سید عاطف علی
لائبریرین
ڈر شر رہے ہیں یا ڈر کے شر سے ڈر رہے ہیں ؟تجربہ سب کا ہی ہے، بس ذرا بتاتے ہوئے "ڈر" شر رہے ہیں۔
ڈر شر رہے ہیں یا ڈر کے شر سے ڈر رہے ہیں ؟تجربہ سب کا ہی ہے، بس ذرا بتاتے ہوئے "ڈر" شر رہے ہیں۔
مگر ہومیو پیتھی ہمارے گھروں سے ختم نہیں ہو سکتی۔ دیکھ لیجیے فاتح بھائی جیسے مخالف کا گھر بھی "محفوظ" نہیں۔لگتا ہے یہ دھاگا کم از کم محفل میں ہومیو کے تابوت میں آخری کیل ٹھوک کر ہی رہے گا۔
خیر، ایک مرتبہ پھر ہم آتے ہیں ہومیوپیتھی کے ذاتی تجربات شیئر کرنے کی جانب۔۔۔ کل رات کا تازہ ترین تجربہ پیش خدمت ہے:
کل رات ہماری بیگم صاحبہ نے ایک ہومیوپیتھک دوا بایو پلاسجن نمبر 21 کی شیشی منگوائی ہے کیونکہ ہماری بیٹی 9 ماہ کی ہونے کو آئی ہے لیکن ابھی تک اس نے دانت نکالنا شروع نہیں کیے۔ حالانکہ ہماری ساس صاحبہ (یعنی بیگم کی والدہ صاحبہ) نے کئی مرتبہ کہا کہ "یہ اپنے بڑے ماموں کی طرح ایک سال کی ہو کر نکالے گی دانت" لیکن بیگم نے ہومیوپیتھک منگوا لی ہے۔
اب دانت تو اس کے دو اڑھائی ماہ میں ویسے بھی نکل ہی آئیں گے لیکن ہومیوپیتھی پر بیگم کا ایمان قوی ہو جائے گا کہ دیکھا، کیسا اثر دکھایا ہومیوپیتھی نے اور آپ کہتے تھے کہ یہ نری بکواس ہے۔ اور اتنے پختہ اور بیّن ثبوت کے بعد میری دیگر لاجکس بھی بیگم کی نظروں میں صفر ہو جائیں گی۔
یہ بائیو کیمک پر ابو کو بھی ان کے ایک دوست نے لگایا تھا۔ ابو بارہ جرمن دوائیاں خرید کر لائے تھے۔ انھوں نے ابو کو ایک کتاب بھی دی تھی، جس میں انھی بارہ کیمیکلز سے تمام امراض کی دوائی بنانے کا نسخہ موجود تھا۔ کچھ عرصہ ابو نے یہ شغل کیا۔ پھر اس مقصد سے خریدی گئیں میٹھی گولیاں پوتوں پوتیوں کو کھلا کر ختم کیں۔اور ایک بیماری میں کئی کئی نمبرز اور بایوکیمک تجویز کردیتے ہیں
جن دنوں یہ شغل شروع کیا تھا، ہمارے ایک ماموں نے ابو کو مشورہ دیا تھا کہ باہر بورڈ لگوا لیں انجینئر ڈاکٹر احسن صدیقی۔یہ بائیو کیمک پر ابو کو بھی ان کے ایک دوست نے لگایا تھا۔ ابو بارہ جرمن دوائیاں خرید کر لائے تھے۔ انھوں نے ابو کو ایک کتاب بھی دی تھی، جس میں انھی بارہ کیمیکلز سے تمام امراض کی دوائی بنانے کا نسخہ موجود تھا۔ کچھ عرصہ ابو نے یہ شغل کیا۔ پھر اس مقصد سے خریدی گئیں میٹھی گولیاں پوتوں پوتیوں کو کھلا کر ختم کیں۔
بعض بایوکیمک والے سمجھتے ہیں کہ دنیا کہ ہر بیماری کا علاج ان بارہ نمکیات سے کیا جاسکتا ہے۔ چنانچہ وہ ہر بیماری میں انہیں بارہ دواؤں کے اندر محدود رہتے ہیں۔یہ بائیو کیمک پر ابو کو بھی ان کے ایک دوست نے لگایا تھا۔ ابو بارہ جرمن دوائیاں خرید کر لائے تھے۔ انھوں نے ابو کو ایک کتاب بھی دی تھی، جس میں انھی بارہ کیمیکلز سے تمام امراض کی دوائی بنانے کا نسخہ موجود تھا۔ کچھ عرصہ ابو نے یہ شغل کیا۔ پھر اس مقصد سے خریدی گئیں میٹھی گولیاں پوتوں پوتیوں کو کھلا کر ختم کیں۔
