں الجھ کر اس کی شخصیت کا صیح پیکر بھی تراش نہیں سکتے جب تک آپ اس سے کوئی فریکلی کانٹیکٹ نہ حاصل کرلیں ۔ ایک اور بات اہم ہے کہ جب انسان فریکلی طور سے کسی کو جانتا ہے اور وہاں بھی دھوکہ کھا جاتا ہے تو نیٹ پر آپ کسی پر کیسے بھروسہ کر سکتے ہیں ۔ پس اسی حوالوں سے کہا کہ یہاں کسی کا کوئی چہرہ نہیں ہوتا ۔ سب اپنے اپنے الفاظوں سے اپنا چہرہ تراشتے ہیں ۔ جو اپنی مرضی سے جب چاہیں تبدیل کیئے جاسکتے ہیں ۔
۔ حقیقی دنیا میں آپ کسی سے اگر دھوکہ کھالیں تو آپ اس کو کہیں بھی پہچان سکتے ہیں ۔ مگر نیٹ پر کسی سے دھوکہ کھانے کے بعد آپ اس سےکچھ دنوں بعد اسکےکسی اور نام سے بات کر رہے ہوتے ہیں ۔
جی ہاں ایک نیٹ فرینڈ سے ملاقات کر چکا ہوں ۔
سرفہرست میں ابھی تک ۔۔ شمشاد بھائی ، محب ، رضوان ، استادِ محترم اعجاز اختر ، استادِ محترم شاکرالقادری ، قیصرانی وغیرہ شامل ہیں ۔
۔۔۔مجھے اس قسم کی شناخت سے ڈر لگتا ہے جو پولیس ڈیپارٹمنٹ والے کرواتے ہیں۔ ۔۔۔واؤ۔۔ندیم صاحب بہت ہینڈسم ہیں۔۔اس کا مطلب ہے کہ آپ بھی کافی ہینڈسم ہیں۔۔۔: )یہ جو شہود علوی ہیں ان کی ناک اور آنکھیں بہت اچھی ہیں۔۔۔اس لیے ان کا خیال آیا۔۔۔ہوسکتا ہے ان کے دانت اور سمائل آپ سے بالکل مختلف ہو۔۔۔لیکن شہود اور ندیم کا ہنسنے کا اسٹائل ایک سا ہے۔۔دونوں آنکھوں سے باتیں کرتے ہیں۔
: D ۔۔۔ اب چھوڑیں بھی یہ شناخت کے چکر کو کہ بات نکلے گی تو پھر دور تلک جائے گی ۔
ہیںںں اچھا۔۔۔۔لیکن شاعر حضرات تو حساسیت کی آخری اسٹیج پر کھڑے ہوتے ہیں۔۔۔؟
یہ بات ٹھیک ہے کہ تخلیق کار حساس ہوتے ہیں ۔ مگر ہر کوئی اس طرح کی درجہ بندیوں کی زرد میں نہیں آتا ۔ حساسیت ، محسوسات کو محترک کرتی ہے اور محسوسات انسان کی اس صلاحیت کو بیدار کرتے ہیں جو اس کو ، اس کے اظہار کے لیئے قدرتی طور سے ملی ہوئی ہو ۔ لہذا اس طرح کا کوئی بھی آوٹ پُٹ ایک قدرتی عمل ہے ۔ مگر حساسیت کی اس کمی وبیشی کو انسان اپنے تخلیقی عمل میں رکاوٹ نہیں بننے دیتا کہ یہ سب بلکل اچانک ہی ہوتا ہے ۔
