پانچویں سالگرہ ایک صفحہ کتنی دیر میں ۔ ۔ ۔

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
صفحہ : 97

Tadbeer_page_0101.jpg

 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
91

چھٹا باب
خوداختیاری

خود اختیاری دلبری کی صرف ایک دوسری شکل ہے چال چلن کیواسطے اسکا ہونا یہی جزراعظم خیال کیا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسی صفت ہے جسکی نسبت شیکسپیر کا بیان ہے کہ اسے انسان اور حیوان میں تفریق معلوم ہوتی ہے اور فی الحقیقت بغیر اس صفت کے انسانیت نہیں ہو سکتی۔ خود اختیاری (اس لفظ کی سمجھ نہیں آئی اس لے خالی چھوڑ رہا ہوں) نکی جڑ ہے۔ لیکن اگر کسی شخص کو اسکی خواہشات اور اغراض پر قدرت ہوجائے تو گوار سے اخلاقی آزادی حاصل ہوگئی لیکن وہ اپنی زندگی بسر کرنے میں خواہشات کا مطیع ہوجائیگا از رے نتیجہ عقلی آزادی اور جانور نسے تضاوت حاصل کرنا اسی وقت میں ہو سکتا ہے جب آدمی اپنی خواہشات نضانی سے باز رہنے کی قدرت حاصل کرلے اور اس صفت کا حصول صرف خوداختیاری کی مشق پر منحصر ہے۔ پس یہ ایک ایسی قوت ہے جس سے خلقی اور طبعی زندگی کا تضاوت صاف معلوم ہو جائیگا اور اسکی وجہ سے شخص چال چلن کی ابتدائی بلیاد قایم ہو جائیگی۔
آسمانی کتابئیں اس قسم کے قوی آومیونکی تعریف نہیں کی گئی ہے جو ملک فتح کرتے ہیں بلکہ انکے قوادنکی مدح کی گئی ہے جو اپنی طبعیت پر حکمرانی کرتے ہیں اور یہ وہی لوگ ہیں جو اپنے خیالات۔ اقوال و افعال پر اختیار رکہتے ہیں۔ پس اگر خود اختیاری ضبط اور اپنی غرت کی نگہبانی کی جائے تو خواہشات و میمہ کی تعداد فیصدی صرف دس رہ جائے اور آدمی پاک باطن و حالی منش ہو جائے۔ اور چال چلن میں پارسائی نیکی اور عمدگی شامل ہوجائے۔
چال چلن کی ترتیب کا عمدہ ترین ذریعہ عادت ہے کہ راستی کے مطابق عمدہ آمد کڑاے


نوٹ: بہت سے الفاظ کی سمجھ نہیں آ رہی اس لیے غلطیاں بہت ہو رہی ہیں
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
92

کوشفین حکمران کہتے ہیں اور بیجا طور پر کام کرنے والے کو ظالم مرتکب کہتے ہیں۔ پس اسے وہ حالتیں پیدا ہوسکتی ہیں یا تو بہلائی کی طرف توجہ ہوگئی یا برائی کی جانب ترغیب ہوگئی۔ اخلاقی تعلم کی ابتدائی اور بہتریں تعلیم گاہ جمعلہ اس کتاب کے دوسرے باب میں بیان کیا گیا اگر اسکے بعد اسکول ہے اور تب کاروبار زندگی کی جگہ دنیا ہے۔ اسمیں سے ہر ایک جگہ ایک دوسرے کی تمہید ہے اور یہ ہر مرد و عورت کی حالت اور اسکے مطابق واقع ہوتی ہے جس طرح وہ ابتدا میں بنیاد قائم کرے۔ پس جس شخص نے گھر اور مدرسہ کی تعلیم سے فائدہ نہیں حاصل کیا اور جاہل ۔ غیر تعلیم یافتہ و غیرمہزب رباتو یہ اسکی بدقسمتی ہے اور تقلید سے اخلاقی چال چلن پر اثر ہوتا ہے لیکن سر شت اور جسمانی محبت پر یہی اسکا بہت کچھ اںصار ہے ہر شخصمیں یہ قوت ہے کہ وہ پانی دایمی خود اختیاری سے اوسے باقاعدہ درست و مرتب کرے۔ چنانچہ ڈاکٹر جانسن کا قول ہے کہ آدمی کا چہا برا ہوتا اسی کی خواہش پر منحصر ہے۔ ہمکو اختیار ہے کہ چاہے ہم اس میں صبر استقلال پیدا کریں یا حسد و ناشکری کے عادی ہوجائیں۔
اگر انسان میں خود اختیاری کی صفت نہیں ہے تو اس میں استقلال بھی نہیں ہو سکتا اور نہ اسکو اپنے قابو ہو سکتا ہے اور نہ دوسرے تکے واسطے کوئی بندوبست کر سکتا ہے۔ ایک مرتبہ پارلمنٹ میں اس امر کی بحث پیش ہوئی کہ وزیراعظم میں کونسی صفت ہونی بہت ضروری ہے لوگوں نے اپنے مختلف خیالات ظاہر کئے کسی نے کہا علم ہونا چاہے کسی نے کہا کہ جفاکشی ہونی چاہے لیکن بٹ نے کہا کہ نہیں صبر و استقلال کی ضرورت ہے جسکے معنی خود اختیاری کے ہیں اور وہ خود بھی اس صفت میں سب پر فایق تھا۔ اور اسکا دوست جارج روز بیان کرتا ہے کہ میں نے بٹ کو کبھی غصہ میں نہیں دیکھا یہ خود اختیاری اور استقلال کا سبب ہے جس سے چال چلن میں سچی جرات