چند دن پہلے کی بات ہے مائگرین ہو رہی تھی۔ تنگ آ کر دوائی لینے کا سوچا۔ شیشی سے ہتھیلی پر دو گولیاں نکالی ہی تھیں کہ پیگی نے باہر جانے کا کہا۔ اسے باہر رفع حاجت کرائی اور کچھ دیر وہ دوڑتی رہی۔ اندر آئے تو گولیاں ہاتھ ہی میں تھیں۔ پانی کے ساتھ نگل لیں۔ وہ تو شکر ہے ہومیوپیتھی کی نہیں تھیں ورنہ آدھ ایک گھنٹے بعد بھی میرا سر درد ٹھیک نہ ہوتادوا جن گولیوں پہ قطروں کی صورت ڈالی جاتی ہے۔ اگر ان گولیوں کو یا سفوف کو ہاتھ لگ جائے تو اثر ختم یا کم ہوجاتا ہے۔
میٹرک تو میں نے سائنس میں کی تھی اور یہ ہانیمنیوپیتھی ہے سوڈو سائنسدوسری بات کہ میٹرک انٹر کے پرچوں میں ایک ایک سطر کے سوال کا جواب کیا آپ ایک سطر میں ہی کافی سمجھتے تھے۔
کیا تو تھا عاطف بھائی۔ لگاتار ایک سال تک ہومیوپیتھی میرے جسم کی گلوکوز کی کمی کو پورا کرتی رہی۔ اس سے بڑا اور مسلسل تجربہ کیا ہو گا۔ سبحان اللہ!ابھی تک شاید کسی نے کبھی ہومیو کا اپنا تجربہ پیش نہیں کیا۔
لگتا ہے کسی کو اعتبار نہیں ہومیو طریقے پر۔
ہومیوپیتھی کے سنہرے اصولوں کے مطابق تو پیگی کی رفع حاجت کی "یاد" بھی آپ کے ہاتھ میں موجود گولیوں میں شامل ہو گئی ہو گی۔ اب کون جانے سر درد ٹھیک ہونے کا باعث ان دو گولیوں کا اثر تھا یا اس ہومیوپیتھی "پیگیانا رفع حاجتیکا" دوا کا جو اس دوران "وقوع پذیر" ہوئی۔چند دن پہلے کی بات ہے مائگرین ہو رہی تھی۔ تنگ آ کر دوائی لینے کا سوچا۔ شیشی سے ہتھیلی پر دو گولیاں نکالی ہی تھیں کہ پیگی نے باہر جانے کا کہا۔ اسے باہر رفع حاجت کرائی اور کچھ دیر وہ دوڑتی رہی۔ اندر آئے تو گولیاں ہاتھ ہی میں تھیں۔ پانی کے ساتھ نگل لیں۔ وہ تو شکر ہے ہومیوپیتھی کی نہیں تھیں ورنہ آدھ ایک گھنٹے بعد بھی میرا سر درد ٹھیک نہ ہوتا
کیوں؟
اس کی وجہ ہے"کامیابی کی شرح"!۔ کتنے لوگ ہیں جن کو ہومیو پیتھی سے علاج میں کامیابی ہوتی ہے، خال خال۔ کوئی ہو گیا تو تجربہ بھی بیان کر دیا۔ دوسری طرف ایلو پیتھی میں کامیابی کی شرح بہت زیادہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ لوگ ادھر کی بجائے ایلو پیتھ ڈاکٹروں کے پاس جاتے ہیں، ان کو بھاری فیسیں بھی دیتے ہیں، ان کی جلی کٹی بھی سنتے ہیں، انتظار کی کوفت بھی اٹھاتے ہیں، ہر طرح کی پریشانی کا سامنا کرتے ہیں لیکن علاج پھر بھی ان سے ہی کرواتے ہیں کیونکہ انہیں یقین ہوتا ہے کہ یہ ڈاکٹر ان کی بیماری کا علاج کر دے گا، کوئی بسترِ مرگ پر بھی اپنے دل کی ساری شریانیں بند کیے بیٹھا ہے تو اسے بھی امید ہے کہ اس کا آپریشن ہو گیا تو وہ ٹھیک ہو جائے گا، دوسری طرف بتانے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔
