اپنے ہومیو پیتھی تجربات شئیر کریں!

بچپن سے ہی ہم بہن بھائیوں میں سے صرف ایک بھائی کو ہومیو پیتھی راس آتی تھی۔ محلے میں ہی ایک لیڈی ہومیو ڈاکٹر تھیں۔ بڑے ہو کر انھیں ٹانسلز کا آپریشن کروانا پڑا۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہومیو پیتھی کی وجہ سے کروانا پڑا۔ :)
ہماری دوائی بھی وہاں آ جاتی تھی، مگر پھر محلے میں ہی موجود ایک ایلوپیتھی جنرل فزیشن سے دوائی آتی تھی۔ جس سے آرام آتا تھا۔

یہاں اسلام آباد میں کچھ ہومیو ڈاکٹر ہیں جو بھاری فیسز بھی لیتے ہیں۔ اور ان کے پاس رش بھی ہوتا ہے۔ میں نے بھی اسی طرح کے ایک مشہور ڈاکٹر سے اپنی ٹانگ میں درد کا علاج کروانے کی کوشش کی، اور پہلے وزٹ کے ہزار، جبکہ فالو اپ وزٹس کے سات سو روپے دیے ہر ہفتے دو ماہ تک۔ کوئی آرام نہیں آیا۔ وہ تو بعد میں ایم آر آئی نے مسئلہ ہی کچھ اور بتایا، جس کی وجہ سے آپریشن کروانا پڑا۔

بیٹی کا چڑچڑا پن بہت زیادہ تھا، اس کے علاوہ لکڑی کتر کر کھاتی تھی، جس کی وجہ سے اس نے ہمارے پورے فرنیچر کی بارڈر اپنے دانتوں سے بنائی۔ :)
اکثر لوگوں نے یہی کہا کہ ہومیو پیتھی کی دوائی سے آرام آ جائے گا۔ ڈاکٹر نے ہفتہ دوائی کے ساتھ خوراک میں کچھ تبدیلی بتائی، کچھ اور ہدایات بھی دیں، اور ہفتہ بعد دوبارہ وزٹ کا کہا۔ دوائی ختم ہونے کے بعد دوبارہ تو نہیں گئے، مگر دیگر ہدایات پر عمل کرنے سے ہی عارضی فرق پڑ گیا۔ بعد میں دوبارہ مسئلہ بڑھنے پر چائلڈ سپیشلسٹ کو دکھایا۔ اس نے بلڈ ٹیسٹ کروایا۔ آئرن میں کمی تشخیص ہوئی۔ مالٹوفر تین ماہ استعمال کی۔ اس کے بعد لکڑیاں کترنے کا عمل مستقل طور پر ختم ہو گیا۔ چڑچڑے پن میں بھی نمایاں کمی آئی۔ :)
 
لگتا ہے یہ دھاگا کم از کم محفل میں ہومیو کے تابوت میں آخری کیل ٹھوک کر ہی رہے گا۔ :laughing3:
مگر ہومیو پیتھی ہمارے گھروں سے ختم نہیں ہو سکتی۔ دیکھ لیجیے فاتح بھائی جیسے مخالف کا گھر بھی "محفوظ" نہیں۔ :)
خیر، ایک مرتبہ پھر ہم آتے ہیں ہومیوپیتھی کے ذاتی تجربات شیئر کرنے کی جانب۔۔۔ کل رات کا تازہ ترین تجربہ پیش خدمت ہے:
کل رات ہماری بیگم صاحبہ نے ایک ہومیوپیتھک دوا بایو پلاسجن نمبر 21 کی شیشی منگوائی ہے کیونکہ ہماری بیٹی 9 ماہ کی ہونے کو آئی ہے لیکن ابھی تک اس نے دانت نکالنا شروع نہیں کیے۔ حالانکہ ہماری ساس صاحبہ (یعنی بیگم کی والدہ صاحبہ) نے کئی مرتبہ کہا کہ "یہ اپنے بڑے ماموں کی طرح ایک سال کی ہو کر نکالے گی دانت" لیکن بیگم نے ہومیوپیتھک منگوا لی ہے۔
Bioplasgen-Teeting-Troubles.jpg

