دستی پنکھا
چوں کہ دستی پنکھے کا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں چناں چہ اس کا جمشید دستی سے کوئی تعلق نہیں۔۔۔
دستی پنکھا آج بھی کسی حد تک مستعمل ہے تاہم اتنا زیادہ نہیں جیسا پہلے ہوا کرتا تھا۔۔۔
اب بجلی کے پنکھوں کا چلن عام ہے جسے چلانے میں کوئی مشقت نہیں جھیلنی پڑتی بس اٹھ کر اس دیوار تک جانا ہے جس پر پنکھا چلانے کا بٹن لگا ہے۔۔۔
اصل مشقت دستی پنکھا جھلنے کے وقت جھیلنی پڑتی تھی جس جھل جھل کے دست شل ہوجاتے تھے۔۔۔
بجلی نہ ہونے کی صورت میں بھی دستی پنکھوں کی طرف رجوع نہ ہونے کے برابر ہے کیوں کہ لوگ باگ گھروں میں جنریٹر یا یو پی ایس لگائے بیٹھے ہیں۔۔۔
دستی پنکھے کا دستہ یعنی پنکھا پکڑنے کی ڈنڈی تلوار کی طرح لہرا لہرا کر دشمنوں کی ہوا اکھیڑنے کے کام بھی آتی تھی اور پنکھے کو ہلا ہلا کر خاطر خواہ ہوا برآمد کرنے کے کام بھی۔۔۔
برآمد شدہ ہوا کا مین ٹارگٹ منہ ہوا کرتا تھا مگر گاہے جسم کے دیگر اعضاء کو بھی یہ ہوا کھلائی جاتی تھی۔۔۔
اس ڈنڈی کا ایک اور استعمال تھا کہ جسم کے وہ دور افتادہ علاقے جن تک دستِ انسانی کی رسائی نہ ہوپاتی وہاں کھجانے کے کام آتی۔۔۔
انگریزی والے فین کی طرح دستی پنکھا کسی کا فین نہیں تھا بلکہ لوگ دستی پنکھےکے فین تھے اور اسے جھلنے والے کے گرد ان مفت خوروں کی طرح بیٹھ جاتے تھے جو فٹ پاتھ پر بیٹھ کرکھانے والے کے گرد بیٹھ جاتے ہیں!!!