ایک تکفیری طالبانی مفتی کی پاکستان آرمی کے کے مولوی صاحب سے ہوش ربا گفتگو۔۔۔۔

عمر ثالث

محفلین
ویسے اگر طالبان کی بنیاد اور حقیقت کی طرف جائیں تو یہ طالبان بھی قومیت کی بنیاد پر ابھرے تھے افغانستان میں روس کے انخلا کے بعد خاص طور پر جب مرحوم ربانی صدر بنے تو یہ بات پشتونوں کو ناگوار گذری فارسی اور پشتونوں کا جھگڑا افغانستان میں کافی طویل عرصے سے چل رہا تھا حتی کہ خود روس سے جنگ کے زمانے میں ہر ہر قومیت کی الگ الگ جماعتیں تھیں روس نے ان کو متحد کردیا تھا لیکن اس اتحاد میں بھی جماعتی بنیاد پر علیحدہ علیحدہ شناخت کو ان لوگوں نے برقرار رکھا مرحوم ربانی چونکہ تاجک اور فارسی زبان کے حامل تھے اور ملکی عہدوں پر اکثریت فارسی دان لوگوں کی تھی تو اس وقت طالبان اسلام کا نام لے کر کھڑے ہوئے۔
میری اس بات کی صداقت کسی ایسے آدمی سے کی جاسکتی ہے جو افغانستان کا باشندہ ہو تمام اہل افغانستان کے نزدیک یہ محض قومیتوں کی لڑائی تھی جو شمالی اتحاد اور طالبان کے درمیان چلتی رہی پھر چونکہ طالبان کو کافی سارے علاقوں میں کامیابی حاصل ہوئی تو پاکستانی افواج اور آئی ایس آئی نے بھی طالبان کا بھرپور ساتھ دیا اور طالبان کی تشہیری مہم کے لیے پاکستان کے نامور علما کو بھی استعمال کیا گیا چونکہ معاملہ اسلام اور کفر کا بنایا جاچکا تھا اس لیے پاکستانی عوام بھی اس دھوکے میں آگئے کہ شمالی اتحاد اور طالبان کے درمیان لڑائی اسلام اور کفر کی جنگ ہے لیکن درحقیقت یہ قومیتوں کی لڑائی تھی اور پاکستان بھی جو طالبان کی پشت پناہی کی وہ امریکی اشاروں پر کی چونکہ امریکہ کو یہاں آنا تھا اس کے لیے طالبان کو اسلام کے نام پر خلافت کے نام کھڑا کرنا ضروری تھا تاکہ اسلام اور اسلامی احکامات اور جہاد پوری دنیا کے اندر خوب اچھی طرح بدنامی کا شکار ہوجائے۔
آج بہت سے لوگ جنہیں طالبان کے اس حقیقی پس منظر کا علم نہیں ہے وہ رائے تو جذبات کی رو میں بہہ کردے رہے ہیں لیکن اس حقیقت اور سچ سے یکسر لا علم ہیں کہ طالبان اصلا پشتونوں کی حکومت تھی ، شمالی اتحاد والے بھی مسلمان تھے احمد شاہ مسعود اور ربانی اس کی سربراہی کررہے تھے ادھر طالبان میں بھی سب مسلمان ، طالبان نے مزار اور ہزارہ قبائل رشید دوستم کو تو کسی نہ کسی طرح زیر کرلیا لیکن احمد شاہ مسعود اور شمالی اتحاد ان کے قابو نہ آسکا اور طالبان کی پس پردہ اسلام کے نام پر القاعدہ اور اسامہ کو بھی دوبارہ مشق آزمائی کا موقع مل گیا۔
طالبان کے بارے میں یہ تو درست ہے کہ ان کی اکثریت پشتونوں کی تھی لیکن اسے قومیتوں کی لڑائی سمجھنا درست نہیں۔ افغانستان کے جنوبی علاقوں میں ویسے بھی پشتون اکثریت میں ہیں۔ لیکن طالبان نے کبھی قومیت کو فروغ نہیں دیا، بلکہ بہت سے تاجک اور ازبک بھی ان کی صفوں میں شامل رہے ہیں۔
بھائی ہمیں ہمدردی صرف طالبان سے نہیں، آپ سے بھی ہے اور اپنے ہر مسلمان بھائی سے بھی ہے۔ کیا آپ اس سے متفق ہیں کہ ہمارے ملک میں شریعت کا نفاذ کا ہونا چاہیے؟ آپ اوپر درج قرآن کی آیت کو ضرور دیکھ لیں ایک بار۔
اگر شمالی والے پکے اور کھرے مسلمان ہوتے تو اب امریکی غاصبوں کی صف میں کبھی نہ کھڑے ہوتے۔
طالبان میرے کوئی’’چاچے دے پتر‘‘ نہیں ہیں کہ میں ہمدردی جتا رہا ہوں، بلکہ اگر شمالی والے شریعت کا نفاذ اور اسلامی قوانین کے اطلاق پر راضی ہو جائیں تو وہ بھی سر آنکھوں پر۔۔۔۔ نہیں تو جوتے کی نوک پر۔ دو ایکن دو اور دو دونی چار والی بات ہے۔

اب پاکستانی طالبان کے پاس دو ہی عذر ہیں افواج سے لڑنے کے۔ ایک امریکہ کا ساتھ چھوڑا جائے اور دوسرا شریعت کا نفاذ کیا جائے۔ دل پر ہاتھ رکھ کر بتلائیے کیا ہر پکا مسلمان اور سچا پاکستانی یہ نہیں چاہتا؟
اگر یہ دونوں چیزیں ہم سب چاہتے ہیں تو اب یہ مقتدر طبقہ کا فرض بنتا ہے کہ وہ ان دونوں چیزوں پر عمل کرکے طالبان کی مزاحمت کا جواز ہی ختم کر دیں۔ تاکہ کم سے کم مکمل عوامی حمایت تو حاصل ہو اور طالبان کا بلاوجہ دفاع کرنے والوں کا بھی منہ بند ہو جائے۔
 

