رانا
محفلین
آپ نے جتنے سوالات اٹھائے ہیں عجیب اتفاق ہے کہ خاکسار اپنے ذیل کے مراسلے میں پہلے ہی ان سب پر گفتگو کر چکا ہے۔ غالبا آپ کی نظر سے نہیں گزرا۔ہومیو پیتھی میں اگر واقعی بیماریوں کے علاج ہو جاتے ہیں، اور ہومیو پیتھ 'ڈاکٹروں' کے پاس اگر واقعی کوئی "سنجیونی بُوٹی" موجود ہے تو کیا وجہ ہے کہ پاکستان میں بہت زیادہ لوگ ان سے علاج نہیں کرواتے؟
آخر، پاکستانی کی آبادی کوئی اتنی ترقی یافتہ اور ساری کی ساری ایسی عالم فاضل تو نہیں ہے کہ ہومیو پیتھی کو 'غیر سائنس' کہہ کر اس سے علاج نہ کروائے۔ ایلو پیتھی کے مقابلے میں ہومیو پیتھی کے معالجین کی فیس بھی انتہائی کم ہے، دوائیاں بھی انتہائی سستی ہیں اس کے باوجود ان کے کلینک خالی ہیں جب کہ ایلو پیتھک ڈاکٹروں کے پرائیوٹ کلینکوں پر بھی کئی کئی گھنٹے گزار کر باری آتی ہے، وہاں سے کئی کئی دن پہلے نمبر لینا پڑتا ہے اور سرکاری ہسپتالوں پر تو لائنیں لگی ہوئی ہیں، لوگ دھکے کھاتے پھر رہے ہیں لیکن پھر بھی ہومیو پیتھ کے پاس نہیں جاتے؟
کیوں؟
اس کی وجہ ہے"کامیابی کی شرح"!۔ کتنے لوگ ہیں جن کو ہومیو پیتھی سے علاج میں کامیابی ہوتی ہے، خال خال۔ کوئی ہو گیا تو تجربہ بھی بیان کر دیا۔ دوسری طرف ایلو پیتھی میں کامیابی کی شرح بہت زیادہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ لوگ ادھر کی بجائے ایلو پیتھ ڈاکٹروں کے پاس جاتے ہیں، ان کو بھاری فیسیں بھی دیتے ہیں، ان کی جلی کٹی بھی سنتے ہیں، انتظار کی کوفت بھی اٹھاتے ہیں، ہر طرح کی پریشانی کا سامنا کرتے ہیں لیکن علاج پھر بھی ان سے ہی کرواتے ہیں کیونکہ انہیں یقین ہوتا ہے کہ یہ ڈاکٹر ان کی بیماری کا علاج کر دے گا، کوئی بسترِ مرگ پر بھی اپنے دل کی ساری شریانیں بند کیے بیٹھا ہے تو اسے بھی امید ہے کہ اس کا آپریشن ہو گیا تو وہ ٹھیک ہو جائے گا، دوسری طرف بتانے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔
جناب عالی ہومیوپیتھی اتنی سادہ اور آسان چیز نہیں ہے۔ ہومیوپیتھی دیگر مروج طریقہ علاج سے ایک بات میں بہت مختلف ہے۔ ہومیوپیتھی کہنے کو بہت سادہ طریق علاج ہے لیکن حقیقی معنوں میں اس سے پیچیدہ اور مشکل طریق علاج شاید ہی کوئی اور ہو۔ دیگر طریقوں میں بیماری کے حساب سے دوا دی جاتی ہے اور وہ ہر مریض پر یکساں کام کرتی ہے۔ جبکہ ہومیوپیتھی میں علامات کی بنیاد پر دوا دی جاتی ہے جو ہر مریض کی مختلف ہوتی ہیں۔ پھر علامات ہی کافی نہیں مریضوں کا مزاج بھی فرق ڈالتا ہے۔ کسی شخص کی تکالیف سردی میں بڑھتی ہیں تو اس کے لئے صرف دیگر علامات کا ملنا کافی نہیں ہوگا بلکہ اس دوا کے مزاج میں یہ علامت بھی ہونی چاہیے کہ اس کی تکلیفیں سردی میں زیادہ ہوجائیں۔ اسی طرح گرمی سے تکلیفوں کے اثرات دیکھنے پڑتے ہیں۔ کسی کی علامات ملنے کے باوجود کسی نفسیاتی دباؤ کے تحت اس پر دوا کام نہیں کرے گی بلکہ اس کی ذہنی علامات کو ایسے معاملات میں فوقیت دینی ہوگی۔ ڈاکٹر ہانیمن نے بھی ذہنی علامات کو زیادہ اہمیت دی ہے۔یہ بات تو خود ہومیوپیتھ مانتے ہیں کہ اس میں کبھی کوئی مستقل نسخہ نہیں چلتا کیونکہ دوا بیماری کی بجائے مریض کی علامات پر منحصر ہے جو ہر مریض کے مزاج کے مطابق الگ ہوں گی۔ ہمیشہ ہر مریض کی تفصیل سے کیس اسٹڈی کرکے دوا تجویز کرنی چاہئے۔ پھر اگر کوئی بیماری آہستہ آہستہ جسم پر غالب آئی ہے تو وہاں علامات ملنے کے باوجود ایسی دوا کام نہیں کرے گی جس کے مزاج میں بیماری کو فوری ٹھیک کرنا ہے۔ یہ صورت حال اس کے برعکس بھی ہے کہ جہاں بیماری اچانک حملہ آور ہوئی ہے وہاں علامات ملنے کے باوجود آہستہ اثر کرنے والی دوا نہیں چلے گی۔ پھر ان دواؤں کی طاقتوں کا معاملہ ہے جس میں ابھی تک تحقیق کی بہت گنجائش ہے کہ ایک دوا کن مریضوں میں کن طاقتوں میں دینی چاہیے۔ بعض اصول تو موجود ہیں۔ لیکن کیونکہ علاج کی بنیاد علامات ہیں اس لئے بعض اوقات ان اصولوں پر بھی دوا کام نہیں کرتی کہ مریض بعض اہم علامات کو غیر اہم سمجھ کر بیان ہی نہیں کرتا۔ جس ڈسپنسری سے خاکسار نے دوا لی تھی وہاں مریضوں کے بیٹھنے کی جگہ ایک بہت واضح نوٹس لگا ہوا تھا کہ ڈاکٹر سے اپنی کوئی علامت نہ چھپائیں کہ ہوسکتا ہے جس علامت کو آپ معمولی سمجھتے ہوں وہی آپ کی دوا تجویز کرنے میں مدد دے دے۔ پھر طاقتیں دیکھنی پڑتی ہیں۔ بعض بیماریوں میں چھوٹی طاقت مفید ثابت ہوتی ہے اور بعض میں ابتدا میں ہی بڑی طاقت مفید ثابت ہوئی ہے۔ قصہ مختصر کہ یہ طریق علاج ابھی بھی بہت تحقیق چاہتا ہے۔ اس لئے اس کی کیس اسٹڈی کرتے ہوئے ہومیوپیتھی میں اچھی مہارت، بہت مستقل مزاجی اور وقت کی ضرورت ہے۔ تو اب ان چند سرسری باتوں کو دیکھ کر بتائیں کہ کیا آپ کو لگتا ہے کہ اس کی کیس اسٹڈی روایتی کیس اسٹڈی کی طرح نتائج دے سکتی ہے۔ اس کے لئے تو بہتر طریق یہ ہے کہ کسی ایسے اچھے ہومیوپیتھ جس کے ہاں شفا کی نسبت غیرمعمولی ہو، کے کلینک میں مستقل مزاجی سے بیٹھ کر کیس اسٹڈی کی جائے۔ اسی لئے آپ نے دیکھا ہوگا کہ جتنے ہومیو کلینکس کھلے ہوتے ہیں ان میں سے بہت کم ایسے ہوتے ہیں جہاں مریضوں کا غیرمعمولی رش دیکھنے میں آئے۔ اس کی وجہ کیا ہے۔ یہی کہ عموما عام ہومیوپیتھ نے مشہور بیماریوں کے لئے زیادہ استعمال ہونے والی ادویات کو ازبر کیا ہوتا ہے اور سب مریضوں پر وہی چلانے کی کوشش کرتے ہیں نتیجتا لوگوں کو فائدہ نہیں ہوتا اور ان کے کلینکس کو شام کے اوقات میں دیکھ کر ہی اندازہ ہوجاتا ہے کہ یہ کیا کماتے ہوں گے۔ یہ چیز ہومیوپیتھی کے بنیادی اصولوں کے ہی خلاف ہے۔ ہومیوپیتھی میں اس بات پر زور دیا جاتا ہے کہ مریض کی مکمل ہسٹری اور اس کی تمام علامات کا جائزہ لے کر اس کے لئے دوا تجویز کی جائے۔ ایک بار اس کی علامات سے میچ کرتی دوا منتخب کرلی جائے تو اس پر اثر کرتی ہے۔ لیکن ہومیوپیتھ یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ ایک دوا بعض اوقات تمام علامات ہونے کے باوجود کام نہیں کرتی۔ ایسی صورت میں وہ طاقت بدلنے کا مشورہ دیتے ہیں یا درمیان میں کسی ایسی دوا کو داخل کرتے ہیں جو اصل دوا کے اثر کو ایکٹو کردے۔
یہاں کراچی میں ایک ڈاکٹر نادر کا کلینک بہت مشہور تھا۔ اب تو وہ فوت ہوچکے ہیں ان کے اسسٹنٹ بیٹھتے ہیں لیکن جب تک وہ تھے ان کے کلینک پر اچھا خاصا رش ہوتا تھا اور لوگ صبح سویرے کلینک کھلنے سے بھی پہلے نمبر لینے پہنچے ہوتے تھے۔ اب ایسے کلینکس میں ہی ہومیوپیتھی کی کیس اسٹڈی بہتر ہوسکتی ہے لیکن ظاہر ہے کہ ریسیرچرز نے کیس اسٹڈی کے لئے اپنے جو قوائد بنائے ہوئے ہیں جن کا فاتح بھائی اور زیک نے بھی ذکر کیا، اتنے پیچیدہ طریق علاج کو ان پر کیسے جانچیں گے۔ لیکن ان ریسرچرز کو جیسا کہ میں مثال دی ڈاکٹر نادر جیسے کلینکس میں بھی ذرا مستقل مزاجی سے وقت دے کر کیس اسٹڈی کرنی چاہیے۔ ایک بار ڈاکٹر نادر کا بہت نام سن کر گوگل کیا تو ایک ڈاکٹر محبوب کی کیس اسٹڈی کا لنک ملا جو ایم بی بی ایس ڈاکٹر تھے۔ انہوں نے ڈاکٹر نادر کے کلینک میں جب خود بعض کینسر کے مریضوں کو شفایاب ہوتے دیکھا تو انہوں نے مستقل ہومیوپیتھی طریق علاج کی پریکٹس شروع کردی۔ ڈاکٹر کینٹ بھی شائد ایلوپیتھک ڈاکٹر ہی تھے۔ اب آپ زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ پھر ہومیوپیتھی کیونکہ ریسرچرز کی ریسرچ پر نتائج نہیں دیتی اس لئے غلط ہے تو شوق سے یہ رائے رکھیں۔ ہم کبھی غلط نہیں کہیں گے۔ مسئلہ تب پیدا ہوتا ہے جب لوگ ہومیوپیتھس کی طرف سے یہ سب باتیں تسلیم کرنے کے باوجود ان کی چوپال میں لٹھ لے کر آجاتے ہیں کہ تم غلط ہو۔ بھائی وہ غلط ہیں تو آپ اپنے کام سے کام رکھیں انہوں نے کونسا آپ کو زبردستی ہومیوپیتھی کی میٹھی گولیاں کھلادی ہیں جو آپ غصہ کرجاتے ہیں۔
ایک نکتہ آپ نے دو زاویوں سے اٹھایا ہے کہ کیوں ہومیوپیتھک کلینکس پر عوام کا رش نہیں ہوتا اور کیوں ایلوپیتھک کلینکس پر رش زیادہ ہوتا ہے۔ اس کے پہلے حصے کہ زیادہ تر ہومیوکلینکس کیوں ویران نظر آتے ہیں کہ لوگ ان سے علاج نہیں کراتے، اس پر تو اوپر والے مراسلے میں تفصیلی ذکر ہوچکا ہے۔ یہاں صرف دوسرے حصے کے حوالے سے یہ ذکر کردوں کہ بعض مستند ہومیوپیتھس کے ہاں بھی اتنا رش ہوتا ہے کہ ایلوپیتھک ڈاکٹرز کو تو چھوڑیں سرکاری اسپتال تک شرما جائیں۔ کچھ مثالیں پیش کردیتا ہوں جو ذاتی مشاہدے کی ہیں۔
