پانچویں سالگرہ ایک صفحہ کتنی دیر میں ۔ ۔ ۔

شمشاد

لائبریرین
صفحہ ۱۱۵

دامن تمنا کو گل مراد سے بھر لیتے ہین۔

یہہ بڑے دانشمند اور عالی دماغ آدمی کا کام ہے کہ وہ برائیونکی ظلمت سے بھلائی کی چمک کو دیکھکر تعجب کرے۔ یا حالت فلاکت مین وہ اپنی آیندہ فلاح کی امید قائم کرے یا دکھہ درد مین وہ اپنے محنت کے ذریعون کو پہچان لے یا تکلیف و مصیبت و رنج و غم مین وہ اپنے مین استقلال و دلیری و علم و ادراک پیدا کر لے۔ جب جرمی ٹیلہ کی کل دولت و ملکیت چھین لیگئی اور مال و اسباب سب ضبط کر لیا گیا اور وہ مع اپنے خاندان کے نکال دیا گیا تو باوجودیکہ وہ ایسی مصیبت کی حالت مین گرفتار تھا لیکن ایسے وقت مین جو مضمون اوسنے لکھا وہ نہایت قدر کے قابل ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اگرچہ برباد کرنیوالون نے میری معاش و جائداد کل ضبط کر لی اور کوئی چیز میرے پاس باقی نہین رہنے دی لیکن تاہم اون لوگون نے میرے واسطے آفتاب و ماہتاب۔ زمین و آسمان کو چھوڑ دیا ہے۔ میری بی بی کو میرے پاس رہنے دیا ہے۔ میرے بہت سے دوست ایسے موجود ہین جو میرے حال پر ترس کھاتے ہین اور مدد کیواسطے حاضر ہین۔ اور اب بھی مین اون چیزونکی فہرست پیش کرتا ہون جو کہ مجہسے نہین چہینی گئی ہین اور میرے پاس موجود ہین یعنی میری دلجمعی۔ میری دلیری اور کاشنشن۔ اون لوگون نے خدا کی رزاقی۔ کتاب مقدس کے وعدے اور آخرت کی امیدین میرے واسطے چھوڑ دین ہین۔ بہرکیف مین اب بھی کھاتا ہون پیتا ہون سوتا ہون۔ سوچھتا ہون اور غور کرتا ہون۔

اگرچہ زندہ دلی ایک پیدایشی بات ہے لیکن تاہم جسطرح اور عادتونکی درستی ہوتی ہے اسیطرح اسکی بھی تربیت ہو سکتی ہے۔ ہمکو اختیار ہے کہ چاہے ہم اپنی زندگی خوش اسلوبی سے بسر کرین یا بداطواری سے ضائع کرین اور ہمارے ہی اوپر منحصر ہے کہ اوس سے عیش و حسرت حاصل کرین یا تکلیف و صعوبت گوارا کرین۔ طرز زندگی کی تقسیم دو طرحپر ہے جسے ہم اپنے خوہش کے مطابق پسند کر سکتے ہین۔ خواہ تاریک خواہ روشن۔ ہم انتخاب کرتے ہین اپنی قوت ممیزہ کو درست کر سکتے ہین جسے سے ہم مین زندہ دلی کی صفت پیدا ہو۔ برعکس اسکے
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
صفحہ : 116

Tadbeer_page_0120.jpg

 

زین

لائبریرین
یہ بھی تو لکھنا تھا کہ کہاں تک لکھو گے؟ بہرحال 111 سے 115 تک میں لکھ رہا ہوں۔
اوہ۔ یہ تو بتانا بھول ہی گیا ۔ بہرحال میرا پانچ صفحات لکھنے کا ہی ارادہ تھا ۔
آج تو بارشوں اور سیلاب کے باعث موقع نہیں ملا ۔ کل تک انشاء اللہ پوسٹ کردوں گا۔
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 107، 108، 109 اور 110 باقی ہیں۔ اس کے بعد 111 تا 115 میں لکھ کر پوسٹ کر چکا ہوں۔

