محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
تاریخ بتاتی ہے کہ وہ بھی پگلوٹزم کی ایک قسم ہے جو کہتے ہیں۔ "سر میں سودا ہو تو دیوار میں در بنتا ہے"
بلکہ یہ پوری غزل ہی پگلوٹزم کی تشریح کر رہی ہے۔


راستہ سوچتے رہنے سے کدھر بنتا ہے
سر میں سودا ہو تو دیوار میں در بنتا ہے

آگ ہی آگ ہو سینے میں تو کیا پھول جھڑیں
شعلہ ہوتی ہے زباں،۔ لفظ شرر بنتا ہے

زندگی سوچ عذابوں میں گزاری ہے میاں
ایک دن میں کہاں اندازِ نظر بنتا ہے

عشق مسلک کے حسابات الگ ہوتے ہیں
اک جدا سلسلۂ نفع و ضرر بنتا ہے

اپنا اظہار اسیرِ روشِ عام نہیں
جیسے کہہ دیں وہی معیارِ ہنر بنتا ہے
 

سیما علی

لائبریرین
جب یہ لفظ دیکھا تو عجیب پگلوٹ لگا۔ ہمارے بڑے بھائی کثرت سے یہ لفظ استعمال کرتے تھے۔
چائے پینے کے بعد پگلوٹ پن میں کچھ کمی آتی ہے کہ نہیں ۔۔ہمارے کے ایک کولیگ کو سب کہتے فدا ہے ہی تھوڑا پگلوٹ۔۔پر دوسرے کہتے یہ پاگل پنے کا حلوا خوب کھاتے ہیں ۔۔یعنی پگلے پنے میں اپنے سارے کام کروا لیتے تھے ۔
 
Top