کراچی کے ڈاکٹر نادر کا ذکر پہلے کرچکا ہوں۔ ان کے کلینک پر بے انتہا رش ہوتا تھا اور جیسا کہ پہلے بھی ذکر کرچکا ہوں کہ لوگ کلینک کھلنے سے بھی پہلے نمبر لگانے پہنچے ہوتے تھے۔ کراچی کے کسی بھی ہومیوڈاکٹر سے تصدیق کراسکتے ہیں۔ یہ ایک نام تو اتنا مشہور ہے کہ کراچی کا شائد ہی کوئی ہومیوڈاکٹر ناواقف ہو۔ سن ۲۰۰۹ میں وہ فوت ہوچکے ہیں۔ انہوں نے سپر ہائی وہ بہت بڑا ہومیوپیتھک اسپتال بنایا تھا۔ استپال کا ذکر اس لئے کیا کہ وہ اپنی ذاتی کمائی سے یہ نہ بنا سکتے تھے۔ چند ماہ پہلے ان کا بہت نام سن کر ان کے کلینک گیا تو پتہ لگا کہ وہ تو فوت ہوچکے ہیں۔ وہاں سے اسپتال کی ہسٹری پتہ لگی کہ ایک شخص ان کے پاس اپنی والدہ کو علاج کے لئے لایا تھا جس کو تمام ایلوپیتھک ڈاکٹرز اور اسپتالوں نے جواب دے دیا تھا۔ ڈاکٹر نادر کے علاج سے اس کی والدہ کو شفا ہوگئی تو اس شخص نے جو کافی پیسے والا بندہ تھا ڈاکٹر نادر سے کہا کہ انہیں جو ضرورت ہے وہ بتائیں۔ ڈاکٹر نادر نے کہا کہ میں اسپتال بنانا چاہتا ہوں۔ اس اسپتال کی بڑی سی عمارت سپر ہائی وے پر خاکسار نے خود ابھی چند ماہ قبل ہی دیکھی ہے۔ اب تو ان کی بیٹی نے وہ اسپتال کی عمارت کسی ادارے کو کرائے پر دیدی ہے۔ بہرحال کلینک پر ایک مریض نے خاکسار کو بتایا کہ ان کا عزیزآباد میں ایک چھوٹی سی دکان میں کلینک ہوتا تھا۔ اب سوچنے کی بات ہے کہ اتنا پیسے والا بندہ اپنی والدہ کو تمام بڑے ایلوپیتھک ڈاکٹرز سے مایوس ہوکر ہی لایا تھا۔ اور بیماری تو مجھے علم نہیں لیکن ظاہر ہے کہ کوئی ایسی ہی بیماری ہوگی جو اگر لاعلاج نہ بھی ہوگی تو کم از کم اس اسٹیج پر ہوگی جہاں ڈاکٹرز نے جواب دے دیا تھا۔
پھر جس ڈاکٹر فاروق انصاری کے سمن آباد میں واقع کلینک کا خاکسار نے ذکر کیا جن کے علاج سے خاکسار کے ماتھے کا ابھار اللہ کے فضل سے ٹھیک ہوگیا تھا ان کے کلینک پر بہت زیادہ رش تو نہیں ہوتا لیکن بہرحال آس پاس موجود کسی بھی ایلوپیتھک ڈاکٹر کے مقابلے میں زیادہ ہی ہوتا ہے۔ حالانکہ ان کی فیس بھی عام ایلوپیتھک ڈاکٹر سے زیادہ ہے۔ اب وہ ساڑھے تین سو روپے فیس لیتے ہیں جبکہ دوا جو وہ ایک ہفتے کی دیتے ہیں وہ شائد دس روپے سے زیادہ کی نہ ہوتی ہوگی۔ کوئی شخص بھی ہومیوپیتھی کی میٹھی گولیوں کے ہرہفتے ساڑھے تین سو روپے نہیں دے سکتا اگر اسے ذرا بھی افاقہ نہ ہوتا ہو۔