پھر 116 سے لکھنے ہیں۔
 

زین

لائبریرین
صفحہ نمبر 107
کہ آپ کچھ خوف نکیجئے ہملوگ اپنے فرض سے بخوبی واقف ہین۔
بنسن اور کالنگوڈھ بھی اپنے فرائض منصبی کے انجام مین مشہورو معروف تھے چنانچہ ان لوگونکا کا نوجوانون کے واسطے مقولہ تھا کہ جہانتک ہوسکے تملوگ اپنے فرائض منصبی کے انجام مین کوشش و محنت کرو۔
فرائض منصبی جیسا انگریزی قوم کے لوگ پورا کرتے ہین یا اس قوم کے مشہور و معروف لوگون نے جسقدر اپنے فرائض پوری کئے ہین شاہد ہی کوئی دوسری قوم اس درجہ تک پہونچے چنانچہ بنسن نے جو کام بڑا فلگر کے میدان مین کیا وہ کسی عزت، شہرت اور ناموری کی غرض سے نہین بلکہ محض فرض منصبی کے لحاظ سے انجام دیا۔ قومی فرض کا خیال بھی ایک ضروری اور جزو اعظم ہے اور جب تک اوسکی بنیاد قائم رہتی ہے اوسوقت تک کسی ایندہ مایوسی کا اندیشہ نہین ہوسکتا لیکن جب یہہ صفت زائل و تنزل پذیر ہوجاتی ہے تو قومی تباہی و بربادی کا ہر وقت اندیشہ کرنا چاہیئے ۔ فرانسیسی قوم کی جو ذلت و خواری جرمنی کے مقابلہ مین ہوئی اوسکی یہی وجہ تھی کہ ان لوگون مین یہہ صفت بالکل نہین تھی کہ وہ اپنا فرض پورا کرین۔ چناچنہ 1869 مین بیرن اسٹافل نے قبل افتتاح جنگ یہہ ظاہر کردیا تھا کہ جرمن کی تعلیم یافتہ و مہذب قوم اس اصول کی پابند ہے کہ وہ اپنے فرض منصبی کو پورا کرے اور اس امر کو وہ اپنے شان کے خلاف نہین سمجھتے کہ معزز و عمدہ ترین افعال کی صدق دل سے عزت کرین اور برخلاف اسکے فرانس کی قوم سے یہہ صفت بالکل معدوم ہےیہہ لوگ نہ تو کسی نیک کام کی عزت کرتے ہین، اور نہ ہمدردی،اعزاز اور مذہب کا خیال رکھتے ہین۔ افسوس اپنی بد اعمالیون کی وجہ سے فرانس کی قوم کو کیسی قرار واقع سزا ملی۔ اگرچہ فرانس مین کسی زمانہ مین ایسے لوگ تھے جو اپنے فرض
 

زین

لائبریرین
صفحہ نمبر 108
منصبی کو پورا کرتے تھے لیکن اسکو بہت عرصہ گزر گیا۔ موجودہ زمانہ میں روسی ڈی ٹا کوایل نے فرائض منصبی کے انجام مین غلغہ پھیلایا تھا لیکن وہ قید کیا گیا اور عامہ خلائق کی خدمت سے علیحدہ کردیا گیا ۔ اوسنے ایک مرتبہ اپنے دوست کاررگولی کو لکھا کہ مین بھی تمہاری طرح روز بروز فرائض منصبی کے انجام سے خوش و مسرور ہوجاتا ہون ۔ مین یقین کرتا ہون کہ اس سے زیادہ کوئی واقعی و حقیقی فعل نہین ہے اور دنیا مین یہی ایک بڑا کام ہے جسکی جانب ہمکو اپنی کوشش مبذول کرنی چاہیئے یعنی ’’فائدہ و عامہء خلائق‘‘۔

فرض کے ساتھ چال چلن مین راستبازی بھی لازم و ملزوم ہے ۔ فرض منصبی پورا کرنیوالا آدمی اپنے افعال و اقوال مین صداقت کا خیال رکھتا ہے اور اوسکے جتنے اقوال و افعال ہوتے ہین وہ درست و باموقع و ٹھیک وقت پر ہوتے ہین۔ لارد چٹرفیلڈ جو ایک عالی دماغ آدمی تھا اوسکا قول ہے کہ یہہ صرف راستبازی کا باعث ہے جس سے انسان کو جملہ امور مین کامیابی ہوتی ہے ۔ کلیرنڈن بیان کرتا ہے کہ اوسکا ہمعصر فاکلنڈ جو ایک شریف و پرہیزگار آدمی تھا راستبازی و صداقت کا نہایت سخت پابند تھا۔ ہچلسن کی بی بی اپنے شوہر کی عمدہ ترین خوبیونمین سے اسکا تذکرہ کرتی ہے کہ وہ نہایت ایماندار اور راستباز آدمی تھا۔ وہ کبھی اوس امر کو نہ بیان کرتا جسکے کرنیکا اوسکے دل مین ارادہ نہ ہوتا۔ اور نہ کبھی ایسے وعدونکا ایفا کا اقرار کرتا جو اوسکے اختیار سے باہر ہوتے۔ اور نہ کبھی اون افعال کی انجام دہی سے باز رہتا جسکی تکمیل اوسکے بد قدرت مین ہوتی۔

