پانچویں سالگرہ ایک صفحہ کتنی دیر میں ۔ ۔ ۔

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 96

خیال کو اپنے دماغ مین نہین رکھ سکتا اوس سے کبھی یہہ امید نہین کیجاسکتی کہ وہ کوئی بڑا کام کر سکیگا۔ ولیم کی نسبت اوسکا ایک بہت بڑا دشمن بیان کرتا ہے کہ اوسکے زبان پر کبھی متکبرانہ اور غیر مہذبانہ الفاظ نہین جاری ہوے۔ اکثر تجربہ کارونسے یہہ مقولہ سنا گیا ہے کہ اونہون نے بات کہہ کر افسوس کیا ہے لیکن یہہ کبھی نہین سنا گیا کہ کسی نے بات نکہی ہو اور پچتانا پڑا ہو۔

فیثا غورث کا قول ہے کہ خاموش رہو یا ایسی بات کہو جو خاموشی سے بہتر ہو اور جارج ہربرٹ کہتا ہے کہ لیاقت سے بات کرنی چاہئے ورنہ عقلمندی یہی ہے کہ سکوت اختیار کیا جاوے۔ سینٹ فرینسس ڈی بیلس کا قول ہے کہ فتنہ انگیز راستی کے بیان کرنے سے خاموشی بدرجہا بہتر ہے۔

ڈی بین جو سولھوین صدین مین اسپین کا مشہور و معروف شاعر گزرا ہے اوسکی خود اختیاری کی تمثیل جو بیان کیجاتی ہے قابل یادگار ہے کہ کتاب مقدس کے ترجمہ کرنیکے عوض مین وہ برسون اس سختی سے قید رہا کہ علاوہ تنہائی کے اوسے روشنی بھی ندیجاتی تھی۔ لیکن جب رہائی کے بعد وہ پھر اپنے پروفیسری کے کام پر گیا تو ایک انبوہ کثیر اوسکا پہلا لیکچر سننے کیواسطے اس امید پر جمع ہوا کہ وہ اپنی قید کا حال بیان کریگا لیکن نہ تو اوسنے اپنے معتوب ہونیکا کسی پر الزام لگایا نہ مطلقاً اپنے قید کا ذکر کیا۔اوسنے اپنے دستور کے مطابق پھر وہی لیکچر شروع کیا جو بدنصیبی سے پانچ برس بیشتر مسدود ہو گیا تھا۔

بعض مواقع ایسے ہوتے ہین کہ جہان پر غصہ کا اظہار صرف جائیز ہی نہین بلکہ ضروری ہے۔ جیسے کذب۔ بیرحمی و خود غرضی کی حالت مین۔ ایک پاکیزہ منش آدمی کو ایسے موقع پر بھی کہ جہان اوسے بولنے کا کوئی حق نہین آپ مذموم و قبیح حرکات دیکھکر قدرتی طور پر طیش آ جاتا ہے۔ برنس
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 97

سے زیادہ کوئی شخص خود اختیاریکی قدر نہین کر سکتا اور نہ اوس سے بہتر کوئی تعلیم کر سکتا ہے لیکن اوسکی عملدرآمد پر وہ بالکل قادر نہین تھا۔ اوسکی سوانح عمری لکھنے والا بیان کرتا ہے کہ یہہ کسیطرح مبالغہ نہین ہے کہ اگر وہ دلمین باتین مذاق کی کرتا تو اوسکے سو دشمن ہو جاتے۔