93

پیدا ہو جاتی ہے۔ اس صفت میں ہمیڈن ایسا کامل تھا کہ مخالفیں معاملات کی بھی اسکے معرف رہتے تھے سر قلپ وارول جو اسکا مخالف تھا بیان کرتا ہے کہ ہم لوگ دوسرے کو مار ڈالتے اگر مسٹر ہمپڈن سا قابل اور حلیم مزاج آدمی اپنی گفتگو سے ہم کو باز نہ کرتا۔ سخت مزاجی کے لئے یہ ضرورت نہیں ہے کہ اسکو ہمشیہ خراب کہا جائے لیکن اس قسم کا مزاج اسی وقت میں قابل پسند ہوسکتا ہے جب آدمی میں اپنی طبیعت پر اختیار اور قابو رکنے کی صفت ہو۔
سخت مزاجی سے مراد ایک قسم کی برانگخیختگی ہے پس اگر طبیعت پر اختیار و قابو ہے تو مزاجی اور غیظ و غضب اس سے ظاہر ہوتا ہے لیکن جب طبعیت شایستہ اور اپنے حکم کی مطیع ہے تو اس سے قوت تاثیر اور بہت سے فوایہ پیدا ہوتے ہیں۔ تاریخ میں بڑے بڑے لوگ اکثر اسی قسم کے دیکھے گے ہیں لیکن ساتھہی اسکے اور یمن بہ قوت بہی بالاستقلال تھی کہ وہ پانی خواہشات کو اصول و قاعدہ کا پابند کر سکتے تھے۔
ارل آف اسٹیفرڈ مغلوب الغیط و خشمناک آدمی تھا اور اسکو اپنے مزاج کے دوست کرنے میں سخت کشاکشی واقع ہوتی تھی جب سکرٹری کوک نے اسکو اس عیب سے آگاہ کیا اور باز رہنے کی نصیحت کی تو اسنے مندرجہ ذیل مضمون لکھا
آپ نے مج کو حلیم مزاج ہونیکا عمدہ سبق تبلایا ۔ فی الحقیقت میری موجودہ حالت مجھے جوش و خروش کی تحریک دیتی ہے لیکن میں یقین کرتا ہوں کہ جس قدر میرا تجربہ بتاتا جیگا اور اس قدر اس عیب میں زوال ہوتا جائیگا اور طبیعت پر نگرانی سے یہ بات جاتی رہے گی
کرامول بھی ابتدائی زمانہ میں نہایت خود پسند اور سخت مزاج تھا اور اپنے شہر میں خود دائی کہ وجہ سے بدنام تھا لیکن مزہبی خیال نے یکا یک اسکی حالت میں ایک غیر معمولی تغیر پیدا کر دیا جس سے اسکے مزاج میں ایسی اصلاح ہوگئی کہ اپنی آزادگی میں اسنے برس تک انگلستان میں حکومت کی۔ خاندان نسوا کے شاہزادے
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
94

اس صفت میں مشہور تھے کہ انکے مزاج میں خود اختیاری اور استقلال کا مادہ تھا۔
ولیم اس وجہ سے ساکت نہیں مشہور تھا کہ وہ فی الحقیقت سکوت پسند تھا بلکہ وہ تو نہایت مقرر اور فصیح البیان آدمی تھا لیکن ایسے ہی موقع پر کہ جہاں خوش بیانی کی ضرورت ہوتی۔ وہ اپنی رائے ایسے موقع پر نہیں ظاہر کرتا تھا جہاں اسکی تقریر سے ملک کی آزادی میں ضرور نقصان پہنچنے کا گمان ہوتا اسکے مزاج میں ایسی شایستگی اور بردبادی تھی کہ اسکے دشمن اسے کم ہمت و بودا کہا کرتے لیکن ضرورت کے وقت وہ ایسا جری ہوجاتا تھا کہ کوئی اسکا مقابلہ نا کر سکتا
واشنگٹن کا ذکر بوجہ اسکی راستبازی، دلیری اور ذاتی قابلیت کے تاریخ میں بڑی عزت سے کیا جاتا ہے۔ مشکلات اور خطرات میں بھی اسکو اپنی طبعیت پر ایسا اخیتار رہنا تھا کہ جولوگ اس سے نا آشنا تھے انہیں بھی معلوم ہو جاتا تھا کہ اس شخص میں فلسفی حلم اور بردابادی ہے۔ اگرچہ واشنگٹن پیدایشی تیز مزاج تھا لیکن ہمیشہ مزاج کی تعلیم و ترتیب کرنے سے یہ نتیجہ ہوا کہ اس ترقی شایستگی خوش خلقی۔ ہمدردی کی صفتیں پیدا ہوگئیں اور اسکی سوائح عمری لکھنے والا بیان کرتا ہے کہ گو بعض اوقات اسکا طیش ظاہر ہوجاتا تھا لیکن وہ فورا اس وقت رکتا اور خود اختیاری کی اس میں ایسی بیش بہا صفت تھی کہ جو مشکل سے کسی دوسرے کہ حاصل ہوسکتی ہے

