فرصت اور فراغت میں گزرے ہوئے دن،پڑھی ہوئی باتیں، سنے قصے اور کیے دعوے یاد آتے ہیں ۔اللہ اللہ ہر زمانے میں مجاہد قسم کے لوگ اور بانکی سجیلی ہستیاں کم نہیں رہیں سو طلعت محمود صاحب جنھیں گلوکار کے طور پر جہاں جہاں اُردوبولی اور سمجھی جاتی ہے تقریباً سبھی جانتے ہیں۔وہ کوئی گیت یا غزل اُس وقت تک گانے کےلیے قبول نہیں کرتے تھے جب تک اُسے پڑھ کر اُس کے ادبی معیار سے مطمئن نہ ہوجاتے ۔ چنانچہ اُنکے گائے گیت اور غزلیں بغرضِ تحقیق سنیں تو اِ س دعوے کی سچائی ثابت ہوجاتی ہے۔
 
آخری تدوین:
قرابت داری کی بات کروں تو ہر صاحبِ فکر، صاحب نظر اور صائب الرائے مجھے عزیز ازجہاں ہے۔ آج بیٹھے بیٹھے ایک ایسا ہی عزیزِ جاں یاد آگیا جس نے اپنی کتا ب کا انتساب یوں دیا تھا:’’۔اُردُو کے دو سربلند نقاد مجنوں گورکھ پوری اور ڈاکٹرمحمد حسن ، جن کی تنقیدی بصیرت نے اکثر میری رہنمائی کی ہے ‘‘اور جسے پڑھ کر ایک اور عزیز نے کہا تھاکہ میں یہی بات یوں کہتا:’’ ۔۔۔۔۔۔۔جن کی تنقیدی بصیرت سے مجھے علمی بصارت ملی۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
 

سیما علی

لائبریرین
کل پی ٹی وی پر ہم پر وگرام رات گئے دیکھ رہے تھے ۔۔ابھی بھی پی ٹی وی دوسرے چینلز کے مقابلے میں معیاری پروگرام پیش کرتا ہے ۔۔بس سوائے اس کمی کے کہ انکے پاس شائد ہم اور دوسرے چینلز کی طرح جدید کیمرے نہیں ہیں ۔۔ورنہ معیار دوسروں کے مقابلے میں بہت بہتر ہے ۔۔



اب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ‌ ر‌ ڑ ز ژ س ش ص ض‌ ط‌ ظ ع غ ف ق ک گ ل م ن و ہ ھ ء ی ے۔

ا۔ب۔پ ۔۔۔۔۔ کھیل نمبر 62​

 
لو ایک کلی مرجھائی​

خستہ و خراب حال میں وہ میرے سامنے تھی۔’’کیسی ہو؟‘‘ میں نے پوچھا ۔ بس لب پہ دُعا ہے۔۔۔‘‘ اُس نے جواب دیا اور ناتواں آواز میں کہتی چلی گئی،’’میں گری پڑی چیز تھی۔مجھے غیروں نے اُٹھایا، دل سے لگایا ، عرش پرپہنچایا۔ شاہوں شہنشاہوں نے عزت دی ، زینت بخشی۔محلوں سے مُحلّوں تک میرے چرچے ہوئے۔ہر دل میں میری آرائش بڑھانے کی لگن تھی۔وہ وہ ادیب پیدا ہوئے کہ فارسی اور عربی زبانیں بھی شرما شرما گئیں اور ایسے ایسے شاعر آئے کہ کائنات گنگنانے لگی ۔مگر وقت نے کروٹ لی ۔ میرے یہ مہربان ایک ایک کرکے دنیا سے رخصت ہوگئے ۔اب ایک ایک میری بربادی کے درپے ہے۔ وہ حال کیا ہے کہ خود میں بھی یقین سے نہیں کہہ سکتی کہ میں اُردُو ہوں۔۔۔۔۔۔‘‘
 