عسکری

معطل
ویسے پاکستان میرا ملک نا ہوتا تو میں ایک بار دیکھنا چاہوں گا اسے طالبانی قانون کے نیچے ھھھھھھھھ مزہ تو تب آتا جب میں تو لوگن ہوتا پر یہ سب کی بورڈ طالبان کا نیٹ ہی نا ہوتا : میں تو اے سی میں آرام سے کام کرتا اور ان کے پاس 30 سال تک بجلی ہی نا ہوتی ۔ میں اپنی مرضی کے کپڑے پہن کر جاتا کام پر اور یہ مجبوری میں داڑھیاں رکھا کر اونچی سلواریں زیب تن کرتے ۔ ہمارے ہونے والے بچے ڈاکڑ وکیل جج سائنسدان بنتے اور ان کے طالب فوجی : آتا مزہ جب ان کی ماں بہنیں باہر نکلتی ٹوپی والے برقعے میں کسی کام سے تو ان کے چہیتے انہیں ہنٹر مارتے۔ تب آتا مزہ جب ملک میں آٹا چائے چینی سیمنٹ نا ملتی سگریٹ پینے انڈیا یا ایران جاتے ۔ جب ان کے کھروں سے ٹی وی کمپوٹر سی ڈیز اٹھا کر ان کو ٹحوکریں ماری جاتیں ۔لگتا اسلام اور لگ پتہ جاتا:rollingonthefloor: لیکن کیا کروں پاکستانی ہوں سوچتا ہوں میری قوم بھی 2 کروڑ بچے گی مر مر کے بھوک غربت جہالت جنگ تباہی سے :frustrated:
 

عمر ثالث

محفلین
ویسے پاکستان میرا ملک نا ہوتا تو میں ایک بار دیکھنا چاہوں گا اسے طالبانی قانون کے نیچے ھھھھھھھھ مزہ تو تب آتا جب میں تو لوگن ہوتا پر یہ سب کی بورڈ طالبان کا نیٹ ہی نا ہوتا : میں تو اے سی میں آرام سے کام کرتا اور ان کے پاس 30 سال تک بجلی ہی نا ہوتی ۔ میں اپنی مرضی کے کپڑے پہن کر جاتا کام پر اور یہ مجبوری میں داڑھیاں رکھا کر اونچی سلواریں زیب تن کرتے ۔ ہمارے ہونے والے بچے ڈاکڑ وکیل جج سائنسدان بنتے اور ان کے طالب فوجی : آتا مزہ جب ان کی ماں بہنیں باہر نکلتی ٹوپی والے برقعے میں کسی کام سے تو ان کے چہیتے انہیں ہنٹر مارتے۔ تب آتا مزہ جب ملک میں آٹا چائے چینی سیمنٹ نا ملتی سگریٹ پینے انڈیا یا ایران جاتے ۔ جب ان کے کھروں سے ٹی وی کمپوٹر سی ڈیز اٹھا کر ان کو ٹحوکریں ماری جاتیں ۔لگتا اسلام اور لگ پتہ جاتا:rollingonthefloor: لیکن کیا کروں پاکستانی ہوں سوچتا ہوں میری قوم بھی 2 کروڑ بچے گی مر مر کے بھوک غربت جہالت جنگ تباہی سے :frustrated:
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے ’’تیرے‘‘ ارماں، لیکن پھر بھی کم نکلے
مرزا غالب سے ذرا معذرت کے ساتھ۔

آپ ہمیں کی بورڈ طالبان کہہ رہے ہیں۔ اگر میں آپ کو کی بورڈ صلیبی کہوں تو کیسا رہے گا؟ لیکن مجھے یہ سب اچھا نہیں لگتا۔ ذاتیات سے ہٹ کر بات کی جائے تو سنی بھی جاتی ہے۔
 

عسکری

معطل
جی میں افغانستان کی تاریخ کا مطالعہ کر چکا ہوں، ایسا ہی ہے کہ پہلی بار جہاد اپنی ہی حکومت کے خلاف شروع ہوا۔ لیکن آپ اس سب کو صرف اصلاحات میں تبدیلی ہی کیوں سمجھتے ہیں۔ آپ یہ کیوں نہیں کہتے کہ روس کے توسیع پسندانہ عزائم کے خلاف پہلی اینٹ کمیونسٹ ایجنڈا نافذ کرنے کے متصلاً بعد شروع کر دی گئی۔ کیا افغانستان کے لوگوں کو اس بات کا حق نہیں تھا کہ وہ ایک غیر اسلامی تبدیلی کے خلاف مزاحمت کریں۔ بلکہ یہ حق صرف افغانیوں کو ہی نہیں ہر مسلمان کا ہے، اس سے بھی آگے بڑھ کر فرض کی حیثیت رکھتا ہے۔

اس سے پہلے کہ بات مزاحمت تک جاتی آپ خود بتائیں آج وہ ملک اچھے رہ گئے جنہوں نے پر امن مزاحمت کی اور جنہوں نے ایک سسٹم سے خود کو بچایا یا یہ جنگل جو دنیا کا میدان جنگ ہے ؟ بڑی طاقتیں تو ہمیشہ سے ہی علاقوں پر اثر بڑاھنے کی کوشش کرتی ہیں یہ تو بچنے والوں کے کام ہیں کہ خود کو بھی بچائیں اور معاملات پر کنٹرول رکھیں ۔