ڈیوک آف ولنگٹن بھی صداقت و راستبازی کا بدرجہ نہایت پسند کرنیوالا پسند کرنیوالا تھا اوسکی ایک نقل مشہور ہے کہ جس زمانہ مین وہ ثقل سماعت کے عارضہ مین مبتلا تھا تو اوسنے ایک ڈاکٹر سے اپنا علاج شروع کیا لیکن کچھ فائدہ نہیں ظاہر ہوا۔ اخیر مین ڈاکٹر نے
 

زین

لائبریرین
صفحہ نمبر 109

ایک قوی الفعل دوا ڈیوک کے کان مین ڈالی جسکی وجہ سے نہایت تکلیف گوارا کرنی پڑی لیکن چونکہ ڈیوک ایک متحمل مزاج آدمی تھا اوسنے اس تکلیف کو برداشت کیا۔ اتفاقآ اوسکے ذاتی طبیب نے دیکھا کہ ڈیوک کا چہرہ سرخ ہے اور آنکھین پرآشوب ہورہی ہین تو اوسنے اجازت لیکر ڈیوک کا کان دیکھا کہ اوس مین ایک شعلہ مشتعل ہے اور اگر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔التاثیر دوا دینے سے وہ شعلہ نہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا جاتا تو قریب تھا کہ ڈیوک کا دماغ پاش پاش ہوجاتا جب ڈاکٹر کو یہہ معلوم ہوا تو وہ معذرت کے واسطے حاضر ہوا لیکن ڈیوک نے کہا کہ معافی کی کوئی بات نہیں ہے کیونکہ تمنے میرے فائدے کی غرض سے یہہ علاج کیا تھا۔ ڈاکٹر نے کہا کہ جب یہہ امر شہرت پذیر ہوجائیگا کہ میرے علاج سے آپکو اسقدر تکلیف اوٹھانی پڑی تو یہہ میری سخت ذلت و بدنامی کی وجہ ہوگی۔ ڈیوک نے جواب دیا کہ تم اس سے مطمئن رہو مین کسی پر یہہ راز ظاہر نہکرونگا ڈاکٹر نے کہا کہ اچھا آپ میرا معالجہ جاری رکھئے تاکہ لوگون کو یہہ نہ معلوم ہوکہ آپ نے مجھسے فسخ عقیدت کی۔ اگرچہ ڈیوک نے اسکا جواب مہربانی سے دیا لیکن نہایت مضبوطی کے ساتھ کہا کہ نہیں تو یہ ممکن ہے کیونکہ اسمین کذب شامل ہے ۔ فرض و راستبازی کی ایک دوسری تمثیل یہہ بھی مشہور ہے کہ جب بلچر، ڈیوک آف ولنگٹن کی مدد کو فوج لئے ہوئے جون 1915 ء کو جارہا تھا تو اوسنے اپنے نوجوان سپاہیون سے کہا کہ بڑہتے چلو اور اپنی رفتار کو تیز کرو اون لوگون نے جواب دیا کہ یہہ غیر ممکن ہے اور نہین ہوسکتا لیکن اوسنے کہا کہ نہین یہہ ضرور ہونا چاہیئے کیونکہ مین نے اپنے بھائی ولگنٹن سے مدد کا وعدہ کیا ہے ۔ تملوگ میرے وعدہ کی طرف خیال کرو اور کہا یہہ تمسے ہوسکتا ہے کہ تم مجھے وعدہ خلاف ثابت کراؤ؟ اور آخر کار اوسنے اپنے ارادہ مین کامیابی حاصل کی۔
راستبازی سوسائیٹی کے واسطے مثل ایک ایسے عہد نامہ کے ہے جسکے بغیر