خود اختیاری کی جرات مختلف طور پر ظاہر ہوتی ہے لیکن ایمانداری کے ساتھ بسر کرنے سے زیادہ کسی مین یہہ عمدہ طور پر نہین واضح ہو سکتی۔ انسان اوسوقت تک صرف اپنی خواہشات کا مطیع نہین رہتا بلکہ دوسرونکا بھی پابند رہتا ہے تا وقتیکہ اوسمین نفس کشی کی صفت نہو۔ اوسے دوسرونکی تقلید کرنی پڑتی ہے اور اپنے طبقہ کی تجویز کردہ اصول پر اسطرحسے زندگی بسر کرنی پڑتی ہے کہ وہ نتیجہ سے بالکل بے خبر رہتا ہے حالانکہ اس بات کی کواہش رہتی ہے کہ اپنے کم درجہ والونکی نسبت تفوق کے ساتھ زندگی بسر کیجاے۔ ہر شخص کو ایک دوسرے کے متعلق رہنا پڑتا ہے لیکن کسی مین یہہ جرات نہین ہوتی کہ باز رہے۔ وہ اپنی ترقی کرنیکی خواہش کو کسیطرح روک نہین سکتےگو دوسرون ہی کی بدولت کیون نہو۔ اور وہ اوس نقصان سے بالکل ناواقف رہتے ہین جس سے اونکی حالت غلامی کے درجہ تک پہونچ جاتی ہے۔ اور یہہ سب خرابیان بزدلی و نامردی کیوجہ سے واقع ہوتی ہین۔

صحیح الدماغ آدمی کبھی اپنی اسلی حالت سے تجاوز نہین کرتا اور اپنی حالت کو غلط پیرایہ مین نہین ظاہر کرتا مثلاًیہہ کہ وہ امیر نہو اور اپنے دولتمند ثابت کرے یا اوسطور پر زندگی بسر کرنی چاہئے جو اوسکے موافق نہو وہ اپنی ہی ذریعہ سے ایمانداری کے ساتھ زندگی بسر کرنی زیادہ تر پسند کرتا ہے بہ نسبت اسکے کہ بے ایمانی سے دوسرونکے بھروسے پر پڑا رہے۔ کیونکہ وہ شخص جو اس بات کی
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 98

کوشش کرے کہ آمدنی سے زیادہ اوسپر خرچ عائد کرے تو وہ صریحی ایسی ہی بے ایمانی کا مرتکب ہو رہا ہے جیسے کوئی شخص ہمارے یہ چیز چھین لے۔

کسی دوسرے کی کفالت پر زندگی بسر کرنی صرف بے ایمانی نہین بلکہ دغابازی ہے۔ جارج ہربرٹ کا یہہ قول تجربہ کے بعد صحیح ثابت ہوا کہ " مقروض ہمیشہ دروغگو ہوتے ہین" سیفٹریری کہتا ہے کہ "اس واسطے مضطرب ہونا کہ جو چیز ہمارے پاس نہین ہے وہ حاصل ہو جاے یا اوس درجہ مین ہمارا شمار ہو جسمین ہم نہین ہین تمامتر بدکرداری کی بنیاد ہے" لیکن برخلاف اسکے ادنی سے ادنی امور اخلاقی مین بتوجہ مشغول ہونا شرافت و فضیلت کی بنیاد ہے۔

عزت دار آدمی کی کفایت شعاری کے ساتھہ اپنی آمدنی صرف کرتا ہے اور ایمانداری سے بسر کرتا ہے۔ وہ اس بات کا نہین متلاشی رہتا کہ اپنی حالت موجودہ سے زیادہ تر دولتمند ہو جاے یا مقروض ہو کر تباہ ہو جاے۔ وہ آدمی ہرگز غریب نہین ہے جسکی آمدنی قلیل ہے لیکن اوسکی خواہشات طبیعت کی مطیع ہین۔ اسیطرح وہ آدمی امیر کہا جا سکتا ہے جسکی آمدنی اوسکی احتیاج سے زیادہ کافی ہو۔ جب سقراط نے دیکھا کہ بے انتہا زر و جواہر اور بیش بہا چیزین لوگ اتہنس مین لیجاتے ہین تو اوسنے کہا کہ "اب مین بہت سی ایسی چیزین دیکھتا ہون جنکی مجھے کچھہ ضرورت نہین ہے"

