پانچویں سالگرہ ایک صفحہ کتنی دیر میں ۔ ۔ ۔

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 77

یہہ سنکر مور نے خیال کیا کہ اوسکی موجودگی کچھ باعث اطمینان نہین ہو سکتی اور اوسکی گفتگو کا کچھہ فائدہ نہین ہے۔ لہذا نہایت انسانیت سے صرف یہہ کہکر رخصت کر دیا کہ جسقدر میرا مکان بہشت سے نزدیک اوسیقدر یہہ مقام بھی جنت سے قریب ہے لیکن برخلاف اسکے مور کی بیٹی مارگریٹ رو ۔۔۔۔ کر ترغیت دیتی رہی کہ وہ اپنے اصول پر مضبوطی سے قائم رہے اور نہایت سعادتمندی سے حالت قید مین وہ اپنے باپ کی خدمتگزاری کرتی رہی۔ باوجویکہ اوسکے پاس وہان نہ تو قلم تھا نہ دوات تھی لیکن اوسنے کوئلے سے اپنی بیٹی کو ایک خط مین لکھا " مین نہین بیان کر سکتا کہ مجھے تمہاری دلچسپ تحریرونسے کسقدر خوشی حاصل ہوئی۔" مور گو راستبازی مین شہید ہوا چونکہ وہ اپنے قول مین صادق تھا اسوجہ سے جھوٹا حلف اونٹھانا پسند نکیا اور اپنی موت گوارا کی۔ جب مور کا سر تن سے جدا کیا گیا تو اوس زمانہ کے وحشیانہ حرکت کے موافق لنڈن برج پر لٹکا دیا گیا لیکن اوسکی بیٹی نے جرات کر کے اوسے مانگ لیا اور یہہ وصیت کی کہ مرنیکے بعد یہ سر میری قبر مین دفن کر دیا جاے۔

مارٹن لوتھر بھی اپنے ایجا و مذہب کیوجہ سے بلایا نہین گیا تھا لیکن اوسکی جان اوسیوقت سے معرض ہلاقت مین پڑ گئی جب سے کہ اوسنے اپنے کو پوپ کا مخالف ظاہر کیا۔ چنانچہ جب بادشاہ نے لوتھر کو اسواسطے طلب کیا کہ وہ اپنے کفر کی بابت جوابدہی کرے تو اوسنے تنہا جانے کا قصد کیا۔ لیکن اوسکے دوستون نے کہا کہ اگر بادشاہ کے سامنے حاضر ہو جاؤ گے تو یقین ہے قتل کئے جاؤ گے۔ پس مناسب ہے کہ بھاگ جاؤ۔ لیکن اوسنے کہا نہین مین جاؤنگا اور سمجھاؤنگا گو وہان بیشمار شیاطین کا مجمع کیون نہو۔

دلیر اور عزت دار آدمی کبھی موت سے نہین ڈرتا چنانچہ ارل آف اسٹیفرڈ
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 78

کی نسبت بیان کیا جات اہے کہ جسوقت اوسکو پھانسی کے تختہ پر چڑھنے کا حکم دیا گیا تو وہ اس شان سے تختہ پر قدم رکھتا تھا کہ گویا جنگی افسر کے مانند کسی لڑائی کر فتح کرنے جا رہا ہے۔ اسیطرح ہنری دین کی بابت یہی مشہور ہے کہ اوسنے دلیری سے اپنی جان دی اور جسوقت وہ قتل کے واسطے طلب کیا گیا تو اوسنے اپنی بی بی سے مخاطب ہو کر کہا کہ اگرچہ مین تمہین ایک یورش کی حالت مین چھوڑے جاتا ہون لیکن میرے تمھارے ملاقات اب جنت مین ہو گی۔ اگرچہ کامیابی اوسکا صلہ ہے جسکے واسطے لوگ محنت و تکلیف گوارا کرتے ہین۔ لیکن تاہم اونکو اکثر باستقلال محنت کرنی پڑتی ہے باوجودیکہ بادے النظر مین کامیابی کی صورت معلوم نہین ہوتی۔ لیکن اپنی دلیری سے مستعد رہتے ہین اور اس ۔۔۔۔۔۔۔ ہر ایک کام کی بنیاد شروع کر دیتے ہین کہ کسی نہ کسی وقت ضرور کوئی نتیجہ ظاہر ہو گا۔ بہتری صفت تہ یہہ ہے کہ باوجود متواتر ناکامیابیون کے کوشش بلیغ کے بعد فتحیابی حاصل کیجاے۔ اور جتنے موانعات واقع ہون سب دفع کئے جائین۔ اون لوگون کی تمثیل سے جو ملک کے واسطے برابر لڑتے رہے یا شہید ہوئے کا یا کالمبس کے مانند جسنے امریکہ کی تلاش مین مدت مدید تک سفر و دور دراز کی تکلیف و صعوبت گوارا کی دل مین بہت زیادہ جرات و ہمت پیدا ہوتی ہے بہ نسبت علی الاتصال کمیابیونکے۔ لیکن جس دلیری کی دنیا مین زیادہ تر ضرورت ہے وہ از قسم شجاعت نہین ہے۔ جسطرح کتب سیر و تواریخ مین میدان جنگ کے شجاعونکا ذکر ہے اوسیطرح انسان کو اپنی روزانہ زندگی مین بھی دلیری کا اظہار کرنا لازم ہے۔ ایمانداری کرنا۔ حرص و طمع سے باز رہنا۔ سچ بولنا۔ اپنی حیثیت کو بھول نجانا اور اوس سے بڑھکر اپنے کو
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 79