صفحہ نمبر 110


اوسکا قیام نہیں ہوسکتا اور ہر طرحکی درہمی و برہمی واقع ہوجاتی کذب سے نہ تو امور خانہ داری کا انتظام ہوسکتا ہے اور نہ کسی گروہ پر حکومت کیجاسکتی ہے ۔کذب کا شمار بدترین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سے ہے لیکن بعض لوگ اس جرم کو ایسا نا چیز و حقیر خیال کرتے ہین کہ وہ اپنے نوکرونکو دروغگوئی کا حکم دیتے ہین اور اپنے اس نا معقول تعلیم سے متعجب نہین ہوتے جب وہ نوکر خود اونھین سے فریب کرتے ہیں۔ اکثر لوگ ایسے جھوٹے خیال اور بے ایمان ہوتے ہین جو اپنی فریب آمیز چالاکی پر لاف زنی کرتے ہین اور اس بات کی بادہ گوئی کرتے ہین کہ وہ اپنے مبہم و مشکوک اقوال سے اپنا اصلی خیال اور اندرونی مطلب نہین ظاہر ہونے دیتے۔ لیکن یہہ طریق اور قاعدہ بھی دغا بازی و بے ایمانی کا ہے ۔ جارج ہربرٹ کا قول ہے کہ اگر چہ صریحی کذب بھی سخت گناہ و ذحصیت ہے لیکن تاہم اس قسم کی مکاری و حیلہ سازی سے اوسمین ذلت و خواری کم ہے ۔ کذب اپنے کو مختلف صورتونمین ظاہر کرتا ہے مثلآ تجاہل عارفانہ فصول گوئی بہانہ بازی اس قسم کا وعدہ کرنا جسکے ایفا کرنے کا خیال بھی نہہو۔ یا سچ کہنے سے ۔۔۔۔ جسکا اظہار ہر حال مین فرض ہے اور وہ لوگ جو کہتے کچھ ہین اور کرتے کچھ ہین اور گواونکا خیال ہے کہ وہ دوسرونکو فریب دیتے ہین لیکن فی الحقیقت وہ خود دھوکا کہاتے ہین۔ اکثر لوگ اسطرح۔۔۔۔۔۔جھوٹ بولتے ہین کہ جو اوصاف اونمین نہین ہین انکا دعوی کرتے ہین۔ لیکن برخلاف اسکے راستباز آدمی نہایت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہوتا ہے اور خود اپنی یا اپنے کام کی کبھی شان و شوکت نہین ظاہر کرتا۔ چنانچہ اخیر مرتبہ جب پٹ مرض الموت مین مبتلا ہوا اور اوسکے پاس انگلستان مین ڈیوک آف ولنگٹن کی دلیریونکی ہندوستان سے خبریں پہونچین تو اوسنے کہا کہ جسقدر مین اوسکی جراتونکو سنکر خوش ہوتا ہون اوسیقدر مین انکسار کو پسند
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 116