آدمی بوجہ اپنی بلند خیالی کے دولت کی کچھہ پرواہ نہین کرتا جسطرح فریڈی نے اپنی ساری دولت تحصیل علم مین صرف کر دی لیکن اگر اوسے روپیہ جمع کرنیکی خواہش ہوتی تو وہ بخوبی اسمین کامیاب ہو سکتا تھا اور مثل اون لوگون کے دوسرونکے سہارے پر زندگی بسر کرتا جو قرض کے عادی
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 99

ہین اور ادا کرنے کا کوئی ذریعہ نہین رکھتے۔

ہمیزلٹ جو ایک بڑا ایماندار لیکن فصول خرچ آدمی تھا بیان کرتا ہے کہ دنیا میں دو قسم کے لوگ ہوتے ہین جو ذرا بھی ایک دوسرے سے مختلف نہی ن ہوتے۔ ایک تو وہ جو اپنے پاس دولت نہین رکھہ سکتے اور دوسرے وہ جو قرض لینے سے باز نہین رہتے۔ اول الذکر کو ہمیشہ روپیہ کی اسوجہ سے احتیاج رہتی ہے کہ جہان کوئی ضرورت ہوئی وہ اوس سے مخلصی پانے کے واسطے روپیہ صرف کر ڈالتا ہے اور آخر الذکر اپنی دولت خرچ کر کے دوسرونسے قرض لیتا ہے جسکا آخری نتیجہ ضرور اوسکی تباہی اور بربادی ہے۔

اس قسم کے بدنصیب آدمیون مین شریڈن بھی تھا جسکو اپنے اخراجات کی کچھہ پرواہ نتھی اور ہمیشہ اون لوگون کا مقروض رہتا جو اوسپر اعتبار کرتے۔ لارڈ پامرتہن بیان کرتے ہین کہ ایک مرتبہ پارلیمنٹ مین بہت سے ایسے لوگ جمع ہوئے جو اوس سے اپنے قرضے کے متقاضی تھے۔ گوشریڈن کا برتاؤ ذاتی قرضخواہون کے ساتھ ایک نامعقول طور پر تھا لیکن پبلک کے روہیون کے ساتھ وہ نہایت ایمانداری سے تعلق رکھتا تھا حالانکہ اوس زمانہ مین یہہ خیال لوگونکے دلونمین ذرا بھی نہین تھا۔

سروالٹر اسکاٹ کے رگ و پے مین ایمانداری بھری ہوئی تھی۔ اوسکی مستقل اور جانفشان کوششین و اونسے سبکدوشی ھاصل کرنیکے واسطے بڑے فخر سے اوسکی سوانح عمری مین لکھی گئی ہین۔ جب اوسکے دوستون نے چاہا کہ اوسکا قرض اپنے پاس سے ادا کر دین تو اوسنے اون لوگونکو لکھا کہ اپنے قوت بازو سے اس تنگدستی کی حالت سے نجات حاصل کرونگا اور گو میرے پاس کوئی چیز نہ رہ جائے لیکن مین اپنے جامہ عزت پر کبھی دھبا نہ لگنے دونگا۔ اور فی الحقیقت اوسنے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 100

