کھوکھر
محفلین
آپ دوست کا خیال کریں اور دوست آپ کا تو فائدہ تو دونوں کا ہی ہوا نالیکن اس میں سارا فائدہ تو دوست کا ہی ہے
آپ دوست کا خیال کریں اور دوست آپ کا تو فائدہ تو دونوں کا ہی ہوا نالیکن اس میں سارا فائدہ تو دوست کا ہی ہے
یعنی آج بھی چھٹی نہیں ہے !
چلیں جی سب آ جائیں کوئی چھٹی نہیں ہونی
[COLOR=#0000ff]کیانی[/COLOR]، آج ہوم ورک داخل کرنے کی آخری تاریخ تھی
خالی "کیانی" لکھ دیا، اگر فرحت کی بجائے جنرل کیانی نے پڑھ لیا، تو ۔۔۔ ۔۔
بڑی گل کیتی چوہدرائن نے ۔۔محبتوں کو مشروط ہرگز نہیں ہونا چاہیےکہ شرائط، عہدنامے، دھمکیاں، ڈراوے اور چیلنج جزبوں کی لطافت، گہرائی اور معنویت کو مجروح کر ڈالتے ہیں۔ ان میں کھردراپن اور ڈراریں پیدا کر دیتے ہیں۔ پھر اعتماد کی جگہ خوف بسیرا کرنے لگتا یے۔ خوشی کی جگہ واہمے من آنگن میں لہرانے لگتے ہیں۔ طمانیت کی چھاؤں کے بجائے بےسکونی کی دھوپ رقص کرنے لگتی یے۔ اعتبار ٹوٹ جاتا یے اور دھڑکے جی کا جنجال بنتے چلے جاتے ہیں۔
محبت کو آزاد ہونا چاہیے۔ ہر شرط سے، ہر خدشے کی زنجیر سے۔
جتنی محبت زیادہ ہوتی یے اتنا ہی مبحت کرنے والے شخص کا ظرف اور دل کشادہ ہوتا یے۔ وہ معاف کرنے اور معافی طلب کرنے میں کبھی تاخیر نہیں کرتا۔ جھوٹی انا کے خول میں لپٹ کر دوسری جانب سے “پہل” کا انتطار نہیں کرتا۔ اس کے بجائے خود صلح اور امن کا ہاتھ بڑھاتا یے۔
البتہ محبتوں کو محدود کرنے والا شخص ڈراوے، دھمکی اور حاکمیت پسندی سے کام لیتا یے۔ چھوٹا ظرف، چھوٹا دل، اور چھوٹی محبت۔
وہ جزباتی بلیک میلنگ اور بے حسی دکھا کر مقابل کو اپنے دام میں کسنے کی سعی کرتا یے۔
شازیہ چوہدری کے ناول “شہر دل کے دروازے” سے اقتباس
جی مرحوم منصفہ شازیہ چوہدری ہیںبڑی گل کیتی چوہدرائن نے ۔۔
میرے والوں سلام وی کر دینا سی۔ خیریت وی پُچھ لینی سی ۔جی مرحوم منصفہ شازیہ چوہدری ہیں
بہت شکریہ چوہدرائن دی طرفوں
او تُسی خود ہی پوچھ لینڑاں انہاں کولوں ۔میں اُنا دا پتہ دس دیتا اےمیرے والوں سلام وی کر دینا سی۔ خیریت وی پُچھ لینی سی ۔
میں کتھے اینی دور جاواں ۔ تسی ایس ویلے کول بیٹھے اواو تُسی خود ہی پوچھ لینڑاں انہاں کولوں ۔میں اُنا دا پتہ دس دیتا اے
اور جو انہوں نے اسکول میں مارشل لاء لگا دیا تو کیا ہو گا؟تو انہیں بھی داخلہ دے دیا جائے گا یہاں اسکول میں
اچھا اقتباس ہے۔ لیکن اس میں جو املاء اور گرائمر کی غلطیاں ہیں تو اس کے نمبر کٹ جائیں گے۔محبتوں کو مشروط ہرگز نہیں ہونا چاہیےکہ شرائط، عہدنامے، دھمکیاں، ڈراوے اور چیلنج جزبوں کی لطافت، گہرائی اور معنویت کو مجروح کر ڈالتے ہیں۔ ان میں کھردراپن اور ڈراریں پیدا کر دیتے ہیں۔ پھر اعتماد کی جگہ خوف بسیرا کرنے لگتا یے۔ خوشی کی جگہ واہمے من آنگن میں لہرانے لگتے ہیں۔ طمانیت کی چھاؤں کے بجائے بےسکونی کی دھوپ رقص کرنے لگتی یے۔ اعتبار ٹوٹ جاتا یے اور دھڑکے جی کا جنجال بنتے چلے جاتے ہیں۔
محبت کو آزاد ہونا چاہیے۔ ہر شرط سے، ہر خدشے کی زنجیر سے۔
جتنی محبت زیادہ ہوتی یے اتنا ہی مبحت کرنے والے شخص کا ظرف اور دل کشادہ ہوتا یے۔ وہ معاف کرنے اور معافی طلب کرنے میں کبھی تاخیر نہیں کرتا۔ جھوٹی انا کے خول میں لپٹ کر دوسری جانب سے “پہل” کا انتطار نہیں کرتا۔ اس کے بجائے خود صلح اور امن کا ہاتھ بڑھاتا یے۔
البتہ محبتوں کو محدود کرنے والا شخص ڈراوے، دھمکی اور حاکمیت پسندی سے کام لیتا یے۔ چھوٹا ظرف، چھوٹا دل، اور چھوٹی محبت۔
وہ جزباتی بلیک میلنگ اور بے حسی دکھا کر مقابل کو اپنے دام میں کسنے کی سعی کرتا یے۔
شازیہ چوہدری کے ناول “شہر دل کے دروازے” سے اقتباس
جی مرحوم منصفہ شازیہ چوہدری ہیں
بہت شکریہ چوہدرائن دی طرفوں
اور جو انہوں نے اسکول میں مارشل لاء لگا دیا تو کیا ہو گا؟
زندگی حساب کے مضمون کی طرح ہے۔
دوستوں کو پلس کرو +
دشمنوں کو مائنس کرو -
خوشی کو ملٹی پلائی کرو
غم کو ڈیوائڈ کرو ٪
اور لائف کو انجوائےےےےے۔
میری ماں وہ واحد ہستی تھیں جنہوں نے مجھے اس بات کا یقین دلایا تھا،کہ ایک دن میں بغیر سہاروں کے چل سکوں گا۔