ڈیوک آف و لنگٹن بھی نیپولین کی طرح مغلوب الفیط آدمی تھا لیکن اس نے اپنی طبیعت کو خود اختیاری کا ایسا محکوم کیا کہ ہر عیب اس میں سے رفع ہوگیا۔ اور وہ حلیم و مستقل مزاج ہو گیا
ورڈ سورتہ شاعر لڑکپن میں تنک مزاج تندوخو اور غصہ والا تھا لیکن جب زمانہ کے گرم و سرد کا تجربہ ہوا تو اسکے مزاج میں خود اختیاری کی ایسی صفت پیدا ہوگی
 

زھرا علوی

محفلین
صفحہ 95

کہ جس طرح وہ لڑکپن میں کسی کی نصیحت قبول نہ کرتا اسطرح آئندہ زمانہ میں اپنے دشمنوں کے اعتراضات کی یہی کچھ پرواہ نہ کرتا۔
ہنری مارٹن بھی لڑکپن میں نہایت سرکش و ضدی تھا لیکن اس نے خواہشات نفسانی کو اپنا ایسا مطیع کیا کہ وہ سلیم الطبع اورمستقل مزاج آدمی ہو گیا جسکی اسے بے انتہا خواہش و تمنا تھی۔
جس طرح افعال پر اختیار رکھنا عمدہ صفت ہے اسی طرح اقوال پر بھی قابو رکھنا ایک وصف ہے۔ الفاظی سزا زیادہ موثر ہوتی ہے بہ نسبت جسمانی کے کیونکہ بعض اوقات باتیں نشتر کا کام کرتی ہیں۔ مس بریمر کا قول ہے کہ خدا الفاظی سزا سے مخفوظ رکھے کیونکہ اسکا زخم تلوار و خنجر کے زخم سے زیادہ جانگزا ہوتا ہے۔
چال چلن کا حال بہ نسبت کسی دوسرے امر کے زبان کے اختیار سے بخوبی معلوم ہو جاتا ہے ۔ دانشمند و متحمل آدمی کبھی سخت اور نا ملائم الفاظ اپنی زبان سے نہیں نکالے گا اور بر عکس اس کے بے وقوف آدمی بے دھڑک جو منہ میں آئے گا بک دے گا۔
سالومن کا قول ہے کہ عقلمند کا منہ اس کے دل میں ہے اور بے وقوف کا دل اسکے منہ میں ہے۔ اکثر ایسے لوگ ہیں جو بے وقوف نہیں ہیں لیکن وہ بے دھڑک کہہ بیٹھتے ہیں اور کر گزرتے ہیں اور اسکی یہی وجہ ہے کہ ان میں صبروتحمل بلکل ںہیں ہے۔
مامن کا بیان ہے کہ صرف فقرات کے ہیر پھیر سے بہت کچھ تغیر و تبدل ہو جاتا ہے۔ پس اگرچہ کوئی مضمون ہوشیاری کا کیوں نہ ہومگر جب وہ سختی اور درشتی پر محمول ہوتو گو اس سے بعض رہنا مشکل ہے لیکن یہ بہت مناسب ہےاور اسکی اشاعت صرف ودات کے ہی دور میں محدود رہ جائے ۔ ایک مثل ہے کے قلم کی جراحت ناخن شیر کے زخم سے زیادہ تر تکلیٍف دہ ہے۔
کارلایل - الورکرامول کا مقولہ بیان کرتا ہے کہ جو شخص اپنے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 81

کیا کہہ سکتےہین۔ عالی مرتبہ۔ دولتمند اور تعلیم یافتہ لوگ بھی ایسے جاہل آدمیونکی راے لینے کے واسطے اونکی خوشامد کرتےہین اور بدخصلتی و بے ایمانی کرنے پر اپنی شہرت کی غرض سے تیار ہو جاتے ہین۔ پس جب عالی مرتبہ لوگ اپنے اظہار راے پر دلبری نہین کر سکتے تو ادنی درجہ کے لوگ کیا کر سکتے ہین بجز اسکے کہ یہہ بھی راستی سے انحراف کرین۔ جھوٹھہ بولین اور بزدلی کرین۔

روسی مقولہ ہے کہ کوئی شخص غمازی یا خوشامد کر کے عزت نہین حاصل کرتااور جو شہرت کہ اسطرحسے یا حق کو پوشیدہ کر کے حاصل کیگئی ہے وہ ایماندار آدمی کی نظرونمین ہمیشہ ذلیل و خوار رہتی ہے۔

مضبوط چال چلن والے آدمی بیدہڑک سچ بات کہتے ہین گو وہ مشہور نہو۔ کرنل ہچنسن کی نسبت کہا جاتا ہے کہ وہ لوگونکی تعریف کرنیکی کچھ پرواہ نکرتا اور نہ اوسپر فخر کرتا وہ بہت کام کر کے زیادہ بشاش رہتا بہ نسبت اسکے کہ اپنی تعریف سنے۔