نہ سمجھ لینا۔ اپنے دست و بازو کی قوت سے ایمانداری کے ساتھ بسر کرنا نہ کہ بدنیتی سے دوسرونکے سہارے پر پڑے رہنا۔اکثر خرابیان اور نقائص بوجہ تزلزل و تذبذب قصد کے واقع ہو جاتے ہین جنھین دوسرے الفاظ مین عدم دلیری کے ساتھ تعبیر کرنا چاہیے۔

لوگ جانتے ہین کہ فلان کام عمدہ ہے لیکن اوسکے کرنے مین اپنی ہمت نہین صرف کرتے۔ گو کسی شخص کو اپنے فرایض سے واقفیت ہو لیکن مستقل ارادہ کے ساتھ وہ انجام نہین کرتا۔ ضعیف العقل اور گیر تعلیم یافتہ آدمی موم کی ناک ہے جسطرف چاہیے پھیر دیجیئے کیونکہ وہ ذرا انکار نہین کر سکات بلکہ تعمیل پر مجبور ہو جاتا ہے اور اگر ایسے شخص کا ساتھی کوئی خراب آدمی ہے تو تمثیل مذموم کیوجہ سے وہ بلا تکلف افعال قبیحہ کا مرتکب ہو گا۔

اس سے زیادہ کوئی دوسری چیز قابل اطمینان نہین ہو سکتی اگر چال و چلن اپنے اپنے ہی افعال سے درست ہو جائے۔ خواہش جسکو چال چلن کا مرکز کہنا چاہیے قوت فیصلہ کی عادت سے ٹھیک ہو سکتی ہے اور اگر ایسا نہین ہے تو پھر یہ یہ برائیون سے باز رہ سکتی ہے اور نہ بھلائیونکی تقلید کر سکتی ہے۔ قوت فیصلہ سے باستقلال کام کرنے کا مادہ ہو جاتا ہے اور کیسا ہی مشکل کام کیون نہو لیکن آسان معلوم ہوتا ہے۔

فیصلہ کرنے مین کسی دوسرے کی مدد کا خواستگار ہونا محض غیر مفید نہین ہے بلکہ بدترین فعل ہے۔ انسان کی اسطرح اپنی عادت درست کرنی چاہیے کہ مصیبت یا آفت کے وقت صرف اپنی ہی قوت و ہمت پر اطمینان اور اعتبار رہے۔

اکثر لوگ برے بڑے کامونکا ارادہ کرتے ہین لیکن انکا انجام صرف زبانی گفتگو پر رہتا ہے نہ تو کبھی اوس کام مین ہاتھ لگایا جاتا ہے اور نہ کرنیکی کوشش کیجاتی ہے لیکن یہہ سب خرابی تھوڑیسی قوت فیصلہ نہونیکی وجہ سے واقع ہوتی ہے۔ پس کہنے سے کر دکھانا بہتر ہے۔ ٹلسٹن کا قول ہے کہ جو کام کرنا لازمی ہے اوسکے عدم تکمیل مین ایک ضعیف العقل آدمی کا بجز اسکے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 80

کوئی دوسرا معقول عذر نہین ہو سکتا کہ وہ تزلزل و تذبذب کی حالت مین پڑا رہے حالانکہ کام بہت ضروری تھا۔

بطرز جدید زندگی بسر کرنیکا ارادہ کرنا اور اوسکے شروع کر دینے کا وقت نہ مہیا کرنا مثل اوس شخص کے ہے جو کھانا۔ پینا۔ سونا چھوڑ دے یہانتک کہ مر جاے۔

کسی سوسائیٹی کے بُرے اثر کا مقابلہ کرنیکے واسطے اخلاقی جرات کے مشق کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ اگرچہ مس گرنڈی عوام الناس مین کی ایک عورت تھی لیکن اوسکے اختیارات بہت وسیع تھے۔ اکثر مرد اور خاصکر عورتین جس طبقے مین ہوتی ہین تو اخلاقی امور مین اوس گروہ کے تابع رہتی ہین اور اون لوگونمین ایک قسم کی نامعلوم سازش ایک دوسرے کے خلاف رہتی ہے۔ ہر طبقہ اور ہر ملت اور ہر گروہ مین رسم و رواج کا اختلاف ہے جسکے واسطے مذہبی پابندی کے ڈر سے موافقت کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔

اخلاقی بزدلی عام اور خاص دونون طرحپر ظاہر ہوتی ہے۔ جس سے اگرچہ کسی دہقان کو دولتمند کی خوشامد کی نوبت نہیں آتی لیکن وہ غریب آدمیونکی چاپلوسی کرتا ہے۔ سابق مین خوشامد کے سبب سے لوگ بڑی بڑی جگہون مین سچ بولنے کی جرات نکرتے تھے لیکن اب چھوٹے درجہ والونکے سامنے بھی سچ نہین بولتے اور جنکے تعکق حکومت کا صیغہ ہے تو اونکی خوشامد و چاپلوسی کی طرف گویا ایک خاص خواہش ہے اور بجز خوشامدانہ الفاظ کے کوئی بات نہین کہی جاتی اور وہ لوگ ایسے اوصاف سے موصوف کئے جاتے ہین جنکے نہونیکا اونھین خود بھی یقین رہتا ہے۔ موجودہ زمانہ مین اعلی درجہ اور تعلیم یافتہ آدمی کی اتنی تلاش نہین ہوتی جتنی کسی چھوٹے درجہ اور غیر تعلیم یافتہ شخص کی جستجو ہوتی ہے اسوجہ سے کہ ایسے آدمیونکی موجودگی سے کثرت راے مین زیادتی ہو گی کیونکہ بجز ہان مین ہان ملانیکے اور
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
صفحہ : 81

Tadbeer_page_0085.jpg

 
Top