جی طالبان کل ہی کی بات ہیں۔ امن کے نام پر عوام کے قتلِ عام کا کوئی واضح ثبوت نہیں ہے، ہاں جنہوں نے بھی ان سے جنگ کی جوب ضرور دیا گیا۔
آپ اس بندوق والے کلچر کو طالبان کا ورثہ کہہ رہے ہیں، لیکن میری نظر میں اسلحہ مسلمانوں کا زیور ہے۔ اسے طالبان کیا باقی مسلمانوں کے زیرِ استعمال ہونا بھی چاہیے۔ بحث طلب اس کا غلط اور صحیح استعمال ہے۔

قتل عام کے ثبوت اتنے ہیں کہ آپ بھی جانتے ہیں پر کیونکہ آپ طرفدارانہ سوچ رکھتے ہیں اور ہم آزاد سو آپ کیسے دیکھ سکتے ہیں؟8000 ہزارہ شیعوں کو طالبان نے 1996 میں مزار شریف پر قبضے کے وقت قتل کیا تھا ملا نیازی نے اوپن ریڈیو پر کہا تھا ہزارہ مسلمان نہیں وہ شعیہ ہیں اور اب حساب دینا ہو گا ان کو ۔ اسلحہ مومن کا زیور ہو گا پر یہاں اسلحہ اب ویسے نہیں رکھا جا سکتا ۔ اس کی مثال غلاموں کے قانون سے لے لیں تب تو غلام لونڈیاں خریدی بیچی جا سکتی تھی اسلام میں اس کی ممانت نا تھی اب ایسا کر سکتے ہو آپ؟ تب تو کہا گیا تھا کہ اگر شادی نہیں کر سکتے تو نیک صالح لونڈی بھی ٹھیک ہے اب ایسا کر سکتے ہیں؟ اسلحہ واقعی مومن فوجیوں کا زیور ہے اور جس نے اسے حاصل کرنا ہے وہ یا تو فورسز جوائن کر لے یا پھر پاکستانی قانون کے مطابق لائسنس لے جس میں آٹو میٹک اسلحہ ممنوع ہے ۔ آپ وہ حدیث کیوں بھول جاتے ہیں جب صحابہ سے نبی نے فرمایا اپنے ہتھیار بازاروں میں مت لایا کرو کہ ان سے کمزوروں بوڑھوں بچوں کو تکلیف ہوتی ہے؟ ہتھیار تب تک ٹھیک بھی تھے آج کے آٹؤمیٹک ہتھیار پل بھر میں کئی جانیں نگل جاتے ہیں اور یہ صرف زمہ دار فوجیوں کے پاس ہی اچھے ہیں۔

دہشت گرد کون ہے اور کون نہیں، اس سب کے تعریف یقیناً آپ وہی کرنا چاہ رہے ہیں جو علمی دہشت گرد امریکا اور اس کے حواری دنیا کو بتانا چاہتے ہیں۔
امریکی بھی آپ کی طرح پریشان ہیں مجھ سے ھھھھھھھھھھ ابھی کل پرسوں ہی میں نے ایک سوئس شہری جو کہ میرا ٹرینر تھا بات کی تو وہ بھی کہہ رہا تھا تم پر اسلامزم اور طالبان پروپیکنڈے کا اثر ہے ھھھھھھھھھھھھھ میں سمپلی اسے سمجھا رہا تھا کہ ناٹو فوجیں غیر قانونی طریقے سے ہمارے علاقے میں ہیں۔

اگر کسی کے اپنے گھر یا اس کے کسی پڑوسی یا رشتہ دار کے گھر کوئی چور ڈاکو گھس آئے اور وہ ان کے خلاف مزاحمت کرے۔ تو کوئی بھی اس دنیا کا روشن خیال یہ نہیں کہے گا کہ یہ مزاحمت کرنے والا دہشت گردہے۔ یہی مثال امریکہ اور اس کے خلاف مزاحمت کرنے والوں کی ہے۔ جنہیں آپ کے نزدیک طالبان نے پناہ دے کر اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماری۔
یہ مثال تب صادق آتی ہے جب کہ اگلے معصوم ہوں پر یہاں تو سب کے سب وہ تھے جو اپنے ملکوں میں قتل سازش قتل ٹارگٹ قتل اور دھماکوں میں مطلوب تھے ۔اور انہوں نے یہ کام تب بھی کیا جب امریکہ افغانستان عراق میں نا تھا ۔ اور اب بھی کر رہے ہیں اور جب تک ان کا صفایا نا ہوا کرتے رہیں گے۔یہ ایسا ہے میرا بیٹا باہر جا کر 40 بندے مار آئے اور اسے پکڑنے والوں کو میں کہوں یہ پناہ لیے ہوئے ہے اسلئے اسے ہاتھ مت لگاؤ میرے گھر میں داخل مت ہو ۔