اب دانت تو اس کے دو اڑھائی ماہ میں ویسے بھی نکل ہی آئیں گے لیکن ہومیوپیتھی پر بیگم کا ایمان قوی ہو جائے گا کہ دیکھا، کیسا اثر دکھایا ہومیوپیتھی نے اور آپ کہتے تھے کہ یہ نری بکواس ہے۔ اور اتنے پختہ اور بیّن ثبوت کے بعد میری دیگر لاجکس بھی بیگم کی نظروں میں صفر ہو جائیں گی۔ :laughing:
 

رانا

محفلین
مہنگی فیسیں لینے والے ایک ڈاکٹر کراچی میں بھی ہیں شائد ڈاکٹر چغتائی نام ہے۔ ان کا ذکر اس لئے نہیں کیا تھا کہ ان کے جو علاج کا طریق سنا ہے اس سے لگتا ہے کہ شارٹ کٹ کے متلاشی اور کام چور ٹائپ کے ہیں۔:) وہ مریض کو اصل ہومیو دوائیں جو علامات کی بنیاد پر دینی ہوتی ہیں ان کی بجائے جرمن کمپنیوں کے سیل پیک مرکبات جو عموما نمبرز ہوتے ہیں وہ دیتے ہیں۔ اور ایک بیماری میں کئی کئی نمبرز اور بایوکیمک تجویز کردیتے ہیں کہ مریض کا خرچہ دواؤں پر ہی ہزار دو ہزار ہوجاتا ہے فیس علیحدہ سے۔:)
 
اور ایک بیماری میں کئی کئی نمبرز اور بایوکیمک تجویز کردیتے ہیں
یہ بائیو کیمک پر ابو کو بھی ان کے ایک دوست نے لگایا تھا۔ ابو بارہ جرمن دوائیاں خرید کر لائے تھے۔ انھوں نے ابو کو ایک کتاب بھی دی تھی، جس میں انھی بارہ کیمیکلز سے تمام امراض کی دوائی بنانے کا نسخہ موجود تھا۔ کچھ عرصہ ابو نے یہ شغل کیا۔ پھر اس مقصد سے خریدی گئیں میٹھی گولیاں پوتوں پوتیوں کو کھلا کر ختم کیں۔ :)
 
یہ بائیو کیمک پر ابو کو بھی ان کے ایک دوست نے لگایا تھا۔ ابو بارہ جرمن دوائیاں خرید کر لائے تھے۔ انھوں نے ابو کو ایک کتاب بھی دی تھی، جس میں انھی بارہ کیمیکلز سے تمام امراض کی دوائی بنانے کا نسخہ موجود تھا۔ کچھ عرصہ ابو نے یہ شغل کیا۔ پھر اس مقصد سے خریدی گئیں میٹھی گولیاں پوتوں پوتیوں کو کھلا کر ختم کیں۔ :)
جن دنوں یہ شغل شروع کیا تھا، ہمارے ایک ماموں نے ابو کو مشورہ دیا تھا کہ باہر بورڈ لگوا لیں انجینئر ڈاکٹر احسن صدیقی۔ :)
 

رانا

محفلین
یہ بائیو کیمک پر ابو کو بھی ان کے ایک دوست نے لگایا تھا۔ ابو بارہ جرمن دوائیاں خرید کر لائے تھے۔ انھوں نے ابو کو ایک کتاب بھی دی تھی، جس میں انھی بارہ کیمیکلز سے تمام امراض کی دوائی بنانے کا نسخہ موجود تھا۔ کچھ عرصہ ابو نے یہ شغل کیا۔ پھر اس مقصد سے خریدی گئیں میٹھی گولیاں پوتوں پوتیوں کو کھلا کر ختم کیں۔ :)
بعض بایوکیمک والے سمجھتے ہیں کہ دنیا کہ ہر بیماری کا علاج ان بارہ نمکیات سے کیا جاسکتا ہے۔ چنانچہ وہ ہر بیماری میں انہیں بارہ دواؤں کے اندر محدود رہتے ہیں۔:)
 