پھر اسی علاقے میں دوسرے بلاک میں ایک ڈاکٹر کفیل کا کلینک بہت رش والا ہے۔ ابھی ان کے نام سے یاد آیا کہ ان کے پاس خاکسار ایک بار کسی کیڑے کے کاٹنے کے بعد پیدا ہونے والی سوجن کے لئے گیا تھا۔ اور اللہ کے فضل سے ایک ہی خوراک سے شفا ہوگئی تھی دوبارہ جانے کی ضرورت ہی نہیں محسوس ہوئی۔ ان کے کلینک میں جب خاکسار گیا تھا تو وہ شام میں بیٹھتے تھے اور ڈیجیٹل کاونٹر لگا ہوا تھا خاکسار کا غالبا اٹھاسی نمبر تھا۔ اس سے اندازہ لگالیں کہ کتنا رش ہوتا ہوگا۔ اب تو ڈاکٹر کفیل صرف صبح میں بیٹھتے ہیں اور صبح کی صورتحال کا کچھ علم نہیں۔ یہ کوئی چار پانچ سال پرانا واقعہ ہے۔
لیکن ان دونوں ڈاکٹر انصاری اور ڈاکٹر کفیل کو اپنے اردگرد موجود ایلوپیتھک ڈاکٹرز سے بہت زیادہ رش رکھنے کے باوجود اپنے علاقوں سے باہر شاید ہی لوگ جانتے ہوں۔ اس سے قیاس کرلیں کہ یہ دو ڈاکٹرز تو وہ ہیں جو خاکسار کے علاقے میں کلینک کرتے ہیں تو علم میں ہیں۔ اسی طرح کراچی کے دیگر علاقوں میں بھی کئی ہومیوپیتھک ڈاکٹرز ہوں گے جن کے پاس ایلوپیتھک ڈاکٹرز سے زیادہ رش ہوتا ہوگا لیکن ان کو ان کے علاقوں سے باہر شائد کوئی نہ جانتا ہو۔
پھر جس ہومیوڈسپنسری میں خاکسار حال ہی میں کھانسی کے علاج کے لئے گیا تھا وہاں کا رش تو کسی بھی ایلوپیتھک کلینک کو شرما دے۔ وہاں روزانہ پانچ سو مریض دیکھے جاتے ہیں۔ اور یہ نہیں کہ پانچ سو سے زیادہ مریض آتے نہیں بلکہ ڈسپنسری پانچ سو سے زیادہ کو سنبھال نہیں سکتی اس لئے روزانہ کئی مریض واپس کئے جاتے ہیں۔ خود خاکسار ایک ماہ بعد دوبارہ دوا لینے گیا تو واپس کردیا گیا مجبورا بازار سے وہی دوا خریدنی پڑی۔ اس ڈسپنسری میں تو لوگ رات کو دو تین بجے جاکر ڈیرا لگا لیتے ہیں حالانکہ ڈسپنسری صبح آٹھ بجے کھلتی ہے اور ٹوکن بارہ بجے تک ملتے ہیں۔ لیکن عملا ٹوکن آٹھ بجے سے نو بجے کے درمیان ختم ہوجاتے ہیں وجہ یہ کہ ان کا اصول ہے کہ جیسے ہی پانچ سو ٹوکن ہوجائیں کاونٹر بند ہوجاتا ہے کیونکہ پھر یہ پانچ سو مریض پورا دن انہوں نے دیکھنے بھی ہوتے ہیں۔ یہاں آدھی رات کو سخت سردی میں بھی لوگ بچوں اور عورتوں کے ساتھ آکر بیٹھ جاتے ہیں۔ خاکسار نے کراچی میں اس ڈسپنسری کے بارے میں سنا تھا کہ لوگ رات کو آکر بیٹھ جاتے ہیں کہ صبح کسی طرح نمبر مل جائے تو اس بات میں کچھ مبالغہ محسوس ہوا۔ لیکن جب یہاں آیا تو صبح ایک چنگ چی والے کو ڈسپنسری جانے کا پوچھا تو اس نے پچاس روپے کرایہ بتایا۔ خاکسار نے کہا کہ پچاس کچھ زیادہ نہیں۔ کہنے لگا رات کو سو روپے لیتے ہیں۔ خاکسار نے حیران ہوکر پوچھا کہ ڈسپنسری تو سنا ہے کہ شام کو بند ہوجاتی ہے تو کیا رات کو بھی کھلتی ہے۔ اس نے بتایا کہ لوگ رات کو دو تین بجے نکل جاتے ہیں نمبر لینے کے لئے۔