سر جان بیکنگٹن کا قول ہے کہ شہرت کوئی ایسی چیز نہین جو حاصل کیجاے۔ انسانکو اپنا فرض پورا کر کے اپنے کاتشنسن سے سچی شہرت اور تعریف حاصل کرنی چاہیے۔

رچرڈ لاول اجورتیہ نے اپنی بیٹی سےکہا کہ میری شہرت بہت بڑہتی جاتی ہے مجھے خوف ہے کہ مین کام کا نرہون گا۔ کیونکہ وہ آدمی بالکل بیکار ہو جاتا ہے جسکی شہرت بہت بڑھ جاتی ہے۔

مدرکانہ دلیری چال چلن کی آزادی اور اعتبار کے واسطے نہایت ضروری ہے انسان مین خود ایک قسم کا مادہ ہونا چاہیے نہ کہ کسی دوسرے کا اثر یا پرتو ہو اوسے اپنی طاقت سے کام لینا چاہیے۔ اپنے خیالات سے قیاس کرنا چاہیے۔ اپنی راے سے گفتگو کرنی چاہیے۔ اپنے خیالات کی تکمیل اور استفادات کی درستی
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 82

کرنی چاہیے۔ اور جو لوگ اپنے خیالات کے درست کرنیکی جرات نہین کرتے وہ بزدل۔ کاہل اور بیوقوف کہے جا سکتے ہین۔ اسی دماغی جرات کے نہونے سے لوگ ناکام رہتے ہین اور اپنے دوستونکی امیدونکو مایوسی کے ساتھ مبدل کر دیتے ہین۔ وہ منزہ مقصوت تک جانا چاہتے ہین۔ لیکن چند قدم کے بعد ہمت ہار جاتے ہین اور اوسی قوت فیصلہ و جرات اور ثابت قدمی کی ضرورت ہو جاتی ہے۔وہ خطرات اور حادثات کا اندیشہ کرنے لگتے ہین یہانتک کہ موثرانہ کوشش کا وقت گزر جاتا ہے جو پھر نہین لوٹ سکتا۔

انسان اگر راستبازی کی قدر کرتا ہے تو وہ اوسپر کاربند ہونیکو مجبور ہو جاتا ہے۔ جان پایم کا قول ہے کہ اظہار صداقت مین مجھے جسقدر تکلیف ہو مین گوارا کر سکتا ہون لیکن اگر میرے بیان سے صداقت کو خون ہو تو اوسے نہین برداشت کر سکتا۔ جب کوئی شخص ایمانداری سے اپنے اعتمادات درست کر لیتا ہے تو وہ غور و فکر کے بعد اوسے جائز طور پر عمل مین لاتا ہے۔

قدرتی طور پر ایماندار آدمی دغاباز کا مخالف ہوتا ہے سچا آدمی جھوٹے کا۔منصف مزاج آدمی ظالمونکا۔ پاکیزہ منش آدمی گنہگار فاسق کا۔ایسے متبرک آدمیونکو ہمیشہ ان مذموم حالتونکا مقابلہ کرناپڑا ہے اور حتے الامکان اون لوگون نے کامیابی حاصل کی۔

دلیر اور مضبوط آدمی دنیا مین حکمرانی کرتے ہین اور دوسرے لوگون کی رہنمائی و پیشوائی کرتے ہین۔ کمزور اور بزدل اپنے بعد کوئی نشان نہین چھوڑ جاتا لیکن راستباز اور دلیر آدمی اپنے بعد ایک ایسی روشنی مشتعل کر جاتا ہے جسکے ذریعہ سے اوسکی تمثیل پر عملدرآمد کیا جاتا ہے۔ اوسکے خیالات اور جرات و دلیری سے آیندہ نسلونکواوسکی تقلید کی خواہش و ترغیب ہوتی ہے۔ جو
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 83

لوگ کہ مشکلات پر فتحیابی حاصل کرتے ہین اونھین واقفیت رہتی ہے کہ وہ کامیاب ہونگے۔ اونکے تیقن سے دوسرونکو بھی یقین ہوتا ہے۔

سیزر ایکمرتبہ جہاز پر سوار تھا کہ اتفاقاً طوفان آیا ناخدا یہہ حالت دیکھکر سخت پریشان ہوا۔ تب سیزر نے اوس سے کہا کہ کوئی خوف کی جگہہ نہین ہے میرا جہاز نہین تباہ ہو سکتا کیونکہ اوسمین سیزر ہے۔ دلیر آدمیونکی جرات متعدی ہے جسے دیکھکر دوسرونکو بھی حوصلہ ہوتا ہے۔