مرتے دم تک اپنی عزت و آبرو قائم رکھی۔

اوسی عُسرت و تنگدستی کی حالت مین سر والٹر اسکاٹ نے چند کتابین تصنیف کین جسکی قیمت سے اوسنے اپنا کل قرض ادا کیا۔ وہ کہتا ہے کہ مین پہلے کبھی اس آرام سے نہین سویا جیسا کہ اب مین آسایش سے بسر کرتا ہون کیونکہ جن لوگون کا مین قرضدار تھا اونکا یافتنی مین بیباق کر چکا اور اونکے شکریہ کے خطوط میرے پاس آ گئے اور علاوہ برین اس خیال سے مجھے زیادہ تر راحت ہے کہ مین نے اپنا فرض عزت و ایمانداری سے پورا کیا۔ میرے سامنے ایک طول طویل اور باریک راہ ہے لیکن اوسپر قدم جما کر چلنے سے سچی شہرت حاصل ہوتی ہے۔ پس جیسا کہ مجھے گمان ہے اگر مین نے تکلیف کی حالت مین دنیا سے کوچ کیا تو ایسی موت میرے عزت کا سبب ہے۔ اور اگر مین اپنے کام کو پورا کرتا رہونگا تو جس سے مجھے تعلق ہے وہ میرا شکر گزار ہو گا اور میرا کانشنس کود میری تعریف کریگا۔ چنانچہ کتابونکی تصنیف و تالیف مین اوسنے اسقدر محنت کی کہ اوسے فالج ہو گیا اور اس مرض سے نجات پانیکا کیا ذکر ہے ابھی اوسے ہاتھہ مین قلم پکڑنے کی بھی ۔۔۔۔۔ طاقت نہین حاسل ہوئی تھی کہ وہ اپنے لکھنے کی میز پر جا بیٹھا اور تصنیف و تالیف کے کام مین مشغول ہو گیا۔ اوسکا معالج فضول اوسکو محنت کرنے سے منع کرتا رہا کیونکہ وہ کبھی محنت سے باز نہین رہا اور اپنے طبیب ڈاکٹر ایرکمپنی سے کہا کہ جسطرح کسی ظرف کو آتشدان پر رکھکر یہہ کہنا فضول و عبث ہے کہ گرم مت ہواوسیطرح مجھے محنت سے باز رکھنے کی کوشش کرنی بالکل بیفائدہ ہے کیونکہ بےشغل رہنے سے مین پاگل ہو جاؤنگا۔ ان مشکل کوششون کے نتیجہ سے جو کچھہ فائدہ ہوا اوسنے اپنے قرضخواہونکو دیدیا اور خیا ل کیا کہ تھوڑے دنونکی محنت کے بعد مین بالکل آزاد ہو جاؤنگا۔ اس خیال کے بعد وہ پھر
 

زین

لائبریرین
91

چھٹا باب
خوداختیاری

خود اختیاری دلبری کی صرف ایک دوسری شکل ہے چال چلن کیواسطے اسکا ہونا یہی جزراعظم خیال کیا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسی صفت ہے جسکی نسبت شیکسپیر کا بیان ہے کہ اسے انسان اور حیوان میں تفریق معلوم ہوتی ہے اور فی الحقیقت بغیر اس صفت کے انسانیت نہیں ہو سکتی۔ خود اختیاری (اس لفظ کی سمجھ نہیں آئی اس لے خالی چھوڑ رہا ہوں) نکی جڑ ہے۔ لیکن اگر کسی شخص کو اسکی خواہشات اور اغراض پر قدرت ہوجائے تو گوار سے اخلاقی آزادی حاصل ہوگئی لیکن وہ اپنی زندگی بسر کرنے میں خواہشات کا مطیع ہوجائیگا از رے نتیجہ عقلی آزادی اور جانور نسے تضاوت حاصل کرنا اسی وقت میں ہو سکتا ہے جب آدمی اپنی خواہشات نضانی سے باز رہنے کی قدرت حاصل کرلے اور اس صفت کا حصول صرف خوداختیاری کی مشق پر منحصر ہے۔ پس یہ ایک ایسی قوت ہے جس سے خلقی اور طبعی زندگی کا تضاوت صاف معلوم ہو جائیگا اور اسکی وجہ سے شخص چال چلن کی ابتدائی بلیاد قایم ہو جائیگی۔
آسمانی کتابئیں اس قسم کے قوی آومیونکی تعریف نہیں کی گئی ہے جو ملک فتح کرتے ہیں بلکہ انکے قوادنکی مدح کی گئی ہے جو اپنی طبعیت پر حکمرانی کرتے ہیں اور یہ وہی لوگ ہیں جو اپنے خیالات۔ اقوال و افعال پر اختیار رکہتے ہیں۔ پس اگر خود اختیاری ضبط اور اپنی غرت کی نگہبانی کی جائے تو خواہشات و میمہ کی تعداد فیصدی صرف دس رہ جائے اور آدمی پاک باطن و حالی منش ہو جائے۔ اور چال چلن میں پارسائی نیکی اور عمدگی شامل ہوجائے۔
چال چلن کی ترتیب کا عمدہ ترین ذریعہ عادت ہے کہ راستی کے مطابق عمدہ آمد کڑاے