مسلمانوں پر کیا کیا فرض عائد ہوتے ہیں اور انہیں امّت کو بچانے کے لیے کیا ذمہ داری نبھانی ہے، یہ ایک مسلمان ہی بخوبی سمجھ سکتا ہے۔ اسی لیے میں نے آپ سے ایک ذاتی سوال کر ڈالا۔ ہم مسلمان اس دھرتی کو رب کی دھرتی سمجھتے ہیں اور یہاں رب کا قانون ہی چاہتے ہیں
یہ دھرتی آُ کے لیے جس کی بھی ہو پر اس پر قانون ان کا چلتا ہے جو یہاں کے باشندے ہوں طالبان مسلمان یا کسی کو بھی یہ کوئی حق نہیں کہ اپنا یا اپنے مزحب کا بنایا ہوا قانون باقی دنیا پر تھوپیں۔یہ جنگلی کون ہوتے ہیں ہزاروں سال کی سویلائزیشنز کو اپنی مرضی سے چلانے والے؟ ان کو کیا حق ہے کہ دوسروں کو بندوق کی نوک پر بتائیں کیا ٹھیک ہے کیا غلط؟اور یہ لوگ جو اپنی گلی کوچوں میں مارے جا رہے ہیں چھپ چھپا کر یہ کیسے اپنے بارڈر سے پیر نکال سکتے ہیں؟ ان میں اتنی پاور شاید 5000 سال تک نا آئے یہ تلوار تیر نیزے کلاشنکوف کا دور نہیں اپنا سر پھڑوانا ہے تو صرف ٹکر مار لیں

۔
اگر اس میں کوئی شخص یا شخصیات، قوم یا اقوام رخنہ ڈالنے کی کوشش کرنا چاہتی ہیں تو ان کے لیے لائحۂ عمل کیا ہونا چاہیے، یہ سب بھی ہمارا دین ہمیں واضح بتاتا ہے۔

آپ کا دین کب بتاتا ہے کہ امریکہ سے جاپان تک قبضہ کر لو جا کر اور دنیا کو اپنی مرضی سے چلاؤ جبکہ آپ کے اپنے گھر میں اتنے فرقے اتنا خون بہتا ہے کہ اب خون اور اسلام کو ہر جگہ نتھی کیا جاتا ہے؟ آُ پہلے عید پر تو اتفاق کر لو ۔کبھی کرسمس دیوالی ہولی بھی 2 دن ہوئی ہے ؟:grin:
آپ سے مؤدبانہ گزارش ہے کہ پہلے اسلام کے بنیادی اصول و قوانین کا مطالعہ کریں اور پھر اسلام سے متعلقہ امور پر بولیں۔

آپ سے گزارش ہے کہ آپ اس کو چھوڑ ہی دیں ورنہ آُ کے دلائل کم اور میرا اسلام کا علم بھاری ہی نا پڑ جائے :rollingonthefloor: آپ نے ان اسلامی لائیبریروں کے نام تک نہیں سنے جنہیں میں چھانتا رہا ۔:whistle:
 

عسکری

معطل
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے ’’تیرے‘‘ ارماں، لیکن پھر بھی کم نکلے
مرزا غالب سے ذرا معذرت کے ساتھ۔

آپ ہمیں کی بورڈ طالبان کہہ رہے ہیں۔ اگر میں آپ کو کی بورڈ صلیبی کہوں تو کیسا رہے گا؟ لیکن مجھے یہ سب اچھا نہیں لگتا۔ ذاتیات سے ہٹ کر بات کی جائے تو سنی بھی جاتی ہے۔

پر میں تو عیسائی نہیں ہوں مجھے فرق نہیں پڑتا ویسے کی بورڈ صلیبی اچھا ہے کیونکہ صلیب نہیں روکتا نیٹ سے پر طالبانی اسلام میں یہ حرام ہے ۔اس میں تصؤیریں ہوتی ہیں یہ شیطان کا ڈبہ ہے ھھھھھھھھھھ ظالبان سے جب پوچھا گیا کہ آپ کس حد تک تفریح کے حق میں ہیں آُ نے تو کابل چڑیا گھر کے سارے جانور پرندے تک مار دیے ہیں۔ تو جواب آیا ہمارے قانون کے مطابق مرد حضرات درختوں پھولوں کو دیکھ کر تفریح کر لیں ویسے یہ بھی اچھا نہیں انہیں قرآن پڑھ کر تفریح کرنی چاہیے ۔:rollingonthefloor:
 

dxbgraphics

محفلین
طالبان بھائی ہیں پر آپ کے بھائیوں نے جو کارنامہ انجام دیا ہے اس میں ایک ہونا نہیں بلکہ خؤد اسلامی قانون میں اتنی سزا بنتی ہے کہ ہر طالب کی 100 بار گردن زنی کی جائے کیا آپ اپنے بھائیوں کو پیش کریں گے کہ 30 ہزار پاکستانیوں کے قتل کو عدالتوں میں فیس کریں؟ یعینی کیونکہ وہ میرا بھائی ہے اسلیئے اسے سب معاف کیا یہ اسلامی قانون کہتا ہے؟ اگر ایک ہوں گے تو ان 30 ہزار ناحق قتل ہونے والے مردوں بوڑھوں بچوں عورتوں کے خون کا کون زمہ دار ہے کون حساب دے گا اس کا؟ یاد رہے بقول اسلام ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے اور یہاں معاملہ کوئی 30 ہزار کچھ سو کا ہے؟

امریکہ نے جو عراق میں 10 لاکھ مسلمانوں کا قتل عام کیا۔ اور افغانستان میں قریبا ایک لاکھ سے زیادہ قتل عام کیا وہ کس کھاتے میں جائےگا۔ پاکستان میں جتنی بھی دہشت گردی ہے چاہے وہ کسی بھی لیبل میں ہو اس کے پیچھے امریکہ ہی کا ہاتھ ہوتا ہے۔ ریمنڈ کیس میں امریکہ کے دہشت گرد تنظیموں سے روابط آشکارہ ہوگئے
 