مستقل آدمی کو کبھی کسی کام مین شکست نہین ہوتی۔ ڈایگنسن ایکمرتبہ اسٹستنس کے پاس گیا تا کہ اوسکا شاگرد ہو لیکن اوسنے انکار کیا۔ ڈایگنس پھر بھی اپنے ارادہ سے باز نرہا تب اسٹستنس نے اپنا ڈانڈا اوٹھا کر ۔۔۔۔۔۔مکایا اور کہا کہ اگر تو اب بھی یہان سے نہ چلا جائیگا تو مین تجھے مارون گا۔ ڈایگنس نے جواب دیا کہ آپ مجھے شوق سے مارین لیکن آپکو کوئی ایسا آلہ نملیگا کہ آپ اوس سے میری ثابت قدمی اور استقلال کو زائل کر سکین۔ یہہ سنکر اسٹستنس نے بمجبوری اوسے اپنی شاگردیمن قبول کیا۔ مستقل مزاجی کے ساتھ اگر انسان مین کچھ دانش بھی ہو تو زیادہ مفید ہے بہ نسبت اسکے کہ صرف ذہانت ہو۔ مستقل مزاجی چال چلن کے واسطے ایک ایک تجربکی قوت ہے اور اگر ادراک اور تحمل بھی اسمین شامل ہو تو کاروبار زندگی مین فائدہ کے ساتھہ مصروف ہونیکی انسان کو بڑی قابلیت ہو جاے۔ مستقل مزاجی کے ساتھ کام کرنیوالے اوسط درجہ کے آدمیونکی ذات سے بہت بڑے بڑے امور ظہور پذیر ہوتے ہین کیونکہ دنیا مین جن لوگون نے بہت مضبوطی سے حکومت کی ہے وہ ایسے ذہین نہین تھے جسدرجہ مین کہ وہ مستقل مزاج محنتی اور ثابت قدم تھے۔ جن لوگونمین یہہ اوصاف تھے اونکے نام ذیل مین لکھے جاتے ہین۔ محہر۔ لوتھر۔ ناکس۔ کالون۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 84

لایلا۔ اور وسلی۔

دلیری کے ساتھ اگر مستقل مزاجی اور ثابت قدمی بھی ہو تو بڑی بڑی مشکلات مین کامیابی ہو سکتی ہے جو بادے النظر مین غیر ممکن ہوتی ہین۔ اس سے کوشش کی جرات و رغبت ہوتی ہے اور یہہ پس پا نہین ہونے دیتی۔ استقلال کے ساتھ باقائدہ جو کام علے الاتصال کیا جاے تو چاہے کیسا ہی حقیر آدمی کیون نکرے ممکن نہین کہ اوسکا صلہ نہ ملے۔ لیکن کسی دوسرے کی اعانت پر بھروسا کرنا بالکل فضول ہے۔ میکائیل کے مربی نے جب انتقال کیا تو اوسنے کہا کہ میرے خیال مین دنیا کی امیدین بالکل فانی اور ناپائدار ہین پس کسیکے کام آنا اور فائدہ پہونچانا بھی ایک عمدہ وسیلہ ہے۔

دلیری سے رحمدلی کسیطرح علٰیحدہ نہین ہے کیونکہ اسی رحمدلی اور ترقی کیوجہ سے اکثر لوگ مشہور ہوتے ہین جنہون نے بہت بڑے بڑے دلیرانہ کام کئے ہین۔

سر چارلس تیسپر نے شکار کھیلنا اسوجہ سے ترک کر دیا کہ وہ بیزبانونکی اذیت رسانی گوارا نکرسکا۔ اسی قسم کی رحمدلی اور نرمی سر ولیم نیپر اور سر جیمس اوٹرم مین بھی تھی۔

شہزادہ اڈورڈ نے جب جنگ پائیرس فتح کی اور شاہ فرانس کو معہ اوسکے بیٹے کے قید کر لیا تو شام کو ان دونونکی دعوت کی اور جب تک شاہ فرانس معہ اپنے بیٹے کے نہ آ گیا اوسوقت تک شاہزادہ میز پر کھانیکا منتظر رہا۔ جسطرح شاہزادہ کی شجاعت نے اونکے اجسام پر قبصہ کر لیا تھا اوسیطرح اس برتاو سے شاہزادہ کے دلیرانہ اخلاق نے انکے دلون پر بھی قابو حاصل کر لیا۔ اڈورڈ اپنے زمانہ مین ایک سچا بہادر اور جرات و دلبری کا عمدہ نمونہ تھا۔

یہہ صفت دلیر آدمیونمین ہوتی ہے کہ وہ فیاض ہوتے ہین یا یہہ کہنا چاہیے کہ اونکی طبیعت مین قدرتی طور پر فیاضی ہوتی ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 85

فیرفیکس نے جب جنگ نیسپی مین اپنی فوج مخالف کا نشان چھین لیا تو اوسے ایک سپاہی کو دیکر کہا کہ احتیاط سے رکھو۔ اوس سپاہی نے مشیخت مین آ کر کہنا شروع کیا کہ یہہ جھنڈا مین نے خود چھینا ہے۔ جب اس خبر کی سراغ فیرفیکس کو ہوئی تو اوسنے جواب دیا کہ کچھ مضایقہ کی بات نہین ہے یہہ عزت اوسیکے حصہ مین رہے مجھے علاوہ اسکے اور بہت سے تفاخر حاصل ہین۔

