قرۃالعین اعوان
لائبریرین
تندئ بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیئے
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیئے
ویسے یہ شعر ہم نے پہلے سن اور سمجھ رکھا ہے۔ کوئی اور فارسی شعر ہوتا تو آپ کو مطلب بھی سمجھانا پڑتا۔
یہ تو اچھا خاصا اُمید افزا لگ رہا ہے۔ اللہ رحم کرے۔
اُمید کی جاتی ہے کہ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔
دشتِ امکاں میں بہر گام سنبھالا تم نے
میرے نادیدہ سہارو نظر آؤ مجھ کو
زنجیرِ صبح و شام سے آزاد ہوکے دیکھ
ہر لمحہء حیات ہے اک عمرِ جاوداں
زندگی ہے تو سحر بھی ہوگی
اے شبِ غم یہ مِرا دعویٰ ہے
پاتے نہیں جب راہ تو چڑھ جاتے ہیں نالے
رکتی ہے مِری طبع تو ہوتی ہے رواں اور
اپیا بہت ہی خوب!اِن آبلوں سے پاؤں کے گھبرا گیا تھا میں
جی خوش ہوا ہے راہ کو پُرخار دیکھ کر
ماشاءاللہ بہت ہی عمدہ سلسلہ ہے احمد میاں ۔
اور سبھی دوستوں سے بہت اچھے اچھے اشعارپڑھنے کو ملے ۔۔۔ ڈھیروں داد آپ سب کے لیئے
اُمید ہے کہ اسی جوش وخروش سے یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ سلامت و شاد رہیئے آپ سب ۔
ہم بھی کوشش کریں گے اس کار خیر میں اپنا حصہ ڈالنے کی ابتدا کیئے دیتے ہیں ۔۔۔ ایک انتخاب پیش خدمت ہے ۔
زوالِ شب میں کسی کی صدا نکل آئے
ستارہ ڈوبے ستارہ نما نکل آئے
عجب نہیں کہ یہ دریا نظر کا دھوکا ہو
عجب نہیں کہ کوئی راستہ نکل آئے
وہ حبس ہے کہ دعا کررہے ہیں سارے چراغ
اب اس طرف کوئی موجِ ہوا نکل آئے
یہ کس نے دستِ بریدہ کی فصل بوئی تھی
تمام شہر میں نخلِ دعا نکل آئے
خدا کرے صف سر دادگاں نہ ہو خالی
جو میں گروں تو کوئی دوسرا نکل آئے۔
دے دل انکو اور جو نہ دے مجھ کو زباں اور
ہمیں خبر ہے کہ ہم ہیں چراغ آخر شب
ہمارے بعد اندھیرا نہیں ۔۔۔ ۔ اُجالا ہے
ظہیر کاشمیری