عسکری

معطل
امریکی کب معصوم تھے؟ یہ بات تو پہلے دن سے عیاں ہے کہ امریکہ اپنے مفادات کی خاظر کچھ بھی کر گزرتا ہے۔ پر کس نے ان کو چانس دیے اس سب کے ؟ ویسے بھی ایک جرم سے دوسرے جرم کو درست قرار نہیں دیا جا سکتا طالبان بھی مجرم ہیں اتنے ہی جتنے کہ امریکی ۔ اور آُ کی پوسٹ کے اینڈ کا مطلب وہی ہے جو میں نے کہا یہ کوئی جہاد یا اسلامی لڑائی نہیں پاکستانی طالبان امریکی پریشر گروپ ہے ان کا مقصد نا ہی اسلام ہے نا ہی کچھ اور بلکہ فساد اور پیسے کی جنگ ۔
 

سویدا

محفلین
ابتدائی طور پر طالبان کی صفوں میں کبھی بھی تاجک اور ازبک شامل نہیں رہے۔
طالبان کی مثال جنرل ضیا الحق کی سی ہے جس نے اپنی آمریت کو طول دینے کے لیے اسلام اور شریعت کا نعرہ لگایا بعینہ اسی طرح طالبان جو خالصتا قومیت کی بنیاد پر کھڑے ہوئے تھے انہوں نے اپنی حکومت کے لیے شریعت کا نعرہ لگایا اور پھر بعد میں جاکر یہ کفر واسلام کی جنگ بنادی گئی۔
باقی پاکستان کا آئین ایک اسلامی آئین ہے اگر وہ صحیح طور سے نافذ کردیا جائے تو کسی بھی طرح وہ شریعت کے مخالف نہیں اور آئین کے نفاذ کے لیے ریاستی ادارے اور مروجہ طریقوں کو اپنایا جائے نہ کہ دہشت گردی کو فروغ دیا جائے۔
پیغمبر اسلام نبی اکرم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی کامل سیرت اور اس کے ہر ہر پہلو کا مطالعہ ہر انسان کے لیے ضروری ہے طالبان اپنے طرز عمل سے کفار تو در کنار مسلمانوں کو بھی اسلام اور پیغمبر اسلام سے برگشتہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور یہی عالمی طاقتوں کی چال ہے جو طالبان کے ذریعے کھیلی جارہی ہے اور طالبان بھولے بے چارے !!!!
 

سویدا

محفلین
طالبان دور میں ان کی شوری اور تمام نمایاں اور اہم ملکی ذمہ داریوں پر ایک بھی تاجک یا ازبک یا ہزارہ کی نمائندگی نہیں تھی
 

Fawad -

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

طالبان دانستہ اور نادانستہ طور پر امریکی مقاصد کی تکمیل کے لیے ہی استعمال ہورہے ہیں


امريکی حکومت صرف اس وقت تک خطے ميں اپنی افواج رکھنے کی متمنی ہے جب تک کہ دہشت گردی کا عفريت جو اس علاقے سے نکل کر ساری مہذب دنيا کے ليے جس خطرے کا سبب بن رہا ہے، اس کا سدباب نہيں ہو جاتا۔ يہی ہمارا واحد مقصد اور خطے ميں ہماری موجودگی کی وجہ ہے۔ ہمارا اعلان شدہ ہدف يہی ہے کہ سال 2014 تک سيکورٹی کی مکمل ذمہ داری افغانستان کو منتقل کر دی جائے گی۔

ميں نہيں سمجھ سکا کہ دہشت گرد جو اپنی غير انسانی پرتشدد کاروائيوں اور بربريت اور ظلم کی بنياد پر اپنے ايجنڈے اور طرز زندگی کو عوام پر مسلط کرنے کے ليے خوف کی جس مہم کا آغاز کيے ہوئے ہيں، اس سے امريکی حکومت کو کيا فائدہ حاصل ہو سکتا ہے؟ اس کے علاوہ دہشت گردی کی جس لہر نے پاکستان کے معصوم شہريوں کو اپنی لپيٹ ميں ليا ہوا ہے وہ کسی ايک علاقے يا شہر تک محدود نہيں ہے جسے کسی مخصوص مقصد کے ليے کنٹرول يا استعمال کيا جا سکے۔ پڑوس ملک افغانستان ميں ہمارے فوجیوں سميت ہمارے دوست، اتحادی، شراکت دار اور فريقين دہشت گردی کے انھی خطرات کا روزانہ سامنا کرتے ہیں۔ حال ہی ميں افغانستان ميں امريکی سفارت خانے پر حملہ اور دشمنوں کی کاروائ کے نتيجے ميں امريکی ہيلی کاپٹر کی تبائ اور اس کے نتيجے ميں 30 سے زائد فوجيوں کی ہلاکت اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ہم ايک مشترکہ دشمن کا سامنا کر رہے ہیں جو ہر اس فريق کو نقصان پہنچانے پر بضد اور تيار ہے جو ان کے عقائد، دقيانوسی سوچ اور طرز زندگی کو رد کرے۔

حکمت عملی کے اعتبار سے امريکی حکومت کو ايسے افراد اور گروہوں کو مدد فراہم کرنے کے نتيجے ميں کوئ فائدہ نہيں ہے جو برملا ہمارے ہی شہريوں کو ہلاک کرنے کی دھمکياں دے رہے ہیں۔ يہ دہشت گرد سرحد کے دونوں اطراف پاکستانی اور نيٹو افواج پر کئ براہراست حملوں کی ذمہ دار ہے۔