نرم دلی کے ساتھ بہادر آدمی عالی حوصلہ بھی ہوتا ہے وہ اپنے دشمن کو بھی بیموقع نہین گرفتار کرتا اور نہ ایسے عاجز کو قتل کرتا ہے جو اپنی حفاظت پر قادر نہین ہے۔ اس قسم کی فیاضانہ تمثیلین محاربہ عظیم مین بھی دیکھی گئی ہین۔ چنانچہ جنگ ڈٹنگن مین عین جوش و خروش کے وقت جب فرانسیسی سوارون نے انگریزی سوارونپر حملہ کیا تو نوجوان فرانسیسی افسر قریب تہا کہ انگریزی افسر پر حملہ کرے لیکن جب اوس نے دیکہا کہ انگریزی افسر کےصرف ایک ہاتہہ ہے جس سے وہ اپنے گہوڑے کی باگ پکڑے ہے تو نوجوان فرانسیسی انگریزی افسر کو اخلاق کے ساتہہ تلوار سے سلام کر کے ہٹ گیا۔ چارلسن پنجم کی نسبت بیان کیا جاتا ہے کہ جب اوس نے محاصرہ کے بعد ڈنسبرگ پر قبصہ کیا تو شاہ چارلس۔ لوتہر کی قبر دیکہنے کو گیا۔ بادشاہ ابہی مزار کا کتبے پڑہ رہا تہا کہ اوسکے ایک کمینہ خصلت مصاحب نے کہا کہ اس ملحد کی قبر کہودوا کر اوسکی خاک ہوا مین اوڑا دینی چاہئے۔ یہہ سنکر بادشاہ کو ایسا طیش آیا کہ اوسکا چہرہ سرخ ہو گیا اور کہا مین مُردونسے نہین جنگ کرتا۔ اور اس مقام کی عزت کرنی چاہئے۔ دو ہزار برس پیشتر جو اصول ارسطالیس نے ایک جوانمرد یا دوسرے الفاظ مین اصلی شریف آدمی کے واسطے بیان کئے ہین اونکی اس زمانہ بہی ویسی ہی تصدیق ہوتی ہے جیسی کہ خود اوسکے وقت مین صداقت تہی۔ اوسکا قول ہے کہ دلیر آدمی اچہی اور بُری دونون حالتونمین یکسان
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 86

یہ برتاؤ کرتا ہے۔ اوسے معلوم ہے کہ عروج کیونکر ہوتا ہے اور ادبار کسوجہ سے آتا ہے۔ وہ نہ تو کامیابی سے محظوظ ہوتا ہے اور نہ ناکامی سے مغموم۔ نہ وہ خطرات سے ڈرتا ہے اورنہ اوسکی تلاش کرتا ہے کیونکہ کوئی چیز ایس نہین ہے جسکی اوسے کچہہ پرواہ ہو۔ وہ اگرچہ ذرا کم گو اور خاموش ہوتا ہے لیکن جب موقع آتا ہے تو وہ نہایت توضیح کے ساتہہ بلا تکلف اپنے خیالات ظاہر کرتا ہے۔ وہ اس وجہ سے قابل تعریف ہے کہ کوئی چیز اوسکے نزدیک مشکل نہین ہے۔ وہ اپنے یا کسی دوسرے کی نسبت کچہہ بحث نہین کرتا کیونکہ نہ اوسے یہہ پسند ہے کہ کوئی اوسکی تعریف کرے اور نہ یہ خواہش ہے کہ اوسکے سامنے کسی کی توہین کی جاے۔ وہ نہ تو چہوٹی چہوٹی چیزونکا کچہہ خیال کرتا ہے اور نہ مدد کے لئے دوسرونسے ملتجی ہوتا ہے۔

لیکن برخلاف اسکے کمینہ خصلت لوگ مذموم افعال کو پسند کرتے ہین۔ اونمین دلیری۔ فیاضی۔ غیرت کچہہ بہی نہین ہوتی وہ عاجزون اور بیکسون پر قابو حاصل کرنے کے واسطے موجود رہتے ہین تاکہ خود صاحب اختیار ہو جائین۔ جس نیت سے کہ کوئی کام کیا جاتا ہے اوسکا اوسیطرح پر اثر ہوتا ہے پس جو کام فیاصانہ طبیعت سے عمل مین آئیگا وہ بہت شکرگزاری کے ساتہہ قبول کیا جائیگا اور جو فعل کہ کراہیت کے ساتہہ کیا جائیگا گو فی الحقیقت وہ سخت و زبون نہو لیکن بہت ناگوار ہو گا۔ جب بیمن جانسن افلاس کی حالت مین بیمار ہوا تو بادشاہ نے ایک قلیل المقدار رقم بطور انعام کے اوسکے پاس بہیجی۔ شاعر چونکہ صاف گو اور غیور تہا اوس نے کہلا بہیجا اور اور اوس عطیہ کو واپس کر دیا کہ بادشاہ نے مجہے مفلس سمجھکر یہہ رقم بہیجی ہے حالانکہ خود اوسکی روح نہایت ذلیل ہے۔ جو کچہہ کہ اس بحث مین ہم بیان کر چکے ہین
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 87