نوٹ: بہت سے الفاظ کی سمجھ نہیں آ رہی اس لیے غلطیاں بہت ہو رہی ہیں

صحیح جملہ شاید اس طرح ہے ’’خود اختیاری جملہ نیکیونکی (نیکیوں کی) جڑ ہے ‘‘

جیسا کہ شمشاد بھائی نے اس دھاگے میں بتایا ہے کہ کتاب میں پرانی املاء استعمال کی گئی ہے اس لئے نون غنہ کو بھی نون کی طرح ہی لکھا گیا ہے ۔


صفحہ 78

کی نسبت بیان کیا جات اہے کہ جسوقت اوسکو پھانسی کے تختہ پر چڑھنے کا حکم دیا گیا تو وہ اس شان سے تختہ پر قدم رکھتا تھا کہ گویا جنگی افسر کے مانند کسی لڑائی کر فتح کرنے جا رہا ہے۔ اسیطرح ہنری دین کی بابت یہی مشہور ہے کہ اوسنے دلیری سے اپنی جان دی اور جسوقت وہ قتل کے واسطے طلب کیا گیا تو اوسنے اپنی بی بی سے مخاطب ہو کر کہا کہ اگرچہ مین تمہین ایک یورش کی حالت مین چھوڑے جاتا ہون لیکن میرے تمھارے ملاقات اب جنت مین ہو گی۔ اگرچہ کامیابی اوسکا صلہ ہے جسکے واسطے لوگ محنت و تکلیف گوارا کرتے ہین۔ لیکن تاہم اونکو اکثر باستقلال محنت کرنی پڑتی ہے باوجودیکہ بادے النظر مین کامیابی کی صورت معلوم نہین ہوتی۔ لیکن اپنی دلیری سے مستعد رہتے ہین اور اس ۔۔۔۔۔۔۔ ہر ایک کام کی بنیاد شروع کر دیتے ہین کہ کسی نہ کسی وقت ضرور کوئی نتیجہ ظاہر ہو گا۔ بہتری صفت تہ یہہ ہے کہ باوجود متواتر ناکامیابیون کے کوشش بلیغ کے بعد فتحیابی حاصل کیجاے۔ اور جتنے موانعات واقع ہون سب دفع کئے جائین۔ اون لوگون کی تمثیل سے جو ملک کے واسطے برابر لڑتے رہے یا شہید ہوئے کا یا کالمبس کے مانند جسنے امریکہ کی تلاش مین مدت مدید تک سفر و دور دراز کی تکلیف و صعوبت گوارا کی دل مین بہت زیادہ جرات و ہمت پیدا ہوتی ہے بہ نسبت علی الاتصال کمیابیونکے۔ لیکن جس دلیری کی دنیا مین زیادہ تر ضرورت ہے وہ از قسم شجاعت نہین ہے۔ جسطرح کتب سیر و تواریخ مین میدان جنگ کے شجاعونکا ذکر ہے اوسیطرح انسان کو اپنی روزانہ زندگی مین بھی دلیری کا اظہار کرنا لازم ہے۔ ایمانداری کرنا۔ حرص و طمع سے باز رہنا۔ سچ بولنا۔ اپنی حیثیت کو بھول نجانا اور اوس سے بڑھکر اپنے کو


اس "امید" پر
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
صفحہ : 101

Tadbeer_page_0105.jpg

 
Top