بالعوض اسکے کہ ہم اپنی طبیعت کو تیرگی کی طرف مائل کرین ہم اپنے مزاج مین اس امر کی تحریک پیدا کر سکتے ہین کہ وہ مادہ ضائی کیجانب متوجہ ہو۔ علاوہ اسکے کہ زندہ دلی سے آرام و آسایش کے ساتھ زندگی بسر ہوتی ہے بلکہ اس سے چال و چلن کی بھی حفاظت ہوتی ہے۔ اس سے طبیعت مین رونق و صفائی ہوتی ہے۔ یہہ تحمل و استقلال اور دانشمندی کی بنیاد ہے۔ ڈاکٹر مارشل نے اپنے بیمارونسے کہا کہ جملہ امراض کی قوی التاثیر دوا زندہ دلی ہے۔ اور سالومن کا قول ہے کہ زندہ دلی کا ایسا ہی عمدہ اثر ہوتا ہے جیسا دوا کا۔ جب لوتہر سے افسردگی کا علاج پوچھا گیا تو اوسنے جوب دیا کہ زندہ دلی اور دلیری سے جو بوڑھے و جوان حزین و غمگین سب کے واسطے برابر مفید ہے۔ باوجودیکہ لارڈ پامرٹھن ایک ضعیف و سن رسیدہ آدمی تھا لیکن آخر وقت تک مستعدی سے کام کرتا رہا اسکی یہی وجہ ہے کہ وہ زندہ دل اور مستقل مزاج تھا۔ اوسنے اپنے مین تحمل و برداشت کی ایسی عادت پیدا کر لی تھی کہ سخت و ناملائم الفاظ سنکر تھی اوسے غصہ نہیں آتا تھا۔ لارڈ پارمرٹھن کا ایک دوست لکھتا ہے کہ میرا اور لارڈ موصوف کا بیش برس تک ایک جگہہ ساتھ رہا لیکن مینے کبھی اوسے غصہ مین نہین دیکھا۔ ہومر۔ پررلس۔ ورجل۔ مان بٹن۔ شیکسپیر اور کرونٹن کی سوانح عمری کے دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہہ لوگ بڑے زندہ دل تھے۔ اسی طبقہ مین لوتہر۔ مور۔ بیکن۔ لیونرڈوڈ اولنی۔ ریفل۔ مکایل اینگلو کا بھی شمار ہے کیونکہ یہہ لوگ ہمیشہ کام مین مشغول رہتے تھے جسکے باعث سے انکا دماغ مفرح و شگفتہ رہتا تھا۔ ملٹن جو طرح طرح کی تکلیفات و مکروہات مین گرفتار رہا البتہ ایک زندہ دل آدمی تھا۔ اندھے ہونیکی وجہ سے اگرچہ اوسکے دوستون نے اوس سے ترک رفاقت کر دی اور گو وہ ایک ایسی مصیبت کی حالت میں گرفتار تھا کہ اوسکے آگے تاریکی اور پیچہے خطرہ کی آواز تھی لیکن تاہم اوسنے اپنی ہمت و دلیری نہین چھوڑی۔ ہنری فیلڈنگ جو علاوہ قرضداری و افلاس کے جسمانی عوارض مین مبتلا رہتا تھا لیکن لیڈی میری ورٹلی مان ٹنگ
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 117

اوسکی نسبت بیان کرتی ہے کہ وہ اپنی زندہ دلی کی صفت سے ایسا شادان و فرحان رہتا کہ شاید دنیا مین ایسا کوئی آدمی نہوتا۔ ڈاکٹر جانسن باوجودیکہ مصائب و تکالیف مین گرفتار رہا لیکن چونکہ وہ ایک دلیر اور زندہ دل آدمی تھا اس وجہ سے نہایت ثابت قدمی سے اپنی زندگی بسر کی اور ہمیشہ خوش و خرم رہنے کی کوشش کی۔ ڈاکٹر جانسن کا مقولہ ہے کہ جسقدر آدمی کا سن بڑہتا جاتا ہے اوسیقدر وہ اچھا ہوتا جاتا ہے گویا طبیعت کا اطلاق عمر کے ساتھ ہے اگرچہ یہ خیال نوع انسان کی زندہ دلی پر منطبق ہے۔ لیکن لارڈ چشٹر فیلڈ کی راے ہے کہ عمر کے ساتھ انسانی طبیعت کی درستی مین ترقی نہین ہوتی بلکہ روز بروز سخت ہوتی جاتی ہے اور زندگی کے لحاظ سے دونون اصول صحیح ہین کیونکہ طبیعت کی جسکا انسان ہر حالت مین محکوم و مطیع ہے اگر قواعد و تجربہ اور خود اختیاری کے ساتھ تربیت کیجاے تو عمدگی ظاہر ہو گی ورنہ خرابی۔ سر والٹر اسکاٹ ایسا رحمدل اور نرم مزاج آدمی تھا کہ ہر شخص اوس سے محبت کرتا تھا۔ وہ کپتان باس ہل کے لڑکپن کا ایک واقعہ بیان کرتا ہے جس سے اوسکی طبیعت کی نرمی ظاہر ہوتی ہے۔ کپتان نے ایک کتے کو جو اوسکے پاس آ رہا تھا ایک پتھر کھینچ کر مارا جس سے کتے کے پاؤنمین سخت چوٹ آئی لیکن بہرکیت کتے مین اتنی طاقت تھی کہ وہ اوسکے پاس آیا اور پاؤن چاٹہنے لگا۔ کتے کی اس فعل سے کپتان کو نہایت ندامت و پشمانی ہوئی۔ ڈاکٹر ارنلڈ مین بھی اسی قسم کی رحمدلی اور نیکی تھی۔ وہ نہایت خلیق اور ہمدرد تھا۔ سڈنی اسمتہ بھی زندہ دلی کی دوسری تمثیل تھا وہ اپنی فرصت کی اوقات مین انصاف۔ آزادی۔ تعلیم اور مختلف مباحث پر مضامین لکھا کرتا اور اپنی پیرانہ سالی مین جب بیمار ہوا تو ایک دوست کو لکھا کہ مین عارضہ نضرس و تنفس اور چند دیگر عوارض مین مبتلا ہون لیکن تاھم اپنی حالت پر راضی و شاکر ہون۔ بڑے بڑے حکما مین بھی یہہ اوصاف پائے گئے ہین کہ وہ متحمل
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 118