اوس سے یہہ نتیجہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ چال چلن کے واسطے مستقل مزاجی اور دلیری کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ یہہ ایک ایسا منبع جس سے زندگی میں صرف فواید نہین حاصل ہوتے بلکہ حقیقی مسرت بہی نصیب ہوتی ہے۔ لیکن برخلاف اسکے بزدل و ڈرپوک ہونا بڑی بدبختی ہے۔ ایک دانشمند آدمی بیان کرتا ہے کہ مین نے اپنے لڑکے اور لڑکیونکی تعلیم مین اصل اصول اور جزو اعظم اسکو قرار دیا تہا کہ اونہین اس قسم کی تعلیم دینا کہ اونکے دلونسے ڈر اور کوف باالکل زائل ہو جاے۔ بلا شبہہ جسطرح زندہ دلی اور پڑہنے کی طرف محنت و توجہ کی تعلیم دیجاتی ہے اوسیطرح یہ بھی تعلیم ہونی چاہئے کہ ڈرنے کی عادت دفع ہو۔ اکثر توہمات سے لوگ بہوت پریت کی خیالی شکلین قایم کر لیتے ہین اور ڈر جاتے ہین۔ حتے کہ وہ لوگ بہی جو واقعی خطرات کا مقابلہ کر کے فتحیابی حاصل کرتے ہین ان خیالی تصورونسے مجبور ہو کر گرداب حیرت و پریشانی مین چکر کہا یر کرتے ہین اور اپنی ہی پیش بندی اور پیدا کر دہ تصورات سے تکلیف اوٹھانی پڑتی ہے۔

فرقہ اُناث مین عام طور پر دلیری کی تعلیم نہین شامل ہے حالانکہ یہ بہ نسبت تعلیم رقص و سرود یا تعلیم استعمال کشیدہ کے بہت زیادہ ضروری ہے۔ ہمین لازم ہے کہ عورتونکو دلیری و استقلال کی تعلیم دیکر اونہین زیادہ تر معین و معتبر۔ مفید و کارآمد بناوین۔ بزدل اور ڈرپوک عورت مین کسی قسم کی کوئی بات قابل پسند نہین ہوتی۔ ہر طرح کی کمزوری چاہے دماغی ہو یا جسمانی عیب و نقص کے برابر ہے۔ جسطرح دلیری مقرر و ممدوح صفت ہے اوسیطرح بزدلی حقیر و مذموم ہے۔ تاہم رحمدلی اور نرمی کا وصف بہی دلیری کے ساتہہ شامل ہے۔ اری شفر نے ایکمرتبہ اپنی بیٹی کو لکہا کہ دلیر اور نرم دل ہونیکی کوشش کرو کیونکہ یہہ عورتونکے اصلی اوصاف ہین ہر شخص کو تکلیف کا سامنا ہوتا ہے لیکن اسطرحپر تقدیر کا شاکر رہنا چاہئے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 88

کہ رنج ہو راحت دونون مین عزت کے ساتہہ بسر کرے۔ ہمکو کبہی کم ہمت نہونا چاہئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جن سے ہمین محبت ہے خرابی گوارا کرنی ہو گی۔ علے التواتر کوشش کرنا اور برابر فکر و غور مین مصروف رہنا ہی زندگی کا ترکہ ہے۔

تجربہ سے ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہے کہ عورتین بہی مردونکے مانند مشکلات و مصائب ۔۔۔۔۔۔ ہین لیکن جب تہوڑی تکلیف گوارا کر کے اونہین یہ بات تعلیم کیجاے کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کی حالت میں ثابت قدم رہنا چاہئے۔

لیکن ۔۔۔۔ تعلیم اسکی اُوس حالت مین ہو سکتی ہے جب دماغی اور طبعی قوت بہی درست کیجاے۔ عورتونکو بہی چال چلن کی درستی کے لئے طبعی قوت کی اوسیقدر ضرورت ہے جیسی کہ مردونکو کیونکہ اس سے کاروبار زندگی کے انجام مین اونہین قابلیت ہوتی ہے اور مصیبت کے وقت ہمت و مضبوطی کے ساتہہ کام کرنیکی جرات ہوتی ہے۔ عوتون مین بہی مردون کے مانند چال چلن کا ہونا نیکی کا سبب ہے اور مذہبی پابندی کا باعث ہے۔ جسمانی خوبصورتی بہت جلد زائل ہو جاتی ہے لیکن طبیعت و دماغ کی عمدگی روز بروز بڑہتی جاتی ہے۔ عورتونکے صبر و استقلال کے واقعات بہی اکثر دیکہے گئے ہین چنانچہ تاریخ مین گوٹر وڈونڈر وارٹ کی حکایت بہت مشہور ہے۔ کہ جب اوسکے شوہر پر یہہ غلط الزام لگایا گیا کہ وہ شاہنشاہ البرٹ کے قتل مین شریک تہا اور نہایت بیرہمی کے ساتہہ یہہ سزا سنائی گئی کہ وہ پہیہ مین زندہ باندھ دیا جائیگا تا کہ اوسکا جسم پرزے پرزے اوڑ جاے۔ اس حالتمین یہ وفادار عورت اپنے شوہر کے اخیر وقت تک اوسکے پاس کہڑی ہو کر مضبوط دلیلونسے اوسکی بیجرمی ثابت کرتی رہی یہانتک کہ دو دن اور دو رات اسیطرح گزر گئے۔ لیکن عورتون نے صرف محبتانہ جرات نہین ظاہر کی بلکہ دلیری بہی دکہلائی ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 89