زیک

مسافر
دوا جن گولیوں پہ قطروں کی صورت ڈالی جاتی ہے۔ اگر ان گولیوں کو یا سفوف کو ہاتھ لگ جائے تو اثر ختم یا کم ہوجاتا ہے۔
چند دن پہلے کی بات ہے مائگرین ہو رہی تھی۔ تنگ آ کر دوائی لینے کا سوچا۔ شیشی سے ہتھیلی پر دو گولیاں نکالی ہی تھیں کہ پیگی نے باہر جانے کا کہا۔ اسے باہر رفع حاجت کرائی اور کچھ دیر وہ دوڑتی رہی۔ اندر آئے تو گولیاں ہاتھ ہی میں تھیں۔ پانی کے ساتھ نگل لیں۔ وہ تو شکر ہے ہومیوپیتھی کی نہیں تھیں ورنہ آدھ ایک گھنٹے بعد بھی میرا سر درد ٹھیک نہ ہوتا
 

فاتح

لائبریرین
ابھی تک شاید کسی نے کبھی ہومیو کا اپنا تجربہ پیش نہیں کیا۔ :unsure:
لگتا ہے کسی کو اعتبار نہیں ہومیو طریقے پر۔
کیا تو تھا عاطف بھائی۔ لگاتار ایک سال تک ہومیوپیتھی میرے جسم کی گلوکوز کی کمی کو پورا کرتی رہی۔ اس سے بڑا اور مسلسل تجربہ کیا ہو گا۔ سبحان اللہ! :laughing:
 

فاتح

لائبریرین
چند دن پہلے کی بات ہے مائگرین ہو رہی تھی۔ تنگ آ کر دوائی لینے کا سوچا۔ شیشی سے ہتھیلی پر دو گولیاں نکالی ہی تھیں کہ پیگی نے باہر جانے کا کہا۔ اسے باہر رفع حاجت کرائی اور کچھ دیر وہ دوڑتی رہی۔ اندر آئے تو گولیاں ہاتھ ہی میں تھیں۔ پانی کے ساتھ نگل لیں۔ وہ تو شکر ہے ہومیوپیتھی کی نہیں تھیں ورنہ آدھ ایک گھنٹے بعد بھی میرا سر درد ٹھیک نہ ہوتا
ہومیوپیتھی کے سنہرے اصولوں کے مطابق تو پیگی کی رفع حاجت کی "یاد" بھی آپ کے ہاتھ میں موجود گولیوں میں شامل ہو گئی ہو گی۔ اب کون جانے سر درد ٹھیک ہونے کا باعث ان دو گولیوں کا اثر تھا یا اس ہومیوپیتھی "پیگیانا رفع حاجتیکا" دوا کا جو اس دوران "وقوع پذیر" ہوئی۔
 
آخری تدوین:

وجی

لائبریرین
کیوں؟
اس کی وجہ ہے"کامیابی کی شرح"!۔ کتنے لوگ ہیں جن کو ہومیو پیتھی سے علاج میں کامیابی ہوتی ہے، خال خال۔ کوئی ہو گیا تو تجربہ بھی بیان کر دیا۔ دوسری طرف ایلو پیتھی میں کامیابی کی شرح بہت زیادہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ لوگ ادھر کی بجائے ایلو پیتھ ڈاکٹروں کے پاس جاتے ہیں، ان کو بھاری فیسیں بھی دیتے ہیں، ان کی جلی کٹی بھی سنتے ہیں، انتظار کی کوفت بھی اٹھاتے ہیں، ہر طرح کی پریشانی کا سامنا کرتے ہیں لیکن علاج پھر بھی ان سے ہی کرواتے ہیں کیونکہ انہیں یقین ہوتا ہے کہ یہ ڈاکٹر ان کی بیماری کا علاج کر دے گا، کوئی بسترِ مرگ پر بھی اپنے دل کی ساری شریانیں بند کیے بیٹھا ہے تو اسے بھی امید ہے کہ اس کا آپریشن ہو گیا تو وہ ٹھیک ہو جائے گا، دوسری طرف بتانے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔

ہر پیشے میں کچھ بہت لائق کچھ اچھے اور کچھ ۔۔۔۔۔ بس ہوتے ہیں ۔
ہم نے بھی کافی کچھ ہومیوپیتھی ڈاکٹر کا سنا ہے جن کے یہاں بہت رش ہوتا ہے۔
 

جاسمن

لائبریرین
لاہورمیں ڈاکٹر یسین ہیں جنھوں نے سحر کے نام سے ایک ایسوسی ایشن بھی بنائی ہے۔ میرے شاگرد کے بقول وہ تھیلی سیمیا کے مریضوں کا کامیاب علاج کرتے ہیں۔ ایک انھوں نے تھیلی سیمیا کے مریضوں کے لئے مفت علاج کی سہولت رکھی ہے۔
 