جفاکش۔ اور زندہ دل تھے۔ گلیلو ڈسکارٹس ۔ نیوٹن ۔ لابلس ان صفتون مین مشہور و معروف تھے۔ پولر جو ایک ریاضی دان اور بڑا فلسفی تھا خاصکر اس صفت میں بہت نامی و گرامی تھا۔ اگرچہ اپنے اخیر وقت مین وہ اندہا ہو گیاتھا۔ لیکن تاہم جسطرح پہلے لکہتا تھا اوسیطرح اب بھی نہایت مستعدی اور زندہ دلی سے اپنے کام مین مشغول رہتا۔

ابازٹ جو ایک فلسفی تھا اوسکے تحمل و استقلال کی حکایت بیان کی جاتی ہے کہ اوسنے ستائیس برس کی محنت مین مقیاس الہوا کے قواعد مرتب کئے تھے اور اون اصول کو روزانہ ایک کاغذ پر قلمبند کرتا جاتا تہا اور جسقدر اوسکو روز بروز جدید تجربے ہوتے جاتے تھے اونکو بھی کاغذ پر لکھتا جاتا تھا۔ ایکمرتبہ اوسکے لئے خدمتگار نے مکان صاف کرانا شروع کیا اور اپنی مستعدی دکھلانے کے واسطے ابازٹ کے کمرہ مین جو میز تہی اوسکے کاغذات بھی درست کئے۔ اور جو اجزا کہ لکھے ہوئے تھے اونھین اوٹھا کر علٰحدہ کر دیا اور بجاے اوسکے نئے کاغذ رکھدیئے۔ جب ابازٹ کمرہ مین داخل ہوا تو اوسنے دریافت کیا کہ مقیاس الہوا کے جو کاغذات تہے وہ میز پر سے کیا ہوئے۔ خدمتگار نے جواب دیا چونکہ وہ بالکل ردی تھے اسوجہ سے مین نے اونھین جلا دیئے اور بجاے اونکے صاف و سادے کاغذ رکھدیے۔ ابازٹ نے یہہ سنکر ایک سرد آہ کھینچی اور کہا کہ ستائیس برس کی محنت سے جو نتیجہ حاصل کیا گیا تھا اوسکو تمنے غارت کر ڈالا۔ اور نہایت آہستگی سے صرف اوس کو یہہ
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 119

حکم دیا کہ آیندہ سے اس کمرہ کی کوئی چیز مت چہوا کرو۔

علم طبیعات کی تحصیل مین ایک غیر معمولی طور پر زندہ دلی اور استقلال کی ضرورت ہوتی ہے اور اکثر تجربہ سے یہ بات ثابت ہوئی کہ خاندان علوم طبیعات بہ نسبت دوسرے فنون کے جاننے والونکے زیادہ تر زندہ رہتے ہین۔ چنانچہ 1870 عیسوی کا وہ خوتی نامہ دیکہنے سے جسمین ماہران علوم طبیعات کی موت مندرج تہی معلوم ہوتا ہے کہ اس قسم کے چودہ آدمیونمین سے دو کی عمر نوے ۹۰ برس سے زیادہ تہی۔ پانچ کی اسی ۸۰ برس سے زیادہ اور دو کی ستر ۷۰ برس سے زیادہ پس اوسط نکالنے سے ہر ایک کی عمر پچہتر ۷۵ برس کی ہوتی ہے۔

