میرا نہیں خیال کہ کوئی بھی حلالہ کے حق میں ہے۔ بس سمجھنے کی بات صرف یہ ہے کہ تین (دفعہ) طلاق دینے کے بعد مطلقہ بیوی اپنے شوہر پر حرام ہو جاتی ہے تا آنکہ وہ محض اتفاق سے دوبارہ مطلقہ یا بیوہ نا ہو جائے۔اب بھی جو افراد حلالے کے حق میں ہیں،
اس میں تضاد کی کیا بات ہے؟ جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے وہاں تو ظاہر ہے تمام قوانین شریعت کے مطابق ہونے ہی چاہئیں جیسے نکاح، طلاق، فسخ نکاح، خلع ، چوری کی سزا، زنا کی سزا ، شراب پینے کی سزا وغیرہ اور جہاں مسلمانوں کی حکومت نہیں وہاں مسلمانوں کے خاص مسائل جیسے نکاح یا طلاق وغیرہ کے لئے حکومت اسلامی شریعت کے مطابق مسلمانوں کے لئے الگ سے قوانین بنا دے۔ حکومت بھی خوش مسلمان بھی خوش۔میں آپکی با ت سمجھ نہیں پا رہا۔ جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں وہاں قوانین شریعت کے تابع ہونے چاہئے۔ اور جہاں مسلمان اقلیت ہیں وہاں بھی قوانین شریعت کا لحاظ کرکے بنانے چاہیے؟ مطلب دونوں صورتوں میں قوانین بہرحال شریعت کے تابع ہونے چاہئے۔ کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟
کچھ ذرا وضاحت کیجئے مثالوں سےجہاں کامن لا ،مذہبی لا سے تصادم کریگا ،وہاں کامن لا کا پلڑا بھاری ہوگا۔
جی نہیں، کوئی ادھار باقی نہیں، جو نکاح حصن نہیں، وہ سفاحت ہے۔فاروق صاحب لگتا ہے آپ خفا ہو گئے ہیں؟
اگر ایسی بات ہے تو بہت معذرت!
باقی نکاح موقت کی حرمت کی دلیل آپ پر ادھار باقی ہے.
میں نکاح موقت کے حق میں ہوں یا نہیں یہی ایک الگ موضوع ہے.جی نہیں، کوئی ادھار باقی نہیں، جو نکاح حصن نہیں، وہ سفاحت ہے۔
کیا آپ نکاح موقت کے حق میں ہیں؟
مجبوری میں کسی کام کو براسمجھتے ہوئے کرنا الگ مسئلہ ہے،یہ حقیقت ہے کہ انڈیا میں اگر شریعت کے خلاف کوئی قانون بنتاہے تواس کی پیروی یامخالفت پر متعلقہ سزا ہوگی لیکن دل سے بھی اس کو برانہ سمجھنا یہ دوسرا مسئلہ ہے۔وہی بات کہ یہ آپکی ذاتی رائے ہے۔ ہم مسلمان جو ان مغربی ممالک میں بطور اقلیت رہتے ہیں جانتے ہیں کہ ایسا عملی طور پر ممکن نہیں۔
جناب یہاں وہی افراد بحث میں حصہ لیں گے نا جو اس فورم کے ارکان ہیں ۔اس پوری بحث کو پڑھ کر تاریخ پر کیاگیا تبصرہ یاد آگیاکہ ’’تاریخ سے انسان نے یہ سیکھاہے کہ اس نے تاریخ سے کچھ نہین سیکھا‘‘،کئی بحث آپس میں گڈ مڈ کردیئے گئے، علمی اورمدلل بحث کا نام تک نہیں، ہرایک اپنی ذاتی رائے کی راگ الاپ رہاہے، میری رائے میں ایساہوناچاہئے اورمیری رائے میں ویساہوناچاہئے،شریعت کے احکام شرعی قوانین کی بنیاد پر طے ہوں گے کہ اس مسئلہ میں قرآن سے کیارہنمائی مل رہی ہے، قرآنی حکم کی اللہ کے رسول ﷺ نے کیاوضاحت کی ہے، صحابہ نے اس سے کیاسمجھاہے اوربعد کے علماء اورفقہاء نے کیاسمجھاہے؟کسی فرد واحد اورکچھ افراد کی پسند اورناپسند سے یہ مسئلہ طے نہیں ہوگا، اورجیساکہ ہرفن میں اس فن کے ماہرین کی بات ہی معتبر ہوتی ہے، یہاں بھی شرعی قوانین کے ماہرین کی بات معتبر ہوگی نہ کہ سعودی میں رائج عوامی اصطلاح میں ’’خارجیوں‘‘ کی بات معتبر ہوگی۔