عظیم

محفلین
موسم کا بھی ذکر ہو جائے کچھ، فوگ کی وجہ سے آج ہمارے شہر میں تو چھٹی تھی، کاروبار وغیرہ مکمل بند تھے جو اکثر اتوار کو بھی کھلے رہتے ہیں
 

سیما علی

لائبریرین
نمی کا تناسب 66فیصد ہے۔۔کراچی میں کل کی پہلی بارش سے ٹھنڈ کا احساس بڑھ گیا ہے۔۔


اب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ‌ ر‌ ڑ ز ژ س ش ص ض‌ ط‌ ظ ع غ ف ق ک گ ل م ن و ہ ھ ء ی ے۔

ا۔ب۔پ ۔۔۔۔۔ کھیل نمبر 62​

 

عظیم

محفلین
وعلیکم السلام
اور السلام علیکم
ہماری طرف سے وعلیکم السلام اور السلام علیکم بھی
نمی کا تناسب 66فیصد ہے۔۔کراچی میں کل کی پہلی بارش سے ٹھنڈ کا احساس بڑھ گیا ہے۔۔


اب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ‌ ر‌ ڑ ز ژ س ش ص ض‌ ط‌ ظ ع غ ف ق ک گ ل م ن و ہ ھ ء ی ے۔

ا۔ب۔پ ۔۔۔۔۔ کھیل نمبر 62​

یہاں بھی بارش کی ضرورت ہے، اللہ کرے کہ ہو جائے اور آلودگی کا خاتمہ ہو۔
 
ایک کتاب کاانتساب یہ دیکھا:۔’’ہمشیرہ محترمہ امیراِنسا خانم اور بھائی جان محترم جناب نفیس احمد خان کی بے پناہ محبتوں کے نام‘‘ پھر اگلے صفحے پر بشیربدر کا یہ شعر دیکھا:
وہ عطردان سالہجہ مرے بزرگوں کا
رچی بسی۔ ہوئی اُردُو زبان۔ کی خوشبو​
اور پھر دیکھا کمپیوٹر کی کتابت نے کتاب کا حشرنشر کررکھا ہے۔ کمپیوٹر سے طبیعت کا مانوس ہونا اور اِس تہلکہ خیز ایجاد کی جزوی معلومات سے بہرہ مندہونے کا مطلب، جس میں کی بورڈ کی مہارت بھی شامل ہے، یہ تھوڑی ہے کہ اِسے انور سدید، عبادت بریلوی، وزیرآغا،انتظارحسین ، اشفاق احمد، بانوقدسیہ کے پائے کے مصنفین کی کتابیں ،کتابت کرنے کے لیے دیدی جائیں۔۔۔۔یہ کاتب تو وہ ہے جو محفل میں چائے کے انتظار ،اسٹیشن پر ٹرین کے انتظار ،کہیں کسی کے ساتھ کسی سے ملنے گیا ہے تو ساتھی کی بات چیت کے دوران میں موبائل فون پہ جھکا کسی اور جگہ کے باسی سے چے ٹنگ میں محو ہے۔۔۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
ترتیب سے پیالیاں سجادی ہیں چائے سب کے لئے بنائی ہے ۔۔۔

IMG-1071.jpg
 
چائے کی ایک پیالی سامنے نظر آ رہی ہے، وہ تو میں اٹھا لوں، باقی جسے جو کرنا ہو، کر لے
حق تو یہ ہے کہ:
ایسی چائے کا کیا کرے کوئی
۔۔۔۔جس کو بس دیکھیں اور پی نہ سکیں
تصویری چائے سے بڑھ کر تو آپا کی تحریری کاوشیں ہوتی ہیں، جنھیں پڑھ کر معلومات بڑھتی ،کتاب سے تعلق گہرااور اصحابِ علم وہنر سے محبت فزوں تر ہوجاتی ہے، شکریہ نگارشاتِ آپا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
Top