جاسمن

لائبریرین
کل میرے شاگرد ڈاکٹر نے وہ واقعہ بتایا جب یونیورسٹی کے پروفیسر کے والد صاحب کا انھوں نے علاج کیا تھا۔ ان کے والد صاحب کو ڈاکٹرز نے صرف تین ماۃ کی زندگی بتائی تھی۔ گردوں میں مسلۂ تھا۔ پروٹین بھی پیشاب کے ساتھ خارج ہورہی تھی۔ انھوں نے ڈاکٹر صاحب کو فون کر کے بتایا۔ اور ڈاکٹر صاحب کے پوچھنے پہ علامات شئیر کرتے رہے۔ اللہ کی طرف سے وہ علامات بالکل میچ کر گئیں اور ڈاکٹر صاحب نے انہیں دوا بتائی کہ وہ اپنے شہر سے خرید کے والد صاحب کو استعمال کرائیں۔ انہوں نے ڈیڑھ ماہ استعمال کرائی اور 2012 کے بعد سے اب تک ماشاءاللہ وہ ٹھیک ہیں۔ وہ پروفیسر سے بھی میری بات ہوئی تھی۔ وہ ڈاکٹر صاحب کے بہت شکر گذار تھے اور انھوں نے ڈاکٹر صاحب سے پوچھا کہ وہ کیا فیس لینا پسند کریں گے۔ مجھے اب یاد آرہا ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے انکار کر دیا تھا اور پروفیسر صاحب نے انھیں ایک اچھے ہوٹل میں کھانا کھلایا تھا۔
 

جاسمن

لائبریرین
میرے شاگرد کے پاس ایک چار سال کی بچی کو لایا گیا۔ اس کو ایلوپیتھک ڈاکٹرز نے جواب دے دیا تھا۔جگر اور تلی کا مسلۂ تھا۔ ڈاکٹرز نے ٹرانسپلانٹ کا کہا تھا جو صرف انڈیا میں ہوسکتا تھا اور ان کی حیثیت نہیں تھی۔ مایوس ہوکے ڈاکٹر صاحب کے پاس آئے تو بچی کا پیٹ بہت بڑا ہوا تھا۔ بھوک نہیں لگتی تھی۔ اللہ کے کرم سے علامات مل گئیں۔ دو ماۃ کا شاید علاج ہوا اور ماشاءاللہ وہ بچی بالکل ٹھیک ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ انڈیا میں ہومیوپیتھک پہ بہت کام ہوا ہے۔ وہاں تو باقاعدہ ہاسپٹلز ہیں۔اور حکومت سرپرستی کرتی ہے۔ یہاں ہر کوئی اٹھ کے ہومیوپیتھک میں داخلہ لیتا ہے اور ڈاکٹر کہلانے لگتا ہے جبکہ محنت نہیں کرتا۔ صرف ڈگریاں ڈاکٹر نہیں بناتیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ ہومیوپیتھی معجزہ ہے اللہ کی طرف سے۔ جہاں ایلوپیتھی ختم ہوتی ہے وہاں سے ہومیوپیتھی شروع ہوتی ہے۔
 