اولاً تویہ بات معلوم رہنی چاہئے کہ زیر بحث مسئلہ انڈیا کا ہے،اس کو انڈیا کے مخصوص حالات میں سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے،انڈیا میں اس وقت بی جے پی کی حکومت ہے، بی جے پی بظاہر اس مسئلہ میں مسلمانوں کی ہمدردبنتی نظرآتی ہے؛لیکن جولوگ بی جے پی سے واقف ہیں، وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ گجرات کے فسادات میں مسلم عورتوں کے ساتھ کیاکچھ ہوا، اس کے علاوہ دیگر فسادات میں بھی یہی لوگ ملوث ہوتے ہیں کسی نہ کسی طورپر ، اب ایسے میں ان لوگوں کو اچانک سے مسلمانوں سے ہمدردی کی کاجذبہ کہاں سے آگیا، یہ درحقیقت بی جے پی کی دودھاری تلوار ہے، ایک تویہ یونیفارم سول کوڈ کی جانب پہلا قدم ہے، دوسرے ہندوعورتوں کی خستہ حالی سے دھیان بھٹکاکر مسلمانوں کو بدنام کرناہے کہ ان کے یہاں عورتوں کی بری حالت ہے اورہرمرد گویا تین طلاق کی تلوار تھامے ہوئے ہے۔میں ایک بار پھر کوشش کرتا ہوں۔
اس قانون پر جس کا ذکر اس خبر میں ہے آپ کیا رائے رکھتے ہیں ؟
کیا آپ متفق ہیں ؟
اگر نہیں تو آپ کا اعتراض کیا ہے؟
میرے کہنے کا مطلب یہ تھاکہ ہر شخص ہرمسئلہ میں دخل دینے کا اہل نہیں ہوتا، اورہرمسئلہ میں ہرشخص کو رائے زنی نہیں کرنی چاہئے، میں نے کبھی فونٹ اور ٹکنالوجی کے مسائل میں دخل نہیں دیاہےکیونکہ اس بارے میں میری معلومات انتہائی محدود ہیں، توجن لوگوں کا دینی سرمایہ علم محدود ہے وہ بھی اس معاملہ میں خاموش رہیں۔جناب یہاں وہی افراد بحث میں حصہ لیں گے نا جو اس فورم کے ارکان ہیں ۔
ایک عرصے بعد سیدھے اختلافی موضوع میں آنے پر خوش آمدید. یہ تو ایک طرح کی زبردستی ہوئی کہ کوئی فونٹ اور ٹکنالوجی کے مسائل میں دخل نہ دے تو دوسرے لوگ مذہبی معاملات میں اپنی رائے کا اظہار نہ فرمائیں. یوں بھی طلاق جیسے معاملات میں اپنے آپ کو ماہر سمجھنے والے لوگ خود اختلافات کا شکار ہیں.ہر شخص ہرمسئلہ میں دخل دینے کا اہل نہیں ہوتا، اورہرمسئلہ میں ہرشخص کو رائے زنی نہیں کرنی چاہئے، میں نے کبھی فونٹ اور ٹکنالوجی کے مسائل میں دخل نہیں دیاہےکیونکہ اس بارے میں میری معلومات انتہائی محدود ہیں، توجن لوگوں کا دینی سرمایہ علم محدود ہے وہ بھی اس معاملہ میں خاموش رہیں۔
دخل دینے کا حق نہیں ہوتا. کیوں نہیں ہوتا. سیکھیں گے کیسے اگر دخل نہیں دیں گےمیرے کہنے کا مطلب یہ تھاکہ ہر شخص ہرمسئلہ میں دخل دینے کا اہل نہیں ہوتا، اورہرمسئلہ میں ہرشخص کو رائے زنی نہیں کرنی چاہئے، میں نے کبھی فونٹ اور ٹکنالوجی کے مسائل میں دخل نہیں دیاہےکیونکہ اس بارے میں میری معلومات انتہائی محدود ہیں، توجن لوگوں کا دینی سرمایہ علم محدود ہے وہ بھی اس معاملہ میں خاموش رہیں۔
اسلام میں پاپائیت نہیں ہے، کوئی بھی دینی علم حاصل کرسکتاہے لیکن پہلے وہ حاصل توکرے، صرف اردو کتابیں پڑھ کر خود کو متعلقہ موضوع کا ماہر باور کرنا کیاکہلاتاہے،بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔
یہ تو آپ نے الٹی بات کردی ،پہلے سیکھیں پھر دخل دیں،یہی مناسب اورفطری طریقہ ہےدخل دینے کا حق نہیں ہوتا. کیوں نہیں ہوتا. سیکھیں گے کیسے اگر دخل نہیں دیں گے
یہ مابدولت کا طریقہ ہےیہ تو آپ نے الٹی بات کردی ،پہلے سیکھیں پھر دخل دیں،یہی مناسب اورفطری طریقہ ہے
ورنہ پہلے دخل دینا اورپھر سیکھنا مجھے تونہیں معلوم یہ کس کا طریقہ ہے؟
یہ ایک مثال ہے،کوئی باضابطہ قاعدہ نہیں ہے، آپ کوئی دوسری مثال بھی اخذ کرسکتے ہیں میراتعلق شرعی علوم سے ہے تومیں شرعی علوم کے تعلق سے ہی بات کروں گا،انجینئرنگ اورمیڈیکل سائنس کے مباحث میں دخل نہیں دوں گا،اوریہی بات ہر سلیم الفطرت انسان کہے گا۔ایک عرصے بعد سیدھے اختلافی موضوع میں آنے پر خوش آمدید. یہ تو ایک طرح کی زبردستی ہوئی کہ کوئی فونٹ اور ٹکنالوجی کے مسائل میں دخل نہ دے تو دوسرے لوگ مذہبی معاملات میں اپنی رائے کا اظہار نہ فرمائیں. یوں بھی طلاق جیسے معاملات میں اپنے آپ کو ماہر سمجھنے والے لوگ خود اختلافات کا شکار ہیں.