احمد ندیم قاسمی نے شادی کے بعد محبت کی ، وہ بھی اپنی شریکِ حیات سے اور ہمیشہ اسی پر قائم رہے ۔ منیر نیازی نے اپنی زندگی کا پہلا عشق اپنی اسکول ٹیچر سے کیا ۔ اور پھر بعد میں مذید ۔۔۔ کہ “ اس بے وفا کا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو “ ۔۔۔ مگر دونوں حساسیت کی مخلتف اساس کے باوجود کتنے زبردست مانے ہوئے شعراء تھے ۔ تو یہ ضروری نہیں ہے کہ جو جتنا حساس ہوگا وہ اتنا ہی اچھا تخلیق کار بھی ہوگا ۔ حساسیت آپ کو سوچنے اور فکرمند ہونے پر ضرور مجبور کر سکتی ہے مگر اس کا آؤٹ پٹ بھی اتنا ہی قوی ہو یہ ضروری نہیں ہے ۔
اچھا۔۔۔لیکن میں صرف اچھی اور بری چال میں فرق دیکھ سکتی ہوں۔۔ اس کا مطلب آپ بہت گہری نظر سے دیکھتے ہیں ( ہاں یہ ضروری نہیں کہ سب کو ہی ایک نظر سے دیکھتے ہوں۔ ))
اگر آپ اچھی اور بری چال میں فرق دیکھ سکتیں ہیں تو پھر آپ کو اس کی شخصیت کو جانچنے کا بھی ہنر آتا ہوگا اور میں کہنا بھی یہی چاہ رہا تھا ۔ اور اب میں اتنا بھی غور سے نہیں دیکھتا کہ کسی کی چال میرے لیئے اعضائی شاعری بن جائے ۔
افففففففف کتنے مزے سے کہہ رہے ہیں کہ مت پوچھیں کتنی بار ہڈیاں ٹوٹیں ہیں۔۔۔ظفری اللہ نہ کرے میری ہڈی ایک بار کوئی کام کرتے ہوئے ٹوٹ جاتی تو میں تو ساری زندگی دوبارہ اس کام کی شکل نہ دیکھتی۔۔۔یہ کیسا شوق ہے۔۔۔ جب riding اور stunt کررہے ہوتے ہیں تو اس وقت کیا سوچ رہے ہوتے ہیں۔۔؟؟
کچھ خاص نہیں ۔۔۔ بس یہی کہ اوروں سے اچھا اور تیز کیا جائے۔
میں نے ایک بار ایک ٹی-وی پروگرام میں سنا تھا ۔۔ ایک ہیوی بائیک چلانے والا لڑکا کہہ رہا تھا کہ زندگی 250 کلومیٹر کے بعد جاکر شروع ہوتی ہے۔۔۔۔آپ کے تو ایسے نادر خیالات نہیں ہیں۔۔؟؟
( اور پتہ ہے جب وہ پروگرام چلا تو اس کے ٹھیک ایک مہینے بعد اس لڑکے کا ایکسیڈنٹ ہوگیا and he was expired ۔۔پھر اسی پروگرام میں اس لڑکے کے فرینڈز اور ماما،بابا سے ملوایا گیا۔۔۔فرید نام تھا اس کا۔۔بس کچھ مت پوچھیں کتنا دکھ ہوا تھا )
آپ کو اس خطرناک قسم کی ایکٹویٹی سے کوئی منع نہیں کرتا۔۔۔؟
مجھے اسٹیٹ ٹروپر نے 2005 میں 170 میل فی گھنٹہ پر پکڑا تھا میرا خیال ہے کلومیڑ کچھ 255 یا 260 ہی بنتے ہیں ۔ ایک سال تک لائسنس سسپینڈ رہا تھا ۔
منع تو کوئی نہیں کرتا یہاں مگر حوصلہ افزائی ضرور کرتے ہیں ۔
مجھے ساری ہیوی بائیکس بہت بری لگ رہی ہیں۔ آپ اس کی جگہ کوئی اچھی سی کار لے لیں۔۔نہ بائیک ہوگی اور نہ ہڈیاں ٹوٹیں گی۔
اس سال کے بعد کوشش کروں گا کہ ایسا ہی ہو ۔ ویسے میں جاب پر اپنی کار میں ہی جاتا ہوں ۔