ڈاکٹر صاحب کی یہ بات کہ جہاں ایلوپیتھی ختم ہوتی ہے وہاں سے ہومیوپیتھی شروع ہوتی ہے۔ نظر بھی کچھ ایسا ہی آتا ہے۔ وہ اسطرح کہ عموما چھوٹی موٹی بیماریوں کے لئے تو لوگ ہومیوپیتھس کے پاس جاتے ہیں نہیں سیدھا ایلوپیتھک کلینکس میں جاتے ہیں۔ لیکن جہاں وہ ایلوپیتھک کلینکس جواب دے دیتے ہیں ایسے کیسز میں پھر لوگوں کو ہومیوپیتھی یاد آتی ہے۔ اور عجیب بات ہے کہ اللہ کے فضل سے شفا بھی پالیتے ہیں۔ اب ایسے کیسز پر پلیسبو ایفیکٹ والے خاموش ہوجاتے ہیں۔ کوئی یہ نہیں سوچتا کہ اگر یہ پلیسبو ایفیکٹ ہے تو اول تو یہ مانتے ہیں کہ پلیسبو ایفیکٹ نسبتا چھوٹی موٹی بیماریوں میں نظر آتا ہے۔ لیکن کینسر، برین ٹیومر اور دیگر ایسے پیچیدہ کیسز میں پھر کیا توجیہہ پیش کریں گے جہاں ایلوپیتھک ڈاکٹرز بھی جواب دے دیتے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ جب تک مریض ایلوپیتھک کلینک میں تھا اور ایلوپیتھک کے ماہر تجربہ کار ڈاکٹرز کے زیرعلاج تھاتو پلیسبو ایفیکٹ کا راگ الاپنے والوں کو چُپ لگی رہتی ہے لیکن جب ایلوپیتھک ڈاکٹرز نے ہار مان لی اور مریض کو لاعلاج قرار دے کر اس کی زندگی چندہ ماہ بتا کر جواب دے دیا اور وہ ہومیوپیتھی کی طرف آیا اور شفایاب ہوگیا تو اچانک ہومیوپیتھی کے مخالفین کو بھی پلیسبو ایفیکٹ یاد آجاتا ہے۔میرے شاگرد کے پاس ایک چار سال کی بچی کو لایا گیا۔ اس کو ایلوپیتھک ڈاکٹرز نے جواب دے دیا تھا۔جگر اور تلی کا مسلۂ تھا۔ ڈاکٹرز نے ٹرانسپلانٹ کا کہا تھا جو صرف انڈیا میں ہوسکتا تھا اور ان کی حیثیت نہیں تھی۔ مایوس ہوکے ڈاکٹر صاحب کے پاس آئے تو بچی کا پیٹ بہت بڑا ہوا تھا۔ بھوک نہیں لگتی تھی۔ اللہ کے کرم سے علامات مل گئیں۔ دو ماۃ کا شاید علاج ہوا اور ماشاءاللہ وہ بچی بالکل ٹھیک ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔جہاں ایلوپیتھی ختم ہوتی ہے وہاں سے ہومیوپیتھی شروع ہوتی ہے۔
پاکستان میں یہ بات تو بالکل درست ہے کہ ہر ایرا غیرا ہومیوپیتھک میں داخلہ لے لیتا ہے۔ پھر کوئی میرٹ بھی نہیں ہے۔ جب خاکسار انٹر میں تھا تو اس وقت ہومیوپیتھک کالج میں داخلے کی شرط صرف میٹرک تھی۔ چاہے کوئی گریڈ ہو اور خواہ میٹرک آرٹس میں ہی کیوں نہ ہو۔ جب میرٹ اس طرح گرادیں گے تو پھر ہومیوپیتھک کا پاکستان میں جو حال اب ہے یہی ہونا تھا۔وہ بتاتے ہیں کہ انڈیا میں ہومیوپیتھک پہ بہت کام ہوا ہے۔ وہاں تو باقاعدہ ہاسپٹلز ہیں۔اور حکومت سرپرستی کرتی ہے۔ یہاں ہر کوئی اٹھ کے ہومیوپیتھک میں داخلہ لیتا ہے اور ڈاکٹر کہلانے لگتا ہے جبکہ محنت نہیں کرتا۔ صرف ڈگریاں ڈاکٹر نہیں بناتیں۔ انھوں نے مزید کہا کہ ہومیوپیتھی معجزہ ہے اللہ کی طرف سے۔ جہاں ایلوپیتھی ختم ہوتی ہے وہاں سے ہومیوپیتھی شروع ہوتی ہے۔
جی میرے میٹرک کے ایک ہم جماعت نے میٹرک کے بعد ہومیو پیتھی کا کورس ہی شروع کیا تھا۔جب خاکسار انٹر میں تھا تو اس وقت ہومیوپیتھک کالج میں داخلے کی شرط صرف میٹرک تھی۔ چاہے کوئی گریڈ ہو اور خواہ میٹرک آرٹس میں ہی کیوں نہ ہو۔