چنانچہ جیمس دویم شاہ اسکاٹ لینڈ جب پرتہہ مین مقید تہا تو اوس نے اپنی بیگم سے کہا کہ تم دروازہ پر کہڑی ہو تا کہ کوئی آنے نہ پائے اور ہملوگ محفوظ رہین۔ لیکن باغیون نے پہلے ہی سے دروازے کے قفل توڑ دالے تھے تا کہ کنجی سے کہولنا نہ پڑے۔ جب بیگم کو یہہ معلوم ہوا کہ باغی آ گئے تو وہ نہایت دلیری سےدروازہ پر آ کر کہڑی ہو گئی اور جب تک باغیون نے اوسکے ہاتہہ نہ کاٹ ڈالے وہ ثابت قدمی کے ساتہہ کہڑی رہی اور مجروح ہونیکے بعد بہی اون لوگونکو باز رکہنے کی کوشش بلیغ کی۔

سارلاٹ ڈیلاٹری موال کی تمثیل بہی اس قسم کی ہے کہ جب وہ پارلیمنٹ مین اسواسطے طلب ہوئی کہ اپنا مکان حوالہ کر دے تو اوس نے کہا کہ میرا شوہر مکان کی حفاظت میرے متعلق کر گیا ہے مین بغیر اوسکے حکم کے نہین دیسکتی۔ یہ کہکر اوس نے اپنی نگہبانی اور آزادی خدا کے بہروسے پر چہوڑ دی اور ایک برس تک نہایت استقلال اور دلیری کے ساتہہ اپنے کام مین مشغول رہی یہانگک کہ تین مہینے کے بعد شاہی فوج نے محاصرہ اوٹہا لیا۔

سارہ جارٹن ۔ ایک غریب آدمی کی لڑکی تہی اور صغیر سن ہی مین یتیم ہو گئی۔ اپنی دادی کے ساتہہ کبسڈ مین آئی اور خیاطی کر کے ایک شلنگ روز پیدا کرتی اور اسی سے اپنی اوقات بسری کرتی۔ 1819 عیسوی مین ایک عورت یارما دہتہ کے قید خانہ مین اسوجہ سے قید کی گئی کہ اوس نے اپنے بچے کو نہایت بیرحمی سے مارا تہا اور اوس زمانہ مین یہہ حکایت زبان زد خاص و عام تہی۔ سارہ مارٹن کو اوس عورت کی ملاقات کا اشتیاق پیدا ہوا اور مجلس مین اوس سے ملنے گئی لیکن دربان نے پہلے اوسے اندر جانیکی اجازت ندی اسپر بہی وہ اپنی خواہش سے باز نرہی اور پہر داخل ہونیکی درخواست پیش کی جسے دربان نے منظور
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 90

کر لیا۔ وہ مجرمہ تہوزی دیر تک اوسکے سامنے کہڑی رہی۔ جب سارہ مارٹن نے اپنے آنیکی وجہ بیان کی تو مقید عورت پہوٹ پہوٹ کر رونے لگی اور اوسکی شکر گزاری کی۔ یہ حالت دیکہکر سارہ مارٹن کی نظرونمین اوسکی آیندہ زندگی کی تصویر پہر گئی اور جب اوسکو اپنے کامونسے فرصت ملتی تو قید خانہ مین آ کر قیدیونکو دینی تعلیم دیتی اور پڑہنا لکہنا سکہاتی۔ اتوار کے علاوہ ایکدن اور بہی اس کام مین صرف کرتی اور اپنے اوپر خدا کی مہربانی سمجہتی۔ وہ اوس عورت کو سینا پرونا سکہلاتی اور محنت کرنیکی تعلیم دیتی اوردوسرے قیدیونکو بہی ٹوپی و قمیض بنانا سکہاتی تاکہ وہ کاہلی سے باز رہین۔ قید خانہ مین مصروف ہونیکی وجہ سے سارہ مارٹن کے اصلی پیشہ کیطرف متوجہ ہوتی ہے تو قید خانہ کا کام بالکل بند جائیگا۔ بہرکیف اوس نے یہ فیصلہ کیا کہ چہہ یا سات گہنٹے روز قیدیونکی تعلیم مین محنت کرتی۔ جب مارمادہپہ کے مجسٹریٹ کو اوسکا حال معلوم ہوا تو بارہ پاونڈ سالانہ اوسکی تنخواہ مقرر کر دی گئی۔ تین برس سے زیادہ اس پاکیزہ ۔۔۔۔۔۔ عورت نے اپنے اس نیک کام کو انجام دیا اور جب پیرانہ سالی کے زمانہ مین اوسے ضعف و عوارض نے گہیر لیا تو وہ اپنے اس مشغلہ کو چہوڑ کر دماغی محنت کی طرف مصروف ہوئی یعنی شاعری کی طرف توجہ کی جسکی مشق اوس نے پہلے سے اپنے فرصت کے وقت مین کر رکہی تہی۔ اسکی سوانح عمری سے یہہ نتیجہ مستخرج ہوتا ہے کہ وہ ہمیشہ دلیری۔ ثابت قدمی۔ فیاضی اور دانشمندی کی تمثیل تہی۔

**********************************
*****************************​
 

شمشاد

لائبریرین
شمشاد صفحہ 81 تا 90
خرم شہزاد خرم صفحہ 91 تا 94
زہرا علوی صفحہ 95
مکمل ہو چکے ہیں۔

صفحہ 96 تا 100 باقی ہیں۔
 
Top