آپ شرعی علوم کے ماہر ہو سکتے ہیں لیکن یہ مسئلہ تو معاشرتی پالیسی کا ہے
مسلم پرسنل لابورڈ تین طلاق پر جرمانہ کی مخالفت نہیں کرتاہے،اس نے خود ایک تجویز میں کہاہے کہ تین طلاق دینے والوں کا معاشرتی اورسماجی بائیکاٹ کیاجائے، اگر حکومت تین طلاق دینے والوں پر کوئی جرمانہ عائد کرتی ہے اوراس جرمانہ کی رقم سے مطلقہ کی کچھ مدد کرتی ہے تو اس کی ہم مخالفت نہیں کرتے۔
مضحکہ خیزی یہ ہے کہ اولاتو سپریم کورٹ نے تین طلاق کو غیرقانونی مانا،یعنی تین طلاق سے کچھ ہواہی نہیں، جب تین طلاق کو آپ نے غیرقانونی مان لیا اوراس سے خاتون پر کسی طرح کا کوئی اثرنہیں پڑا توپھر جرمانہ اورسزا کس لئے؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
دوسری بات یہ ہے کہ سزا کافی سخت رکھی گئی ہے جو معاشرتی پہلو سےبھی خواتین کیلئے نقصاندہ ہے، ہندوستان میں ہرسال لاکھوں عورتوں کے جلنے کی وجہ جہاں جہیز کی طلب ہے،وہیں ہندومعاشرے میں طلاق کی مشکل بھی ہے۔اگرآپ سخت سزانافذ -جیساکہ ڈرافٹ میں تین سال کی سزا اورجرمانہ کا ذکرہے -کریں گے تواس کا نتیجہ یہ نکلے گاکہ پھر شوہر طلاق تونہیں دے گا کیونکہ اسے قانون کا خوف ہوگالیکن عورتوں کی زندگی اجیرن بن جائے گی اور اس پر گھریلو تشدد اس پر مزید بڑھ جائے گا،یہ ’’نہ جائے ماندن ونہ پائے رفتن ‘‘والی صورت حال ہوگی کہ گھٹ گھٹ کر جینا ہوگا۔
ہندوستان ایک ارب 25کروڑ کی آبادی والا ملک ہے، یہاں کروڑوں معاملات عدالت میں یوں ہی لٹکے ہوئے ہیں،ایسے میں اگر خواتین پر شوہر ظلم بھی کرتاہے توایک تو عدالت پر مقدموں کا انبار بڑھے گاہی، دیوانی معاملات یوں بھی عدالتوں میں کچھوے کی رفتار سے بڑھتے ہیں، اس میں عورتوں کا مزید نقصان یہ ہے کہ ہم فرض کریں ایک عورت کو پچیس سال کی عمر میں تین طلاق دی گئی ،تین چارمہینے میں عدت گزارکر وہ کسی دوسرے سے شادی کرسکتی ہے ،لیکن اگریہ معاملہ عدالت میں گیاتو اولاًتمام عورتیں اوراس کے خاندان والے طویل مدت تک کیس لڑنے کے موقف نہیں ہوتے اوراگر دس سال کیس لڑتی رہی پھر وہ جیت گئی تو اب پینتس برس کی عورت سے شادی اوربھی مشکل ہوجائے گی۔
ہندوستانی سپریم کورٹ کے مشہور وکیل اورماہر قانونی کے ٹی تلسی نے بھی یہی کہاہے کہ جرمانہ کی سزا اور ایک دوہفتوں کی قید ہونی چاہئے، تین سال کی قید انتہائی سخت سزا ہے۔
معاشرتی پالیسی کہیے یاکچھ اور،یہ نکاح وطلاق کے معاملات شرعی معاملات ہیں،قرآن وحدیث میں ان کیلئے واضح احکامات موجود ہیں،لہذا معاشرتی پالیسی کہنے سے ہرایک کو اس میں رائے زنی کا حق نہیں مل جاتا، جن امور میں شریعت نے رہنمائی کی ہے،اس میں دخل اندازی اور رائے زنی کیلئے کماحقہ نہیں توایک مناسب حد تک شرعی علوم سے واقفیت ضروری ہے۔