رانا

محفلین
میرے شاگرد کے پاس ایک چار سال کی بچی کو لایا گیا۔ اس کو ایلوپیتھک ڈاکٹرز نے جواب دے دیا تھا۔جگر اور تلی کا مسلۂ تھا۔ ڈاکٹرز نے ٹرانسپلانٹ کا کہا تھا جو صرف انڈیا میں ہوسکتا تھا اور ان کی حیثیت نہیں تھی۔ مایوس ہوکے ڈاکٹر صاحب کے پاس آئے تو بچی کا پیٹ بہت بڑا ہوا تھا۔ بھوک نہیں لگتی تھی۔ اللہ کے کرم سے علامات مل گئیں۔ دو ماۃ کا شاید علاج ہوا اور ماشاءاللہ وہ بچی بالکل ٹھیک ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔جہاں ایلوپیتھی ختم ہوتی ہے وہاں سے ہومیوپیتھی شروع ہوتی ہے۔
ڈاکٹر صاحب کی یہ بات کہ جہاں ایلوپیتھی ختم ہوتی ہے وہاں سے ہومیوپیتھی شروع ہوتی ہے۔ نظر بھی کچھ ایسا ہی آتا ہے۔ وہ اسطرح کہ عموما چھوٹی موٹی بیماریوں کے لئے تو لوگ ہومیوپیتھس کے پاس جاتے ہیں نہیں سیدھا ایلوپیتھک کلینکس میں جاتے ہیں۔ لیکن جہاں وہ ایلوپیتھک کلینکس جواب دے دیتے ہیں ایسے کیسز میں پھر لوگوں کو ہومیوپیتھی یاد آتی ہے۔ اور عجیب بات ہے کہ اللہ کے فضل سے شفا بھی پالیتے ہیں۔ اب ایسے کیسز پر پلیسبو ایفیکٹ والے خاموش ہوجاتے ہیں۔ کوئی یہ نہیں سوچتا کہ اگر یہ پلیسبو ایفیکٹ ہے تو اول تو یہ مانتے ہیں کہ پلیسبو ایفیکٹ نسبتا چھوٹی موٹی بیماریوں میں نظر آتا ہے۔ لیکن کینسر، برین ٹیومر اور دیگر ایسے پیچیدہ کیسز میں پھر کیا توجیہہ پیش کریں گے جہاں ایلوپیتھک ڈاکٹرز بھی جواب دے دیتے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ جب تک مریض ایلوپیتھک کلینک میں تھا اور ایلوپیتھک کے ماہر تجربہ کار ڈاکٹرز کے زیرعلاج تھاتو پلیسبو ایفیکٹ کا راگ الاپنے والوں کو چُپ لگی رہتی ہے لیکن جب ایلوپیتھک ڈاکٹرز نے ہار مان لی اور مریض کو لاعلاج قرار دے کر اس کی زندگی چندہ ماہ بتا کر جواب دے دیا اور وہ ہومیوپیتھی کی طرف آیا اور شفایاب ہوگیا تو اچانک ہومیوپیتھی کے مخالفین کو بھی پلیسبو ایفیکٹ یاد آجاتا ہے۔ :)

وہ بتاتے ہیں کہ انڈیا میں ہومیوپیتھک پہ بہت کام ہوا ہے۔ وہاں تو باقاعدہ ہاسپٹلز ہیں۔اور حکومت سرپرستی کرتی ہے۔ یہاں ہر کوئی اٹھ کے ہومیوپیتھک میں داخلہ لیتا ہے اور ڈاکٹر کہلانے لگتا ہے جبکہ محنت نہیں کرتا۔ صرف ڈگریاں ڈاکٹر نہیں بناتیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ ہومیوپیتھی معجزہ ہے اللہ کی طرف سے۔ جہاں ایلوپیتھی ختم ہوتی ہے وہاں سے ہومیوپیتھی شروع ہوتی ہے۔
پاکستان میں یہ بات تو بالکل درست ہے کہ ہر ایرا غیرا ہومیوپیتھک میں داخلہ لے لیتا ہے۔ پھر کوئی میرٹ بھی نہیں ہے۔ جب خاکسار انٹر میں تھا تو اس وقت ہومیوپیتھک کالج میں داخلے کی شرط صرف میٹرک تھی۔ چاہے کوئی گریڈ ہو اور خواہ میٹرک آرٹس میں ہی کیوں نہ ہو۔ جب میرٹ اس طرح گرادیں گے تو پھر ہومیوپیتھک کا پاکستان میں جو حال اب ہے یہی ہونا تھا۔
 
جب خاکسار انٹر میں تھا تو اس وقت ہومیوپیتھک کالج میں داخلے کی شرط صرف میٹرک تھی۔ چاہے کوئی گریڈ ہو اور خواہ میٹرک آرٹس میں ہی کیوں نہ ہو۔
جی میرے میٹرک کے ایک ہم جماعت نے میٹرک کے بعد ہومیو پیتھی کا کورس ہی شروع کیا تھا۔
 

زیک

مسافر
گروسری کرنے ہول فوڈز گیا تو وہاں ہومیوپیتھی کی “دوائیوں” کی لائن لگی تھی۔ جو مرضی خریدیں، کھائیں اور گن گائیں۔
 
Top