يہ نہيں بھولنا چاہيے کہ خود ہمارے اپنے فوجی بھی انھی دہشت گردوں اور عسکريت پسندوں کے خلاف برسر پيکار ہيں۔ اس تناظر ميں ان دہشت گردوں کا پاکستان ميں منظم ہونا اور اپنے محفوظ ٹھکانوں سے حملوں کی صلاحيت حاصل کر لينا ہماری کاوشوں پر بھی منفی اثرات مرتب کرنے کا سبب ہے کيونکہ افغانستان ميں امريکی اور نيٹو افواج کی زندگيوں کو اس سے براہراست خطرات لاحق ہو جاتے ہيں۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
 

dxbgraphics

محفلین
2014 کے بعد بھی امریکہ افغانستان سے فرار ہونے میں کامیاب نہیں ہوسکے گا ۔ میری یہ پوسٹ ثبوت کے طور پر یہیں موجود رہیگی اور 2014 بھی آجائیگا۔
 

Fawad -

محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

2014 کے بعد بھی امریکہ افغانستان سے فرار ہونے میں کامیاب نہیں ہوسکے گا ۔ میری یہ پوسٹ ثبوت کے طور پر یہیں موجود رہیگی اور 2014 بھی آجائیگا۔

امريکہ کی جانب سے سال 2014 ميں افغانستان سے فوجوں کی واپسی کا اعلان نا تو پيشن گوئ ہے اور نا ہی کوئ سياسی نعرہ۔ يہ صدر اوبامہ کی جانب سے لائحہ عمل، حقیقی ٹائم فريم اور ايک مصمم ارادے کا اظہار ہے جو ہماری سرکاری حکومتی پاليسی کا آئينہ دار ہے جس کی بنياد زمينی حقائق اور موجودہ صورت حال ہے۔

يہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ نيٹو کے کئ ممالک بھی اس بات پر متفق ہيں کہ امريکہ کے ساتھ اتحادی افواج کو سال 2014 کے آخر تک اہم عسکری معرکوں سے عليحدہ ہو جانا چاہيے کيونکہ يہی وہ ٹائم فريم ہے جس کے بعد صدر اوبامہ اور نيٹو کے قائدين متفق ہيں کہ افغان کو طالبان کے خلاف لڑائ ميں کليدی کردار ادا کرنا ہے۔

صدر اوبامہ نے واضح کر ديا ہے کہ مقامی افغان حکومت کی صلاحيت کے حوالے سے درپيش چیلنجز اور اس ضمن ميں مزيد ممکنہ مشکلات کے باوجود امريکی اور نيٹو اتحاديوں نے اپنے اہداف ميں يکسوئ پيدا کر لی ہے تا کہ ملک ميں استحکام کا حصول ممکن ہو سکے اور تمام باگ ڈور مکمل طور پر صدر کرزئ کے حوالے کی جا سکے جو اس کے متمنی ہيں۔

اس موضوع کے حوالے سے صدر اوبامہ کے الفاظ

"ميرا ہدف يہ ہے کہ ميں اس بات کو يقينی بناؤں کہ سال 2014 تک ہم انتقال کا عمل مکمل کر ليں، افغان خود باگ ڈور سنبھال لیں اور اس ہدف کو يقینی بنايا جائے کہ اس وقت ہم اس نوعيت کے عسکری آپريشنز ميں شامل نہ ہوں جن ميں ہم اس وقت شامل ہيں"۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/pages/USUrduDigitalOutreach/122365134490320?v=wall
 

ابن عادل

محفلین
اچھا اچھا دیکھ لیں گے بھائی جی طالبان طالبان نہیں رہیں گے جب جا کر وہ کوئی کام کے بن سکتے ہیں موجودہ جانوروں کا ریوڑ تو خود الف ب نہیں جانتا یہ کہاں سے انقلابی فتح مند بن جائے گا؟ ہاں یہ الگ بات ہے کہ جیسے 120 سال سے آبادیوں کو کشٹ و خون میں نہلا رکھا ہے جاری رکھیں یہ کھیل ۔ اس سے کچھ ہونے والا نہیں بس آبادی پر کنٹرول رہتا ہے :grin:


پتہ نہیں آپ نے تاریخ شاید صرف عینک مسلمانی لگا کر پڑھی ہے یا نا بلد ہیں لیکن کبھی آرام سے دنیا کا نقشہ اٹھا کر دیکھیں ملک کے ساتھ ملک اور ہر ایک کی موڈرن ہسٹری دیکھیں اور موجودہ سٹیٹس بھی تب بتائیں فتح کس کی ہوئی کیسے ہوئی کیوں ہوئی کن کے ہاتھوں ہوئی ۔
طالبان ہنہ سلوار اونچی پہنو کلاشنکوف کو باتھ روم میں بھی لے جاؤ ساتھ اور عورتیں جانور ہیں یہ ہے طالبانیت ۔کشمیر کا قصہ تمام ہوا جب نیوکلئیر بن گئے ممالک چیچنیا نے چانس مس کر دیا 1993 میں سوویت ٹوٹنے پر اور فلسطینی ایک اسرائیلی کے مقابلے 50-100 روز مر رہے ہیں ایک دن میوزیم میں ملیں گے دیکھنے کے لیے ۔