باقی رہی یہ بات کہ ایسا رش سب کلینکس پر کیوں نہیں ہوتا تو اس کا ذکر اوپر والے مراسلے میں قدرے تفصیل سے کردیا گیا ہے۔ یہاں صرف یہ کہنا ہے کہ یہ چند کلینکس جن کا خاکسار نے ذکر کیا ہے وہ ہیں جن کا خاکسار عینی شاہد ہے کوئی سنی سنائی بات یہاں بیان نہیں کی۔ اب اس سے اندازہ لگا لیں کہ پورے پاکستان میں کتنے ہی ایسے رش والے کلینک ہوں گے۔ لیکن کیونکہ ان کی تعداد کم ہے اور زیادہ تعداد ان کی ہے جو صرف ہومیوپیتھی کو ایک آسان کورس سمجھ کر ڈپلوما کرکے اپنے نام کے ساتھ ڈاکٹر لگا کر خوش ہوجاتے ہیں اس وجہ سے عمومی تاثر ہومیوپیتھی کا ایسا ہی ہے جیسا آپ نے بیان کیا۔
بعض وجوہ سے یہ کوئی دلیل نہیں۔اب ذاتی تجربہ ہومیو پیتھی کا:
ایک بار مجھے ٹانگ میں شدید درد تھی، کئی دن ٹھیک نہ ہوئی۔ ڈاکٹر کو بھی دکھلا لیا کچھ ٹیسٹ بھی کروا لیے، لیکن درد ختم نہ ہوا۔ کسی نے ایک حاذق ہومیو پیتھ کا بتایا، ڈھونڈتے ڈھونڈتے ان کے کلینک پہنچا تو بند، دوسری بار پھر گیا تو بند۔ ساتھ والوں سے پوچھا تو کہنے لگے کہ ڈاکٹر صاحب کو کوئی دل کا مسئلہ ہوا تھا، پنجاب کارڈیالوجی لاہور گئے ہوئے ہیں اپنے علاج کے لیے! بس میرے لیے اتنا ہی کافی تھا۔ ٹانگ کا درد کچھ دنوں میں خود ہی ٹھیک ہو گیا لیکن دل میں ایک یاد بیٹھ گئی ہومیو پیتھی کی جو ابھی تک موجود ہے!
ایک یہ کہ اچھے سے اچھا معالج بھی کبھی اپنی بیماری کو سمجھنے میں ناکام رہ سکتا ہے۔ شائد بوعلی سینا کے بارے میں پڑھا تھا یا کوئی اور مشہور حکیم کے جس بیماری کے علاج میں ان کی شہرت تھی خود وہی بیماری ان کی مرض الموت ثابت ہوئی اور کوئی نسخہ کارگر نہ ہوا۔
پھر ہومیوپیتھی جسم کی وائٹل فورس کو متحرک کرکے بیماری کے خلاف لڑنے کو اکساتی ہے۔ بعض کیسز ایسے ہوتے ہیں کہ جن کے متعلق سائنس کو بھی مسلم ہے کہ وائٹل فورس کتنی ہی پاورفل ہو یہاں کچھ نہیں کرسکتی۔ مثلا ہڈی ٹوٹ جائے تو جب تک اسے اپنی جگہ پر ٹھیک سے بٹھایا نہ جائے وائٹل فورس کیا کرسکتی ہے۔ اس طرح کے کئی کیسز ہیں جہاں ایلوپیتھک طریق علاج اور سرجری کی طرف مریض کو منتقل کرنا بہتر ہے۔
دوسری بات یہ کہ ہومیوپیتھس خود یہ کہتے ہیں کہ اگر مریض کی بیماری سمجھ میں نہیں آرہی تو زبردستی اسے اپنے ہاتھوں میں رکھ کر تختہ مشق بنانے کی بجائے بہتر ہے کہ ایلوپیتھک طریق علاج کی طرف منتقل کردیا جائے۔ یہ بات خود خاکسار نے ایک کتاب میں پڑھی ہے اور امید ہے کہ دیگر مستند ہومیوپیتھس کا بھی یہی رویہ ہوتا ہوگا۔ یہ تو ہومیوپیتھی کی کھلے دل اور تعصب سے پاک ہونے کی نشاندہی کرتی ہے کہ بلاوجہ مریض کی جان کے درپہ نہیں ہوتے اور ایلوپیتھک سے ایسا تعصب نہیں پالتے کہ اس کا نام لینا ہی گناہ سمجھیں۔ خاکسار نے تو یہاں تک پڑھا ہے کہ اگر آپ ہومیوپیتھی کی دوا کے ذریعے مریض کا بخار توڑنے میں کامیاب نہیں ہورہے تو اسے پیناڈول دے دیں لیکن اس کی جان سے مت کھیلیں۔ اب ایمانداری سے بتائیں ایسے کھلے دل کی ’’سوڈوسائنس‘‘ آپ کو کہاں ملے گی۔