91
چھٹا باب
خوداختیاری
خود اختیاری دلبری کی صرف ایک دوسری شکل ہے چال چلن کیواسطے اسکا ہونا یہی جزراعظم خیال کیا جاتا ہے۔ یہ ایک ایسی صفت ہے جسکی نسبت شیکسپیر کا بیان ہے کہ اسے انسان اور حیوان میں تفریق معلوم ہوتی ہے اور فی الحقیقت بغیر اس صفت کے انسانیت نہیں ہو سکتی۔ خود اختیاری (اس لفظ کی سمجھ نہیں آئی اس لے خالی چھوڑ رہا ہوں) نکی جڑ ہے۔ لیکن اگر کسی شخص کو اسکی خواہشات اور اغراض پر قدرت ہوجائے تو گوار سے اخلاقی آزادی حاصل ہوگئی لیکن وہ اپنی زندگی بسر کرنے میں خواہشات کا مطیع ہوجائیگا از رے نتیجہ عقلی آزادی اور جانور نسے تضاوت حاصل کرنا اسی وقت میں ہو سکتا ہے جب آدمی اپنی خواہشات نضانی سے باز رہنے کی قدرت حاصل کرلے اور اس صفت کا حصول صرف خوداختیاری کی مشق پر منحصر ہے۔ پس یہ ایک ایسی قوت ہے جس سے خلقی اور طبعی زندگی کا تضاوت صاف معلوم ہو جائیگا اور اسکی وجہ سے شخص چال چلن کی ابتدائی بلیاد قایم ہو جائیگی۔
آسمانی کتابئیں اس قسم کے قوی آومیونکی تعریف نہیں کی گئی ہے جو ملک فتح کرتے ہیں بلکہ انکے قوادنکی مدح کی گئی ہے جو اپنی طبعیت پر حکمرانی کرتے ہیں اور یہ وہی لوگ ہیں جو اپنے خیالات۔ اقوال و افعال پر اختیار رکہتے ہیں۔ پس اگر خود اختیاری ضبط اور اپنی غرت کی نگہبانی کی جائے تو خواہشات و میمہ کی تعداد فیصدی صرف دس رہ جائے اور آدمی پاک باطن و حالی منش ہو جائے۔ اور چال چلن میں پارسائی نیکی اور عمدگی شامل ہوجائے۔
چال چلن کی ترتیب کا عمدہ ترین ذریعہ عادت ہے کہ راستی کے مطابق عمدہ آمد کڑاے
نوٹ: بہت سے الفاظ کی سمجھ نہیں آ رہی اس لیے غلطیاں بہت ہو رہی ہیں