انقلاب فتح اور دائمیت اب اس گوریلا وار یا بدمعاشی قتل و غارت میں نہیں بلکہ ٹیکنالوجی علم ترقی فلاح و بہبود پر امن معاشروں سے ہوتی ہے اس جنگلیوں کو تو کپڑے پہننے کھانے پینے اٹھنے بیٹھنے حتی کے لڑائی کے آداب تک نہیں آتے ۔
امریکیوں نے جارحیت کی بہت کچھ تو نہیں پر کچھ کھویا ہے وہ یہاں رہنے نہیں آئے تھے نا کبھی ایسا ممکن ہو سکتا تھا کہ افغانستان 51ویں سٹیٹ بن جاتا اصل نقطہ ہے انہوں نے کیا کھویا کیا پایا ۔اور دھرتی افغانستان نے کیا کھویا کیا پایا ؟ 4000 امریکی = 3000000 افغانی 7000 امریکی زخمی = لاکھوں افغان زخمی ۔ اسی طرح امریکہ نہیں اجڑا پر افغانستان مٹی کا ڈھیر رہ گیا ہے جسے دوبارہ 70 سال میں بھی پہلی دنیا میں نہیں لایا جا سکتا مستقبل کیا ہے عوام کا بچوں کا افغانستان میں؟کب اٍگان اپنے پیروں پر کھڑے ہوں گے اقوام عالم میں سر بلند آزاد ترقی یافتہ قوم بن کر؟ شاید کبھی نہیں ۔ طالبانی راستہ یا گن کا راستہ آگے کیا رنگ لائے گا یا پیچھے کیا لایا افغانستان کے لیے؟ یہ افغان شکست ایک ایسی شکست ہے جسے صدیاں دھو نہیں سکتی آُپ کے لیے شاید امریکہ چلے جا فتح ہو پر ایک افغان کی فتح تب ہو گی جب ملک میں کلاشنکوف کے ساتھ نا کھومے گا جب ٹریفک سگنل تک نا کاٹا جائے گا قانون کے احترام اور ڈر سے جب سب کو نہیں تو اکژیت کو تعلیم صحت ملے گی جب انڈسری بزنس اقتصاد مضبوط ہو گا جب اقوام عالم ایک افغانی کو انسان سمجھیں گے دہشت گرد نہیں۔جب عزت کے ساتھ افغان دنیا میں رہیں گے ۔ جب وہاں صرف ایک پر امن حکومت ہو گی ۔ جس کے چانس اب بھی 50 سال آگے نہیں نظر آ رہے ۔ آپ کے لیے افغانستان جنگ کا میدان ہے شطرنج ہے جیسے امریکیوں روسیوں انڈینز فرنچ ایرانیوں کے لیے ہے آپ میں اور میں فرق ہے تو صرف یہ کہ وہ ایک ٹیم کو آپ دوسری ٹیم کو سپورٹ کر رہے ہیں میچ میں۔ورنہ اس میں افغانوں کی کوئی فتح تھی نا ہے ۔ ملک میں مزید خون بہے گا مزید ظلم ہو گا جہالت ہو گی جنگ ہو گی امریکہ رہے یا جائے خون کا دریا بہتا رہے گا اور یہی افغانستان کی شکست ہے ۔
محترم محب وطن صاحب ۔ ذرا آپ خود اپنے الفاظ پر غور کیجیے آپ نے طالبان کے ساتھ پوری دنیا میں ہونے والی مسلم تحاریک مزاحمت کو بھی ایک ہی لاٹھی سے ہانک دیا مجھے نہیں معلوم کہ آپ نے یہ ”جوش تحریر“ میں کہہ دیا یا سوچ سمجھ کر ۔ چلیے مان لیتے ہیں کہ یہ سب ”بےوقوف“ اپنی جانیں لٹوانے کے علاوہ کچھ نہیں کررہے ۔ تو آپ ان تحاریک مزاحمت کو کس کھاتے میں ڈلیں گے جو وطنیت ،قومیت یا علاقائیت کی بنیاد پر پوری دنیا میں برپا ہیں ۔ میرا خیال ہے کہ ویت نام میں امریکی موجودگی کے موقع پر وہاں پر بھی کچھ ”دانش مندوں“ نے کچھ یہی تبصرہ ان لوگوں کے بارے میں کیا ہوگا جو ویت نام کی آزادی کے لیے جانیں قربان کررہے تھے ۔ اور یہی صورتحال جاپان میں ہوگی ۔
آپ کے اس تبصرے کے بعد سوال پیدا ہوتا ہے کہ جدوجہد کسے کہتے ہیں ؟ استعمار کس بلا کا نام ہے ؟ ظالم کون سی پری ہے ؟ وطن کیا ہے اور اس کی حفاظت کیسے کی جائے ؟کیوں کہ اس تبصرہ کو پڑھ کر قاری یہی سمجھتا ہے کہ جو قوت طاقت کے بل پر تم پر غالب آجائے تو اس کے غلام بن جاؤ کیوں کہ تم اس کا مقابلہ نہیں کرسکتے ۔
سوال یہ ہے کہ کل ہمارے ملک پر حملہ ہوجائے اور غاصب ہمارے ملک میں آکر بیٹھ جائے تو کیا ہم اس کے خلاف گوریلا جنگ بھی نہ لڑیں ؟؟؟
حیرت ہے کہ طاقت کی کمی کو جہالت کہا جاتا ہے ۔ تو ویت نامی افغانوں سے زیادہ جاہل تھے کہ افغانی کی فطرت میں اسلحہ اور جنگ وجدل ہے ۔ اور پھر اگر طاقت کی کمی ہے سب کچھ ہے تو پھر امریکہ میں یہ شور محشر کیوں برپا ہے ۔؟
اور آخری بات آپ نے کہا کہ امریکہ کا کچھ نہیں بگڑا ؟ وہ اپنے ملک میں چلا جائے گا ۔ میرا خیال ہے کچھ یہی تبصرہ اس وقت ہو گا جب برطانیہ یہاں سے جانے کی تیاریاں کررہا ہوگا ۔ کہاں ہے برطانیہ اور اپنے وقت کی سپر پاور ۔
دوست قوموں کا عروج وزوال سالوں نہیں نسلوں کی کہانی ہے ۔ مسلمانوں کی خلافت مختلف نشیب وفراز کے ساتھ ایک ہزاریہ قائم رہی، برطانیہ کہ جس کی زمین پر سورج غروب ہوتا تھا غالبا دویا تین صدیاں اس طلوع وغروب کو دیکھ سکا ، سوویت یونین پچھتر بہاروں کے بعد مرجھا گیا ،
رہا امریکہ تو کم بیش سو سال گزار چکا ۔ اور جب غالب اقوام یہ سب کچھ کرگزریں جو امریکہ نے کیا ہے تو وہی کچھ ہوتا ہے جو سابقہ اقوام کے ساتھ ہوا ۔
 