فرانس کے بلوہ مین اڈنسن ماہر علم نباتات کی ساری جائداد و ملکیت تباہ و برباد ہو گئی لیکن اوسکی جرات و دلیری۔ تحمل و استقلال مین کچہہ بہی فرق نہین آیا۔ اوس ہنگامہ و یورش کی حالت مین اڈنسن اسدرجہ محتاج و مفلوک ہو گیا کہ اوسکے کہانے کپڑے کا بہی کوئی ذریعہ باقی نہین رہا۔ چنانچہ ایکمرتبہ مجلس واضع قوانین مین سے جسکا پہلے وہ ممبر رہ چکا تہا اوسکی طلبی ہوئی لیکن اوس نے حسرت و افسوس کے ساتہہ جواب کہلا بہیجا کہ مین حاضری سے اسوجہ سے قاصر ہون کہ میرے پاس جوتا نہین ہے۔ کویر اوسکی ایک دلگداز حکایت بیان کرتا ہے کہ اس حالت افلاس مین بہی وہ آگ کے سامنے بیٹہکر علم نباتات کے متعلق کاغذ کے ٹکڑون پر مضامین لکہتا اور اس مشغلہ مین اوسکو ایسی دلچسپی ہوتی کہ اوسکی تنہائی کا غم غلط ہوتا۔ جب فرانس مین تسلط ہوا تو گورنمنٹ سے اوسکی پنشن مقرر کی گئی جسکی تعداد نیپولین نے اپنے عہد سلطنت مین دو چند کر دی۔ ۷۹ برس کی عمر مین اڈنسن مر گیا۔

اڈمنڈ برک بہی نہایت زندہ دل آدمی تہا۔ چنانچہ رینالڈس کے دسترخوان پر کہانیکے وقت مختلف قسم کی شراب کا تذکرہ شروع ہوا۔ جانسن نے
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 120

کہا کہ لڑکونکے واسطے کلیرٹ بوڑہونکے واسطے پورٹ اور جوانونکے لئے برانڈی ہے۔ یہہ سنکر برک نے کہا کہ مجہے کلیرٹ چاہیے کیونکہ مین لڑکپن کو پسند کرتا ہون۔

زندہ دلی کی اصلی بنیاد محبت و تحمل ہے کیونکہ اس سے دوسرونکے دلونمین بہی الفت پیدا ہوتی ہے۔ راجرس شاعر ایک لڑکی کا قصہ بیان کرتا ہے کہ جو شخص لڑکی سے واقف تھا اوسے عزیز رکہتا۔ چنانچہ بعض آدمیون نے اوس سے پوچھا کہ تمسے لوگ کیونکہ محبت کرتے ہین اوس نے جواب دیا کہ اسکی یہی وجہ ہے کہ مین خود بہی لوگونسے الفت رکہتی ہون۔ پس یہہ مختصر نقل اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ اگر ہم دوسرونکے ساتھہ اخلاق و مہربانی سے برتاؤ کرینگے تو وہ بھی ہمسے الفت و محبت کے ساتھہ پیش آئنیگے۔

فی الحقیقت دنیا مین مہربانی کا بہت بڑا اثر ہوتا ہے۔ لی ہنٹ نے بہت ٹھیک کہا ہے کہ جسمانی قوت مین مہربانی کی نصف تاثیر بھی نہین ہے۔ اور ایک انگریزی کہاوت ہے کہ شہد کے ذریعہ سے بڑونکی زیادہ تعداد پکڑی جائیگی بہ نسبت سرکہ کے۔ تبہم کا قول ہے کہ مہربانی کا ایک ادنے کام بھی بڑی طاقت کے برا بر ہے۔

مہربانی صرف بخشش پر نہین منحصر ہے بلکہ اسکی بنیاد نرمی اور طبیعت کی فیاضی پر ہے۔ انسان روپیہ تہیلی سے نکالکر دیتا ہے لیکن مہربانی نکرنے سے طبیعت کے اندرونی جوش سے باز رہتا ہے۔ روپیہ دینے سے جو مہربانی ظاہر کی جاتی ہے وہ چندان اثر پذیر نہین ہوتی بلکہ جسقدر بھلائی کی امید ہے اوتنی ہی برائی کا بہی خیال ہے لیکن ہمدردی کے ساتھ جو مہربانی یا توجہ کے ساتھہ جو مدد کی جاے ممکن نہین کہ اوسکا کوئی عمدہ نتیجہ نہ ظاہر ہو۔
 
Top