اوجِ تخیّل ۔ اشعار شامل کیجے۔

وفور اشک نے کاشانے کا کیا یہ رنگ
کہ ہوگئے مرے دیوار و در در و دیوار

نہیں ہے سایہ کہ سن کر نوید مقدم یار
گئے ہیں چند قدم پیشتر در و دیوار

ہجوم گریہ کا سامان کب کیا میں نے
کہ گر پڑے نہ مرے پاوں پر در و دیوار

نہ پوچه بے خودیء عیش مقدم سیلاب
کہ ناچتے ہیں پڑے سر بسر در و دیوار

مرزا غالب
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
غالب کے تخیل کا، معذرت کے ساته کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا.
داغ تخیل کی جگہ زبان اور معاملہ بندی کا زیادہ شاعر ہے۔ عربی فارسی کے بھاری بھر کم الفاظ کی بجائے صاف ستھرے سیدھے سادھے اردو کے الفاظ ہیں جن میں ایسے آبدار شعر ڈھلتے ہیں کہ سیدھے دل میں گھر کر لیتے ہیں۔
 

یاز

محفلین
جہاں ملتی ہے بے مانگے بھی سب کو دین کی دولت
میں اس بستی میں اپنا دین و ایماں چھوڑ آیا ہوں

(کیفی اعظمی)​
 
اگر گستاخی نہ خیال کریں تو میں عرض کروں گا کہ یہ پوسٹ ایک الگ دھاگے میں ہو تو زیادہ بہتر رہے گا۔ یعنی:

  • اگر آپ چاہتے ہیں کہ لوگ اس معاملے پر توجہ دیں تو اس بات کو الگ دھاگے میں زیادہ توجہ ملے گی۔
  • اس دھاگے سے غیر متعلقہ ہونے کی وجہ سے بات کہیں کی کہیں چلی جانے کا قوی امکان ہے۔
  • لوگوں کو اس بات کا موقع ملے گا کہ اس مضمون کے حوالے سے اپنی رائے دے سکیں یا آپ کی رائے سے اتفاق یا اختلاف کر سکیں۔
  • اگر آپ اس بات کا ابلاغ چاہتے ہیں تو ابلاغ کی کوشش بے جا تنقید کی زد میں آنے سے بچ جائے گی اور آپ کا کام آسان ہو جائے گا۔

اگر آپ مناسب سمجھیں تو اس پوسٹ کو رپورٹ کرکے الگ دھاگے میں منتقل کروالیجے۔

باقی جیسی آپ کی مرضی۔
احمد بھائی۔ آپ نے بجا فرمایا ہے میرا بھی یہی خیال ہے کہ اس لڑی کو صرف اشعار تک ہی محدود رہنا چاہئے۔ کسی شعر کے خالق کے سخن کی تعریف یا تنقید کیلیے الگ دھاگہ ہونا چاہیے۔
 
احمد بھائی۔ آپ نے بجا فرمایا ہے میرا بھی یہی خیال ہے کہ اس لڑی کو صرف اشعار تک ہی محدود رہنا چاہئے۔ کسی شعر کے خالق کے سخن کی تعریف یا تنقید کیلیے الگ دھاگہ ہونا چاہیے۔
میرا بحث کا موڈ نہیں ہے.مجهے شاعری سے غرض ہے. غالب اردو اور شاعری کے سب سے بڑے شعرا میں سے ہیں اور اس کی وجہ ان کا گہرہ تخیل ہے. اس ضمن میں ان کا کوئی مد مقابل میری نظر سے نہیں گزرا. اگر کوئی مومن ان سے گہرہ تخیل رکهتا تو میں اس کی بهی تعریف کر دیتا. جہاں تک کفر و اسلام کا تعلق ہے تو اس کی فکر آپ خود کریں. میں نے چهوڑ دی ہے.
 

سید عاطف علی

لائبریرین
چلیے پھر شاعری کی طرف اور اوج تخیل کی طرف۔
جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود
پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے۔
غالب۔
 

محمد وارث

لائبریرین
خوش بوَد فارغ ز بندِ کفر و ایماں زیستن
حیف کافر مُردن و آوخ مسلماں زیستن


مرزا غالب دہلوی

کفر اور ایمان کی قیدوں اور بندشوں سے آزاد زندگی بہت اچھی اور خوش خوش گزرتی ہے لہذا افسوس کفر کی موت مرنے پر اور وائے مسلمان کی سی زندگی بسر کرنے پر۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
ارے صاحبو! دوستو! بھلے مانسو!بلکہ شاعرو ! ۔ یہ کہاں نکل لیے ہو کس گلی کا رستہ لے لیا پہلے ہی اس قسم کی گلیوں میں بہت انبوہ ہے اور اس کے باوجود سب لاطائل بھی ۔
شاعری سمجھو ۔ اور پھر شاعری کو شاعری سمجھو اور مزید یہ کہ شاعر کی شاعری کو بھی سمجھو ۔
حقیقی شاعری تو وہ ہے جو بخیل کو فیاض کر دیتی ہے ۔بزدل کو شیر دل کر دیتی ہے ۔ تنگ نظر کو وسعت نظر بخشتی ہے۔قاسی القلب کو رقیق القلب کر تی ہے۔ظالم کو ہمدردی پر آمادہ کر دیتی ہے۔انتقام کو عفو سے بدلتی ہے ۔ لیکن ایسا محض اس وقت ہو سکتا ہے جب ہم شعر کی روح تک اتریں ۔
ورنہ شعر کیا شاعری کیا شاعر کیا اور ہم کیا ۔
شعر کو اپنی فکر سے کی تنگی سے جانچنا زیبا نہیں ۔ المعنی فی البطن الشاعر پر محمول کرو ۔ اور بخشدو گر خطا کرے کوئی ۔جیسی نصیحت پکڑو۔ورنہ
زجاج گر کی دکاں شاعری و ملائی
ستم ہےخوار پھرے دشت و در میں دیوانہ
 
Top