arifkarim

معطل
لو جی ہم یہاں ابھی تک طالبان میں الجھے ہیں، ادھر امریکی و اسرائیلی ایران پر حملہ کیلئے سرگرم ہیں :)
 

dehelvi

محفلین
او خدا کے بندو! طالبان اور امریکیوں کی لڑائی سے نکلو اور اپنے ملک کے لئے کچھ کرو۔ یہ لڑائی تمہاری کسی کام آنے والی نہیں۔
 

dxbgraphics

محفلین
او خدا کے بندو! طالبان اور امریکیوں کی لڑائی سے نکلو اور اپنے ملک کے لئے کچھ کرو۔ یہ لڑائی تمہاری کسی کام آنے والی نہیں۔
افغان طالبان اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں جو کہ ان کا حق ہے۔ اور یقینا افغان طالبان کی مزاحمت ہی پاکستان میں امریکی من مانیوں اور در اندازی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔وگرنہ آج ایبٹ آباد طرز کے اپریشن پورے پاکستان میں ہر جگہ ہورہے ہوتے۔ اور ہماری بے حس پارلیمنٹ جو کہ اپنی قراردادوں پر عمل درآمد نہیں کرواسکی ان کے وکیل صفائی ہوتے
 

arifkarim

معطل
افغان طالبان اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں جو کہ ان کا حق ہے۔ اور یقینا افغان طالبان کی مزاحمت ہی پاکستان میں امریکی من مانیوں اور در اندازی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔وگرنہ آج ایبٹ آباد طرز کے اپریشن پورے پاکستان میں ہر جگہ ہورہے ہوتے۔ اور ہماری بے حس پارلیمنٹ جو کہ اپنی قراردادوں پر عمل درآمد نہیں کرواسکی ان کے وکیل صفائی ہوتے
افغانی طالبان؟ طالبان تو پاکستان میں پیدا ہوئے تھے، وہابی مدرسوں سے ابتدائی تعلیم پائی۔ جہاد اور دہشت گردی کی اعلیٰ تعلیم کیلئے امریکی سی آئی کے سلیبس اسلامی سلیبس کے طور پر پڑھتے رہے۔ اس "اعلیٰ" تعلیم کی سند حسن کارکردگی کسی نامعلوم خودکش بمبار ٹرینر سے حاصل کی۔ افغانستان، عراق، کشمیر اور دیگر "اسلامی ریاستوں" پر قابض دجالی قوتوں کیخلاف جہاد اکبر انجام دیا۔ بالآخر کسی نامعلوم کونے کھدرے میں کٹے سر اور خودکش جیکٹ کیساتھ 100 معصوم جانے ہمراہ لیکر 72 حوروں کی سلامی کیلئے جنت الفردوس میں تشریف لے گئے :)
یہ ہیں آپکے محبوب طالبان!
 

arifkarim

معطل
اور یہ رہی اس نام نہاد جہادی دہشت گرد اسلام کی جڑ:
In the twilight of the Cold War, the United States spent millions of dollars to supply Afghan schoolchildren with textbooks filled with violent images and militant Islamic teachings, part of covert attempts to spur resistance to the Soviet occupation.​
The primers, which were filled with talk of jihad and featured drawings of guns, bullets, soldiers and mines, have served since then as the Afghan school system's core curriculum. Even the Taliban used the American-produced books, though the radical movement scratched out human faces in keeping with its strict fundamentalist code.​
 

dxbgraphics

محفلین
افغانی طالبان؟ طالبان تو پاکستان میں پیدا ہوئے تھے، وہابی مدرسوں سے ابتدائی تعلیم پائی۔ جہاد اور دہشت گردی کی اعلیٰ تعلیم کیلئے امریکی سی آئی کے سلیبس اسلامی سلیبس کے طور پر پڑھتے رہے۔ اس "اعلیٰ" تعلیم کی سند حسن کارکردگی کسی نامعلوم خودکش بمبار ٹرینر سے حاصل کی۔ افغانستان، عراق، کشمیر اور دیگر "اسلامی ریاستوں" پر قابض دجالی قوتوں کیخلاف جہاد اکبر انجام دیا۔ بالآخر کسی نامعلوم کونے کھدرے میں کٹے سر اور خودکش جیکٹ کیساتھ 100 معصوم جانے ہمراہ لیکر 72 حوروں کی سلامی کیلئے جنت الفردوس میں تشریف لے گئے :)
یہ ہیں آپکے محبوب طالبان!

آپ کے اپنے مراسلے میں تضاد ہے۔
رہی بات افغان طالبان کی تو وہ اپنی آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ اگردنیا کے کسی بھی ملک پر کوئی دوسراملک چڑھائی کر دے تو وہاں کی اقوام کا حق ہے کہ وہ اپنی آزادی کی جنگ لڑیں۔
 
Top