سوال پوچھ کر جنابسیکھیں گے کیسے اگر دخل نہیں دیں گے
مجھے محسوس ہو رہا تھا یہاں دین کا دیگر علوم سے موازنہ کیا جائے گا. آپ کسی کو مذہبی امور میں مداخلت کرنے سے نہیں روک سکتے. مذہب کو لوگ اپنا ذاتی معاملہ سمجھتے ہیں ، یہاں شیعہ اور سنی کے علاوہ اہل قرآن، قادیانی و دیگر غیر مسلم بھی آتے ہیں. کس کس کو اپنی ذاتی رائے کا اظہار کرنے سے روکیں گے. اس لیے بہتر طریقہ ہے سب اپنا اپنا نقطہ نظر بیان فرما دیں. جن کو جو سیکھنا ہے وہ سیکھ لیں گے.یہ ایک مثال ہے،کوئی باضابطہ قاعدہ نہیں ہے، آپ کوئی دوسری مثال بھی اخذ کرسکتے ہیں میراتعلق شرعی علوم سے ہے تومیں شرعی علوم کے تعلق سے ہی بات کروں گا،انجینئرنگ اورمیڈیکل سائنس کے مباحث میں دخل نہیں دوں گا،اوریہی بات ہر سلیم الفطرت انسان کہے گا۔
جہاں تک اختلاف کی بات ہے تو دنیا کے ہرعلم کے ماہرین میں آپس میں اختلاف ہے،اس سے کوئی علم غیرمعتبر نہیں ہوتا اورنہ اس کا جواز یہ بنتاہے کہ غیرماہرین بھی اس میں دخل دیں، کسی فن میں ماہرین کا اختلاف اس کااظہار نہیں کہ وہ فن غیرپختہ ہے،سائنسدانوں کا اختلاف اس کا جواز نہیں دیتا کہ غیرسائنسداں بھی سائنسی مسائل میں دخل دیں ،میڈیکل سائنس میں ڈاکٹروں کا اختلاف اس بات کاجوا زنہیں کہ کہ جو ڈاکٹر نہ ہوں، وہ بھی اس میں دخل دیں، ڈاکٹروں کا کسی مرض کےعلاج میں اختلاف اس کا جواز نہیں کہ عامی اورہم جیسے افراد مداخلت شروع کردیں۔
ایسے شرعی قوانین میں ماہرین کے درمیان اگرکسی موضوع پر اختلاف ہے تویہ اس کا جواز نہیں دیتاہے کہ آپ اوراہم اگراس مسئلہ میں کماحقہ علم اورآگاہی نہیں رکھتے ہیں تو دخل دینا شروع کردیں۔
میرے بھائی میری عمر 40 سال سے زیادہ ہوگئی میں آج بھی پوچھ کر سیکھتا ہوں ، دخل اندازی کر کے نہیںمجھے محسوس ہو رہا تھا یہاں دین کا دیگر علوم سے موازنہ کیا جائے گا. آپ کسی کو مذہبی امور میں مداخلت کرنے سے نہیں روک سکتے. مذہب کو لوگ اپنا ذاتی معاملہ سمجھتے ہیں ، یہاں شیعہ اور سنی کے علاوہ اہل قرآن، قادیانی و دیگر غیر مسلم بھی آتے ہیں. کس کس کو اپنی ذاتی رائے کا اظہار کرنے سے روکیں گے. اس لیے بہتر طریقہ ہے سب اپنا اپنا نقطہ نظر بیان فرما دیں. جن کو جو سیکھنا ہے وہ سیکھ لیں گے.