بارش، برکھا، برسات، ساون پر اشعار

سیما علی

لائبریرین
دامن وسیع تھا تو کاہے کو چشم تر سا
رحمت خدا کی تجھ کو اے ابر زور برسا
شاید کباب کر کر کھایا کبوتر ان نے
نامہ اڑا پھرے ہے اس کی گلی میں پر سا
وحشی مزاج ازبس مانوس بادیہ ہیں
ان کے جنوں میں جنگل اپنا ہوا ہے گھر سا
جس ہاتھ میں رہا کی اس کی کمر ہمیشہ
اس ہاتھ مارنے کا سر پر بندھا ہے کر سا
سب پیچ کی یہ باتیں ہیں شاعروں کی ورنہ
باریک اور نازک مو کب ہے اس کمر سا
طرز نگاہ اس کی دل لے گئی سبھوں کے
کیا مومن و برہمن کیا گبر اور ترسا
تم واقف طریق بے طاقتی نہیں ہو
یاں راہ دو قدم ہے اب دور کا سفر سا
کچھ بھی معاش ہے یہ کی ان نے ایک چشمک
جب مدتوں ہمارا جی دیکھنے کو ترسا
ٹک ترک عشق کریے لاغر بہت ہوئے ہم
آدھا نہیں رہا ہے اب جسم رنج فرسا
واعظ کو یہ جلن ہے شاید کہ فربہی سے
رہتا ہے حوض ہی میں اکثر پڑا مگر سا
انداز سے ہے پیدا سب کچھ خبر ہے اس کو
گو میر بے سر و پا ظاہر ہے بے خبر سا
میر تقی میر
 

سیما علی

لائبریرین
اک رات ہوئی برسات بہت
میں رویا ساری رات بہت

ہر غم تھا زمانے کا لیکن
میں تنہا تھا اس رات بہت

پھر آنکھ سے اک ساون برسا
جب سحر ہوئی تو خیال آیا

وہ بادل کتنا تنہا تھا
جو برسا ساری رات بہت
 

سیما علی

لائبریرین
رہنے دو اب کے تم بھی مجھے پڑھ نہ سکو گے
برسات میں کاغذ کی طرح بھیگ گیا ہوں میں

باقی صدیقی
 

سیما علی

لائبریرین
شب غم کی بارش میں تیرا عکس نظر آتا ہے
تیری یادوں ، تیری باتوں کا رقص نظر آتا ہے

دانش راحت
 

سیما علی

لائبریرین
کبھی برسات میں شاداب بیلیں سوکھ جاتی ہیں
ہرے پیڑوں کے گرنے کا کوئی موسم نہیں ہوتا
بہت سے لوگ دل کو اس طرح محفوظ رکھتے ہیں
کوئی بارش ہو یہ کاغذ ذرا بھی نم نہیں ہوتا
بشیر بدر
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
ٹوٹ پڑتی تھیں گھٹائیں جن کی آنکھیں دیکھ کر
وہ بھری برسات میں ترسے ہیں پانی کے لیے
سجاد باقر رضوی
 

سیما علی

لائبریرین
دور تک چھائے تھے بادل اور کہیں سایہ نہ تھا
اس طرح برسات کا موسم کبھی آیا نہ تھا
سرخ آہن پر ٹپکتی بوند ہے اب ہر خوشی
زندگی نے یوں تو پہلے ہم کو ترسایا نہ تھا
کیا ملا آخر تجھے سایوں کے پیچھے بھاگ کر
اے دل ناداں تجھے کیا ہم نے سمجھایا نہ تھا
قتیل شفائی
 
Top